ہائی کورٹ کے جج صاحب نے حکام بالا کو درخواست دی کہ ان کا تبادلہ کہیں اور کر دیا جائے۔ وجہ انہوں نے یہ پیش کی کہ ان کی بیٹی وکالت شروع کر رہی ہے اور بطور وکیل اسی عدالت میں پیش ہوا کرے گی۔ یہ مناسب نہیں کہ باپ جہاں جج ہو بیٹی وہیں وکیل ہو۔ یہ مفادات کا ٹکراؤ ہوگا!
آپ کا کیا خیال ہے یہ واقعہ کہاں کا ہے؟ ہمارے کسی صوبے کی ہائی کورٹ کا؟ نہیں! یہ واقعہ آپ کے شریکوں کا ہے۔
مدھیہ پردیش وسطی بھارت کی ریاست ہے۔ بھوپال اس کا دارالحکومت ہے اور اِندور اس ریاست کا سب سے بڑا شہر! مشہور شاعر‘ راحت اندوری مرحوم‘ جو مشاعرے لُوٹ لیتے تھے‘ اسی اِندور کے تھے۔ یہ شعر انہی کا ہے ؛
جو آج صاحبِ مسند ہیں‘ کل نہیں ہوں گے
کرایہ دار ہیں‘ اپنا مکان تھوڑی ہے
گوالیار کا مشہورِ عالم شہر بھی مدھیہ پردیش ہی میں ہے۔ یہ وہی شہر ہے جس کے بدنام زمانہ قلعہ میں ہمارے مغل بادشاہ اپنے بھائیوں‘ بیٹوں‘ بھتیجوں اور دیگر مخالفین کو قید کرتے تھے۔ اٹل سری دھرن‘ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے جج تھے۔ حال ہی میں وہ مجاز حکام کی خدمت میں درخواست گزار ہوئے کہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ سے ان کا تبادلہ کر دیا جائے۔ ان کی بڑی بیٹی بطور وکیل ان کے سامنے پیش ہو تو یہ بات انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہو گی؛ چنانچہ انہیں مدھیہ پردیش سے جموں کشمیر ہائیکورٹ میں بھیج دیا گیا ہے!
کیا ہمارے ہاں ایسی کوئی مثال موجود ہے؟ مفادات کا ٹکراؤ (conflict of interest) یہ کس چڑیا کا نام ہے؟ یہ چڑیا ہمارے ملک میں پائی ہی نہیں جاتی! بڑے میاں صاحب وزیراعظم تھے تو ان کا بھائی صوبے کا حکمران تھا۔ ماشاء اللہ سرکاری دوروں پر بھائی صاحب ساتھ ہوتے تھے۔ باقی صوبوں کے چیف منسٹر وں کو گھاس نہیں ڈالی جاتی تھی۔ اب چھوٹے میاں صاحب کے وزیراعظم ہوتے ہوئے ان کے صاحبزادے صوبے کے وزیراعلیٰ بن گئے۔ کون سے مفادات اور کون ساٹکراؤ!!! عمران خان صاحب حکمران بنے تو اس روش سے ایک انچ ادھر اُدھر نہیں ہٹے! دوست نوازی کی! خوب کی اور ڈنکے کی چوٹ پر کی۔ یوٹیلٹی سٹور کارپوریشن تھی یا سیاحت کا محکمہ‘ سب دوستوں کی جھولی میں ڈال دیے۔ گجر صاحب وزیراعلیٰ کے دفتر میں بیٹھ کر پولیس کے اعلیٰ افسروں سے جواب طلبی کرتے تھے۔ تفصیلات اور بھی ہیں مگر رونے پیٹنے سے کیا حاصل! صرف میاں صاحبان یا عمران خان کی حکومت میں ایسا نہیں ہوا‘ ہر حکومت میں ایسا ہوا۔ ہر ادارے میں ایسا ہوا اور ہر محکمے میں ایسا ہوا! سعدی نے کہا تھا کہ بادشاہ کسی کے باغ سے ایک سیب ناجائز توڑے تو اس کے ماتحت پورا باغ لوٹ لیتے ہیں! جب وزرا اعظم بھائی کو اور بیٹے کو اور بیٹی کو اور دوستوں کو مناصب سے نوازیں گے تو نیچے سب افسر اور اہلکار اور منصب دار اور عمائدین بھی تو یہی کچھ کریں گے! کسی سے سنا ہے‘ نجانے یہ روایت صحیح ہے یا نہیں‘ کہ جب ایئر مارشل اصغر خان پی آئی اے کے سربراہ بنے تو ان کے بھائی پی آئی اے ہی میں کسی اہم عہدے پر تعینات تھے‘ ایئر مارشل نے انہیں وہاں سے ہٹا دیا۔ یہ روایت درست ہے یا نہیں‘ بہر طور یہ حقیقت ہے کہ پاکستان بننے کے بعد ہمارے حکمران اور منصب دار اصول پسند تھے اور دیانت کا دور دورہ تھا۔ قائداعظم آخری ایام میں زیارت میں تھے۔ جو نرس ان کی دیکھ بھال کر رہی تھی اس نے عرض کیا کہ اس کی ٹرانسفر فلاں شہرمیں کرا دیں۔ قائد کا جواب تھا کہ یہ متعلقہ محکمے کا کام ہے جس میں وہ مداخلت نہیں کریں گے! اگر حکمران اس اصول پرکاربند رہتے تو آج ہمارے حالات مختلف ہوتے!
