پوری دنیا میں ہم تماشا بنے ہوئے ہیں!!
ایک طرف عملی طور پر ہم بطور مسلمان ہی نہیں‘ بطور انسان بھی بدترین ہیں! ہماری تجارت بددیانتی سے عبارت ہے۔ ہم میں سے بھاری اکثریت‘ بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو جھوٹ کو جھوٹ نہیں سمجھتے! آپ کسی کا انتظار کر رہے ہیں۔ پوچھتے ہیں کہاں ہو؟ وہ گھر بیٹھا ہے مگر کہے گا کہ بس جی شیر پاؤ پُل سے گزر رہا ہوں۔ غور کیجیے! کیا اکثر ایسا نہیں ہوتا؟ وعدہ خلافی ہمارا معمول ہے۔ ملاوٹ‘ ناروا منافع خوری‘ ٹیکس چوری‘ پڑوسیوں اور اقربا کے حقوق سے غفلت‘ یہ سب برائیاں ہماری پہچان بن چکی ہیں۔ ہماری ٹریفک قانون اور انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ وقت کی پابندی حکمرانوں سے لے کر عام آدمی تک عنقا ہے۔ ہم ہر وہ کام کر رہے ہیں جس کی ہمارے مذہب نے ممانعت کی ہے اور وعید سنائی ہے۔
دوسری انتہا یہ ہے کہ ہمارے ہاں مذہبی مدارس کی تعداد کسی بھی مسلمان ملک سے زیادہ ہے۔ تبلیغی جماعت کا عالمی مرکز ہمارے ملک میں واقع ہے۔ ہر مسلک کی تبلیغی جماعتیں شہر شہر‘ گاؤں گاؤں‘ محلہ محلہ‘ گلی گلی رات دن پھر رہی ہیں۔ مسجدوں میں صبح شام قرآن پاک اور حدیث کے درس دیے اور سنے جاتے ہیں۔ جمعہ کی نماز کے لیے اس قدر نمازی ہوتے ہیں کہ مسجدوں میں جگہ نہیں ملتی۔ باپردہ خواتین اور باریش مرد اکثریت میں ہیں۔ ہر سال لاکھوں پاکستانی عمرے اور حج سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ غریب سے غریب خاندان بھی بڑی عید پر قربانی کرتا ہے۔ ہماری خواتین آئے دن آیتِ کریمہ کے حوالے سے اور میلاد کے سلسلے میں مقدس محفلیں منعقد کرتی ہیں! محرم میں ہم سینہ کوبی کرتے ہیں‘ روتے ہیں اور امام حسین علیہ السلام کے اسوہ پر چلنے کا عزم کرتے ہیں۔ حرمتِ رسول پر‘ اہلِ بیت اور صحابہ پر جان قربان کرنے کے لیے ہر پاکستانی مسلمان‘ جس مسلک کا بھی ہے‘ ہر گھڑی تیار بیٹھا ہے۔ کشمیر‘ فلسطین‘ چیچنیا اور دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے لیے ہم خون کے آنسو روتے ہیں! اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کوئی مذاق سے بھی کرے تو ملک میں ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک ٹینشن پھیل جاتی ہے۔
تیسری انتہا دیکھیے۔ عوام نے سیاسی جماعتوں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ مذہب کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے خوب خوب استعمال کریں! اگر کوئی اپنے لیڈر کے بارے میں کھلم کھلا‘ دن دہاڑے کہتا ہے کہ ''اللہ کے بعد جو ہستی ہے‘ یہی لیڈر ہے‘‘۔ تو کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ کوئی کہتا ہے کہ عمرے پر کیوں گئے ہو‘ میرا ساتھ دو۔ کوئی کہتا ہے حج پر جانے سے زیادہ ضروری اس کے لیڈر کا استقبال ہے۔ کسی پارٹی کے سٹیج سے یہ اعلان ہوتا ہے کہ دنیا میں والدین دو ہی عظیم ہیں۔ ایک آقائے دو جہاںﷺ کے والدین اور دوسرے اس پارٹی کے لیڈر کے والدین!!! اس گستاخی پر اس پارٹی کے صفِ اول کے رہنما سٹیج پر کھڑے مسکرا مسکرا کر تالیاں بجاتے ہیں۔ اہلِ مذہب سمیت پوری قوم ان دیدہ دلیریوں کو بہت آرام سے ہضم کر جاتی ہے!
