Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, December 31, 2012

تاجر برادری

Friday, December 28, 2012

تھانہ اور مُرغیوں کی فِیڈ

نجم حسین سید پنجابی زبان کے مانے ہوئے ادیب ہیں۔ پنجابی ادب کی تنقید پر ان کی مشہور کتابRECURRENT PATTERNS IN PANJABI POETRY.بیرون ملک کئی یونیورسٹیوں میں شامل نصاب ہے۔ 27 کتابوں کے مصنف نجم حسین سید سول سروس میں تھے۔ کئی اونچے مناصب پر فائز رہے۔ سرکاری گاڑی استعمال نہیں کرتے تھے اور دفتر آنے جانے کے لیے ویگن یا بس سے سفر کرتے تھے۔ پنجاب یونیورسٹی میں پنجابی ادب کا شعبہ 1971ء میں آغاز ہوا۔ اس وقت علامہ علائو الدین صدیقی وائس چانسلر تھے۔ 1973ء میں نجم حسین سید صاحب کو بطور صدر شعبہ لایا گیا۔ وہ سول سروس کا تزک و احتشام چھوڑ کر تین سال یونیورسٹی میں رہے اور شعبے کی بنیادیں مضبوط کیں۔ شاہ صاحب چونکہ خارج از وزن شاعری نہیں کرتے اور جینوئن شاعر اور ڈرامہ نگار ہیں اس لیے الیکٹرانک میڈیا پر چھائے ہوئے ’’بلند قامت‘‘ ارباب اختیار کو ان کا علم ہی نہیں! نجم صاحب کے لکھے ہوئے ایک ڈرامے میں ایک منظر یوں ہے کہ گائوں کی ایک عورت کو ظالم جاگیردار تھانے بھجوا دیتا ہے تاکہ اس کا دماغ درست کیا جا سکے۔ تھانے میں وہ پریشان حال ننگے سر بیٹھی ہے کہ ایک مولانا صاحب کا گزر ہوتا ہے، اسے برہنہ سر دیکھ کر حضرت کی مذہبی غیرت جوش میں آ جاتی ہے، وہ اسے خوب لعن طعن کرتے ہیں اور تلقین فرماتے ہیں کہ سر سے دوپٹہ نہ اتارا کرے۔

یہ منظر یاد آنے کی وجہ یہ ہوئی کہ مرغیوں کی فیڈ (خوراک) میں مرے ہوئے کتے، گدھے اور دوسرے مردہ جانور ڈالنے کا ان دنوں پریس میں ذکر ہے اور خوب ہنگامہ ہے۔ بتایا گیا ہے کہ لاہور اور قصور کے نواح میں یہ کام زور و شور سے ہو رہا ہے۔ مردہ جانور اکٹھے کرکے ان کی کھال اتاری جاتی ہے۔ دمیں کاٹ دی جاتی ہیں۔ چربی الگ جمع کرکے تیل بنایا جاتا ہے۔ آخری مرحلے میں گوشت، ہڈیاں، سینگ اور دیگر اجزا بڑے بڑے کڑاہوں میں ڈال کر تیز آگ پر ’’پکائے‘‘ جاتے ہیں۔ بلند درجۂ حرارت کی وجہ سے سب کچھ پگھل جاتا ہے اور ایک چٹنی نما مواد بن جاتا ہے۔ یہ مواد فیڈ تیار کرنے والوں کو بھیج دیا جاتا ہے جو اسے فیڈ کے دوسرے اجزا میں ملا دیتے ہیں۔ چربی سے بنا ہوا تیل‘ صابن بنانے والی فیکٹریوں میں بھی بھیجا جاتا ہے اور خبر کے بقول لاہور کے نواحی علاقوں میں سموسے، پکوڑے اور آلو کے چپس تلنے والے بھی اس تیل کو استعمال کرتے ہیں۔ مردہ جانوروں کے حصول میں ضلعی حکومت کے اہلکاروں کی خدمات سے بھی فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔

ہم اس مکروہ دھندے کے قطعاً حامی نہیں۔ ہمارا اعتراض صرف یہ ہے کہ اس قبیل کے دھندے کرنے والے لوگ ایک بہت بڑی علامتی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ آخر پریس ان کے پیچھے ٹین کیوں باندھ رہا ہے؟ملک میں جو صورت حال ہے اس کے پیش نظر مرے ہوئے کتوں اور گدھوں کو مرغیوں کی فیڈ میں ملانے پر اعتراض بالکل ایسا ہی ہے جیسا تھانے میں جوتے کھانے والی عورت کو اس بات پر کوسنا کہ وہ سر سے ننگی ہے۔ اگر کوئی آسمان پر جا کر وہاں سے دیکھے تو اسے معلوم ہو کہ اس ملک کے اوپر لاکھوں مردہ کتوں اور گدھوں کی بدروحوں کا سایہ ہے۔ کون ہے جو بڑے کڑاہ میں چٹنی جیسا مواد تیار نہیں کر رہا۔ فرق صرف یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے دکاندار اور کاروباری لوگ جو کچھ کر رہے ہیں صرف وہی ظاہری آنکھوں کو نظر آ رہا

ہے۔ معزز طبقات بھی یہی کچھ کر رہے ہیں۔ چربی سے تیل الگ بنا رہے ہیں، دمیں الگ اکٹھی کر رہے ہیں اور گوشت سینگ اور ہڈیاں الگ پکا رہے ہیں۔ لیکن اسے دیکھنے کے لیے ظاہری بینائی کے علاوہ بھی کچھ درکار ہے اور پھر مروت یا خوف کی وجہ سے دیکھ پانے والے ہونٹوں کو سی بھی لیتے ہیں!

وزیراعظم نے، جن کے بارے میں کچھ لوگوں کو خوش فہمی لاحق ہو رہی تھی کہ اپنے پیشرو سے بہتر ہیں، اپنے داماد کو پے در پے ترقیاں دینے دلوانے کے بعد آخری ایکٹ کے طور پر واشنگٹن ورلڈ بینک میں فائز کر دیا ہے جو کبھی بلند و بالا منصب خالی ہوتا ہے، خواہ وفاقی محتسب کا ہو، فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین کا ہو، ایشیائی بنک کے ڈائریکٹر کا ہو، تعینات وہی ہوتا ہے جو ایوان صدر یا وزیراعظم کے دفتر میں پہلے سے بیٹھا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان عالی شان محلات میں کوئی عام بیوروکریٹ تو پوسٹ نہیں ہوتا وہی ہوتا ہے جس کا گھوڑا مراسم کی بازی گاہ میں تیز دوڑ سکتا ہے۔ یہ تو مرکز کی صرف ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ جو کچھ صوبوں میں ہو رہا ہے، فزوں تر ہے۔ وہاں تو کھال اتارے بغیر ہی کڑاہ بھرے جا رہے ہیں۔ سندھ میں یہی نہیں معلوم ہونے دیا جا رہا کہ احکام کا اصل منبع کہاں ہے اور کون ہے۔ کراچی شہر میں قتل عام ہے اور سنا ہے کہ وہاں گورنر، وزیراعلیٰ اور ایک صوبائی کابینہ بھی ہے۔ پنجاب کی اسمبلی میں ہنگامہ اس بات پر ہوا کہ وزیراعلیٰ کو لاہور کا میئر کیوں کہا گیا۔ مقتدر جماعت کو اعتراض یقینا میئر کے لفظ پر ہوگا۔ اگر پیپلزپارٹی والے وزیراعلیٰ کو لاہور کا وزیراعلیٰ کہتے تو فساد نہ ہوتا۔ فراست کا ایک اور ثبوت دیکھیے کہ صوبائی اسمبلی میں ایم ایم اے کا نمائندہ کالا باغ ڈیم کی جلد تعمیر کے لیے قرارداد پیش کرنا چاہتا تھا۔ جس ملک میں آبادی کی اکثریت کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں وہاں گزشتہ ایک سال کے دوران ایک کروڑ روپے کا پینے کا پانی ان عمائدین اور امرا کے لیے درآمد کیا گیا جو بڑے بڑے کڑاہوں کے آگے بیٹھے ہیں۔ نیب نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا ہے کہ صرف چار پٹواریوں ہی کی کرپشن ایک ارب روپے کی بن رہی ہے۔

جہنم نما کڑاہوں میں چربی سے تیل بنانے والے معززین جمہوریت کے لیے اس قدر مخلص ہیں کہ سیاست کرتے ہوئے سر چٹے اور کمریں کمان ہو گئی ہیں، لیکن کم سن شہزادوں کے آگے کبھی قیام کی حالت میں ہیں تو کبھی رکوع کر رہے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری مزار قائد پر حاضری کے بعد مہمانوں کی کتاب میں تاثرات درج کر رہے ہیں اور بڑے بڑے نامی گرامی حضرات پیچھے کھڑے سعادت مندی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ نون میں چوہدری نثار، خواجہ آصف اور سعد رفیق جیسے سینئر ارکان موجود ہیں اور حکومت پنجاب میں بھی کچھ وزیر ضرور ہوں گے لیکن کوئی کامرس کالج ہے یا کسی کرکٹ گرائونڈ کا افتتاح ہے یا کسی ہسپتال کا سنگ بنیاد ہے، سارے کے سارے ’’فرائض‘‘ حمزہ شہباز شریف ہی نے انجام دینے ہیں! کچھ لوگ میاں نواز شریف صاحب کی سالگرہ کا کیک کاٹتے ہوئے باقاعدہ تصویر بنوا رہے ہیں! کیا مضحکہ خیز مناظر ہیں!

ایک بہت بڑی مذہبی جماعت میں (جو سیاست سے اتنی ہی الگ تھلگ ہے جتنی حقوق العباد سے) بھاری اکثریت تاجروں کی ہے۔ یہ تاجر معمولی نہیں، بڑے بڑے ہیں۔ ماشاء اللہ متشرع ہیں۔ دین کے راستے میں محنت کرتے ہیں۔ دن میں کئی کئی تسبیحات پڑھتے ہیں۔ اس کے باوجود ملک میں ملاوٹ اور ٹیکس چوری عروج پر ہے۔ معصوم بچوں کے دودھ سے لے کر جاں بلب مریضوں کے منہ میں جانے والی ادویات تک سب کچھ جعلی ہے۔ ماپ تول کم ہے۔ منافع خوری زیادہ ہے اور یہ سب کچھ تاجر کر رہے ہیں۔ مبلغ حضرات کا سارا زور مشہور فنکاروں‘ کھلاڑیوں‘ مغنیوں اور اداکاروں پر ہے۔ حُب جاہ بھی کیا کیا صورتیں اختیار کرتی ہے! ؎

سادگی سے تم نہ سمجھے ترک دنیا کا سبب

ورنہ وہ درویش پردے میں تھے دنیا دار بھی!

ایک زمانہ تھا کہ محمود اور ایاز ایک صف میں کھڑے ہوتے تھے اب عوام کی صفیں الگ ہیں اور خواص کے لیے دین کے بندوبست الگ ہیں!

رہے ملک کے وزراء، تو اگر معلوم ہو جائے کہ انہوں نے پانچ سال میں بھرتیوں، تعیناتیوں، تبادلوں اور ترقیوں کے لیے کتنی سفارشیں کی ہیں تو صرف انہی اعداد و شمار سے کڑا ہوں کے کڑاہ بھر جائیں۔ تعجب ہے ہمارے پریس کو صرف وہ مردہ کتے اور وہ مردہ گدھے نظر آتے ہیں جنہیں مرغیوں کی فیڈ بنانے والے چھوٹے چھوٹے لوگ چیرتے پھاڑتے ہیں!

Facebook.com/izharulhaq.net

Tuesday, December 25, 2012

چیونٹی کی کھال

بشیر بلور اور ان کے ساتھ آٹھ افراد کو شہید کر دیا گیا، درجنوں زخمی ہوئے، تین زخمی موت و حیات کی کشمکش میں ہیں، بارود ایک بار پھر جیت گیا۔ دلیل ایک مرتبہ پھر ہار گئی ؎

صحنِ گلشن میں بہرِ مشتاقاں

ہر روش کھِنچ گئی کماں کی طرح

اس کالم نگار نے کئی مواقع پر اے این پی کی پالیسیوں سے اختلاف کیا ہے۔ بعض اوقات شدید اختلاف۔ لیکن طاقت کے ظالمانہ استعمال کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ انسانی جان لینے کا حق اس دنیا کے خالق نے کسی کو نہیں دیا۔ کسی فرد یا گروہ کو عدالتیں لگانے اور لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا کوئی اختیار نہیں۔ آج نہیں تو کل حساب دینا ہوگا ؎

کھڑے ہوں گے نگوں سر قُطب اور ابدال سارے

کھرے کھوٹے الگ ہو جائیں گے اعمال سارے

دہشت گردی کا کوئی مذہب ہے نہ نظریہ۔ آخر اس بھیڑیے کا نظریہ یا مذہب ہو بھی کیا سکتا ہے جو دلیل کا جواب پنجے سے دے۔ اس نے جب میمنے سے کہا کہ تم پانی گدلا کر رہے ہو اور میمنے نے دلیل دی کہ پانی تو اونچائی سے نشیب کی طرف بہہ رہا ہے، تم اونچائی پر کھڑے ہو اور میں نشیب میں ہوں تو اس دلیل کا جواب میمنے کو اپنی موت کی شکل میں ملا۔ جو حضرات اصرار کر رہے ہیں کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کیے جائیں، انہیں یہی نہیں معلوم کہ مذاکرات کا ایجنڈا کیا ہوگا اور دہشت گرد چاہتے کیا ہیں۔

