Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, April 23, 2009

یہ فیصلہ اب امامِ کعبہ ہی کریں

جدہ سے مکہ کی طرف سفر کریں تو راستے میں خشک پہاڑ ہیں' سنگلاخ زمینیں' اور کہیں کہیں مختصر میدان جو دراصل ٹیلے ہیں۔ ان ٹیلوں پر اونٹ بھی چر رہے ہوتے ہیں اور سعودیوں کی کاریں بھی کھڑی ہوتی ہیں۔ پکنک منانے کیلئے کسی خاص پکنک سپاٹ کی قید نہیں وہ شہر سے باہر کسی بھی جگہ قالین بچھا لیتے ہیں…؎
منعم بکوہ و دشت و بیاباں غریب نیست
ہر جا کہ رفت' خیمہ زد و بارگاہ ساخت
لیکن یہ خشک پہاڑ' یہ سنگلاخ زمینیں اور یہ ٹیلہ نما میدان' اہل پاکستان کی واحد پناہ گاہ ہیں۔ اس لئے کہ جس دلدل میں پاکستانیوں کو اتار دیا گیا ہے اور جس میں وہ مسلسل دھنسے جا رہے ہیں اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں سوائے اس کے کہ جو برداشت حرم میں ہے' وہ برداشت پاکستان میں بھی اپنائی جائے۔ ان سنگلاخ زمینوں میں پتھر کھا کر دعائیں دینے والے پیغمبرؐ نے جو محبت' رواداری اور اکرامِ مسلمہ سکھایا پاکستان میں اسکی آج شدید ضرورت ہے۔ یہ Life Saving Drog یہ زندگی بچانے والی دوا اگر اس مریض کو فوراً مہیا نہ کی گئی تو اندیشہ ہے کہ یہ جاں بلب بیمار تڑپ تڑپ کر جان دے دے گا!
ہر رنگ کے پھول کی خوشبو بھی اپنی ہے۔ وہ دیکھئے کیرالہ کا مسلمان جا رہا ہے اس نے سفید رنگ کی لنگی سے ٹانگوں کو ڈھانپا ہوا ہے۔ چار خانے والی لنگی میں ملبوس شخص جو رو رو کر دعائیں مانگ رہا ہے انڈونیشیا سے ہے۔ عجیب و غریب چغہ پہنے یہ سیاہ فام مسلمان افریقہ سے ہے اور اس کے چغے پر' پیچھے کی طرف دونوں کندھوں کے نیچے کپڑے کی دو چادریں بھی لٹک رہی ہیں۔ یہ سفید فام مسلمان یورپ سے ہے' غالباً سیکنڈے نیویا سے اس نے نیلی جین پہنی ہوئی ہے۔ یہ ایرانی ہیں ان میں سے کچھ نے پاجامے پہنے ہوئے ہیں اور کچھ پتلونوں میں ملبوس ہیں۔ وہ دیکھئے' لکھنؤ کا مسلمان' اس نے خوبصورت کُرتا اور کھلا پاجامہ زیب تن کر رکھا ہے۔ وہ جو خشوع و خضوع سے نماز پڑھ رہا ہے وہ ترک ہے اس نے پتلون پہن رکھی ہے۔ ترکی کا سرخ جھنڈا اسکے کالر پر نصب ہے۔ اکثر ترکوں نے ایک ہی رنگ کی پتلون اور شرٹ پہنی ہوئی ہیں ان میں امارات اور قطر کے امراء اور مصر کے کسان (فلاحین) سب شامل ہیں۔ کچھ سر سے ننگے ہیں کچھ نے ٹوپیاں پہنی ہوئی ہیں اور کچھ نے رومال پہنے ہوئے ہیں۔
رومال بھی دو قسم کے ہیں۔ کچھ سفید اور کچھ سرخ کچھ نے عقال (گول رسی نما چیز) رومالوں کے اوپر رکھا ہوا ہے۔ اِکا دُکا پگڑی بھی نظر آتی ہے۔ یہ سب مسلمان ہیں اور یہ سارے لباس اسلامی ہیں ان میں سے کسی لباس کو رد نہیں کیا جا سکتا نہ کسی کی مذمت کی جا سکتی ہے۔ اسلام جب انڈونیشیا میں اور مراکش میں اور وسط ایشیا میں پہنچا تو اس نے کسی کو یہ نہیں کہا کہ اپنا لباس ترک کر دو اور جو خوراک تم کھاتے ہو چھوڑ دو' اس نے صرف اصول بتایا کہ ستر کا خیال کرو اور وہ لباس نہ پہنو جو بے حیائی کی طرف لے جائے۔ خوراک میں اس نے حلال اور حرام کا بنیادی اصول بتا دیا۔ اب مسلمان خواہ پتلون پہنیں (جو ترکوں کی ایجاد ہے) خواہ شلوار قمیض پہنیں خواہ چغہ پہنیں خواہ تنگ پاجامہ پہنیں' سارے لباس مسلمانوں کے ہیں۔ وہ چاول کھائیں یا روٹی' مچھلی پسند کریں یا بیل کا گوشت یا سبزیاں اور پھل سب کھانے مسلمانوں کے ہیں۔ اگر کوئی مسلمان راجستھانی پگڑی پہنتا ہے یا پنجابی شملے والی پگ یا پختونوں والی پگڑی یا سوڈانیوں والی پگڑی تو اسے پہننے کی آزادی ہے لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ راجستھانی پگڑی یا پنجابی پگ یا پختون پگڑی کسی کیلئے لازمی قرار دی جائے یا ٹوپی والا پختونوں کا برقہ (شٹل کاک) مسلمان عورتوں کو پہننے پر مجوبر کیا جائے۔ یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ ننگے سر والے کو یہودیوں کا پیروکار کہہ کر مسلمانوں کو مجبور کیا جائے کہ کوئی ننگے سر نہ رہے۔
اگر مسلمان حرمِ کعبہ میں اور مسجدِ نبوی میں ننگے سر آ سکتے ہیں' ننگے سر نماز پڑھ سکتے ہیں اور پتلون سمیت سارے لباس پہن سکتے ہیں تو کوئی مائی کا لال ہے جو اپنے علاقے کو یا اپنے دائرہ حکمرانی کو حرمین شریفین سے بھی زیادہ مقدس قرار دے اور مسلمانوں پر اپنی پسند کا لباس مسلط کرے' اگر کوئی ایسا کریگا تو وہ اسلام میں ایک نئی چیز داخل کرنے کا مرتکب ہو گا' امت میں فساد کا اور تقسیم کا باعث بنے گا اور مسلمانوں کو اُن مسائل میں الجھائے گا جو توجہ زیادہ اہم مسئلوں سے ہٹا دیں گے اور یہ بہت ہی بری بات ہو گی۔
پھر دیکھئے' حرمِ کعبہ میں مسلمان ان تمام مختلف طریقوں سے نماز پڑھ رہے ہیں جو اللہ کے رسول سے ثابت ہیں۔ کوئی ہاتھ جوڑ کر پڑھ رہا ہے اور ہاتھ چھوڑ کر پڑھنے والوں میں شیعہ ہی نہیں' مالکی سنی بھی شامل ہیں۔ کچھ بلند آواز سے آمین کہتے ہیں کچھ آہستہ کہتے ہیں کچھ پاؤں کھلے رکھتے ہیں کچھ قریب قریب رکھتے ہیں۔ وہ بھی ہیں جو رکوع سے اُٹھ کر ربنا لک الحمد کہتے ہیں تو ہاتھ باندھ لیتے ہیں اور وہ بھی ہیں جو نہیں باندھتے۔ یہ سب مسلمان ہیں۔ حرمین کی حدود کے اندر تو کوئی غیر مسلم آ ہی نہیں سکتا۔
اللہ کے رسولﷺ نے گوہ کا کوشت تناول نہیں فرمایا اور اسکی وجہ بھی بتائی کہ انکے علاقے میں یہ نہیں کھایا جاتا اور وہ اسکے عادی نہیں ہیں۔ وہیں پر ایک صحابی نے پلیٹ اپنی طرف کی اور گوہ کا گوشت اللہ کے رسولؐ کے سامنے کھانے لگے۔ آپ نے انہیں منع نہیں فرمایا۔ آپکو کدو پسند تھا اور ایک صحابی کدو تو کیا کدو کی بیل سے بھی محبت کرتے تھے اس لئے کہ محبوبِ خدا کو کدو پسند تھا لیکن اگر کوئی کدو نہیں کھاتا تو کیا وہ کسی گناہ کا مرتکب ہو رہا ہے؟ آپﷺ نے جو لباس زیب تن فرمایا وہ وہی تھا جو اس زمانے میں مکہ اور مدینہ کے سارے لوگ پہنتے تھے۔ آپؐ نے حکم نہیں دیا کہ قیامت تک آنے والے مسلمان پوری دنیا میں وہی لباس پہنیں جو آپؐ نے پہنا ہے!
روزِ جزا یہ نہیں پوچھا جائیگا کہ تم نے پگڑی کون سی پہنی تھی؟ سرخ یا سیاہ یا سبز؟ اور برقع کون سا پہنا تھا؟ مراکش یا مصری یا پختون یا سوڈانی؟ وہاں تو یہ پوچھا جائے گا کہ تم کرتے کیا رہے؟ اور کیا خلق خدا کو تم سے فائدہ پہنچایا ہلاکت۔ اور کیا تم نے اللہ کے رسول کے احکام مانے یا اپنے مقامی تمدن کو اسلام کے نام پر چمکاتے رہے؟
کیا اب وقت نہیں آ گیا کہ پاکستان کے مسلمان' متحد ہو کر امام کعبہ کی خدمت میں درخواست پیش کریں کہ اب اس کا فیصلہ امامِ کعبہ ہی کریں گے کہ جو لوگ ایک خاص وضع کا لباس پہننے پر مجبور کر رہے ہیں اور ایک خاص قسم کی شریعت بزورِ شمشیر مسلط کر رہے ہیں اور دلیل کے بجائے بندوق کی زبان میں بات کر رہے ہیں' وہ لوگ صحیح راستے پر ہیں یا افراط کا شکار ہو کر مسلمانو ںکیلئے اذیت کا باعث بن رہے ہیں؟

1 comment:

monaali said...

EXELENT
allah KRE K AESA HO
KIA PAKISTAN K MUSLMANO MAI ITNA SHAOOR HAI ?

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com