مگر چوتھی طرف یہ انتہا دیکھیے اور سر پیٹیے کہ ایک خاتون کی عبایا پر ''حلوہ‘‘ کا لفظ لکھا ہے اور آن کی آن میں ہجوم اسے کلامِ پاک کی توہین قرار دے کر اس کی جان کے درپے ہو جاتا ہے۔ اسے قتل کرنے کے لیے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ خاتون پولیس افسر اپنی جان پر کھیل کر‘ اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر اسے اس خونخوار ہجوم کی وحشت سے بچاتی ہے۔ کبھی ایک بینک کا گارڈ‘ بینک کے منیجر کو ذاتی رنجش کی وجہ سے قتل کرتا ہے اور پورا شہر اسے ہیرو بنا کر جلوس نکالتا ہے۔ کبھی فیکٹری کے غیرملکی منیجر سے ذاتی بدلہ لینے کے لیے اس پر توہینِ مذہب کا الزام لگایا جاتا ہے اور بے دردی سے ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ کبھی زندہ انسانوں پر پٹرول چھڑک کر انہیں آگ میں جلایا جاتا ہے۔ کبھی لاشوں کو موٹر سائیکل کے پیچھے باندھ کر گلیوں میں گھسیٹا جاتا ہے۔ کبھی محلوں کے محلے ویران کرکے بے گناہ‘ معصوم‘ غریب پاکستانیوں کو بے گھر کر دیا جاتا ہے۔
یہ سب کیا ہے؟ جہالت ہے یا انتہا پسندی؟ یا دونوں ایک ہی چیز ہیں؟ ایک طرف سیاسی لیڈروں کی پرستش! اور وہ بھی اس حد تک کہ مقدس ہستیوں کی توہین اور اسلامی شعائر کی تخفیف برملا کی جائے! اور کوئی چُوں بھی نہ کرے! دوسری طرف مذہب کے نام پر بے جا‘ بلا جواز‘ تشدد اور قتل و غارت!! دنیا ہم پر ہنس رہی ہے۔ پہلے ہم جہالت کا مذاق اڑاتے تھے یہ کہہ کر کہ دو عرب آپس میں جھگڑ رہے تھے اور ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ رہے تھے کہ ایک پاکستانی نے‘ جو وہاں موجود سب سُن رہا تھا‘ کہا: سبحان اللہ! جھگڑتے وقت بھی مقدس کلام پڑھتے ہیں! مگر اب ہماری جہالت اتنی عام ہو چکی ہے کہ عربی حروف کو کلامِ الٰہی سمجھ کر خونریزی پر اُتر آتے ہیں! ہماری جہالت اس حقیقت سے ناآشنا ہے کہ عرب ملکوں میں ڈیڑھ‘ دو کروڑ مسیحی آباد ہیں۔ ان کی مادری زبان عربی ہے۔ یہ عربی لکھتے ہیں۔ عربی بولتے ہیں اور عربی پڑھتے ہیں۔ سب سے زیادہ مسیحی مصر میں ہیں‘ اس کے بعد لبنان میں! لبنان کے آئین کی رو سے صدر مسیحی‘ وزیر اعظم سُنّی مسلمان اور سپیکر شیعہ مسلمان ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ کے اراکین نصف مسیحی اور نصف مسلمان ہیں۔ عربی زبان کی معتبر ترین اور مقبول و مشہور لغت 'المُنجِد‘ کے مصنف دو مسیحی سکالر تھے! یہ کالم نگار اٹلی میں ایک کورس کر رہا تھا تو ایک کلاس فیلو کا نام عبداللہ تھا جو خرطوم (سوڈان) سے تھا اور مسیحی تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نام بھی ایک جیسے ہیں۔ یہاں ایک دلچسپ واقعہ یاد آرہا ہے۔ میلبورن میں جہاں میرا قیام ہوتا ہے‘ وہاں قریب ہی ایک مال ہے جہاں چائے اور کافی کی دکانیں ہیں اور سودا سلف بھی مل جاتا ہے۔ وہاں اکثر و بیشتر‘ دن کے وقت جو گارڈ نظر آتا ہے‘ اس کا تعلق مصر سے ہے۔ میں اس سے گپ شپ کے بہانے اپنی ٹوٹی پھوٹی عربی کی مشق کرتا ہوں۔ ایک دن اس سے پوچھا کہ حلال کھانا مہیا کرنے والے ریستوران اس محلے میں کون کون سے ہیں؟ اس پر اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا ''مجھے نہیں معلوم کیونکہ میں تو حرام کھاتا ہوں‘‘۔ اس کے بعد اس نے بتایا کہ وہ مصر کی مسیحی کمیونٹی سے ہے!!
صورتحال سنجیدہ غور و فکر کا تقاضا کرتی ہے۔ ہماری یونیورسٹیوں اور تھنک ٹینکس کو ریسرچ کرکے مسئلے کی تہہ تک پہنچنا ہوگا کہ اس ہجوم گردی‘ اس سفاک انتہا پسندی اور اس ہولناک تشدد کے اسباب کیا ہیں؟ اس کے بعد ریاست کا فرض ہے کہ ان اسباب پر کام کرے اور معاشرے کو نارمل بنانے کی سعی کرے! یہاں قوم کی بہادر بیٹی‘ سی ایس ایس افسر‘ سیدہ شہر بانو نقوی (اے ایس پی) کو خراجِ تحسین پیش کرنا لازم ہے جس کے بروقت ایکشن سے ملک ایک بہت بڑے سانحہ سے بچ گیا! جمیل مظہری کا یہ شعر قابلِ غور ہے:
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغِ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی
No comments:
Post a Comment