بیٹی وکیل بنی تو مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے جج نے اپنا تبادلہ کرا لیا۔ ہم جنہیں حقارت سے '' لالے‘‘ کہتے تھے‘ وہ لالے ہم سے ہر میدان میں بازی لے گئے۔ ہمارے ریلوے کے وزیر نے حادثے کے بعد کہا تھا کہ میں کیوں استعفیٰ دوں؟ میں کوئی ڈرائیور تھا؟ لال بہادر شاستری 1951ء سے لے کر 1956ء تک بھارت کا ریلوے منسٹر تھا۔ بارشیں اس قدر زیادہ ہوئیں کہ پانی ریلوے لائنوں تک پہنچ گیا۔ ٹرین کو حادثہ پیش آیا۔ کچھ مسافر ہلاک ہو گئے۔ سارے بھارت کو معلوم تھا کہ حادثہ آسمانی آفت کے سبب پیش آیا ہے مگر شاستری نے استعفیٰ دے دیا!
1999ء میں ریل کا حادثہ ہوا تو اُس وقت کے ریلوے وزیر نتیش کمار نے استعفیٰ دے دیا۔ 2017ء میں سریش پرابھو نے ریلوے وزیر کی حیثیت سے استعفیٰ دے دیا۔ اس نے حادثے کی اخلاقی ذمہ داری اپنے سر لی۔ کیا ہمارے ہاں ایسی ایک نظیر بھی پائی جاتی ہے؟
گنجان شہروں میں زیرِ زمین ریلوے کے حوالے سے بھارت ہم سے کہیں آگے ہے۔ اس کے پندرہ شہروں میں میٹرو ریل سسٹم کار فرماہے۔ کولکتہ‘ دہلی‘ چنائی‘ حیدرآباد‘ جے پور‘ احمد آباد‘ ممبئی‘ لکھنؤ‘ ناگپور‘ کانپور‘ پونے ان میں سے چند ہیں! بنگلہ دیش کی بھی سن لیجیے۔ چٹاگانگ اور ڈھاکہ کے درمیان بلٹ ٹرین چلانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ 2027ء تک دیناج پور کو بلٹ ٹرین کے ذریعے ڈھاکہ سے ملانے کا منصوبہ ہے۔ دیناج پور‘ بنگلہ دیش کا شمال مغربی شہر ہے جو بھارتی سرحد کے قریب ہے۔ ہمارا حال تو انجمؔ رومانی کے بقول یہ ہو گیا ہے کہ:
انجمؔ غریبِ شہر تھے‘ اب تک اسیر ہیں
سارے ضمانتوں پہ رہا کر دیے گئے
یہ یورپ یا امریکہ یا جاپان کی مثالیں نہیں۔ یہ ہمارے ہی ساتھ کے لوگ ہیں۔ بھارتی بھی! بنگلہ دیشی بھی! وہی رنگ‘ وہی خوراک‘ وہی پس منظر‘ وہی سماج! مگر ایک سسٹم انہوں نے بنا لیا۔ حسینہ واجد معیشت سے متعلق اجلاس ہو تو سات سات آٹھ آٹھ گھنٹے اجلاس میں بیٹھتی ہیں! مودی پاکستان کے لیے اور بھارتی مسلمانوں کے لیے ایذا رساں ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ شدید محنتی ہے۔ دنیا بھر کی کمپنیوں کو بھارت میں لا رہا ہے۔ مڈل کلاس کا سائز وہاں تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ آئی ٹی سیکٹر‘ پوری دنیا کا‘ ان کی مٹھی میں ہے۔ بنگلور‘ چنائی اور حیدر آباد اربوں نہیں‘ کھربوں کما رہے ہیں!
ایک شے ہے پالیسیوں کا تسلسل جو ترقی کی بنیادی ضرورت ہے! ہمارے ہاں جو حکومت آتی ہے‘ از سرِ نو‘ الف سے شروع کرتی ہے۔ شہباز شریف آئے تو پرویز الٰہی کے منصوبے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیے۔ عمران خان آئے تو شریفوں کے چلتے ہوئے منصوبے روک دیے۔ اب شہباز شریف تشریف لائے ہیں تو عمران خان کے دور کے پروگرام سرد مہری کی نذر ہو گئے! اتنی منتقم مزاجی‘ اتنا Vendettaتو سسلی والوں کے مافیا میں بھی نہ تھا! ہر ایک کی اَنا گنے کا رس پی کر‘ سانپ کی طرح‘ پھن لہرائے کھڑی ہے! بھٹو صاحب 1973ء کی نام نہاد سروس اصلاحات میں بیورو کریسی کو آئینی حفاظت سے محروم کر گئے۔ بیورو کریسی کو آئینی حفاظت میسر ہوتی تو وہ اہلِ سیاست کی چیرہ دستیوں کے سامنے کسی حد تک بند باندھ سکتی تھی۔ اب اس کی حیثیت کنیز سے زیادہ نہیں! اب وہ یس سر سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتی! گزشتہ حکومت میں وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری صاحب جو کچھ کرتے رہے‘ اسے دیکھ کر یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ افسر شاہی کا تعمیری اور مثبت کردار مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ صوبوں کے درمیان ہم آہنگی مفقودہے۔ وفاق اپنی کھال بچانے میں لگا ہے! کوئی طوائف الملوکی سی طوائف الملوکی ہے! دل کے پھپھولے ہیں اور سینے کے داغ! وہی پرانا شعر ماتم بن کر پھر سینہ زن ہے:
وہ شاخِ گُل پہ زمزموں کی دُھن تراشتے رہے
نشیمنوں سے بجلیوں کا کارواں گذر گیا
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment