جنگل ہے اور گھنا جنگل، راستہ ہے نہ روشنی، الامان والحفیظ!
طُوس فردوسی اور امام غزالیؒ کا وطن ہے، اسی طوس سے ایک شاعر اسدی طوسی بھی تھا کچھ تذکرہ نویس اسدی کو فردوسی کا استاد کہتے ہیں لیکن شبلی نعمانی اس سے اختلاف کرتے ہیں۔ اسدی طوسی گھنے جنگل کی تعریف یُوں کرتا ہے…؎
چنان تنگ ودرہم یکی بیشہ بُود
کہ رفتن دران کارِ اندیشہ بُود
ایک جنگا اتنا گھنا تھا کہ اس میں صرف خیال ہی چل سکتا تھا…؎
درخشانش سر در کشیدہ بسر
چو خط دبیراں یک اندر دگر
اونچے درخت یوں پاس پاس تھے جیسے خوش نویسوں کی سطریں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہوتی ہیں…؎
کماں شاخہاشاں، ہمہ گرز بار
سپر برگ ہا و سنان نوک خار
ان درختوں کی شاخیں کمان تھیں، ان کے پھل گُرز تھے ان کے پتے ڈھال تھے اور کانٹے برچھیوں کی مثال تھے…؎
نتابیدہ اندر وی از چرخ ہور
ز تنگی رہش پوست رفتی زمور
اس جنگل میں آسمان سے کبھی سورج نہ چمکا تھا اور اتنا گھنا تھا کہ چیونٹی بھی اس میں چلتی تو اسکی کھال ادھڑنے لگتی۔
جنگل ہے اور گھنا جنگل، راستہ ہے نہ روشنی، لیکن یہاں درخت نہیں ہیں جو سورج کی کرنیں روکے ہوئے ہیں یہاں مردم خور چیتے، خونخوار بھیڑیے، چالاک لومڑیاں، زہریلے اژدھے، ڈنگ مارنے والے بچھو اور ٹکریں مار مار کر ہلاک کر دینے والے گینڈے ہیں جن سے جنگل بھرا پڑا ہے۔ عام پاکستانی وہ چیونٹی ہے جو اس جنگل میں چلنے کی کوشش کرے تو اس کی کھال اتر جاتی ہے اور وہ زخموں سے چور، سسک سسک کر مر جاتا ہے۔ ایل پی جی کوٹہ جن کو دیا گیا ان کے ذرا نام دیکھئے، اعتزاز احسن کی اہلیہ، نیب کے سربراہ جنرل منیر حفیظ کے عزیز، جنرل معین حیدر اور چودھری شجاعت الٰہی کے داماد، جنرل خالد مقبول کی صاحبزادی، علی رضا نیشنل بینک کے صدر کا صاحبزادہ، آفتاب شیرپاؤ کی فیملی، جنرل پرویز مشرف کے بہت سے قریبی دوست۔ کیا پاکستان ان لوگوں کے لئے وجود میں آیا تھا؟ کیا یہ وہ مسلمان کی اقتصادی ترقی تھی جس کیلئے لاکھوں مسلمانوں کا خون بہا اور ہزاروں مسلمان عورتیں مشرقی پنجاب میں سکھوں کے گھروں میں رہ گئیں؟ آٹا، چینی، بجلی، گیس کو ترستے ہوئے عوام اور قلت سے فائدہ اٹھا کر اربوں روپے کمانے والے چند ڈاکو…؟ کیا یہ تھا وہ خواب جو قیام پاکستان کے وقت مسلمانوں نے دیکھا تھا؟
جنگل ہے اور گھنا جنگل، راستہ ہے نہ روشنی، بھیڑیے، مگرمچھ، شیر، تیندوے، سانپ اور بچھو ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ تل دھرنے کی جگہ نہیں۔ مویشیوں کی دیکھ بھال اور دودھ دہی (ڈیری) کے لئے ایک الگ وزارت بنائی گئی۔ MINISTARY OF LIVE STOCK AND DAIRY DEVELOPMENT
