Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Sunday, July 28, 2013

پروفیسر غلام اعظم

میں نے پروفیسر غلام اعظم کو صرف ایک بار تقریر کرتے سنا۔ اُن دنوں میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبۂ اقتصادیات کا طالب علم تھا۔ اگست 1969ء میں ڈھاکہ کے ناظمِ جمعیت عبدالملک کو شہید کر دیا گیا۔ تعزیتی جلسہ میں پروفیسر صاحب نے جذباتی اور طوفانی تقریر کی۔ ملاقات ایک آدھ بار ہی ہوئی۔ کھلی پیشانی‘ چمکتی آنکھیں‘ چہرے پر حد درجہ جاذبیت‘ آواز میں نرمی اور مٹھاس‘ مقناطیسی شخصیت۔ حسینہ واجد کی حکومت کی نام نہاد جنگی جرائم کی عدالت نے نوے سالہ پروفیسر غلام اعظم کو نوے سال قید کی سزا دی ہے۔ گویا اگر وہ مزید نوے سال زندہ رہیں تو زنداں ہی میں رہیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک غیر انسانی وحشیانہ سزا ہے۔ اس کی جس قدر بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
1948ء میں وزیراعظم لیاقت علی خان ڈھاکہ گئے تو غلام اعظم اس وقت ڈھاکہ یونیورسٹی سنٹرل سٹوڈنٹس یونین کے سیکرٹری جنرل تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہر مشرقی پاکستانی کا دل اس بات پر مجروح تھا کہ صرف اردو کو قومی زبان قرار دیا گیا تھا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ کی طرف سے بنگلہ کو قومی زبان قرار دینے کی یادداشت وزیراعظم کی خدمت میں غلام اعظم ہی نے پیش کی۔ فروری 1956ء میں جب مولانا مودودی ڈھاکہ گئے تو انہوں نے بھی بنگلہ کو قومی زبان بنانے کی حمایت کی۔ بدقسمتی سے جب لسانی تحریک سیکولر رنگ اختیار کر گئی تو جماعت اسلامی مشرقی پاکستان نے تحریک سے علیحدگی اختیار کر لی۔ اسلام پسندوں کے لیے یہ ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔ بنگلہ زبان کی تحریک میں سو فی صد مشرقی پاکستانی شریک تھے۔ جماعت تحریک سے الگ ہوئی تو اسلام پسندوں کے لیے ایک ہی راستہ رہ گیا کہ وہ عام لسانی تحریک میں شامل ہو جائیں۔ یہیں سے جماعت اسلامی میں ایک عجیب و غریب رجحان کا آغاز ہوا۔ یہ رجحان عوامی جذبات و احساسات کو خاطر میں نہ لانے کا تھا۔ جماعت Main Stream سے کٹ گئی اور آج تک کٹی ہوئی ہے۔ اس کی مثالیں ہم آگے پیش کریں گے۔
پروفیسر غلام اعظم کا تعلق جماعت کی اُس سطح سے تھا جس پر ابوالاعلیٰ مودودی اور امین احسن اصلاحی جیسے زعما فائز تھے۔ دیانت‘ متانت‘ ذہنی گہرائی اور تدبر بعد کے جماعتی رہنمائوں میں اُس درجے کا عنقا ہو گیا۔ یہ ایک کلاس تھی جو ختم ہو گئی۔ ضیاء الحق کے عہد میں مشرقی پاکستان ساتھ ہوتا تو پروفیسر غلام اعظم جماعت کو فوجی آمریت کی بی ٹیم کبھی نہ بننے دیتے۔ لیکن اگر مشرقی پاکستان ساتھ ہوتا تو کیا ابو الاعلیٰ مودودی کے بعد‘ غلام اعظم جیسا شخص ’’نئی‘‘ جماعت اسلامی کے لیے قابلِ قبول ہوتا؟ غالباً نہیں! وہ اُن خصوصیات اور کمالات سے عاری تھے جو بعد میں جماعت کے زعما کا طرۂ امتیاز بن گئے۔  پروفیسر غلام اٰعظم پراپرٹی ڈیلینگ کرتے  نہ مشکوک ہائوسنگ سوسائٹیوں کی دلدل میں گھستے۔ نہ کسی کشمیر کمیٹی کے فنڈ میں الجھتے نہ اپنے بچوں کو جماعت کے خرچ پر پوری دنیا کی سیر کرتے۔ اپنی کسی صاحبزادی کو  پالیمنٹ کا رکن تو وہ ہر گز نہ بننے دیتے۔ یہ وہ لوگ تھے جو دوسروں کو نصیحت کرنے سے پہلے اُس کا اطلاق اپنی ذات اور اپنے خاندان پر کرتے تھے۔ سورۃ احزاب کی آیت  پر نمبر 33 کی تفسیر میں مولانا مودودی نے لکھا ہے
… ’’قرآن مجید کے اس صاف اور صریح حکم کی موجودگی میں اس بات کی آخر کیا گنجائش ہے کہ مسلمان عورتیں کونسلوں اور پارلیمنٹوں کی ممبر بنیں‘ بیرونِ خانہ کی سوشل سرگرمیوں میں دوڑتی پھریں…‘‘
 جماعت کو چاہیے کہ اب مولانا مرحوم کی تصانیف کے ’’ترمیمی‘‘ ایڈیشن شائع کرے!
مشرقی پاکستان کے آخری ایام میں پروفیسر غلام اعظم نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پاکستانی فوج کا ساتھ دیا۔ جناب مجیب الرحمن شامی نے درست کہا ہے کہ آبادی کا ایک حصہ بھارتی فوج کے ساتھ مل گیا تھا تو ایک حصہ پاکستانی فوج کے ساتھ مل کر وطن کا دفاع کر رہا تھا۔ دفاع کرنے والوں کو اس کا حق حاصل تھا۔ دونوں حصوں میں سے بہرطور ایک نے ہارنا تھا اور ایک نے جیتنا تھا۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ جو مشرقی پاکستانی پاکستانی فوج کے ساتھ تھے وہ ہار گئے۔ یہ سوال بھی دلچسپ ہے کہ اگر وہ جیت جاتے تو کیا بھارتی فوج کے ساتھ مل جانے والوں کو معاف کر دیتے؟ بالکل نہیں۔ یہ وہی اورنگ زیب عالم گیر والی صورت حال تھی۔ وہ بھائیوں کو نہ مارتا تو بھائی اُسے مار دیتے۔
بنگلہ دیش وجود میں آگیا۔ اب یہ ایک زمینی حقیقت تھی۔ حقیقت پسندی کا تقاضا یہ تھا کہ پروفیسر غلام اعظم حقیقت کو قبول کر لیتے اور نئے ملک میں اسلام کے لیے نئی لگن اور نئے پروگرام کے ساتھ کام شروع کر دیتے۔ جذبات کی رَو میں وہ اس امر کا ادراک نہ کر سکے کہ تاریخ کا پہیہ اُلٹا نہیں چلتا۔ ان کے سامنے مصر اور شام کی کنفیڈریشن ٹوٹی تھی اور لسانی وحدت کے باوجود دوبارہ نہ بن سکی۔ یہاں تو درمیان میں دشمن ملک حائل ہونے کے علاوہ باہمی تلخیاں بھی ناقابلِ فراموش تھیں اور سب سے بڑی الم ناک حقیقت یہ تھی کہ وفاقِ پاکستان کو اپنی غلطیوں اور زیادتیوں کا ذرّہ بھر احساس نہ تھا۔
پروفیسر صاحب نے تاریخ کے پہیے کو اُلٹا گھمانے کی کوشش شروع کردی۔ انہوں نے ’’پوربو پاکستانی پونو ردھار کمیٹی‘‘ (کمیٹی برائے احیائِ مشرقی پاکستان) قائم کی‘ پھر اس کمیٹی کو وہ لندن لے گئے۔ مانچسٹر اور لیسٹر میں کانفرنسیں منعقد کر کے انہوں نے بنگلہ دیش کے انہدام کے لیے کوششیں کیں۔ 1972ء میں ریاض میں انٹرنیشنل یوتھ کانفرنس کے اجلاس میں انہوں نے دنیائے اسلام سے اپیل کی کہ وہ مشرقی پاکستان کو ازسرِ نو زندہ کرے۔ 1973ء اور 1976ء کے درمیانی عرصے میں انہوں نے سعودی بادشاہ سے سات مرتبہ ملاقات کی اور اسے بنگلہ دیش تسلیم نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ رابطہ عالم اسلامی کے 1974ء کے اجلاس منعقدہ بمقام مکہ مکرمہ اور دنیائے اسلام کے وزرائے خارجہ کے 1973ء کے اجلاس منعقدہ بمقام بن غازی میں بھی انہوں نے اسی مقصد کے لیے کام کیا۔
