Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Saturday, March 28, 2015

ہاں! ہم محبت کرتے ہیں!


اسد اللہ خان غالب اور اسد اللہ غالب میں فرق یہ ہے کہ وہ خان تھے اور یہ خان نہیں! وہ شہرِ سبز سے تعلق رکھتے تھے‘ یہ قصور سے ہیں۔ لیکن فرق کے ساتھ ساتھ ایک وجہِ افتخار بھی ہے جو دونوں میں مشترک ہے۔ اسد اللہ خان غالب پیشۂ آبا کا ذکر فخر سے کرتے تھے۔ یہ پیشہ سپہ گری تھا   ؎ 
سو پشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری 
کچھ شاعری ذریعۂ عزت نہیں مجھے 
اسد اللہ غالب اپنی سپاہ پر فخر کرتے ہیں‘ اور اسی لیے مجھے عزیز ہیں۔ ان کا اور میرا محبوب ایک ہے۔ یہ محبوب مسلح افواج ہیں۔ جن دنوں محبت محبت تھی‘ اس میں آلودگی اور غرض شامل نہیں ہوئی تھی اور عاشق کے لیے پوری دنیا محبوب ہی سے عبارت تھی‘ ان دنوں عشّاق چاند کو دیکھ کر آہیں بھرتے تھے۔ اس لیے نہیں کہ چاند چمکتا تھا یا اس میں بڑھیا تھی۔ چاند اس لیے پیارا لگتا تھا کہ دور‘ کہیں دور‘ محبوب بھی اسی چاند کو دیکھ رہا ہوتا تھا! اسد اللہ غالب بھی اس لیے عزیز ہیں کہ وہ اسی پاک فوج سے محبت کرتے ہیں جس کی محبت میرے دل میں موجزن ہے! ع 
آ کہ وابستہ ہیں اُس حسن کی یادیں تجھ سے 
کسی کو اچھا لگے یا اس ذکر سے کسی کا چہرہ سیاہ ہو جائے‘ سچی بات یہ ہے کہ جس طرح یہ ملک اللہ کی نشانیوں میں سے ہے‘ اسی طرح اس ملک کی مسلح افواج بھی اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ عالمِ اسلام کی سب سے عالی شان‘ سب سے زیادہ باوقار اور طاقتور ترین فوج یہی ہے۔ عالم اسلام سے ہٹ کر‘ پوری دنیا کی افواج کی فہرست بنے تو اس میں بھی اس کا مقام قابل رشک ہے۔ پوری دنیا میں اس کی عزت ہے اور یہ عزت ہی بہت سے ایسے لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے جو اُس تھالی میں چھید کرتے ہیں جس سے کھاتے ہیں! حیرت ہوئی ہے اُن لوگوں پر جو ابھی تک‘ جہاں بھی انہیں موقع ملے‘ ایٹمی دھماکے پر اپنے دل کا کالا دھواں لفظوں کی صورت میں باہر نکال کر فضا آلودہ کرتے رہتے ہیں۔ آپ نے کچھ مقررین اور کچھ خامہ فرسائی کرنے والوں سے یہ بات سنی ہوگی کہ قومیں ایٹم بم سے ترقی نہیں کرتیں! ان تیرہ بختوں سے کوئی پوچھے کیا کبھی کسی نے یہ طعنہ دیا ہے کہ دو وقت روٹی کھانے سے قومیں ترقی نہیں کرتیں؟ پانی پینے سے قومیں ترقی نہیں کرتیں؟ ترقی کرنے کے لیے زندہ رہنا ضروری ہے۔ دو وقت کی روٹی کھا کر‘ پانی پی کر زندہ رہیں گے تو ترقی کریں گے۔ ایٹم بم اس لیے بنانا پڑا کہ زندہ رہنے کا سوال تھا۔ بھارت نے ایٹم بم کا دھماکہ کیا تو اُس وقت سے لے کر پاکستان کے دھماکہ کرنے تک‘ بھارتی نیتائوں کے لہجے کے غرور پر کوئی غور کرے تو اس کے ذہن سے شبہات دور ہو جائیں! اسی طرح ’’دانش‘‘ وروں نے تکیۂ کلام یہ بنایا ہوا ہے کہ سارا بجٹ دفاع پر چلا جاتا ہے۔ اوّل تو اعداد و شمار اس یاوہ گوئی کی تکذیب کرتے ہیں‘ دوسرے‘ مسلح افواج کی ضروریات پوری کرنا ملک پر فرض ہے اس لیے کہ مسلح افواج بھی وسائل کی موجودگی ہی میں اپنا فرض کماحقہ‘ ادا کر سکتی ہیں۔ ایک اور بات زور و شور سے کہی جاتی ہے کہ دفاع کا بجٹ ’’ون لائن‘‘ بجٹ ہوتا ہے۔ یہ ایک مفروضہ ہے اور مکمل لاعلمی پر مبنی ہے۔ دفاع کا بجٹ بھی وہ ساری تفصیل لیے ہوئے ہوتا ہے جو کسی بھی دوسرے شعبے کے بجٹ میں موجود ہوتی ہیں۔ ایک حقیقت جس کا علم کم ہی لوگوں کو ہے‘ اور بوجوہ‘ مسلح افواج بھی اس کی تفصیل نہیں بتاتیں‘ یہ ہے کہ مسلح افواج کا انٹرنل (اندرونی) آڈٹ‘ کسی بھی دوسرے حکومتی شعبے سے زیادہ مؤثر ہے۔ ایک بہت بڑا محکمہ ہے‘ جس کے ایک سو سے زیادہ افسر‘ اور سینکڑوں اہلکار‘ رات دن تینوں مسلح افواج کا اور ان سے وابستہ اداروں کا آڈٹ کرتے رہتے ہیں۔ اس انٹرنل آڈٹ کے نتیجے میں لاکھوں کروڑوں روپے کی وصولیاں مسلح افواج‘ سرکاری خزانے میں جمع کراتی ہیں۔ 
بات دور نکل گئی۔ اسد اللہ غالب نے حال ہی میں اپنی تحریروں کے دو مجموعے شائع کیے ہیں۔ پاک فوج کو یہ ایک خوبصورت خراجِ تحسین ہے جو نہ صرف صوری اعتبار سے دیدہ زیب ہے بلکہ معنوی اعتبار سے بھی قابلِ رشک ہے! غالب کا اپنا اسلوب ہے جس میں سلاست‘ سادگی روانی اور تاثیر ہے۔ اس اسلوب کو بروئے کار لاتے ہوئے انہوں نے اپنی حب الوطنی کا ثبوت تو دیا ہی ہے‘ بہت سے ذہنوں کو جھنجھوڑا بھی ہے۔ غالب لکھتے ہیں: 
’’بدر کے میدان میں عضب پہلی مرتبہ لہرائی تھی۔ آج اس کے سائے میں شمالی وزیرستان میں افواج پاکستان ملکی اور قومی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ حضور اکرمﷺ کے جری اور دلیر ہاتھوں میں ضربِ عضب نے دشمنانِ اسلام کو شکست فاش دی۔ عضب کے لیے پہلا میدان کارزار کوئی آسان نہ تھا۔ آج ہم بھی اپنی تاریخ کے سنگین ترین معرکے سے دوچار ہیں۔ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے۔ یہ مسلمانانِ عالم کی آرزوئوں کا مظہر ہے۔ اور خطے میں کمزور اقوام کے لیے بہت بڑا سہارا بھی کہ اس کی افواج دنیا کی مانی ہوئی اور پیشہ ور طاقت ہے۔ یہ فوج شہادتوں کی امانت دار ہے۔ یہ قرونِ اولیٰ کے غازیوں کی طرح صرف آگے بڑھنا جانتی ہے۔ یہ طارق بن زیاد کی رسم پر عمل پیرا ہو کر کشتیاں جلا دیتی ہے اور پسپائی کے راستے مسدود کر دیتی ہے۔ یہ سلطانِ میسور کے قول کی پابند ہے کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ یہ حیدر کرارؓ کی طرح کشتوں کے پشتے لگا دیتی ہے اور اگر کربلا کا سامنا ہو تو رسمِ شبیری ادا کرتے ہوئے شہادت کے گل و گلزار مہکا دیتی ہے۔ ہمارے شیر جوان سیدنا امیر حمزہؓ کی للکار ہیں۔ اور خالد بن ولیدؓ کی طرح دشمن پر بجلی بن کر گرتے ہیں‘‘۔ 
