قدرت نے ہمیں چھپر پھاڑ کر شاہ عالم عطا کیے۔ اتنے کہ اب ایک شاہ عالم کے بعد دوسرا شاہ عالم آتا ہے۔ 1947ء سے لے کر اب تک کے حکمرانوں… معاف کیجیے گا‘ بادشاہوں کی فہرست بنایئے تو اکثریت شاہ عالموں کی ہوگی۔
اللہ اللہ! عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت کی صدارت آصف علی زرداری کے حصے میں آئی! دانشوروں کو ایک طرف رکھیے۔ جو تبصرے ٹانگے والوں‘ ریڑھی بانوں‘ رکشہ ڈرائیوروں‘ خاکروبوں‘ راج مستریوں اور مزدوروں نے کیے‘ جمع کیے جاتے تو عہدِ حاضر کی عبرت ناک ترین دستاویز بنتی۔ اسلام آباد کا ایوانِ صدر زرداری صاحب کی دلّی تھی اور کراچی ان کا پالم تھا۔ کسی چیز سے دلچسپی نہ تھی۔ بس ایک دعویٰ تھا کہ ہم سیاست جانتے ہیں۔ سیاست یہ تھی کہ جو ہوتا ہے‘ ہو جائے لیکن دلّی سے پالم تک کا علاقہ ان کے پاس ہی رہے۔ ’’ہم خرید لیں گے‘‘ تکیۂ کلام تھا۔ ان کے عہد کی مضحکہ خیز ترین واردات یہ تھی کہ پالم یعنی کراچی جاتے تھے تو سندھ کے وزیراعلیٰ کا کام سنبھال لیتے تھے۔ پنجاب سے
دلچسپی تھی نہ بلوچستان سے‘ خیبر پختونخواہ سے نہ شمالی علاقوں سے‘ سپریم کمانڈر تھے لیکن عسکری نوجوانوں اور افسروں کے ساتھ بڑے بڑے سانحے پیش آئے تو سپریم کمانڈر نے لاتعلقی کے تمام تاریخی ریکارڈ توڑ دیئے۔ زرداری صاحب کے عہدِ صدارت کا روزنامچہ محفوظ کر لیا جائے تو ایک بات یقینی ہے کہ پاکستان کی آئندہ نسلیں اُن لوگوں کو کبھی معاف نہیں کریں گی جنہوں نے تخت نشینی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ تعجب ہوتا ہے کہ فرحت اللہ بابر جیسے اچھی شہرت رکھنے والے‘ معاملات کے صاف ستھرے افراد زرداری صاحب کا دفاع کرتے رہے اور کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی ایک انتہا سلمان فاروقی جیسے اصحاب‘ اور دوسری انتہا جنرل نصیر اللہ بابر جیسے کھرے چمکتے انسان۔ حیرت خود حیران ہوتی ہے! سالہا سال پہلے اس ناخلف نے والد گرامی سے سوال کیا کہ اتنے تعلیم یافتہ عالی دماغ‘ صاحبِ مطالعہ‘ باریک بین افراد اتنی بات بھی نہ سمجھ سکے کہ گالیوں کے طومار لکھنے والا‘ کچہری میں نوکری کرنے والا‘ ساعت ساعت موقف بدل لینے والا شخص نبی نہیں ہو سکتا۔ فرمایا‘ یہی تو توفیق کا معاملہ ہے۔ تمہارا کیا خیال ہے کہ نبیِ صادق کی مخالفت کرنے والے اور بدر اور احد کے کارزاروں میں جہنم رسید ہونے والے عرب کم ذہین تھے؟ بلا درجہ کے مردم شناس‘ بحرِ روم کے ساحلوں تک سفر کرنے والے‘
اُڑتی چڑیا کے پر گننے والے‘ مگر اُس ذات نے جو مقلب القلوب ہے‘ دل جس کی مٹھی میں ہیں‘ توفیق ارزانی نہ کی تو عقل پر پردے پڑ گئے اور منطق کا معمولی نکتہ بھی نہ سمجھ سکے کہ جس شخص نے چالیس سال جھوٹ نہ بولا‘ وہ ا چانک غلط بیانی کیسے کر سکتا ہے (معاذاللہ)۔ یہ بھی تو توفیق ہی کا کرشمہ ہے کہ یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف اور کئی دوسرے افراد‘ جن میں جیلوں کے ساتھی بھی تھے‘ کدالوں سے کھدائیاں کرتے رہے لیکن رضا ربانی اور اعتزاز احسن جیسے لوگ منقار زیر پر رہے اور آمنا و صدقنا کہتے رہے! حیرت خود حیران ہوتی ہے ؎
بسی نادیدنی را دیدہ ام من
مرا ای کاشکی مادر نہ زادی
