اونٹنی صرف اونٹنی نہیں‘ ایک علامت ہے۔تب بھی علامت تھی۔ آج بھی علامت ہے۔ تب بھی لوگوں نے پروا نہ کی۔ آج بھی لوگ اٹکھیلیاں کر رہے ہیں۔ تب بھی خدا کا خوف عنقا تھا۔ آج بھی وہی صورت حال ہے۔
پہلے معجزے کا مطالبہ کیا۔پہاڑ پھٹا۔ اس میں سے اونٹنی نکلی۔ حکم ہوا ایک دن تالاب ( یا چشمے) سے اونٹنی پانی پیے گی۔ اور ایک دن سب لوگ۔ یہ پابندی لوگوں کو پسند نہ آئی۔ خدا کی اس نشانی کو انہوں نے ہلاک کر دیا۔ پھر ان پر عذاب اُترا! ایسا عذاب کہ آج تک ان کی بستیاں نشانِ عبرت ہیں!
یہ جو اونٹنی کی ٹانگ اب‘ اس ملک میں‘ کاٹی گئی ہے‘ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ اصل مجرم کو‘ مبینہ طور پر‘ بچایا جا رہا ہے کیونکہ اس کا تعلق طاقتور طبقات سے ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ وہ‘ مبینہ طور پر ایک سیاسی جتھے سے بھی جُڑا ہوا ہے۔ جس معاشرے میں طاقتور مجرموں کو چھوڑ دیا جاتا ہے‘ اس معاشرے پر عذاب اُترتا ہے۔ عذاب صرف یہی نہیں کہ زلزلہ آئے یا چنگھاڑ سنائی دے‘ یا طوفان آکر مجرموں کو ہلاک کردے اور وہ اوندھے پڑے ہوں جیسے کھجور کے بوسیدہ تنے ہوں‘ یا ان پر مینڈکوں کی یا جوؤں اور مچھروں کی یا خون کی بارش ہو یا ان کے چہرے مسخ ہو کر جانوروں کی شباہت اختیار کر لیں !! عذاب کی اور بھی صورتیں ہیں جنہیں یہ معاشرہ بھگت رہا ہے۔ عذاب کی سب سے بڑی صورت تو یہی ہے کہ اس بھوکی‘ ننگی‘ قلاش‘ ادھ موئی قوم پر کھرب پتی حکمرانی کریں‘ جن کے نزدیک عام آدمی کے وجود کی حیثیت کیڑے مکوڑوں سے بھی کم ہو۔ جن کے مکان‘ بازار‘ ہسپتال‘ تعلیمی ادارے‘ سب کچھ الگ ہو‘ جو ملک سے باہر زیادہ رہتے ہوں اور ملک کے اندر کم۔ جن کے بچے پیدائش سے پہلے ہی ارب پتی ہو جائیں۔اب آپ پوچھیں گے کہ جو طبقہ طاقتور مجرموں کو چھوڑتا ہے یا چھڑاتا ہے‘ وہ تو عیش و عشرت میں زندگی گزار رہا ہے اور عذاب پوری قوم پر اُترے‘ یہ کیسا عذاب ہے۔ تو جناب ! عذاب پوری قوم پر اس لیے اُتر تا ہے کہ قوم مجرموں کے چھوٹ جانے پر خاموش رہتی ہے۔ جو قوم افواہ کی بنیاد پر آئے دن اکٹھی ہو جائے اور بغیر ثبوت کے‘ یا بغیر قانونی کارروائی کے‘ کسی کو زندہ جلادے اور کسی کو گھسیٹ گھسیٹ کر ماردے‘ وہ قوم طاقتور مجرموں کو چھوڑ دینے پر بھیڑ بکریوں کا گَلّہ بن جائے اور چوں کی آواز بھی نہ نکالے‘ اُس قوم کے صرف مجرموں پر نہیں بلکہ پوری قوم پر عذاب اترتا ہے۔وہ مقدس اونٹنی جو پہاڑ سے نکلی تھی‘ اُسے ہلاک کرنے والے افراد چند ہی تھے مگر عذاب سب پر اترا تھا اس لیے کہ وہ جرم دیکھتے رہے اور خاموش رہے۔
کیا یہ عذاب نہیں کہ ہمارے پاسپورٹ اور ہماری کرنسی کی کرۂ ارض پر رمق برابر عزت بھی نہیں۔ دنیا میں ہماری تلاشیاں لی جاتی ہیں۔ہمیں ایئر پورٹوں پر پہروں روکا جاتا ہے۔ ہمیں بھکاری سمجھا جاتا ہے۔ کوئی ہمیں مسکین کہتا ہے کوئی فراڈ! ہمیں ویزے نہیں ملتے۔ ہمارے ہوائی جہازوں پر پابندی ہے۔ چار پانچ ایئر لائنوں کے سوا ہمارے ملک میں کوئی جہاز نہیں آتا۔ہماری عدلیہ کی رینکنگ ہر گز لائقِ عزت نہیں۔افغانستان کے اقتصادی اشاریے ہم سے اوپر ہیں۔ ہمیں عراق اور صومالیہ کی صف میں شمار کیا جاتا ہے۔ بھارت نے کشمیر کی آئینی حیثیت کی خاک تک اُڑا دی ہم چوں تک نہ کر سکے۔ ہم کشکول بردار ہیں۔ چند دن ہی کی بات ہے‘ آئی ایم ایف یہ بھی طے کرے گا کہ ہم نے دوپہر کوکیا پکانا ہے اور شام کو کیا کھاناہے۔اگر یہ سب کچھ عذاب نہیں تو کیا انعام ہے؟
جن ملکوں نے ترقی کی ہے‘ اور جن ملکوں کی دنیا میں عزت ہے اور ایک مقام ہے‘ ان میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جہاں طاقتور مجرم کوچھوڑ دیا جاتا ہے! شاید ایک بھی ایسا ملک نہیں!