پاکستان کی اصل بدقسمتی تو اس بچے کی بدقسمتی کی طرح ہے جو پیدائشی اپاہج ہو۔ افغانستان کے ساتھ مشترکہ سرحد ایک ایسی جغرافیائی بدبختی ہے جس کا شاید ہی کوئی علاج ہو۔ مغلوں سے لے کر انگریزوں تک… شاید ہی کوئی حکومت ایسی ہو جسے افغانستان کے جنگجوئوں نے آرام سے بیٹھنے دیا ہو۔ حضرت عمر فاروقؓ کے عہد میں مدائن فتح ہوا۔ اس کے بعد جب حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے فاروق اعظم ؓسے پہاڑوں کے اس پار ایرانیوں کا تعاقب کرنے کی اجازت طلب کی تو امیر المومنین نے جواب میں لکھا:

’’کاش! سواد اور پہاڑ کے درمیان ایک دیوار کھڑی ہو جائے کہ نہ وہ ہماری طرف آ سکیں اور نہ ہم ان کی طرف جا سکیں۔ ہمارے لیے سواد کی شاداب زمینیں کافی ہیں۔ میں مسلمانوں کی سلامتی کو مال غنیمت پر ترجیح دیتا ہوں۔‘‘

حضرت عمرؓ کی یہ پالیسی کامیاب کیوں نہ ہوئی، یہ ایک اور موضوع ہے، لیکن افغانستان کا معاملہ ایسا ہی ہے۔ کاش افغانستان اور پاکستان کے درمیان ایک دیوار کھڑی ہو جائے کہ نہ وہ ہماری طرف آ سکیں اور نہ ہم ان کی طرف جا سکیں۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ! ہم ایک ایسے ملک کے پڑوسی ہیں جس میں جُراب تو کیا بٹن تک نہیں بنتا اور جہاں مویشیوں اور پکی ہوئی روٹیوں سے لے کر مکان تعمیر کرنے کے لیے سیمنٹ اور سریا تک یہاں سے سمگل ہو کر جاتا ہے اور مستقبل میں بھی یہی ہوگا ؎

کام اس سے آ پڑا ہے کہ جس کا جہان میں

لیوے نہ کوئی نام ستم گر کہے بغیر

اس جہاد کا، جسے بہت سے لوگ جہاد نہیں مانتے اور جس کے لیے ہتھیار اور ڈالر امریکی نصرانیوں اور یہودیوں نے فراہم کیے تھے، اس جہاد کا سب سے زیادہ نقصان خیبر پختونخوا کے پاکستانیوں کو پہنچا۔ افغان مہاجرین، جنہیں ایران نے کیمپوں کے اردگرد لگی ہوئی خاردار تاروں سے باہر نہ نکلنے دیا، خیبر پختونخوا اور پھر پورے ملک میں حشرات الارض کی طرح پھیل گئے، پشاور اور دوسرے شہروں میں مکانوں کے کرائے آسمان کو چھونے لگے، ٹرانسپورٹ سے لے کر مزدوری اور دکانداری تک ہر شعبے پر مہاجرین چھا گئے اور خیبر پختونخوا کے پاکستانی اپنے ہی ملک میں ثانوی حیثیت اختیار کرتے گئے۔ یہ وہ اونٹ تھا جو خیمے کے اندر گھستا چلا آیا۔ آج لاکھوں ’’مہاجرین‘‘ یہاں صاحب جائیداد ہیں اور ان کی جیبوں میں پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ ہیں!

