اب اگر لوٹ مار کرنیوالے چاہتے ہیں کہ انہیں روکنے والا بھی کوئی نہ ہو اور اگر ان کی لوٹ مار کا ردِ عمل ہو تو وہ بھی انکی مرضی کا ہو تو وہ ظالم ہونے کیساتھ ساتھ احمق بھی ہیں۔
ہے کوئی ایسا اندھیر جو مملکتِ خداداد میں ان باسٹھ برسوں میں نہ ہوا ہو۔
پلاسٹک کے وزیر اعظم شوکت عزیز کے زمانے میں اٹھائیس ''بلٹ پروف مرسڈیز کاریں خریدی گئیں اور کیا آپ ظلم کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ کابینہ ڈویژن ان عظیم ہستیوں کے نام نہیں بتا رہا جو ان کاروں کو اپنے استعمال کی عزت بخش رہی ہیں۔ قومی اسمبلی کو کابینہ ڈویژن کے سیکرٹری بتاتے ہیں کہ یہ کاریں کابینہ ڈویژن کے افسر استعمال کر رہے ہیں اور صحافی جب پوچھتے ہیں کہ کون سے افسر… تو سیکرٹری صاحب فرماتے ہیں کہ نہیں یہ تو چھاپہ خانے کی غلطی ہے۔ ورنہ میرے افسر تو یہ کاریں استعمال ہی نہیں کر رہے۔ کون کر رہے ہیں…؟ منتخب نمائندوں کو کوئی بتانے کیلئے تیار نہیں!
اس ملک کے معاملات پر ہر دوسرے ملک کو اختیار حاصل ہے' سوائے اس ملک کے عوام کو ۔ پطرس نے مرزا کی بائسیکل کے بارے میں لکھا تھا کہ اسکی ہر شے بجتی تھی۔ سوائے گھنٹی کے ہزاروں انسانوں کے قاتل اور ملک کی آزادی بیچنے والے جنرل پرویز مشرف کے بارے میں سعودی عرب کے بادشاہ اتنے فکرمند ہیں کہ وہ پاکستان کے کمانڈر ان چیف کو تلقین کرتے ہیں کہ پرویز مشرف کو کوئی مسئلہ کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہئے۔ اس ملک کے معاملات کو دوسروں کے سپرد کرنیوالے یہ بھی چاہتے ہیں کہ ردِِّعمل انکی مرضی کیمطابق ہو۔ اور مکافاتِ عمل کو اُن سے پوچھ کر ترتیب دیا جائے۔ سورۃ القلم میں اللہ تعالیٰ مجرموں سے کہتے ہیں کہ کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں تم یہ سبق پڑھتے ہو کہ تمہیں وہی چیز ملے جو تم پسند کرتے ہو اور کیا تم نے قسم لے رکھی ہے کہ جس شے کا تم حکم کرو گے وہ تمہارے لئے حاضر ہو جائے گی! پاکستان کی ''اشرافیہ'' کا (لغت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ اشرافیہ کے لفظ میں ''شرافت'' کا مادہ ہے) ایمان ہے کہ وہ جو چاہیں کریں گے' انہیں پوچھنے والا کوئی نہ ہو گا قانون ان کیلئے بھڑوے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں لیکن جب اندھیرا بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے تو پانی کو بھی آگ لگ جاتی ہے! باسٹھ سال قانون کو بھڑوا سمجھنے والی اس اشرافیہ کو خواب میں بیت اللہ محسود منگل باغ اور صوفی محمد کے چہرے نظر آتے ہیں تو ہڑبڑا کر اٹھ پڑتے ہیں۔ ریشمی سلیپنگ سوٹ پسینے میں تر ہو رہا ہوتا ہے' معدنی پانی پیتے ہیں اور خواب آور گولی کھا کر پھر سو جاتے ہیں۔
قبائلی علاقے سے بیت اللہ محسود پیدا نہ ہو تو کیا مل مالکان' فیکٹریوں کے کھرب پتی مالک' اور کروڑوں روپے خرچ کر کے اسمبلیوں میں پہنچنے والے ''نمائندے'' پیدا ہوں گے۔ قبائلی علاقوں میں باسٹھ سال میں کیا کیا گیا ہے۔ کیا حکومت پاکستان بتائے گی کہ اس سارے عرصہ میں پولیٹیکل ایجنٹوں نے کتنا پیسہ تقسیم کیا ہے؟ اور قبائلی علاقوں کے کن ملکوں' خانوں اور موٹی اسامیوں کو دیا گیا ہے؟ کیا یہ کوئی ڈھکی چھپی بات ہے کہ باسٹھ سال میں حکومت پاکستان نے قبائلی علاقوں کے صرف ان خوانین کی جیبیں بھری ہیں جو قبائلی علاقوں کے عوام کو اپنا غلام سمجھتے ہیں۔ ابھی تو اس خبر کی روشنائی بھی خشک نہیں ہوئی جس میں بتایا گیا ہے کہ قبائلی علاقوں سے سینٹر بنانے کیلئے آٹھ ارکان اسمبلی نے ساٹھ کروڑ روپے ''فیس'' لی ہے۔ جو ساڑھے سات کروڑ روپے فی کس بنتی ہے تو کیا یہ اشرافیہ اس خیال میں ہے کہ رشوت' بدعنوانی اقرباء پروری حرام خوری اور دیدہ دلیری کا انعام انہیں بیت اللہ محسود کی صورت میں نہ ملے بلکہ قبائلی علاقوں سے ایسے لوگ پیدا ہوں جو ان کے سامنے رکوع میں جائیں' انکے تلوے سہلائیں اور حرام مال کھانے پرانکی قصیدہ خوانی کریں؟ نہیں! ہرگز نہیں! تم آگ بوؤ گے تو شعلے کاٹو گے! اگر تم اس غلط فہمی میں ہو کہ آگ بو کر گل و گلزار کاٹو گے تو تم ظالم ہونے کے ساتھ ساتھ احمق بھی ہو!
