پنجابی کی کہاوت ہے ''شملے دو رکھنا بابا! گھر بھُکی زنانی اے‘‘۔ یعنی ظاہری شان و شوکت کا یہ عالم ہے کہ دستار کے دو طُرے ہیں۔ اندر حالت یہ ہے کہ بیوی بھوک کاٹ رہی ہے!
ہماری بھی کم و بیش یہی صورتحال ہے۔ ہم ایٹمی طاقت ہیں۔ اپنے آپ کو مسلم دنیا کا رہنما سمجھتے ہیں۔ کسی اوسط قابلیت والے پاکستانی سے بھی بات کیجیے تو افلاطون ابنِ افلاطون کی طرح امریکہ سے لے کر روس تک سب کو زیرو ثابت کر دے گا۔ ساتھ ہی اپنے جغرافیائی محل وقوع پر ناز ہے کہ امریکہ‘ چین اور روس سب کے لیے ہم اہم ہیں! مگر اقتصادی اور معاشرتی اشارے ہمارا کچا چٹھا کھول دیتے ہیں۔ ہماری جھونپڑی کے اندر وہی حال ہے جو کسی بھکاری کا ہوتا ہے۔ چیتھڑے‘ مانگے ہوئے روٹی کے ٹکڑے‘ وہ بھی سوکھے ہوئے! ٹوٹا ہوا مٹی کا پیالہ پانی پینے کے لیے! سیلاب روکنے کے لیے ہم کوئی پالیسی نہ وضع کر سکے۔ بجلی کی پیداوار ہمارے لیے ناممکن ہے۔ یہ ایسی ہڈی ہے جو گلے میں پھنسی ہوئی ہے۔ ٹریفک کا نظام ہمارا بدترین ہے بلکہ ٹریفک کا نظام وجود ہی نہیں رکھتا۔ شاہراہوں پر ہلاکتیں دوسرے ملکوں کی نسبت بہت زیادہ ہیں۔ ہماری حکومتوں میں اتنی صلاحیت نہیں کہ قومی ایئر لائن ہی کو بیچ سکیں۔ اب تو اس کی حیثیت ایک مردہ ڈھانچے سے زیادہ نہیں۔ سٹیل مل ایک دوسرا سفید ہاتھی ہے۔ اسی طرح دیگر شعبوں کے حالات بھی ناگفتہ بہ ہیں۔ مگر اس وقت ہم ان تازہ ترین اعداد و شمار کا ماتم کرنا چاہتے ہیں جو سکول سے محروم بچوں کے حوالے سے ظاہر ہوئے ہیں!
تارہ ترین اطلاع کے مطابق اس وقت 28ملین یعنی دو کروڑ اسی لاکھ بچے‘ جنہیں سکول میں ہونا چاہیے‘ سکول سے باہر ہیں۔ بظاہر ہر سال ہم خواندگی کی شرح پہلے کی نسبت بڑھا چڑھا کر بتاتے ہیں مگر اس میں بھی بہت جھول ہیں۔ یہی طے نہیں کہ خواندہ ہونے کی شرط کیا ہے؟ صرف دستخط کر سکنا یا کم از کم خط لکھ پڑھ لینا؟؟ اعداد و شمار بھی ہمارے قابلِ اعتبار نہیں ہوتے۔ جس ملک میں سماجی پسماندگی کا یہ عالم ہو کہ گھر کی خواتین کی تعداد یا ان کی تعلیم کے بارے میں سوال پوچھا جائے تو مسئلہ غیرت کا بن جاتا ہے اور جہاں ووٹ ڈالنے کے لیے عورتوں کا باہر نکلنا بھی مشکل ہوتا ہے وہاں اعداد و شمار کی صحت کیا اور صداقت کیا؟
تاہم اعداد و شمار کی ایک صورت وہ بھی ہے جس کے لیے ہمیں سرکاری ذرائع کی ضرورت ہے نہ وزارتِ تعلیم کے مؤقف کی! کیا ہم نہیں جانتے کہ ہر تیسرے یا چوتھے گھر میں کوئی بچہ یا بچی ملازمت کر رہی ہے؟ وزارتِ تعلیم کو پہلے تو یہ جاننا چاہیے کہ کتنے بچے اس وقت گھروں کے اندر نوکر یا نوکرانی کے طور پر کام کر رہے ہیں؟ کتنے بچے ریستورانوں میں برتن مانجھ رہے ہیں؟ حیدر آباد سے لے کر گلگت تک‘ کراچی سے لے کر پشاور تک اور کوئٹہ سے لے کر مری اور ایبٹ آباد تک کتنے بچے ڈھابوں میں مشقت کر رہے ہیں؟ یہ جو سائیکلو ں اور موٹر سائیکلوں کی مرمت کی دکانیں ہیں اور کاروں‘ ویگنوں‘ بسوں اور ٹرکوں کی ورکشاپیں ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں ہیں‘ ان میں کتنے ''چھوٹے‘‘ کام کر رہے ہیں؟ اس پہلو کو بھی سر دست نظر انداز کر دیجیے کہ ان چھوٹوں کے ساتھ ورکشاپوں کے استاد اور ان کے نوجوان شاگرد کیا سلوک کرتے ہیں! یہ تعداد جو ہم ہر روز دیکھتے ہیں‘ دو کروڑ اسی لاکھ سے کہیں زیادہ ہے! لاکھوں تو ہاریوں اور مزارعوں کے بے بس‘ بے کس بچے ہیں جو چودھریوں‘ سرداروں اور جاگیرداروں کے ڈیروں پر اور حویلیوں میں حقے تازہ کرتے ہیں اور بات بات پر چانٹے اور لاتیں کھاتے ہیں۔ ہزاروں لاکھوں بچے چرواہے ہیں!پھر معاملہ اتنا آسان بھی نہیں کہ ریاست ان بچوں کو بزور اٹھائے اور سکولوں میں ڈال دے۔ ان میں سے ہر بچہ ایک کہانی ہے اور ہر کہانی رُلا دینے والی ہے۔ یہ ہمارے سوشل سسٹم کا مسئلہ ہے اور اقتصادی ناہمواریوں کا بھی! کتنے ہی بچے ہیں جو مزدوری کرکے اپنی بیوہ ماؤں اور بے آسرا بہنوں کی کفالت کر رہے ہیں۔ یہ ان گھروں کے بچے ہیں جہاں مائیں بھی دوسروں کے گھروں میں برتن اور کپڑے دھوتی ہیں۔ باپ بھی چوکیدار ہیں یا دیہاڑی دار مزدور! اس ساری صورتحال میں ریاست بھی ملوث ہے اور سوسائٹی بھی ! اہلِ ثروت بھی اور اربابِ اختیار بھی! ساتھ ہی مائنڈ سیٹ کا بھی جنجال ہے کہ پڑھ لکھ کر بھی نوکری کرنی ہے تو بچہ ابھی سے کیوں نہ نوکری کرنے لگے!!
