ہم کئی دن اس کے پاس‘ اس کے گھر میں رہے۔ جس دن واپس آنا تھا میری طبیعت میں صبح سے عجیب اضطراب تھا۔ میں نے اور بیگم نے کوشش کی کہ اس سے چھپ کر گاڑی میں بیٹھیں۔ مگر جیسے ہی گاڑی سٹارٹ ہوئی وہ ننگے پاؤں بھاگتا باہر آیا۔ جب دیکھا کہ نانا نانو دونوں گاڑی میں سوار ہیں تو پوری قوت سے‘ جتنی اس کے ننھے جسم میں تھی‘ رونا چیخنا شروع کر دیا۔ پھر اس نے دونوں ہاتھ میری طرف کئے۔ مجھ سے نہ رہا گیا۔ اسے گاڑی کے اندر گود میں بٹھا لیا۔ پھر ڈرائیور سے کہا کہ ایک دو گلیوں کے چکر لگاؤ۔ گاڑی چلی اور اس نے خوشی سے گود میں ہلنا اور جھومنا شروع کر دیا۔ تین چار گلیوں سے ہو کر واپس پہنچے۔ اب اس کی ماں نے اسے گاڑی سے اتارنا چاہا۔ پہلے تو رستم نے مدافعت کی۔ پھر رویا اور خوب رویا۔ گاڑی کے دروازے بند ہوئے تو اس کے رونے کی آواز مدہم سنائی دینے لگی۔
مجھے اعتراف ہے کہ میں اپنے
Grand children
کے حوالے سے بہت حساس اور جذباتی ہوں۔ (معاف کیجیے گا‘ گرینڈ چلڈرن کا لفظ مجبوراً لکھا ہے۔ اس کا اردو متبادل لمبا ہے۔ یعنی پوتے پوتیاں‘ نواسے نواسیاں! اسی طرح گرینڈ پیرنٹس کا اردو متبادل نانا نانی‘ دادا دادی ہو گا۔ گرینڈ چلڈرن کو گرینڈ کڈز بھی کہا جاتا ہے) دوستوں کا خیال ہے کہ گرینڈ چلڈرن پر جتنا میں نے لکھا ہے‘ کسی نے نہیں لکھا۔ مجھ پر ان کی جدائی شاق گزرتی ہے۔ پاس ہوں تو سارا وقت میرے ساتھ ہی گزارتے ہیں۔ ذرا سے بڑے ہو جائیں تو سوتے بھی میرے پاس ہیں۔ سب اکٹھے ہوں تو ساتھ سونے کے لیے باریاں مقرر ہوتی ہیں۔ دو بچے ساتھ سوئیں تو میں درمیان میں ہوتا ہوں۔ ایک کہتی ہے منہ اس کی طرف کروں۔ دوسرا کہتا ہے اس کی طرف۔ اس کا ایک ہی حل ہوتا ہے کہ میں منہ چھت کی طرف کروں۔ پچھلے اٹھارہ برسوں میں جتنی طبع زاد کہانیاں ان بچوں کو سنائی ہیں‘ لکھتا تو کئی کتابیں ہو چکی ہوتیں۔ حال ہی میں بچوں کا جو ناول (ٹِکلو کے کارنامے) بک کارنر جہلم والوں نے چھاپا ہے‘ ان کہانیوں کا عشرِ عشیر بھی نہیں! بچوں کی جدائی میں جتنا سلگا ہوں اور ان کے چھوڑے ہوئے کھلونوں کو جس طرح سنبھال کر رکھا ہے اور ان کی کھینچی ہوئی لکیروں والے کاغذوں کو جس طرح فریم کرایا ہے‘ شاید ہی کسی اور نے اس طرح کیا ہو۔ میرے ایک دوست اپنے پوتوں کے آنے کو پسند نہیں کرتے کہ اُن کے بقول شور مچاتے ہیں۔ میں نے حیرت کا اظہار کیا تو فرمایا ''ہر شخص تمہاری طرح جذباتی نہیں ہوتا‘‘۔ یہ رویہ شاید مجھے وراثت میں ملا ہے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی گیا تو والد گرامی مرحوم کے دل پر اثر ہوا۔ اپنے بچے سفر پر نکلے اور بیٹیوں کی شادیاں ہوئیں تو ہفتوں چارپائی کے ساتھ لگا رہا۔ چھوٹی بیٹی کی رخصتی پر جب کالم (روزنامہ دنیا‘ 9 فروری 2015ء) لکھا‘ افتخار عارف تب ملک سے باہر تھے۔ کسی کو پیغام بھیجا کہ بھئی اظہار کی خبر لو‘ اس کی طبیعت بہت خراب لگ رہی ہے۔
پولو میچ دیکھنے کی لت مجھے بھی ہے اور اب یہ خبط سوا دو سالہ رستم کو بھی لاحق ہو چکا ہے۔ ادھر شام ہوئی‘ ادھر اس نے گھولے گھولے (گھوڑے گھوڑے) کا وِرد شروع کر دیا۔ پھر میری انگلی پکڑ کر گاڑی کے پاس لاتا ہے۔ جیسے ہی ہم پولو گراؤنڈ کے قریب پہنچتے ہیں‘ یہ گھوڑوں کی تلاش میں نظریں دوڑانے لگتا ہے۔ جیسے ہی گھوڑے نظر آتے ہیں ''گھولے‘‘ کا نعرہ لگاتا ہے۔ میچ کے دوران غور سے گھوڑوں کو دیکھتا رہتا ہے۔ بال کا بھی اسے معلوم ہوتا ہے کہ اب کہاں ہے۔ کبھی کبھی جب دونوں ٹیمیں اس جگہ کے قریب آکر کھیلنے لگتی ہیں‘ جہاں ہم بیٹھے ہوتے ہیں تو گھوڑوں کو نزدیک دیکھ کر بہت سنجیدہ ہو جاتا ہے اور گیم کو زیادہ غور سے دیکھتا ہے۔ پیدل چلنا اس کا محبوب مشغلہ ہے۔ کھیل کے میدان کی باؤنڈری کے ساتھ ساتھ چلتا جائے گا۔ ادھر گارڈ پریشان ہو رہا ہوتا ہے کہ یہ باؤنڈری کراس کر کے میدان کے اندر نہ چلا جائے۔ مگر نہیں جاتا۔ میں واپس لا کر اپنے پاس بٹھاتا ہوں۔ غروبِ آفتاب کے تھوڑی دیر بعد میچ ختم ہوتا ہے۔ تب اس طرف ہاتھ کا اشارہ کر کے کہتا ہے ''چلے گئے‘‘۔ اب کھیل کا پورا میدان اس کی جولانگاہ بن جاتا ہے۔ وہ دوڑنا شروع کرتا ہے۔ کبھی کسی کوے کے پیچھے۔ کبھی کسی دوسرے پرندے کے پیچھے۔ دوڑنے بھاگنے کا شوق جی بھر کے پورا کرتا ہے۔ جدھر کا رُخ کرتا ہے‘ نانا اسی طرف پیچھے پیچھے چلتا رہتا ہے۔ بھاگ بھاگ کر جب تھک جاتا ہے تو پاس آکر دونوں بازو اوپر اٹھاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے اٹھا لیجیے۔ اب ہم پولو کے ریستوران میں جا بیٹھتے ہیں۔ یہاں کی ڈرل اسے یاد ہے۔ پہلے پانی‘ پھر تازہ بنے ہوئے چپس! مشکل مرحلہ تب آتا ہے جب گھر واپس جانے کا وقت ہوتا ہے۔ گھر واپس جانا اس کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ بس چلے تو رات پوری یہیں گزار دے۔
