Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, December 24, 2012

کلید

’’بُگارَخ‘‘ ایک ننھا منا پہاڑی گائوں ہے۔ فرانس کے جنوب مغربی حصے میں واقع اس گائوں کی کل آبادی دوسوافراد سے زیادہ نہیں۔ دسمبر کے آخر میں لوگوں نے اس گائوں کا رخ کرنا شروع کردیا۔ وسطی امریکہ کے قدیم کیلنڈر کے مطابق 21دسمبر 2012ء کے دن دنیا کا خاتمہ ہوجانا تھا۔ بہت سے لوگوں کا اس بات پر یقین تھا کہ بُگارَخ گائوں کے پہاڑوں میں اڑن طشتریوں پر آئی ہوئی دوسری دنیائوں کی مخلوق آباد ہے اور جب 21دسمبر کو دنیا ختم ہوگی تو یہ مخلوق اردگرد بسنے والے انسانوں کو کسی اور جہان میں لے جائے گی اور یوں کچھ لوگ تباہی سے بچ جائیں گے۔ گائوں کے میئر نے واویلا مچایا کہ ذرا سا گائوں ہزاروں لاکھوں لوگوں کو کیسے سنبھال سکتا ہے۔ بالآخر فرانس کی حکومت کو وہاں پولیس متعین کرنا پڑی جس نے باہر سے آنے والے لوگوں کو واپس بھیجنا شروع کردیا۔

21دسمبر 2012ء کے دن قیامت آنے کی اس خبر نے جس پر کروڑوں افراد نے یقین کرلیا‘ صرف فرانس کے اس گائوں ہی میں افراتفری نہیں برپا کی، دنیا کے مختلف حصوں میں لوگوں نے اس ’’مصیبت ‘‘ سے عہدہ برآہونے کی خوب خوب تیاریاں کیں۔ روس میں ماچسیں، موم بتیاں، لالٹینیں اور خوراک کے ڈبے اس قدر خریدے گئے کہ دکانیں خالی ہوگئیں۔ جنگ عظیم کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لئے سٹالن نے ماسکو میں ایک حفاظتی تہہ خانہ بنوایا تھا جس میں اب ایک عجائب گھر بنا ہوا ہے۔ اس عجائب گھر نے اعلان کیا کہ یہ تہہ خانہ دنیا کے خاتمے پر پناہ لینے والوں کو بچا سکتا ہے ۔ چنانچہ ایک ایک ٹکٹ اس میں پناہ لینے کے لئے 920پائونڈ میں بکا یہاں تک کہ تہہ خانے میں جس قدر گنجائش تھی، اس لحاظ سے سارے ٹکٹ فروخت ہوگئے۔ چین میں ’’قیامت‘‘ سے ایک دن پہلے بے شمار شادیاں رچائی گئیں۔ برازیل میں شہروں کی انتظامیہ خود شہریوں کو اس دن کے لئے تیار کرتی رہی اور ترغیب دیتی رہی کہ موم بتیاں اور خوراک کو ذخیرہ کرلیا جائے۔ ’’قیامت‘‘ سے بچ جانے والوں کے لیے کالونی تعمیر کی گئی۔ پولیس نے کئی گروہوں کو اجتماعی خودکشی سے روکا۔ ٹیلی ویژن کے ’’ہسٹری چینل‘‘،’’ڈسکوری چینل‘‘ اور ’’نیشنل جیوگرافک چینل‘‘ نے اس موقع کی مناسبت سے ڈاکو منٹری فلمیں دکھائیں اور متعدد پروگرام نشر کیے، ہزاروں کتابیں اس موضوع پر لکھی اور چھاپی گئیں۔ یورپ میں ہزاروں افراد نے خانقاہوں اور عبادت گاہوں کا رخ کیا اور دعائیں مانگیں۔

اس سارے ہنگامے کے دوران کسی مسلمان ملک میں کوئی ’’تیاری‘‘ ہوئی نہ کسی نے اس پیشگوئی پر یقین کیا۔ گنہ گار سے گنہ گار اور جاہل سے جاہل مسلمان کا بھی اس امر پر پختہ یقین بلکہ ایمان ہے کہ قیامت کا علم خدائے بزرگ وبرتر کے علاوہ کسی کو نہیں ہے! اس زمانے میں بھی جب مسلمانوں کی اکثریت اسلامی تعلیمات سے دور ہوتی جارہی ہے، اسلام کا معجزہ ہے کہ جس خبر کی وجہ سے کروڑوں لوگوں کا ذہنی سکون برباد ہوگیا، کسی مسلمان نے اسے گھاس کے تنکے جیسی اہمیت بھی نہیں دی۔ اس گنہ گار امت پر اسلام کا اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ایک عظیم احسان ہے۔

غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اسلام نے یہ کہہ کر کہ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، انسانیت پر خاص طورپر مسلمانوں پر خاص عنایت کی ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ اگر مستقبل کا علم ہمارے فائدے میں ہوتا تو خدا کے لیے یہ کام کون سا مشکل تھا کہ ہمیں مستقبل کا علم عطا فرما دیتا۔ لیکن ہمارا نفع اس میں ہے کہ مستقبل سے بے خبر رکھا جائے۔ فرض کیجیے مجھے معلوم ہوجاتا ہے کہ میں کسی ہسپتال میں مروں گا تو میں زندگی بھر ہسپتالوں سے دور بھاگتا رہوں گا۔ کسی کو بتا دیجیے کہ تمہاری عمر ایک سو دس سال ہوگی، اس نے اسی لمحے سے ماتم شروع کردینا ہے کہ میرا اتنا وقت کم ہوگیا۔ اسی لیے روایات میں بیان کیا گیا ہے کہ غیب کی خبروں پر یقین کرنا تو دور کی بات ہے، پوچھنا بھی جائز نہیں ہے۔ اگر کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ اسے ہمارے ماضی اور مستقبل کی خبریں معلوم ہیں تو ہمیں اس کے اس علم کا انکار یا اقرار کرنے کی ضرورت ہی نہیں، ہمارا مؤقف یہ ہے کہ ہمارے ماضی کی خبریں ہمارے لیے فضول ہیں کیوں کہ ہمارا ماضی ہمیں معلوم ہے، رہیں ہمارے مستقبل کی خبریں تو وہ ہمارے لیے نفع آور ہی نہیں۔ ان سے ہمارا سکون، ہمارا اعتماد، ہماری عزت نفس اور ہماری نفسیات۔ سب کچھ جاتا رہے گا! قیامت کل آنی ہے یا ایک سال بعد یا ہزار سال بعد‘ اس سے ہماری اس زندگی کو کیا فرق پڑے گا جس کے بارے میں اللہ اور اللہ کے رسولؐ نے ہمیں مفصل ہدایات دے دی ہیں۔ ہمیں تو اپنی زندگی ہروقت اس طرح بسر کرنی چاہیے گویا قیامت سرپر کھڑی ہے اور وقت بہت ہی کم ہے۔ ہمیں ایک لمحہ ضائع کیے بغیر فرائض کی انجام دہی کرنی چاہیے اور لوگوں کے حقوق ادا کردینے چاہئیں ۔ کیا ہم صرف اسی صورت میں غلط روی سے بچیں گے جب ہمیں کوئی یہ بتائے کہ قیامت فلاں دن آرہی ہے؟ یہ ایک مضحکہ خیز بات ہے۔

اسلام کا سب سے بڑا انعام بنی نوع انسان پر یہ ہے کہ انسان کو انسان کی غلامی سے بچا لیا گیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے غیب کا علم، مستقبل کا حال، صحت، عزت، اولاد، موسم، سب کچھ اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ اگر ہمیں یہ معلوم ہوجائے کہ فلاں انسان ہمیں قیامت کا دن یا ہمارے مرنے کا دن بتا سکتا ہے یا ہمیں عزت اور اولاد دے سکتا ہے تو ہم نہ صرف یہ کہ اس کے غلام ہو جائیں گے بلکہ شاید سجدہ بھی کرنے لگ جائیں۔ اگر عزت ، ذہانت ، صحت اور اولاد کسی انسان کے اختیار میں ہوتی تو ہما شما کی تو باری ہی نہ آتی۔ پہلے یہ نعمتیں قاف لیگ‘ نون لیگ، پیپلزپارٹی کو یا ارب پتیوں کو ملتیں! آج جو شہزادے محلات اور کارخانوں کے مالک ہیں جن کے ’’آبائی‘‘ اثاثے سارے براعظموں میں پھیلے ہوئے ہیں اور سیاسی جماعتوں کی سربراہی جنہیں وراثت میں ملے گی، ان کے پاس وہ ذہانت نہیں جو پروردگار عالم نے کسی غریب گھر میں پیدا ہونے والے بچے کو دی ہے جو دنیا کا بڑا سرجن، ڈاکٹر یا سائنسدان بن جاتا ہے اور مخلوق خدا اس کی عزت دل سے کرتی ہے۔

انسان خواہ جتنا بھی بڑا ہو دوسرے انسان کی تقدیر کا مالک نہیں بن سکتا! یہی وہ احتیاج ہے جس سے اسلام نے ہمیں نجات دی ہے۔ کوئی سادھو، کوئی جوگی، کوئی تھری پیس سوٹ پہن کر گھومنے والی کرسی پر براجمان شخص، کوئی سبز چغے یا لمبے کرتے والا، کوئی گلے میں منکے پہننے والا، ہمیں نقصان پہنچا سکتا ہے نہ فائدہ۔ ہمارا فائدہ صرف اس بات میں ہے کہ ہم اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کریں۔ میں اگر ناجائز مال کما رہا ہوں، رشتہ داروں سے قطع تعلق کرتا ہوں، کم تولتا ہوں، وعدہ خلافی کا مرتکب ہوتا ہوں ریاست کا ٹیکس چوری کرتا ہوں، تو میں لاکھ کسی کے ہاتھ چوموں، اسے نذرانے دوں، اس کے سامنے چارپائی الٹی کرکے بیٹھوں، مجھے کوئی ترکیب ناکامی اور رسوائی سے نہیں بچاسکتی۔ جن لوگوں کے حقوق میں پامال کررہا ہوں، وہی لوگ مجھے معاف کرنے کا حق اور اختیار رکھتے ہیں ۔ یہی وہ کلید ہے جو ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عطا کی ہے۔ اگر ہم دروازہ کسی اور کلید سے کھولنے کی کوشش کررہے ہیں تو ہم بدقسمت تو ہیں ہی، احمق بھی ہیں!

1 comment:

آوارہ فکر said...

بہت عمدہ کالم ہے جناب۔
خوش رہیں۔

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com