ایک کے بعد ایک شاہ عالم سلطنت جس کی از دِلّی تا پالم۔ وزیراعظم کے ترکی اور چین کی یاترائوں کو چھوڑیے کہ بہت کچھ لکھا جا چکا‘ ڈھاک کے وہی تین پات۔ ’’مستقل مزاجی‘‘ ایسی کہ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد۔ تازہ لطیفہ دیکھیے… این گُلِ دیگر شگفت۔ وزیراعظم نے جمعہ کے دن لاہور میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کیا اور ’’پنجاب میں خصوصی انسداد دہشت گردی فورس کی تشکیل جلد از جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اس نئی فورس کی کمانڈ کا نظام پولیس سے الگ اور زیادہ موثر بنایا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ نئی فورس کو خاص طور پر بھتہ خوری اور ا غوا برائے تاوان میں ملوث افراد کے خلاف موثر کارروائی کرنا ہوگی…‘‘ خبر رساں ایجنسی کے مطابق اجلاس میں وزیراعلیٰ پنجاب‘ آئی جی پنجاب سمیت اعلیٰ حکام موجود تھے۔
ہوبہو وہی فلم! فرق یہ ہے کہ پہلے زرداری صاحب تھے۔ اب میاں نوازشریف ہیں۔ پہلے زرداری صاحب اسلام آباد سے نکلتے تھے تو کراچی پہنچ کر سندھ حکومت کی باگ ڈور سنبھال لیتے تھے۔ اب میاں نوازشریف اسلام آباد سے نکلتے ہیں تو لاہور پہنچ کر پنجاب حکومت کے امور نمٹانے لگ جاتے ہیں۔ وہاں اویس مظفر ٹپی تھے تو یہاں… خیر جانے دیجیے۔ لیکن شیر خوار بچہ بھی یہ نکتہ سمجھ سکتا ہے کہ پنجاب کی انسداد دہشت گردی فورس پنجاب سے باہر بے بس ہوگی۔ اللہ کے بندو! اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کے اصل اور بڑے مراکز دریائے سندھ کے مغرب میں ہیں۔ دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار خیبر پختونخوا ہے۔ کوئی وزیراعظم کو بتائے کہ وہ خیبر پختونخوا کے بھی وزیراعظم ہیں۔ وزیرستان اور فاٹا بھی ان کی عملداری میں ہے۔ کاش ایسے ہی ایک اجلاس کی صدارت میاں نوازشریف پشاور میں بھی کرتے۔ یہ ممکن تھا کہ وزیراعلیٰ کے پی انہیں شایانِ شان پروٹوکول نہ دیتے! پچیس سال… پورے پچیس سال اورنگ زیب عالم گیر دکن میں رہا اس لیے کہ وہاں ضرورت تھی۔ مقبرہ بھی وہیں بنا۔ اقبال نے حاضری دی تو بے اختیار کہا ؎
درمیانِ کارزارِ کفر و دین
ترکشِ ما را خدنگِ آخرین
آج اگر وزیراعظم نوازشریف بنوں میں ڈیرہ ڈال دیں اور یہ طے کر لیں کہ جب تک دہشت گردی کے مراکز ختم نہیں ہوتے‘ میرا دارالحکومت یہی ہے۔ تو اس قوم کی تاریخ ہی نہیں‘ تقدیر بھی بدل جائے۔ لیکن افسوس! صد افسوس! وہ لوگ جو ان کے گرد حصار باندھے ہیں‘ ان کے روشن مستقبل کا انحصار ہی اس بات پر ہے کہ وزیراعظم ذہنی طور پر ایک صوبے کیا‘ ایک شہر سے نہ نکلیں اور کبھی نہ نکلیں۔ چودھری شجاعت حسین پر ہزار اعتراض سہی‘ مگر کبھی کبھی بات کرتے ہیں تو بڑے بوڑھوں والی‘ جس میں صدیوں کا نچوڑ ہوتا ہے۔ عید کے روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے قاعدہ کلیہ بیان کردیا کہ نواز حکومت کی کابینہ میں شامل ہونے کے لیے کیا ضروری ہے؟
پس نوشت: ایوانِ صدر کی پریس سیکرٹری محترمہ صبا محسن نے وضاحت کی ہے کہ صدر مملکت حج کے لیے کمرشل فلائٹ سے گئے اور انہوں نے اور وفد کے دیگر ارکان نے سفر کے اخراجات اپنی اپنی جیب سے ادا کیے ہیں۔
No comments:
Post a Comment