مورچے میں کیا ہے؟ مٹی‘ لوہا اور آگ۔ اسی میں ہمارا سپاہی رہتا ہے۔ کڑکتے دھماکے ہیں اور کالی دھول۔ جب بھی یہ کالی دھول پاک سرحد کی طرف بڑھتی ہے‘ ہمارا سپاہی اس کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ کالی دھول سے لوہا نکلے یا آگ‘ سینہ ہے کہ تنا رہتا ہے۔ کون سا دشمن ہے جو سرحدوں کی طرف نہیں بڑھا‘ یا اندر سے نہیں اٹھا۔ وزیرستان کے بے برگ و گیاہ بنجر پہاڑ ہیں یا کارگل کی برف پوش آسماں بوس چوٹیاں‘ سب نے ہمارے سپاہی کو للکارا اور منہ کی کھائی۔
کارگل سے یا وزیرستان سے جب کوئی تابوت آتا ہے تو شہادت کا یہ تحفہ صرف شہید کے ماں باپ یا بیوی بچوں کے لیے نہیں ہوتا‘ پوری قوم کے لیے ہوتا ہے۔ ہاں! اگر قوم اس تحفے کی عظمت کو سمجھ سکے! وہ جو کارخانوں پر کارخانے‘ فیکٹریوں پر فیکٹریاں لگا رہے ہیں‘ کرپشن کر رہے ہیں‘ لوٹ مار کر رہے ہیں‘ سفارش‘ رشوت‘ اقربا پروری اور دوست نوازی کا زہر بکھیر رہے ہیں‘ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ سپاہی اپنی جان کا نذرانہ اس لیے نہیں دیتا کہ چند ناعاقبت اندیش اپنے بینک اکائونٹ فربہ کرتے رہیں اور اپنی توندیں واسکٹوں کے گھیر سے باہر لاتے رہیں۔ مجید امجد نے قلم توڑ کر رکھ دیا:
اگر دشمنوں کے گرانڈیل ٹینکوں کے نیچے
مری کڑکڑاتی ہوئی ہڈیاں خندقوں میں نہ ہوتیں
تو دوزخ کے شعلے تمہارے معطر گھروندوں کی دہلیز پر تھے
تمہارے ہر اک بیش قیمت اثاثے کی قیمت
اسی سرخ مٹی سے ہے جس میں میرا لہو رچ گیا ہے
سارے اختلافات‘ سارے تنازعات ایک طرف… جس طرح سورج کی روشنی میں کوئی اشتباہ نہیں‘ بالکل اسی طرح اس صداقت میں کوئی شک نہیں کہ مسلح افواج مقدس ہیں اور پاک ہیں۔ کوئی قدم ایسا نہیں اٹھانا چاہیے کہ کسی کو مسلح افواج کی طرف انگلی اٹھانے کا موقع ملے۔ چھوٹے سے چھوٹا کنکر بھی اس صاف شفاف پانی میں کیوں پھینکا جائے؟ ارتعاش کیوں پیدا ہو اور دائرہ کیوں بنے؟
یادش بخیر! جنرل پرویز مشرف نے پے در پے ایسے قدم اٹھائے کہ لوگوں کو اعتراض کے مواقع ملے۔ عوام کو سب سے زیادہ ذہنی اضطراب اس وقت ہوتا ہے جب مسلح افواج کو ان کے اپنے مخصوص مقررہ دائرۂ کار سے باہر لا کر ایسے فرائض تفویض کر دیے جائیں جو کسی اور نے ادا کرنے ہیں! جنرل پرویز مشرف نے بہت سے سول محکموں میں حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی لا بٹھائے اور یہ نہ سوچا کہ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے اور ایک فرد کی غلطی بسا اوقات پورے ادارے کو لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اس نکتے کو واضح کرنے کے لیے صرف دو مثالیں کافی ہیں۔ وفاقی حکومت کا شعبۂ تعلیم ایک بڑا شعبہ ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے ایک بریگیڈیئر صاحب کو اس کا سربراہ (ڈائریکٹر جنرل) مقرر کردیا اور وہ بھی یوں کہ ایک بار نہیں‘ دو بار نہیں‘ چار یا پانچ بار توسیع دیتے رہے۔ جن اساتذہ نے پوری پوری زندگیاں اس شعبے میں تج دی تھیں‘ سربراہی کا حق ان کا تھا! ان میں سے کچھ عدالتوں میں بھی گئے‘ لیکن کہیں شنوائی نہ ہوئی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جن کی حق تلفی ہوئی‘ ان کے بیٹے بیٹیاں‘ پوتے پوتیاں اور عزیز و اقارب اس ناانصافی کو کیسے بھول سکتے ہیں؟ مقدس ادارے کے حوالے سے ان کے دلوں میں خراشیں آگئیں! صرف ایک فرد کی غلطی کی وجہ سے!! کیا اس فقرے کو کوئی روک سکتا ہے کہ… ’’میرے دادا (یا میرے ماموں یا میرے چچا یا میرے عزیز یا میرے دوست) نے ڈائریکٹر جنرل بننا تھا‘ ان کا حق تھا۔ ان کی اہلیت تھی لیکن ان کا حق مارا گیا۔ زبردستی کی گئی اور فلاں ادارے سے ایک صاحب کو لا بٹھایا گیا‘‘!
یہی سلوک جنرل پرویز مشرف صاحب نے پوسٹل کے شعبے سے روا رکھا۔ پاکستان پوسٹل سروس کے افسر مقابلے کے امتحان سے گزر کر آتے ہیں۔ امتحان کیا ہے۔ بھٹی ہے۔ وہ تو بھلا ہو انگریز حکومت کا کہ ایک سسٹم بنا کر دے گئے۔ یہاں تو بننا کیا تھا! جو بنا ہوا ہے سنبھالا تک نہیں جا رہا! یہ افسر تیس پینتیس سال کی محنت کے بعد اس قابل ہوتے ہیں کہ محکمے کے سربراہ بنیں۔ لیکن جنرل صاحب نے ایک ریٹائرڈ جرنیل کو محکمے کا سربراہ بنا دیا۔ جن کا حق تھا‘ وہ تلملاتے رہے‘ پیچ و تاب کھاتے رہے۔ حالانکہ یہ ایک فرد کی غلطی تھی! اس میں مسلح افواج کے ادارے کا قصور تھا‘ نہ عمل دخل!!
جنرل کیانی آئے تو انہوں نے تلافی کی اور بہت حد تک سول اداروں سے عسکری افسروں کو واپس بلا لیا۔
لیکن ایک اہم ادارے میں یہ پالیسی اب تک جاری ہے۔ کسی کو اچھا لگے یا برا لگے‘ سچائی یہ ہے کہ یہ پالیسی دوراندیشی پر مبنی نہیں ہے۔ ہرگز نہیں ہے! فوجی چھائونیوں اور زمینوں کے محکمے کو ملٹری لینڈ اینڈ کنٹونمنٹ کہا جاتا ہے۔ اس نازک اور حساس محکمے کا انتظام سول سروس کے پاس ہے۔ یہ افسر مقابلے کا امتحان پاس کر کے‘ بھٹی سے گزر کر‘ آتے ہیں۔ پینتیس چھتیس سال کام کر کے‘ جو افسر سب سے زیادہ سینئر اور اہل ہوتا ہے‘ وہ محکمے کا سربراہ بنتا ہے لیکن اس محکمے کی سربراہی پر ایک عرصہ سے فوج کا افسر مقرر کیا جاتا ہے جو قواعد کے مطابق نہیں۔ جن کی حق تلفی ہو رہی تھی وہ عدالت میں چلے گئے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دے دیا کہ مقدمے کا فیصلہ ہونے تک کسی عسکری افسر کو نہ لگایا جائے۔ موجودہ وزیراعظم نے عسکری افسر کے تقرر کی منظوری دیتے وقت صراحت سے لکھا کہ آئندہ اس منصب پر محکمے کے افسران کو لگایا جائے لیکن چند روز پہلے موجودہ سربراہ کو توسیع دے دی گئی۔
سوال کسی شعبے یا محکمے کا نہیں! مسلح افواج کے تقدس پر بہت کچھ قربان کیا جا سکتا ہے۔ سوال اس خلش کا ہے جو ایسے اقدامات سے مسلح افواج کے حوالے سے دلوں میں پیدا کردی جاتی ہے۔ پچاس کے لگ بھگ افسر جو عدالت میں گئے‘ ان کے پچاس خاندان ہیں‘ پھر ہر خاندان کسی دوسرے خاندان سے مربوط ہے۔ آخر اتنے دلوں میں اضطراب کیوں پیدا کیا جائے؟ پھر ایسا بھی نہیں کہ یہ افسر نااہل ہوں۔
مسلح افواج سوچ بھی نہیں سکتیں کہ کسی کی حق تلفی کی جائے۔ ہر پاکستانی کے دل میں اپنی افواج کے لیے محبت ہے۔ بے پناہ عقیدت ہے اور جذبۂ تشکر ہے! کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے کہ اس محبت پر‘ اس جذبۂ تشکر پر ہلکا سا بھی سایہ پڑے۔ باہمی محبت اور باہمی احترام کا تقاضا یہ ہے کہ سب اپنے اپنے دائرے میں رہیں۔
کارگل سے یا وزیرستان سے جب کوئی تابوت آتا ہے تو شہادت کا یہ تحفہ صرف شہید کے ماں باپ یا بیوی بچوں کے لیے نہیں ہوتا‘ پوری قوم کے لیے ہوتا ہے۔ ہاں! اگر قوم اس تحفے کی عظمت کو سمجھ سکے! وہ جو کارخانوں پر کارخانے‘ فیکٹریوں پر فیکٹریاں لگا رہے ہیں‘ کرپشن کر رہے ہیں‘ لوٹ مار کر رہے ہیں‘ سفارش‘ رشوت‘ اقربا پروری اور دوست نوازی کا زہر بکھیر رہے ہیں‘ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ سپاہی اپنی جان کا نذرانہ اس لیے نہیں دیتا کہ چند ناعاقبت اندیش اپنے بینک اکائونٹ فربہ کرتے رہیں اور اپنی توندیں واسکٹوں کے گھیر سے باہر لاتے رہیں۔ مجید امجد نے قلم توڑ کر رکھ دیا:
اگر دشمنوں کے گرانڈیل ٹینکوں کے نیچے
مری کڑکڑاتی ہوئی ہڈیاں خندقوں میں نہ ہوتیں
تو دوزخ کے شعلے تمہارے معطر گھروندوں کی دہلیز پر تھے
تمہارے ہر اک بیش قیمت اثاثے کی قیمت
اسی سرخ مٹی سے ہے جس میں میرا لہو رچ گیا ہے
سارے اختلافات‘ سارے تنازعات ایک طرف… جس طرح سورج کی روشنی میں کوئی اشتباہ نہیں‘ بالکل اسی طرح اس صداقت میں کوئی شک نہیں کہ مسلح افواج مقدس ہیں اور پاک ہیں۔ کوئی قدم ایسا نہیں اٹھانا چاہیے کہ کسی کو مسلح افواج کی طرف انگلی اٹھانے کا موقع ملے۔ چھوٹے سے چھوٹا کنکر بھی اس صاف شفاف پانی میں کیوں پھینکا جائے؟ ارتعاش کیوں پیدا ہو اور دائرہ کیوں بنے؟
یادش بخیر! جنرل پرویز مشرف نے پے در پے ایسے قدم اٹھائے کہ لوگوں کو اعتراض کے مواقع ملے۔ عوام کو سب سے زیادہ ذہنی اضطراب اس وقت ہوتا ہے جب مسلح افواج کو ان کے اپنے مخصوص مقررہ دائرۂ کار سے باہر لا کر ایسے فرائض تفویض کر دیے جائیں جو کسی اور نے ادا کرنے ہیں! جنرل پرویز مشرف نے بہت سے سول محکموں میں حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی لا بٹھائے اور یہ نہ سوچا کہ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے اور ایک فرد کی غلطی بسا اوقات پورے ادارے کو لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اس نکتے کو واضح کرنے کے لیے صرف دو مثالیں کافی ہیں۔ وفاقی حکومت کا شعبۂ تعلیم ایک بڑا شعبہ ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے ایک بریگیڈیئر صاحب کو اس کا سربراہ (ڈائریکٹر جنرل) مقرر کردیا اور وہ بھی یوں کہ ایک بار نہیں‘ دو بار نہیں‘ چار یا پانچ بار توسیع دیتے رہے۔ جن اساتذہ نے پوری پوری زندگیاں اس شعبے میں تج دی تھیں‘ سربراہی کا حق ان کا تھا! ان میں سے کچھ عدالتوں میں بھی گئے‘ لیکن کہیں شنوائی نہ ہوئی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جن کی حق تلفی ہوئی‘ ان کے بیٹے بیٹیاں‘ پوتے پوتیاں اور عزیز و اقارب اس ناانصافی کو کیسے بھول سکتے ہیں؟ مقدس ادارے کے حوالے سے ان کے دلوں میں خراشیں آگئیں! صرف ایک فرد کی غلطی کی وجہ سے!! کیا اس فقرے کو کوئی روک سکتا ہے کہ… ’’میرے دادا (یا میرے ماموں یا میرے چچا یا میرے عزیز یا میرے دوست) نے ڈائریکٹر جنرل بننا تھا‘ ان کا حق تھا۔ ان کی اہلیت تھی لیکن ان کا حق مارا گیا۔ زبردستی کی گئی اور فلاں ادارے سے ایک صاحب کو لا بٹھایا گیا‘‘!