کاش! یہ کوششیں کامیاب ہو جاتیں لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا۔ الٹا ان کوششوں کو بنگلہ دیش حکومت نے حالیہ مقدمے میں ان کے خلاف مقدمے کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا۔ پروفیسر صاحب اس بات کا ادراک نہ کر سکے کہ عرب دنیا نے غیر عرب مسلمانوں کی سیاسی میدان میں کبھی کوئی مدد نہیں کی۔ فلسطین کی تنظیموں اور اُس خطے کے ملکوں کا رویہ کشمیر کے حوالے سے سب کے سامنے ہے۔ برما میں حالیہ مسلم کُشی کے خلاف کسی عرب ملک نے آواز نہیں اٹھائی۔ کاش پروفیسر صاحب حالات کا درست اندازہ لگاتے اور اپنی جدوجہد کو بنگلہ دیش کے فریم ورک کے اندر فِٹ کرتے!
پاکستان میں ’’بنگلہ دیش نامنظور‘‘ تحریک بھی ایک جذباتی اور غیر حقیقی اقدام تھا جس کا ناکام ہونا صاف نظر آ رہا تھا۔ اس سے پہلے برصغیر میں تحریک خلافت بھی دہی کو دوبارہ دودھ میں تبدیل کرنے کی کوشش تھی۔ اس کا ادراک قائداعظم نے کر لیا تھا۔ وہ اس کھیل سے دور رہے۔
مشرقی پاکستان کی جماعت اسلامی سے یہ غلطی بھی ہوئی کہ اُس نے معاشی حقائق سے مکمل چشم پوشی کی اور مشرقی حصے کی اقتصادی محرومیوں کو درخورِ اعتنا گردانا۔ اقتصادی حقوق کے حصول کا پرچم پروفیسر غلام اعظم اٹھا لیتے تو مجیب الرحمن کے غبارے سے ہوا نکل جاتی۔ لیکن جماعت اسلامی مغربی پاکستان کی ہو یا مشرقی پاکستان کی‘ سعدی کی اس نصیحت سے ہمیشہ غافل ہی رہی   ؎
شب چُوں عقدِ نماز می بندم
چہ خورد با مداد فرزندم
رات کو نماز کی نیت باندھتا ہوں تو یہ سوچتا ہوں کہ صبح بیٹا کیا کھائے گا؟
جماعت ہمیشہ عوامی احساسات سے بے نیاز رہی۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں جماعت نے مکمل کوتاہ نظری سے کام لیا اور آمریت کا ساتھ دیا۔ قاضی حسین احمد مرحوم کا کوئی ایک مضمون بھی پاکستانی عوام کے مسائل اور مصائب کے بارے میں نہیں ملتا۔ ہاں افغانستان اور ترکی کے بارے میں انہوں نے خوب خوب لکھا۔ جماعت کی موجودہ قیادت بھی اس موجِ خوں سے مکمل بے نیاز ہے جو پاکستانی عوام کے سروں کے اوپر سے گزر رہی ہے۔ فوج بے پناہ قربانیاں دے رہی ہے۔ دہشت گرد عوام کی بوٹیاں نوچ رہے ہیں لیکن جماعت کی قیادت نے آج تک غیر مشروط مذمت نہیں کی۔ انگریزوں نے خوب محاورہ ایجاد کیا ہے۔ سنگل ٹریک۔ سنگل ٹریک کے ساتھ ہر دھماکے کو بلیک واٹر کے نام لگانا اور برما اور مصر کے مسلمانوں کے لیے پریشان ہونا! ہنسی بھی آتی ہے اور  سیاسی "" بصیرت "" پر افسوس بھی ہوتا ہے۔ جو کچھ وطن کے اندر‘ عین آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے اُس کی مطلق پروا نہیں۔ لوک گیت بھی حکمت سے بھرپور ہوتے تھے  ؎
چو گُٹھی دو آنی آ
شملے دو رکھداں بابا! گھر بھُکّی زنانی آ
پش نوشت: تادمِ تحریر کوئی ایسی خبر نہیں ملی کہ جماعت اسلامی پاکستان نے پروفیسر غلام اعظم کی سزا کے خلاف کوئی احتجاجی یادداشت بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر کو پیش کی ہو۔


1 comment:

shouq said...

جماعت کی موجودہ قیادت بھی اس موجِ خوں سے مکمل بے نیاز ہے جو پاکستانی عوام کے سروں کے اوپر سے گزر رہی ہے

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com