Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, February 09, 2023

ڈاکٹر شاذیہ خالد سے مشتاق رضوی تک


ہجوم بہت تھا۔ وقت کم تھا۔ مدعی شور مچا رہے تھے! فرشتہ جواب مانگ رہا تھا۔ جنرل صاحب ، اپنے سینیر ، بریگیڈیر صاحب کو تلاش کر رہے تھے۔ بریگیڈیر صاحب کہیں دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ جنرل  صاحب نے فرشتے کی خوشامد کی کہ تھوڑا سا وقت اور دے دے!

 مدعی درجنوں کی تعداد میں تھے۔ یہ سب وفاقی  محکمۂ تعلیم  کے اساتذہ اور افسران تھے!  جنرل صاحب نے ، جب وہ صدر مملکت تھے، ایک ریٹائرڈ بریگیڈیر  کو   وفاقی محکمۂ تعلیم کا سربراہ  تعینات کر دیا۔ ریٹائرڈ فوجی افسر کا اس سے کوئی تعلق نہ تھا! حق اس پوسٹ پر اُن اساتذہ اور ان افسروں کا تھا جنہوں نے عمریں اس محکمے میں لگا دی تھیں۔ یہ وفاقی محکمۂ تعلیم کی،  سب سے بڑی پوسٹ تھی۔  لوگوں نے سمجھا چلو ریٹائرڈ بریگیڈیر ہیں ! ایک آدھ سال میں چلے جائیں گے! مگر سال ختم ہؤا تو ان کی ایک سال کی توسیع کر دی گئی! اب تو وہ جو حقدار تھے، پریشان ہونے لگے۔ کچھ عدالتوں میں گئے۔ کچھ مصلوں پر بیٹھ کر دعائیں مانگنے لگے! کچھ نے جھولیاں اٹھا اٹھا کر بد دعائیں دیں! دوسرا سال ختم ہؤا تو مزید ایک برس کی توسیع دے دی گئی۔ عام روایت یہی تھی کہ بریگیڈیر صاحب ، جنرل صاحب کے سینیر اور شاید  استاد بھی تھے۔   ایک توسیع ، غالبا” ، چوہدری صاحب سے بھی ، جب وہ وزیر اعظم تھے، دلوائی گئی، مجموعی طور پر  پانچ بار توسیع ملی۔ اس عرصہ میں کتنے ہی حقدار ریٹائر ہو گئے! کتنے ہی عدالتوں  میں جوتے چٹخاتے رہ گئے۔  کتنے ہی مر گئے۔

اب جب صور پھُنکا تو یہ متاثرین دوڑے دوڑے آئے اور جنرل صاحب کے درپے ہو گئے۔  جنرل صاحب کو  بتایا گیا کہ اگر کائنات کی اس سب سے بڑی عدالت کو مطمئن نہ کیا گیا تو سزا سنادی جائے گی۔ جنرل صاحب کی نیکیاں ان لوگوں کے کھاتے میں ڈال دی جائیں گی اور ان مدعیان کے گناہ جنرل صاحب کے تھیلے میں انڈیل دیے جائیں گے۔ جنرل صاحب نے مہلت مانگی جو مل گئی۔ آخر بریگیڈیر صاحب نظر آگئے۔جنرل صاحب نے ان سے کہا کہ آپ کی وجہ سے میں پکڑا گیا! اب آپ  اپنی کچھ نیکیاں ان متاثرین کو دیجیے۔  میں نے تو سب کچھ آپ کے لیے کیا تھا! بریگیڈیر صاحب یہ سن کر  ایک سفاک ہنسی ہنسے۔ کہنے لگے، وہ تو آپ کا اپنا فعل تھا! نہ تعینات کرتے مجھے! میں اپنے کیے کا حساب دوں یا آپ کے کیے کا ؟ یہ کہا بریگیڈیر صاحب نے اور ایک فرشتہ بریگیڈیر صاحب کو پکڑ کر ایک جانب چل دیا!  جنرل صاحب کی بہت سی  نیکیاں ان سے لے لی گئیں! 

 پاکستان میں ایک محکمہ ہے پوسٹ آفس کا۔ اس کے افسران مقابلے کا امتحان پاس کر کے آتے ہیں۔تیس پینتیس سال کی سروس اور محنت کے بعد وہ اس محکمے کے سربراہ لگتے ہیں۔ یعنی چئیرمین اور ڈائرکٹر جنرل!  جنرل صاحب نے یہاں بھی اپنے ایک دوست کو ، جو فوج سے ریٹائرڈ تھے، لگا دیا۔ ان کا اس محکمے سے، اس کے کام سے، دور کا تعلق بھی نہ تھا۔ یعنی جو ایک ہی اعلی گریڈ کی پوسٹ تھی، وہ بھی حقداروں سے لے لی! جن کی باری تھی، سربراہ بننے کی ، وہ آرزو اور حسرت اور تپش اور ارمان لے کر گھروں کو چل دیے۔ آج وہ بھی آ موجود ہوئے اور گریبان گیر ہونے  لگے۔ جس دوست کو اس منصب پر لگا کر دوست نوازی کی تھی،  اس نے پہچاننے سے ہی انکار کر دیا۔ باقی نیکیاں جنرل صاحب کی جو بچی تھیں ،  لے کر ان مدعیوں کے  تھیلوں میں ڈال دی گئیں ! 

ابھی یہ لوگ گئے ہی تھے کہ مشتاق رضوی آگئے اور آتے ہی گریبان سے پکڑ کر ایک طرف   کو گھسیٹنے لگے! مشتاق رضوی  کے ساتھ جو کچھ ہؤا تھا اس کا نوٹس پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے بھی لیا تھا۔ مشتاق رضوی کی بیوہ نے   پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے  سامنے  بیٹھ کر دہائی دی تھی اور روئی تھی اور اُس ظلم پر فریاد کی تھی جو اس کے میاں پر ڈھایا گیا تھا۔  یہ ایک  وا قعہ ہی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ پرویز مشرف اپنے آپ کو ہر  قانون، ہر عدالت، ہر اصول، ہر ضابطے اور ہر منطق سے ماورا سمجھتے تھے۔  وہ تکبر کی انتہا کو کراس کر گئے تھے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ انڈونیشیا کے پاکستانی سفارت خانے میں انہوں نے اپنے ایک دوست کو سفیر لگا دیا۔ اس دوست کا اس پوسٹ پر کوئی حق  تھا نہ ہی وہ اس کا اہل تھا۔ جنرل صاحب کو کون بتاتا کہ ظلم کی اصل تعریف ہی یہ ہے کہ  “ وضع الشئ فی غیر محلہٖ “۔ کسی شے کو وہاں رکھنا جہاں اس کی جگہ نہ ہو۔  جو جس منصب کا اہل نہ ہو اسے اس منصب پر لگانا  ظلم ہے اور بدترین دوست نوازی! سفیر کے نیچے مشتاق رضوی  تعینات تھے جو فارن سروس کے سینیر اور تجربہ کار افسر تھے۔ سفیر نے سفارت خانے  کی عمارت کو  جو  حکومت پاکستان کی ملکیت تھی،  بیچ دیا اور انتہائی غلط اور غیر قانونی طریقے سے بیچا۔ وزارت خارجہ سے پوچھا نہ حکومت پاکستان سے۔ سودا بھی شفاف نہ تھا۔ مشتاق رضوی نے اس   ڈاکے کے بارے میں وزارت خارجہ کو اطلاع دے دی! بس یہ قصور تھا مشتاق رضوی کا! پرویز مشرف نے انہیں معطل کر دیا!   پھر انہیں وزارت خارجہ سے نکال کر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ساتھ نتھی کر دیا۔ ایسا پہلی بار ہؤا۔ مشتاق رضوی کے سات آٹھ سال سروس کے باقی تھے۔ یہ سارا عرصہ ان کا بغیر کسی دفتر کے ، بغیر کسی تعیناتی کے گذرا۔ وہ ایک قابل اور دیانت دار افسر تھے ۔ بہت اوپر تک جاتے، فارن  سیکرٹری  بننے کے اہل تھے۔ مگر گھر بیٹھے ریٹائر ہو گئے۔ ان کی عرضی تک اوپر کوئی نہیں بھیجتا تھا۔    اسی صدمے سے دل کا دورہ پڑا اور چل بسے! اس ظلم کو چھپانے کے لیے  تین افسروں پر مشتمل  انکؤاری  کمیٹی کو انڈو نیشیا بھیجا گیا۔ کمیٹی  نے وہی کیا جو صاحب اقتدار چاہتا تھا!  
مشتاق رضوی کا استغاثہ مضبوط تھا! فرشتوں نے اس کے گناہ اس کے تھیلے سے نکالے اور سابق صدر مملکت کے تھیلے میں ڈال دیے!  اب تھیلا کافی بھاری ہو گیا۔ کمر جھُک گئی! 

بہت کچھ اور بھی ہے !  سفیرِ افغانستان مُلّا عبد السلام ضعیف کو کس طرح برہنہ کر کے امریکیوں کے حوالے کیا گیا! لال مسجد کی خونریزی سے بچا جا سکتا تھا مگر خون کے دریا بہا دیے! اکبر بگتی کو مار دیا گیا! وہ ایک محب وطن سردار تھا!  الطاف حسین نے بھارت میں پاکستان کے خلاف زہر بکھیرا اور اس کے دجود کو چیلنج کیا۔ جب دہلی میں  پاکستانی سفارت خانہ غم میں ڈوبا ہؤا تھا تو اسے حکم پہنچا کہ الطاف حسین کو سرکاری عشائیہ دیا جائے!   بے نظیر بھٹو کی جائے قتل کو چند گھنٹوں کے اندر اندر دھو دیا گیا۔یہ سب کچھ ایک طرف اور ڈاکٹر شاذیہ خالد کا معاملہ ایک طرف! پاکستان کی اس بیٹی کی آبرو ریزی کی گئی۔ ملزم کے بارے میں جنرل پرویز مشرف نے ٹیلی ویژن پر آکر کہا کہ وہ بے گناہ ہے!  کوئی تفتیش نہ انکؤاری! ڈاکٹر شاذیہ کو ڈرایا دھمکایا گیا۔ نظر بند کر دیا گیا۔ پھر زبردستی باہر بھیج دیا گیا! بی بی سی پر جو انٹرویو ڈاکٹر شاذیہ نے  بعد میں بیرون ملک سے دیا اس میں انہوں نے بتایا کہ انہیں باہر بھیجنے میں ایک ٹی وی اینکر   اور نیوز آن لائن کے اُس وقت کے ایک ڈائرکٹر کا کردار بھی تھا ! ڈاکٹر شاذیہ خالد کا کیس بہت درد ناک ہے ۔انٹرنیٹ پر اس کی لرزہ خیز ، مہیب ،  تفصیلات موجود ہیں ! پرویز مشرف صاحب نے جو ظلم ڈھائے ان میں سیاہ ترین ظلم شاید یہی ہے !

………………………………………………………………………………………………

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com