Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, June 23, 2010

مناظر

پہلا منظر: … ایک بڑے ہال میں بہت سے نوجوان مرد اور عورتیں جمع ہیں سب شائستہ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔انکے ہاتھوں میں ڈگریاں اور قلم ہیں۔ انکی آنکھوں میں چمک ہے۔ انکے چہروں پر فطانت ہے انکے ماتھے روشن ہیں لیکن انکے لباس معمولی ہیں۔ ان نوجوان مردوں اور عورتوں کے ساتھ کوئی نہیں‘ سب اپنے اپنے گھر سے اکیلے آئے ہیں۔

اچانک ایک طرف سے پردہ سرکنے لگتا ہے۔ایک بڑا سٹیج نظر آتا ہے جس پر دبیز خوبصورت قالین بچھے ہیں۔ زرنگار کرسیاں لگی ہیں۔ان پر کم خواب کی گدیاںہیں ۔کرسیوں پر جو نوجوان عورتیں اور مرد فروکش ہیں وہ بیش بہا لباس پہنے ہوئے ہیں۔ہر نوجوان کی پشت پر ایک ایم این اے یا سینیٹر کھڑا ہے۔ایک خاتون مائک پر آتی ہے اور ہال میں موجود لوگوں سے خطاب کرتی ہے کہ جس کا کوئی قریبی عزیز منتخب نمائندہ یا منصب دار ہے ،وہ سٹیج پر آجائے۔ سب ایک دوسرے کا منہ دیکھتے ہیں ۔کوئی بھی سٹیج پر نہیں آتا۔
مائک پر دوبارہ اعلان ہوتا ہے۔سٹیج پر بیٹھے ہوئے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو بیرون ملک سفارت خانوں میں کمرشل قونصلر تعیناتی کے کاغذات دئیے جاتے ہیں۔

دوسرا منظر:… یہ جون2009ء ہے۔ پنجاب پبلک سروس کمیشن اخبارات میں اشتہار دیتا ہے کہ پنجاب میں چار پروفیسر آف میڈیسن درکار ہیں۔ نومبر میں انٹرویو کا نتیجہ سنایاجاتا ہے۔اب اعلان کیا جاتا ہے کہ یہ اسامیاں صرف جنوبی پنجاب کے اداروں کیلئے ہیں۔ احتجاج کی آوازیں بلند ہوتی ہیں۔ اسمبلی میں سوال پوچھے جاتے ہیں۔پنجاب میں وزیر صحت کوئی نہیں،اس لئے سپیکر پنجاب اسمبلی وزیر قانون کو وضاحت کیلئے کہتے ہیں۔چار ماہ کے بعد تعیناتیوں کے احکام میں ترمیم کی جاتی ہے!جنوبی پنجاب کے ادارے میں چار آسامیوں پر چھ پروفیسر آف میڈیسن کام کر رہے ہیں۔اس سے کہیں زیادہ بڑے ادارے میں‘ جو جنوب میں نہیں ہے‘چار کام کر رہے ہیں اور کئی اداروں میں اسامیاں خالی پڑی ہیں۔

جہاز اُڑتا ہے۔اس میں پاکستانی ڈاکٹر بھرے ہیں کچھ سعودی عرب اُتر جاتے ہیں جہاز دوبارہ پرواز کرتا ہے۔ڈاکٹر اُترتے جاتے ہیں۔لندن،نیو یارک، ہیوسٹن، غیر ملکی ادارے خوش آمدید کہتے ہیں اور میرٹ کی یقین دہانی کرتے ہیں۔لاہور اور ملتان کے اداروں میں کچھ لوگ بھنگڑے ڈالتے ہیں۔ایک دوسرے کو مبارکبادیں دیتے ہیں۔ مریض ایک دوسرے کے گلے لگ کر روتے ہیں۔

تیسرا منظر:… پاکستان کا ساحلی شہر۔ گلیوں محلوں اور شاہراہوں پر لاشیں پڑی ہیں۔گورنر ہائوس میں اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد ہوتا ہے۔اشیائے خوردونوش ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوتی ہیں۔گورنر صاحب اعلان کرتے ہیں کہ غیر فعال دہشت گردی ایکٹ کو دوبارہ فعال کیاجائیگا۔ایک صاحب اُٹھ کر پوچھنا چاہتے ہیں کہ اس ایکٹ کو غیر فعال کیوں کیا گیا تھالیکن انکی نظر اشیائے خوردونوش پر پڑتی ہے اور وہ خاموش رہتے ہیں۔اجلاس میں علماء کرام اور انتظامی اداروں کی مشاورت کے بعد اس بات پر اتفاق کیا جاتا ہے کہ ساحلی شہر میں ٹارگٹ کلنگ کی روک تھام اور ملزمان کیخلاف بھرپور کارروائی کیلئے اُن پولیس افسران کو تعینات کیاجائیگا جو اچھی شہرت کے حامل ہیں۔اور اس حوالے سے اپنے کام میں مہارت رکھتے ہیں۔ ایک اور صاحب پوچھناچاہتے ہیں کہ اس کام کیلئے خراب شہرت کے حامل افسروں کو کیوں مامور کیا گیا اور یہ اچھی شہرت کے حامل اور مہارت رکھنے والے افسران اس وقت کون سی ڈیوٹی دے رہے ہیں لیکن انہیں یاد آتا ہے کہ اس قسم کے سوال کرنے کے بعد انہیں آئندہ یہاں نہیں بلایاجائیگا‘وہ خاموش رہتے ہیں۔ اجلاس میں فیصلہ کیاجاتا ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں ملوث عناصر کی گرفتاری کیلئے ’’بلاامتیاز‘‘ کارروائی کی جائے۔اجلاس کے بعد پولیس کے سربراہ، اپنے ماتحتوں کا اجلاس بلاتے ہیں۔وہ پوچھتے ہیں کہ امتیاز نامی پولیس والا کون ہے؟ ایک صاحب ہاتھ کھڑا کرتے ہیں۔انہیں باہر نکال دیا جاتا ہے۔

چوتھا منظر: … صوبائی اسمبلی کا اجلاس ختم ہورہا ہے۔اسمبلی کی عمارت کے باہر سردار صاحب صحافیوں سے گفتگو کر رہے ہیں۔صحافی یاد کرتے ہیں کہ سردار صاحب کو سردار صاحب کہہ کہ مخاطب نہ کیاجائے تو انکی طبیعت ناساز ہوجاتی ہے۔وہ بتاتے ہیں کہ جنوبی پنجاب سے کالعدم اور دہشت گرد تنظیموں میں سولہ ہزار سے بیس ہزار تنخواہ پر نوجوانوں کو بھرتی کیا جارہا ہے۔صحافی سوالات پوچھتے ہیں۔آخر جنوبی پنجاب ہی سے کیوں؟ اونٹوں کی دوڑ سے ہلاک ہونے والے بچے بھی جنوبی پنجاب ہی سے کیوں تعلق رکھتے ہیں؟سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کی تعداد بھی جنوبی پنجاب ہی میں کیوں کم ہے؟مدارس کی تعداد بھی وہاں کیوں زیادہ ہے؟ جدّی پُشتی جاگیردار بھی اسی علاقے میں ہیں۔کیا یہ ساری باتیں ایک دوسرے سے گہرا تعلق رکھتی ہیں؟نوجوان اگر کالعدم اور دہشت گرد تنظیموں میں بھرتی ہورہے ہیں تو اس کا مطلب واضح ہے کہ وہ بیروزگار ہیں۔کیا بیروزگاری کا سبب جنوبی پنجاب کا صدیوں پرانا جاگیردارانہ نظام ہے؟کسی سوال کا جواب نہیں ملتا۔

آخری منظر: … ایک صاحب۔جن کا انگریزی سوٹ اڑھائی لاکھ روپے کا ہے، جوتے پندرہ ہزار روپے کے ہیں، قمیض بیس ہزار روپے کی ہے ، نکٹائی پچیس ہزار روپے کی ہے اور گھڑی دس لاکھ روپے کی ہے۔ لائوڈ سپیکر پر تقریر کر رہے ہیں۔’’ اب تک آپ نے جتنے مناظر دیکھے ہیں وہ سب جعلی ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ ملک میں کوئی بے روزگار نہیں، ساری بھرتیاں میرٹ پر کی جارہی ہیں۔کسی کا کوئی رشتہ دار بیرون ملک تعینات نہیں کیاجارہا،زرعی اصلاحات کی کوئی ضرورت نہیں۔بجلی کی بچت کی جائے،ہم خوشحالی لے کر آئے ہیں۔ غربت کا خاتمہ ہوچکا ہے ہم نے کشکول توڑدیا ہے۔ آخر آپ لوگ صبح ناشتے میں پھلوں کا رس، انڈے، مکھن، آسٹریلیا کا شہد، برطانیہ کا مارملیڈ، برازیل کی کافی اور ڈنمارک کا کارن فلیک کیوں نہیں استعمال کرتے؟

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com