’’ضربِ عضب‘‘ اور ’’اے وطن کے سجیلے جوانو!‘‘ دونوں کتابیں ہر اُس شخص کو ضرور پڑھنی چاہئیں جو ضربِ عضب اور دوسرے آپریشنوں کی تفصیلات سے آگاہ نہیں۔ اس لیے کہ غالب نے صرف لفاظی نہیں کی‘ حقائق کی تفصیلات بھی دی ہیں اور اعدادو شمار بھی پیش کیے ہیں‘ جب ’’روشن خیال‘‘ لکھاری منقار زیرپر ہو جائیں اور مصلحتیں‘ حب الوطنی پر حاوی ہو جائیں تو ایسے ہی جنونی‘ ساری مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر‘ مادرِ وطن کا حق ادا کرتے ہیں! 
اوپر اسد اللہ خان غالب اور اسد اللہ غالب کے درمیان ’’خان‘‘ ہونے اور نہ ہونے کے فرق کی بات ہوئی ہے۔ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ خان نہ ہونا خان ہونے سے بہتر ہوتا ہے۔ عمران خان دنیا میں بطور ’’خان‘‘ جانے جاتے ہیں لیکن مسلح افواج کا ایکشن ہو تو ان کا ردعمل حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ وہ قبائلی علاقوں کے خود ساختہ سرپرست بنے ہوئے ہیں اور مسلح افواج کو وہاں جانے سے روکتے رہے ہیں۔ اسد اللہ غالب نے اس پر انہیں آڑے ہاتھوں لیا اور خوب لیا۔ کچھ سیاسی جماعتیں جو اصولی طور پر مرفوع القلم ہونی چاہئیں اور جو کسی نہ کسی صورت میں مسلح افواج کے خلاف اپنے اندر کی سیاہی باہر نکالتی رہتی ہیں‘ غالب نے انہیں بھی راہِ ہدایت دکھانے کی سعی کی ہے۔ خدا کرے یہ سعی بارآور ثابت ہو‘ اگرچہ امکان کم ہی ہے۔ 
میں لاہور کے ایک نوجوان بزنس مین کو جانتا ہوں جسے دھمکیاں ملتی تھیں اور بھاری رقم کے تقاضے کیے جاتے تھے۔ اس نے بلند سطح پر… جی ہاں… بہت ہی بلند سطح پر… فریاد کی اور حفاظت مانگی جو اس کا حق تھا۔ کچھ بھی نہ ہوا۔ اسے بیرون ملک بھی پناہ گیر ہونا پڑا۔ کراچی میں آرمی ایکشن شروع ہوا تو اس کے بعد ہی دھمکیوں اور استحصال کا مکروہ سلسلہ بند ہوا۔ ایسی کئی مثالیں اور کئی واقعات ہیں‘ جن لوگوں کے دلوں میں مسلح افواج اور ان کی جاں نثاری کے حوالے سے سیاہ دھبے پڑے ہوئے ہیں اور یہ دھبے پھیلتے جاتے ہیں‘ اب بھی انہیں سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہنے کی توفیق نہ ہو تو ان کے لیے ایک اور ہی دعا کرنی چاہیے! 
اسد اللہ غالب نے ہم سب کی طرف سے فرض کفایہ ادا کیا ہے۔

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com