سنگا پورکی امریکہ کے مقابلے میں کیا حیثیت ہے؟ جب ایک امریکی لڑکے کو سنگاپور میں بید مارے جانے تھے تو امریکہ نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔امریکی صدر نے سنگاپور کے صدر کو فون کیا۔ تمام سفارتی اور سیاسی داؤ آزمائے گئے مگر سنگاپور کی حکومت نے مجرم چھوڑنے سے انکار کر دیا۔سنگاپور کے صدر نے بید چھ کے بجائے چار کر دیے مگر سزا معاف نہ کی۔ لڑکے کو ٹکٹکی سے باندھا گیا۔ بید مارے گئے۔ ہماری طرح نہیں کہ ریمنڈ ڈیوس کو پلیٹ میں رکھ کر امریکہ بہادر کو پیش کر دیا۔ آئے دن اسلام آباد میں مغربی ملکوں کے سفارت کار ٹریفک قوانین کی دھجیاں اُڑا رہے ہیں۔ کتنے ہی پاکستانی زخمی ہو چکے ہیں مگر چالان تک کرنے کی ہمت نہیں۔ امریکہ میں تو خود امریکی صدر کے لیے کوئی استثنیٰ نہیں۔ صدر کلنٹن کو کٹہرے میں کھڑا کیاگیا۔ مقدمے کی کارروائی پوری دنیا نے دیکھی اور سُنی!یہ انصاف‘ یہ طاقتور اور کمزور کے ساتھ یکساں سلوک‘ یہی ان ملکوں کی عزت اور ترقی کا راز ہے۔ کفر ہے مگر ظلم نہیں! ہم رات دن سنتے اور سناتے ہیں‘ پڑھتے اور پڑھاتے ہیں کہ امیر المومنین حضرت علی مرتضیؓ نے فرمایا :کفر کی حکومت چل سکتی ہے ظلم کی نہیں اور پھر ہم رات دن ظلم کرتے ہیں! ظلم ہوتا دیکھتے ہیں!ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ اونٹنی تو اونٹنی ہے۔کوئٹہ میں جب ریاستی اہلکار کو دن دہاڑے ایک گردن بلند نے گاڑی کے نیچے کچل دیا تو وہ عدالتوں کے باہر دو انگلیوں سے فتح کے نشان بناتا اور دکھاتا رہا۔ کبھی دنیا میں ایسا ہوا ہے ؟ اس کا بال تک بیکا نہیں ہوا۔ آپ بندہ قتل کر دیجیے‘ اگر آپ جتوئی ہیں یا کانجو ہیں یا آپ کے نام کے ساتھ طاقت کا اور کجکلاہی کا اور رعونت کا کوئی اور سابقہ یا لاحقہ لگا ہے تو آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہاں گواہ موم کے ہیں! قانون بڑوں کے ڈرائنگ روموں میں قالین کی صورت بچھا ہے جس پر یہ بڑے جوتوں سمیت چلتے ہیں۔کوتوال کی حیثیت کنیز سے زیادہ نہیں! انصاف کا نظام ایک آوارہ لطیفے جتنی عزت سے بھی محروم ہے! غریب جیل میں مر جاتا ہے۔ مرنے کے بعد نظامِ انصاف اعلان کرتا ہے کہ جیل میں مر جانے والا بے گناہ تھا!مصر کے گورنر حضرت عمرو بن عاصؓ کے بیٹے نے ایک شہری کو مارا اور مارتے وقت کہا: میں بڑوں کی اولاد ہوں۔ گورنر نے شہری کو قید کر دیا تاکہ شکایت نہ کر سکے۔وہ قید سے چھوٹا تو سیدھا مدینہ پہنچا اور مقدمہ دائر کر دیا۔ امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ نے گورنر اور ان کے بیٹے کو طلب کر لیا۔ مصر اور مدینہ کا درمیانی فاصلہ ذہن میں لائیے اور اُس زمانے کی سواریاں بھی۔ پہنچے تو مدعی کو حکم ہوا کہ کوڑا پکڑو اور مارنے والے کو مارو۔ وہ مارتا جاتا تھا اور آپ کہتے جاتے تھے: اسے مارو‘ یہ بڑوں کی اولاد ہے۔ مار چکا تو حکم ہوا کہ اب گورنر کو مارو کہ باپ کے اقتدار کے گھمنڈ ہی میں تو بیٹے نے ظلم کیا تھا۔ یہ اور بات کہ مدعی نے کہا کہ وہ بدلہ لے چکا ہے اس لیے گورنر کو نہیں مارے گا! جبلہ بن ایہم والا واقعہ بھی تاریخ کا حصہ ہے !!
اونٹنی کامالک آج کمزور ہے۔ مجرم طاقتور ہے۔ مگر معاملہ سخت خطرناک ہے۔ اسے سرسری طور پر لینا بہت بڑی غلطی ہے۔ بظاہر اس اونٹنی کا اُس اونٹنی سے کوئی تعلق نہیں جو پہاڑ سے نکلی تھی۔مگر اس اونٹنی نے واضح کر دیا ہے کہ ہمارے نظامِ انصاف میں نظام ہے نہ انصاف ! یہ وارننگ ہے۔
یہ اہلِ ثروت تھے‘ غیب کو مانتے نہیں تھے
عذاب سے پیشتر انہیں اونٹنی ملی تھی!!
No comments:
Post a Comment