جو کچھ تم کرتے رہے ہو اور کر رہے ہو' اسکی سزا میں صوفی محمد منگل باغ اور بیت اللہ محسود تو کچھ بھی نہیں! تم کابینہ میں بیٹھ کر چینی کا بحران پیدا کرتے' تم وزیر اعظم بنتے ہو تو یا گجرات کے خواص فائدے اٹھاتے ہیں یا ماڈل ٹاؤن کے رہنما نے ایک ''منتخب'' وزیر اعظم سے کہا کہ میرٹ پر کام کرنا تو ''منتخب'' وزیر اعظم نے بلاجھجک کہا کہ ہم خود کون سی میرٹ پر آئے ہیں' وزیر اعظم یہ کہتا ہے اور آسمان سے پتھر نہیں برستے اور زمین سے لاوا نہیں پھوٹتا۔ اس لئے کہ اللہ ظالموں کی رسی دراز کرتا ہے!
تم پارٹیاں اس طرح بدلتے ہو جیسے پارٹیاں نہ ہوں میلی بنیانیں ہوں۔ تم ہر دور میں وزیر بنتے ہو' تم ایک جہاز سے اترتے ہو تو دوسرے میں بیٹھتے ہو لیکن ٹیکس ادا کرتے وقت اور آمدنی کے گوشوارے بناتے وقت تم قلاش ہو جاتے ہو تم سرکاری ملازم ریٹائر ہوتے ہو لیکن کروڑوں میں کھیلتے ہو اور تقریروں اور تحریروں میں وعظ کرتے ہو اور یہ بھی نہیں بتاتے کہ تمہارے قائم کردہ تھنک ٹینک کہاں سے پیسہ لیتے ہیں' تم بیس کلو گرام آٹے کا تھیلا ساڑھے پانچ سو روپے بیچ رہے ہو اور تمہاری ملیں گندم اور آٹے سے اٹی پڑی ہیں اور تمہارے محلات دولت سے بھرے پڑے ہیں۔ اور تمہاری بیگمات امریکہ برطانیہ سوئٹزر لینڈ اور جرمنی اس طرح جاتی ہیں جیسے یہ سب ساتھ والے محلے ہوں۔ اور پھر تم شور مچاتے ہو کہ طالبان کیوں آ رہے ہیں؟
یہ مشہور واقعہ ہے کہ محمد خان جونیجو نے جب بڑے بڑے افسروں کو چھوٹی چھوٹی کاروں میں بٹھایا تو ایک فیڈرل سیکرٹری کا نائب قاصد' ہر روز پوچھتا کہ سیکرٹری صاحب کیلئے چھوٹی کار کب آ رہی ہے؟ ایک دن سیکرٹری کے پی اے نے نائب قاصد سے کہا کہ تمہیں کیا تکلیف ہے؟ تم اتنے بے تاب کیوں ہو؟ نائب قاصد نے جواب دیا کہ میں نے تو سائیکل پر ہی رہنا ہے' لیکن یہ بدبخت تو چھوٹی کار میں بیٹھے!
آٹے کیلئے قطار میں کھڑے رہنے والے کو طالبان سے کیا ڈر ہے؟ طالبان کا خوف تو انہیں ہے جنہوں نے باسٹھ سال قانون کو بھڑوا سمجھا ہے! طالیان نے دانائی سے کام لیا تو عوام کے بجائے ''خواص'' کیلئے خدا کا عذاب بنیں گے!!
Tuesday, April 28, 2009
عذاب … مگر کن کیلئے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment