تو پھر کرکٹ کا میچ بھی نہ ہو کہ دہشت گردی کا خطرہ ہے!
دہشت گردی کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا عوام ذمہ دار ہیں؟ اسّی ہزار غیر ملکی۔۔۔۔ مسلّح غیر ملکی۔۔۔۔ صوبائی دارالحکومت میں بس گئے۔ حکومت دیکھتی رہی۔ تو پھر کیا عوام اس لیے کرکٹ کو طلاق دے دیں کہ حکومت اپنے فرائض سرانجام نہیں دے رہی؟
فیروز والہ منشیات کا مرکز بن چکا ہے۔ حکومت بے خبر ہے۔ تو پھر سزا عوام کاٹیں؟
دہشت گردی اس وقت تک رہے گی جب تک انحصار فوجی ایکشن پر ہے اور سول ادارے نااہلی اور کرپشن کا گڑھ ہیں۔ یہ دہشت گردی پانچ سال بھی رہ سکتی ہے اور یہی لچھن رہے تو خدانخواستہ بیس برس بھی رہ سکتی ہے تو پھر کیا بیس برس کرکٹ کے میچ نہیں ہوں گے؟
اس سے بڑھ کر حکومتوں کی نااہلی کیا ہو گی کہ ہزاروں نہیں لاکھوں غیر ملکی ملک کے اطراف و اکناف میں جائدادیں خرید کر اور کاروبار پھیلا کر بے خوف و خطر بیٹھے ہیں اور حکومت کو ہوش ہی نہیں! لاکھوں تعلیمی اداروں کی اقامت گاہوں میں حکومت کا نہ ہی ریاست کا عمل دخل ہے کہ راتوں کو وہاں کون قیام کرتا ہے۔ جس حکومت کے بس میں اتنا نہ ہو کہ وہ یونیورسٹیوں کے کیمپوں اور ہوسٹلوں کو سیاسی پارٹیوں کا مرکز نہ بننے دے‘ وہ حکومت دہشت گردی سے کیا لڑے گی؟ تو پھر کیا اس لامتناہی نااہلیت کا جرم عوام بھگتتے رہیں گے؟
رہی یہ دلیل کہ کرفیو لگا کر تو شام اور عراق میں بھی میچ کھیلا جا سکتا ہے تو یہ ایک بودی دلیل ہے ؎
پائے استدلالیاں چوبیں بود
پائے چوبیں سخت بے تمکیں بود
دلیلیں لانے والوں کا پائوں لکڑی کا ہوتا ہے اور لکڑی کا پائوں سخت کمزور اور بے وقعت ہوتا ہے۔
میچ کی مخالفت کر کے آپ ایک بار پھر ان کی ہم نوائی کر رہے ہیں جنہوں نے مذاکرات میں آپ کو اپنا نمائندہ نامزد کیا تھا‘ جن کے خلاف سوات میں آرمی ایکشن ہوا‘ تو آپ نے مخالفت کی اور جنہیں آپ اپنے صوبے میں دفاتر مہیا کرنے چاہتے تھے۔ کوئی برا مانے یا پائوں زور سے زمین پر مارے، سچ یہ ہے کہ دہشت گردوں اور دہشت گردی کے بارے میں عمران خان کے تصورات
(Concepts)
ابہام کا شکار ہیں۔ وہ سخت لاعلمی میں گھرے ہیں۔ تیس کروڑ روپے ایسے مدرسہ کو دیے جس کے سربراہ بابائے طالبان کہلاتے ہیں اور لکڑی کی دلیل یہ دی گئی کہ مدارس کو مین سٹریم میں لائیں گے۔ آج تک خان صاحب اس سوال کا جواب نہیں دے سکے کہ مین سٹریم سے ان کی کیا مراد ہے؟ اس کی تعریف ہی کر دیتے! اور پھر ایک خاص مدرسہ کا انتخاب! ایک خاص مسلک کے مدرسہ کا انتخاب! کس کو بے وقوف بنا رہے ہیں آپ؟ عوام تو بننے سے رہے!
یہی تو دہشت گرد چاہتے ہیں کہ عوام نفسیاتی طور پر ٹوٹ جائیں۔ شکست و ریخت کا شکار ہو جائیں۔ یاس کی چادر پورے ملک پر تن جائے اور قائد اعظم کو آج بھی جناح صاحب کہنے والوں کی باچھیں کِھل جائیں! ’’مین سٹریم‘‘ کی تسبیح کرنے والے عمران خان صاحب صرف اتنا ہی کر دکھائیں کہ جس تعلیمی ادارے کو تیس کروڑ کی خطیر رقم عوام کے خون پسینے کی کمائی سے مہیا کی ہے‘ وہاں کے نصاب میں ایک باب قائد اعظم کے حالات پر شامل کرا دیں! کبھی نہیں کرا سکیں گے!
اس سے پہلے بسنت پر پابندی لگا دی گئی۔ اس لیے کہ لوگوں کے گلے کٹتے ہیں۔ تو پھر گاڑیوں پر پابندی لگا دیجیے کہ حادثات ہوتے ہیں! ہسپتالوں کو ختم کر دیجیے کہ یہاں مریض مر جاتے ہیں۔ ہوائی سفر کرنے والے کو حوالہ زنداں کر دیجیے کہ جہاز تو گر پڑتے ہیں! ارے بھائی! گلے کٹتے ہیں تو حکومت کا کیا کردار ہے؟ پولیس کے ہزاروں نوجوانوں کو شاہی محلات کی حفاظت سے ہٹا کر یہ ڈیوٹی دیجیے کہ وہ قاتل ڈور تیار کرنے والوں کو پکڑیں۔ ٹوپی چھوٹی ہو تو سر کاٹ کر چھوٹا نہیں کرتے بلکہ ٹوپی کو بڑا کرتے ہیں۔
شام اور عراق سے تشبیہ دنیا ہی غلط ہے۔ الحمد للہ پاکستان کے پاس جو مسلح افواج ہیں‘ ان کا شام اور عراق میں تصوّر ہی نہیں! ہاں اگر یہ بات مان لی جائے کہ فوج کوئی ایکشن نہ کرے اور اگر ایک خاص قبیل کے باقی تعلیمی اداروں کو بھی تیس تیس کروڑ دیے جائیں تو پھر میرے منہ میں خاک۔۔۔۔ شام اور عراق بننے میں دیر نہیں لگے گی!
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے! پانچ سال بعد ہی سہی‘ یہ فیصلہ تو ہوا کہ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں شامل کیا جائے گا۔ وزیر اعظم نے یہ فیصلہ کر کے تاریخ کا کم از کم ایک صفحہ اپنے لیے ضرور ریزرو کرا لیا ہے! دیر آید درست آید! یہ کام عشروں پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ قبائلی علاقوں کو الگ تھلگ‘اچھوت بنا کر رکھنا برطانوی استعمار کی ضرورت تھی اور مجبوری! بدقسمتی سے یہ استعمار‘ پولیٹیکل ایجنٹوں کی شکل میں تقسیم کے بعد بھی جاری رہا۔ یہ پولیٹیکل ایجنٹ چند چیدہ چیدہ ملکوں اور خانوں کی جیبوں میں رقوم ڈالتے تھے۔ کوئی حساب کتاب تھا نہ آڈٹ نہ اکائونٹنگ! عام قبائلی پستا ہی رہا۔ ضم ہونے کے بعد کم از کم صوبے کے ہسپتالوں، تعلیمی اداروں اور دیگر سہولیات پر قبائلی عوام کا قانونی حق تو ہو گا۔
جو سیاسی قوتیں اس فیصلے کی مخالفت کر رہی ہیں‘ وہ کتنی ثقہ ہیں اور کتنے پانی میں ہیں؟ عوام اچھی طرح جانتے ہیں! مولانا نے پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ یہ فیصلہ کر کے عوام سے دھوکا کیا گیا ہے۔ کیا دھوکا کیا گیا ہے؟ اس کی تفصیل ان کے پاس نہیں ہے۔ ان کا تو فاٹا سے تعلق ہی نہیں۔ فاٹا کے منتخب نمائندے اس فیصلے کے حق میں ہیں۔ فاٹا کے ان خود ساختہ خیر خواہوں نے آج تک فاٹا کی تعلیم‘ زراعت اور صنعت و حرفت کے لیے آواز نہیں بلند کی! یہ قوتیں چاہتی ہیں کہ قبائل کے عوام پس ماندگی کے کنوئیں سے باہر نہ نکلیں اور ووٹ ان قوتوں ہی کو دیتی رہیں۔ ان قوتوں کا چراغ غربت، ناخواندگی اور معاشی پس ماندگی میں جلتا ہے۔ فاٹا میں کالج اور یونیورسٹیاں بن گئیں‘ کارخانے لگ گئے‘ ٹریکٹر اور مشینیں زراعت کو جدید کرنا شروع ہو گئیں‘ شاپنگ مال بن گئے، لائبریریاں قائم ہو گئیں تو مولانا صاحب اور اچکزئی صاحب کو کون پوچھے گا؟
قبائلی عوام کا بہت استحصال ہوا ہے۔ معاشی استحصال‘ سیاسی استحصال ‘ نسلی استحصال‘ لسانی استحصال اور جذباتی استحصال! سینکڑوں برس ہو گئے، یہ استحصال ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ پہلے انگریزوں نے ان تمام تبدیلیوں سے انہیں محروم رکھا جو برصغیر میں ہوئیں۔ بدقسمتی سے پاکستان بننے کے بعد بھی یہی پالیسیاں جاری رہیں۔ جنوبی وزیرستان سے لے کر باجوڑ تک ستر برسوں میں کوئی کالج، کوئی یونیورسٹی نہ بنی۔ کوئی صنعتی یونٹ نہ لگا۔ پشتون قومیت فروخت کرنے والے چادر پوشوں کو اس پسماندگی سے کوئی غرض نہیں ۔ یہ چادر پوش، یہ دستار پوش صرف اور صرف اپنا الّو سیدھا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ صرف دکانیں چمکانا چاہتے ہیں، یہ صرف پارلیمنٹ میں پہنچ کر اپنی پسندیدہ وزارتوں پر اپنے گماشتے نصب کرنا چاہتے ہیں۔ یہ فقط مراعات کے طلب گار ہیں۔ یہ پروٹوکول کے بھوکے ہیں۔ یہ اقتدار کے برآمدوں میں طاقت کے کندھوں کے ساتھ اپنے کندھے رگڑنا چاہتے ہیں۔ یہ اپنے بھائیوں‘ برادر زادوں‘ اقربا اور اعزہ کو فائدے پہنچانا چاہتے ہیں۔ ان سے تو عام پختون ہفتوں مہینوں کوشش کرتا رہے ملاقات تک نہیں کر سکتا۔
فاٹا کا انضمام اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن ہے۔ ہر بالغ نظر پاکستانی اس کا استقبال کرتا ہے۔
No comments:
Post a Comment