اگر مان بھی لیں کہ سکول سے باہر رہنے والے بچے دو کروڑ اسی لاکھ ہی ہیں تو پھر بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کے حقوق غصب کرنے والے کون ہیں؟ ظاہر ہے کہ ان کے قلاش ماں باپ کی کفالت کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ تبھی تو یہ بچے برتن مانجھنے اور پنکچر لگانے کے بجائے سکولوں میں جا سکیں گے! بظاہر ان کے حقوق کی غاصب ریاست ہی ہے۔ مگر ریاست کمزور ہے۔ اصل غاصب وہ ہیں جو ریاست کے گلے پر پاؤں رکھ کر اپنا اُلو سیدھا کر رہے ہیں! حاضر سروس امرا و عمائدین کو تو چھوڑ دیجیے‘ ذرا تصور کیجیے کتنے گردن بلند ہیں‘ جو ریٹائر ہو کر بھی اس مقروض اور مقہور معیشت کو جونکوں کی طرح چوس رہے ہیں! ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سرکاری گاڑی‘ سرکاری پروٹوکول‘ سرکاری سٹاف‘ سرکاری ڈرائیور‘ سرکاری باورچی‘ سرکاری پٹرول‘ سرکاری بجلی‘ سرکاری گیس!! ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ڈوبتی ہوئی قومی ایئر لائن کی ٹکٹوں پر ڈسکاؤنٹ!! ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ٹرین کا مفت یا رعایتی ٹکٹ‘ نہ صرف اپنا بلکہ خاندان بھر کا!! یہ طفیلی‘ یہ آکاش بیلیں‘ یہ
Parasites
جب تک پیرانِ تسمہ پا کی طرح قوم کی گردن پر سوار رہیں گے‘ سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد بڑھ تو سکتی ہے‘ گھٹ نہیں سکتی!! ملک ان غیرمستحقین کو کب تک پالتا رہے گا؟ کیا ہمارے حکمرانوں نے کبھی یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ بھارت میں عام آدمی پارٹی کا سربراہ اروند کجریوال کس طرح دہلی کے تمام باشندوں کو دو سو یونٹ بجلی مفت بہم پہنچا رہا ہے؟ اب اس پارٹی کی حکومت پنجاب میں بھی آگئی ہے۔ وہاں بھی ایسا ہی کر رہے ہیں! کیوں؟ اس لیے کہ عیاشیاں ختم کر دی ہیں۔ ایک ایک پیسہ بچا رہے ہیں۔ اس لیے کہ کجریوال کے پاؤں میں ہوائی چپل ہوتی ہے اور جسم پر ایک ڈھیلی ڈھالی عام سی بُشرٹ اور پتلون!! ہمارے اہلِ سیاست اقتدار سنبھالتے ہیں تو قیمتی سوٹوں اور مہنگی ریشمی نکٹائیوں کی بہار آجاتی ہے!! جس سادگی کی مثالیں ہم خلفائے راشدین کی زندگیوں سے دیتے ہیں‘ وہ سادگی آج غیر مسلم قوموں کے حکمرانوں نے اپنائی ہوئی ہے! یہ غیر مسلم حکمران عام شہریوں کی طرح رہتے ہیں مگر رات دن اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ راحت پہنچائیں! صرف اس ایک بات پر غور کیجیے کہ امریکہ اور دیگر فلاحی ریاستوں میں غیرملکی سربراہ اور دفود آتے ہیں تو ان کی خاطر تواضع انتہائی سادگی سے کی جاتی ہے۔ اور یہ سب امیر ممالک ہیں۔ دوسری طرف ہم ہیں جو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرض پر قرض لے رہے ہیں اور غیرملکی سرکاری مہمان آئیں تو توازن اور ہوش دونوں کھو بیٹھتے ہیں۔ ڈشوں کی تعداد گننے میں نہیں آتی۔ پکوانوں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔ یہ سارا بوجھ سرکاری خزانہ اٹھاتا ہے۔ شاید اس لیے کہ ہم پیٹ‘ معدے اور کھانے سے ماورا کچھ سوچ ہی نہیں سکتے!!
ایک صاحب سُوپ پی رہے تھے۔ سُوپ تھا کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ اس لیے کہ چھت ٹپک رہی تھی اور پانی سوپ میں گر رہا تھا۔ ہماری آبادی جتنی بڑھ رہی ہے‘ سکول سے باہر رہنے والے بچوں کی تعداد بھی برابر بڑھ رہی ہے اور بڑھتی رہے گی اس لیے کہ چھت تو نہیں ٹپک رہی مگر سرحدیں ضرور ٹپک رہی ہیں! لاکھوں غیر ملکی آتے ہیں‘ واپس جانے کا نام نہیں لیتے اور مسلسل آئے جا رہے ہیں!!!
No comments:
Post a Comment