صبح کے ناشتے میں میرا مستقل پارٹنر ہے۔ ماں بیچاری پتا نہیں کیا کیا چیزیں بناتی ہے اس کے ناشتے کے لیے۔ ماں باپ دونوں یہ چیزیں لیے اس کے پیچھے پیچھے چلتے کھلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر جیسے ہی میرے سامنے چائے اور رس دیکھتا ہے‘ بھاگا چلا آتا ہے۔ دائیں ہاتھ سے رس چائے میں ڈبو کر کھاتا ہے اور ساتھ ہی بائیں ہاتھ میں دو تین رس پکڑ لیتا ہے۔ رس ڈبو کر جب کھاتا ہے تو چائے کے قطرے‘ ظاہر ہے اس کی قمیض پر گرتے ہیں۔ کل اس کی ماں شور مچا رہی تھی کہ اس نے اپنی قمیضوں کا ستیا ناس کر دیا ہے۔ میں نے ہنس کر کہا: کوئی بات نہیں‘ اور لے لیں گے۔ اس پر اس نے وہی عالم گیر فقرہ دہرایا جو مشرق و مغرب میں مائیں گرینڈ پیرنٹس کو کہتی ہیں کہ آپ اسے خراب
(Spoil)
کر رہے ہیں! اس پر ہمیشہ مجھے کینیڈا کی وہ بوڑھی عورت یاد آتی ہے جس نے کہا تھا کہ ہاں! ہم
Spoil
کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے کیونکہ ہم پیرنٹس نہیں ہیں‘ گرینڈ پیرنٹس ہیں۔
کئی سال پہلے کی بات ہے۔ ہماری پہلی گرینڈ چائلڈ زینب تین چار سال کی تھی۔ اس وقت چھوٹی بیٹی (رستم کی ماں) کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ زینب نے کرسی پر رنگین پنسلوں سے بھری ڈبی رکھی ہوئی تھی۔ وہاں سے ایک پنسل اٹھاتی‘ سامنے جا کر دیوار پر لکیریں کھینچتی۔ پھر واپس آکر وہ پنسل رکھتی‘ دوسری اٹھاتی‘ پھر اس سے جا کر دیوار پر لکیریں کھینچتی۔ ہم دونوں میاں بیوی دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہے تھے‘ بیٹی خون کے گھونٹ پی رہی تھی۔ کہنے لگی: امی ابو آپ دیکھ رہے ہیں یہ دیوار کا ستیا ناس کر رہی ہے اور آپ خوش ہو رہے ہیں! ہم نے بیک آواز کہا کہ کوئی بات نہیں‘ یوں بھی دیوار پر سفیدی تو کرانی ہی ہے۔ یہ سن کر اسے اور بھی غصہ آیا مگر تلملانے کے سوا کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ اب زینب بڑی ہو کر پڑھائی میں پھنس گئی ہے۔ اب ہم رستم کو
Spoil
کر رہے ہیں اور لطف اندوز ہو رہے ہیں! میں لکھتے وقت ایک بڑی ڈِش پنسلوں‘ بال پنوں اور فاؤنٹین پنوں سے بھری ہوئی میز پر رکھتا ہوں۔ کسی کو اجازت نہیں کہ اس میں سے کچھ اٹھائے۔ مگر رستم آتا ہے تو یہ ڈش اس کا کھلونا بن جاتی ہے۔ سارے قلم زمین پر انڈیلے گا۔ پھر ڈش میں ڈالے گا۔ پھر مختلف کمروں اور کونوں میں انہیں پھیلائے گا۔ کوئی منع کرے کہ ابو کے قلم رکھ دو۔ تو ابو ہنس کر کہتے ہیں کھیلنے دو۔ اس کے جانے کے بعد گھر کے کمروں اور مختلف جگہوں سے قلم اکٹھے کرتا ہوں تو اس مشقت کا بھی اپنا مزا ہے۔ مگر یہ مزا ہر ایک کی قسمت میں نہیں! کچھ ابھی نانا دادا بنے نہیں‘ اور کچھ جو بنے ہیں اپنی افتادِ طبع کے اسیر ہیں!!
No comments:
Post a Comment