ذرا وزارت کا کروفر والا نام ملاحظہ فرمائیے اور کام یہ ہے کہ ایک سو سے زیادہ ملازم، جو تنخواہ وزارت سے لے رہے ہیں، کام پرائیویٹ فارم ہاؤسوں اور کوٹھیوں بنگلوں میں کر رہے ہیں، یہ فارم ہاؤس اٹک چکوال اور جہلم میں واقع ہیں۔
دوسری طرف اخبارات واویلا مچا رہے ہیں کہ اسی وزارت کے تحت چلنے والے ہسپتالوں میں لاکھوں آسامیاں افرادی قوت کا انتظار کر رہی ہیں اور یہ سب کچھ وزیراعظم کی عین ناک کے نیچے ہو رہا ہے۔تقریروں میں میرٹ میرٹ کی تسبیح کرنے والے وزیراعظم کی حکومت کی وزارت خود قائمہ کمیٹی کو بتاتی ہے کہ ستر سے زیادہ سرکاری مکان سفارش کی بنیاد پر الاٹ ہوئے، کن لوگوں کو الاٹ ہوئے؟ ان کو جو فہرست کے لحاظ سے حق دار نہیں، کن لوگوں نے سفارش کی؟ وزیر اور دوسرے لوگ جو اقتدار پر قابض ہیں، کن لوگوں کی حق تلفی ہوئی؟ وہ جن کے پاس سفارش ہے نہ پیسہ جو عام سرکاری ملازم ہیں، جن کی جیب میں کوئی وزیر ہے نہ ایم این اے، نہ سینیٹر۔ یہ سب کچھ اخبارات میں شائع ہوتا ہے کسی کے کان پر جُوں تک نہیں رینگتی، کوئی وزیر، کوئی ایم این اے، کوئی ترجمان معذرت تک نہیں کرتا، پیغام واضح ہے۔ اس جنگل میں جس کی سفارش نہیں ہو گی اس کا کام نہیں ہوگا۔ چیونٹیاں چلنے کی کوشش کریں گی تو ان کی کھال اُدھڑ کر رہ جائے گی!
جنگل، گھنا سیاہ جنگل، درندوں سے بھرا ہوا جنگل، وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کی بہن گریڈ بیس میں ہے لیکن اسے گریڈ بائیس پر فائز کیا جاتا ہے اسی پرنسپل سیکرٹری کے فرسٹ کزن کو متبادل توانائی کے ترقیاتی بورڈ کا چیئرمین لگایا جاتا ہے ابھی انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے۔ ابھی حق ’’حقدار‘‘ کو نہیں ملا۔ اسی این آر او زدہ پرنسپل سیکرٹری کو ریٹائرمنٹ کے بعد ایشیائی ترقیاتی بنک میں پاکستان کا نمائندہ مقرر کر کے منیلا (فلپائن) بھیجا جاتا ہے۔ ایک اور پرنسپل سیکرٹری ریٹائر ہوتا ہے تو وزیراعظم اسے بھاری تنخواہ پر بجلی کی ریگولیٹری اتھارٹی میں ’’تعینات‘‘ کرتے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے کتنے عرصے کے لئے؟ پانچ سال کیلئے، جب تک کہ وہ شخص پینسٹھ برس کا نہ ہو جائے ۔کوئی اصول؟، کوئی اشتہار؟کتنے امیدوار تھے جن میں سے یہ انتخاب ہوا؟ کیا یہ وہ میرٹ ہے جس کا ذکر ہر تقریر میں کیا جاتا ہے؟ پارلیمنٹ بے جان ہے، دنیا کی سب سے بڑی کابینہ جی جناب اور یس سر کہنے والوں پر مشتمل ہے۔ لوگ بھیڑ بکریاں ہیں جنہیں مار پیٹ کر آٹے چینی اور سی این جی کی قطاروں میں رکھا جا رہا ہے اور آٹے چینی اور سی این جی کے بحران سے فائدہ اٹھا کر کروڑوں اربوں روپے ہڑپ کرنیوالے سانپ اور بچھو اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں؟ کوئی فریاد، کوئی زاری، کوئی آنسو، کوئی سسکی، کوئی ہچکی کام نہیں آ سکتی۔ چند خاندان، چند افراد جو ہر حکومت میں ہیں، ہر سیاسی پارٹی میں ہیں۔ باقی چیونٹیاں ہیں جن کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ کھال اُدھڑواتی رہیں۔
فریب دیتے ہیں وہ جو کہتے ہیں اس ملک کا مسئلہ دہشت گردی ہے، اپنے آپکو نہیں، عوام کو دھوکا دیتے ہیں۔ وہ جو طالبان کانام لے کر لوگوں کو ڈراتے ہیں اس ملک کا مسئلہ طالبان ہیں نہ نام نہاد دہشت گرد۔ امریکہ ہے نہ اسرائیل، اس ملک کا اصل مسئلہ وہ خاندان ہیں جو سیاست اور حکومت پر قابض ہیں اور نسل در نسل نام نہاد منتخب اداروں میں اپنی موجودگی کی نحوست پھیلاتے ہیں۔ اس ملک کا مسئلہ وہ جرنیل ہیں جنہوں نے دولت کے انبار اکٹھے کئے ہیں اور ابھی تک ان کے تنور نما شکم نہیں بھرے۔ ابھی انہیں گیس کے مزید کوٹے درکار ہیں! اس ملک کا مسئلہ وہ سیاست دان ہیں جن کے کارخانے، جن کی رہائش گاہیں، جن کے پراپرٹی کے کاروبار، ملک سے باہر ہیں اور جو اپنے آپکو جمہوری لیڈر نہیں، موروثی بادشاہ سمجھتے ہیں۔کیا کسی نے سوچا ہے کہ بھارت میں متوسط طبقہ پھیل رہا ہے اور پاکستان میں سکڑ رہا ہے کیوں؟ کیا کسی نے سوچا ہے کہ بھارت میں REVERSE-BRAIN-DRAIN
شروع ہو چکا ہے یعنی بیرونِ ملک رہنے والے اور کام کرنے والے بھارتی اپنی مرضی سے اپنی خوشی سے بھارت واپس آ رہے ہیں۔ جبکہ پاکستان میں لوگوں کو بیرون ملک، ہجرت کروانیوالی کمپنیوں کی تعداد میں ہوش رُبا اضافہ ہو رہا ہے کیوں؟ اگر نائن الیون کے سانحے کے بعد پابندیاں نہ لگتیں تو خدا کی قسم! پاکستان میں کوئی ایک تعلیم یافتہ شخص بھی نہ بچتا! صرف معاوضے پر کام کرنیوالے، سیاسی پارٹیوں کے ’’کارندے‘‘ اس ملک میں رہ رہے ہوتے۔ کل ہی کی خبر ہے کہ راولپنڈی میں منعقد ہونیوالا ایک سیاسی پارٹی کا کنونشن کارکنوں کی ہاتھا پائی کی نذر ہو گیا۔ کارکن سٹیج پر لگی ہوئی نشستوں پر بیٹھنا چاہتے تھے، روکنے پر انہوں نے ایک دوسرے کے گریبان پکڑ لئے، خوب مار کٹائی ہوئی جس ملک میں بنیادی کردار سفارش اور روپے کا ہو اور سیاسی پارٹیوں کے اندر الیکشن کے مستقبل بعید میں بھی کوئی آثار نہ ہوں اس ملک میں یہی کچھ ہو گا۔
رہیں چیونٹیاں تو انکی کھال اُدھڑتی ہی رہے گی!
1 comment:
محترمی اظہار الحق صاحب
السلام علیکم
الحمد للہ آپ حسب معمول 'جہاد' پر کمر بستہ ہیں۔ میں اکثر آپ کے کالم دوستوں کو بذریعہ ای میل بھیج دیا کرتا ہوں لیکن سوچتا رہتا ہوں کہ ہماری عادت ہی بن گئی ہے کہ اس طرح کی چشم کشا تحریریں نقش بر آب کی مثل کچھ دیر تک ہمارے پردہ ہائے ذہن پر رہتی ہیں اور پھر وہی چیونٹیاں! تو کیا یہ چیونٹیاں اگر متحد ہو کرراستہ بنانے کی کوشش کریں ، مکالمے کو رواج دیں، برداشت پیدا کریں تو بھی ان درندوں کو للکارنے کے قابل نہیں ہوں گی؟
Post a Comment