یہی سلوک جنرل پرویز مشرف صاحب نے پوسٹل کے شعبے سے روا رکھا۔ پاکستان پوسٹل سروس کے افسر مقابلے کے امتحان سے گزر کر آتے ہیں۔ امتحان کیا ہے۔ بھٹی ہے۔ وہ تو بھلا ہو انگریز حکومت کا کہ ایک سسٹم بنا کر دے گئے۔ یہاں تو بننا کیا تھا! جو بنا ہوا ہے سنبھالا تک نہیں جا رہا! یہ افسر تیس پینتیس سال کی محنت کے بعد اس قابل ہوتے ہیں کہ محکمے کے سربراہ بنیں۔ لیکن جنرل صاحب نے ایک ریٹائرڈ جرنیل کو محکمے کا سربراہ بنا دیا۔ جن کا حق تھا‘ وہ تلملاتے رہے‘ پیچ و تاب کھاتے رہے۔ حالانکہ یہ ایک فرد کی غلطی تھی! اس میں مسلح افواج کے ادارے کا قصور تھا‘ نہ عمل دخل!!
جنرل کیانی آئے تو انہوں نے تلافی کی اور بہت حد تک سول اداروں سے عسکری افسروں کو واپس بلا لیا۔
لیکن ایک اہم ادارے میں یہ پالیسی اب تک جاری ہے۔ کسی کو اچھا لگے یا برا لگے‘ سچائی یہ ہے کہ یہ پالیسی دوراندیشی پر مبنی نہیں ہے۔ ہرگز نہیں ہے! فوجی چھائونیوں اور زمینوں کے محکمے کو ملٹری لینڈ اینڈ کنٹونمنٹ کہا جاتا ہے۔ اس نازک اور حساس محکمے کا انتظام سول سروس کے پاس ہے۔ یہ افسر مقابلے کا امتحان پاس کر کے‘ بھٹی سے گزر کر‘ آتے ہیں۔ پینتیس چھتیس سال کام کر کے‘ جو افسر سب سے زیادہ سینئر اور اہل ہوتا ہے‘ وہ محکمے کا سربراہ بنتا ہے لیکن اس محکمے کی سربراہی پر ایک عرصہ سے فوج کا افسر مقرر کیا جاتا ہے جو قواعد کے مطابق نہیں۔ جن کی حق تلفی ہو رہی تھی وہ عدالت میں چلے گئے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دے دیا کہ مقدمے کا فیصلہ ہونے تک کسی عسکری افسر کو نہ لگایا جائے۔ موجودہ وزیراعظم نے عسکری افسر کے تقرر کی منظوری دیتے وقت صراحت سے لکھا کہ آئندہ اس منصب پر محکمے کے افسران کو لگایا جائے لیکن چند روز پہلے موجودہ سربراہ کو توسیع دے دی گئی۔
سوال کسی شعبے یا محکمے کا نہیں! مسلح افواج کے تقدس پر بہت کچھ قربان کیا جا سکتا ہے۔ سوال اس خلش کا ہے جو ایسے اقدامات سے مسلح افواج کے حوالے سے دلوں میں پیدا کردی جاتی ہے۔ پچاس کے لگ بھگ افسر جو عدالت میں گئے‘ ان کے پچاس خاندان ہیں‘ پھر ہر خاندان کسی دوسرے خاندان سے مربوط ہے۔ آخر اتنے دلوں میں اضطراب کیوں پیدا کیا جائے؟ پھر ایسا بھی نہیں کہ یہ افسر نااہل ہوں۔
مسلح افواج سوچ بھی نہیں سکتیں کہ کسی کی حق تلفی کی جائے۔ ہر پاکستانی کے دل میں اپنی افواج کے لیے محبت ہے۔ بے پناہ عقیدت ہے اور جذبۂ تشکر ہے! کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے کہ اس محبت پر‘ اس جذبۂ تشکر پر ہلکا سا بھی سایہ پڑے۔ باہمی محبت اور باہمی احترام کا تقاضا یہ ہے کہ سب اپنے اپنے دائرے میں رہیں۔
No comments:
Post a Comment