کچھ سیاسی جماعتوں کا، بالخصوص مذہبی سیاسی جماعتوں کا اور علماء کا کردار حالات کو سنگین تر کرتا رہا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ مولوی فضل اللہ سے لے کر حکیم اللہ محسود تک… تمام عسکریت پسند ایک مخصوص مکتب فکر کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں اور آج بھی کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے اس مکتب فکر کے علماء کی بھاری اکثریت نے عسکریت پسندوں سے اور ان کی خونریزی سے برأت کا اعلان کبھی نہیں کیا۔ یہاں تک کہ جب قبروں سے دوسرے عقیدے کے سرکردہ افراد کی نعشیں تک نکال کر بازاروں میں لٹکائی گئیں اور مزاروں پر پے در پے دھماکے کیے گئے تب بھی اعلان لاتعلقی نہ کیا گیا۔ ایک معروف عالم دین سے جب ٹیلی ویژن پر اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ فتنوں کا زمانہ ہے اور خاموشی بہتر ہے لیکن یہی دھماکے جب کراچی کے جوڑیا بازار میں ہوئے تو باقاعدہ پریس کانفرنسیں کی گئیں اور تشویش کا اظہار کیا گیا۔ یہ رویہ پورے ملک کے بارے میں ہونا چاہیے تھا۔ بشیر بلور کی شہادت کے واقعہ ہی کو لے لیجئے۔ اسی شام ایک ٹیلی ویژن چینل پر ایک اینکر پرسن نے سیاست دانوں سے گفتگو کی جس کی روداد دوسرے دن کے اخبارات میں شائع ہوئی۔ پڑھ کر انسان گنگ رہ جاتا ہے کہ سیاسی مصلحتیں اور عقیدے کا لحاظ کس طرح حقائق کو نگاہوں سے اوجھل کر دیتا ہے۔ خبر کے مطابق مسلم لیگ کے رکن قومی اسمبلی ایاز امیر نے کہا کہ بشیر احمد بلور نڈر مگر دھیمے لہجے کے مالک تھے۔ انہوں نے کہا کہ بشیر بلور کو کئی مرتبہ جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی ملتی تھیں لیکن انہوں نے ہمیشہ بہادری کا مظاہرہ کیا اور کبھی کسی خندق میں نہیں گئے۔ بطور قوم ہمیں دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کا سوچنا ہوگا۔ اسلام کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ افسوس ناک ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ طالبان کے حملوں کی مذمت اور بلور خاندان سے ہمدردی لازمی ہے۔ اسی پروگرام میں جماعت اسلامی کے رہنما سراج الحق صاحب کیا فرماتے ہیں، یہ بھی پڑھیے: ’’سراج الحق نے کہا کہ عوام شدید کرب سے گزر رہے ہیں۔ حکومت پانچ سال پورے کر رہی ہے مگر امن نہیں دے سکی۔ پچھلے پانچ سال میں ہمیں حکومت میں سے کسی نے نہیں بلایا کہ یہ مسئلہ ہے اور اس پر مشاورت کرنی ہے حکومت کی پالیسی دو سو فیصد تک ناکام ہو چکی ہے۔‘‘

یہ حضرات جو عسکریت پسندوں کی مذمت تو کیا، نام تک لینا گوارا نہیں کر رہے، یہ نہیں سمجھ پا رہے کہ اس آگ کے شعلے کل ان کے گھروں تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔ مشہور جرمن پادری مارٹن نیمولر، اشتراکیوں کا مخالف تھا۔ اس مخالفت کے چکر میں آ کر اس نے شروع میں ہٹلر کا ساتھ دیا لیکن جب اس نے دیکھا کہ ہٹلر کسی کو بھی معاف نہیں کر رہا تو وہ دلبرداشتہ ہو کر مخالف کیمپ سے وابستہ ہو گیا۔ 1937ء میں جب اسے گرفتار کیا گیا تو اس کا جرم یہ تھا کہ وہ ’’نازی تحریک کے بارے میں زیادہ پرجوش نہیں…‘‘۔ نیمولر کی ایک نظم ضرب المثل ہو چکی ہے:

’’سب سے پہلے وہ کمیونسٹوں کو پکڑنے آئے۔

میں خاموش رہا کیونکہ میں کمیونسٹ نہ تھا۔

پھر وہ سوشلسٹوں کو مارنے آئے۔

میں خاموش رہا کیونکہ میں سوشلسٹ نہ تھا۔

پھر وہ مزدور رہنمائوں کو قتل کرنے آئے۔

میں چپ رہا، میرا ٹریڈ یونین سے کوئی تعلق نہ تھا۔

پھر وہ یہودیوں کو تلاش کرنے آئے۔

میں خاموش رہا، میں یہودی نہ تھا۔

پھر وہ کیتھولک عیسائیوں کو ختم کرنے کے لیے آئے۔

میں خاموش رہا، میں کیتھولک نہ تھا۔

پھر وہ مجھے پکڑنے آ گئے،

افسوس! اب کوئی باقی ہی نہ بچا تھا کہ میرے لیے آواز اٹھاتا۔

جس صورت حال سے ہم گزر رہے ہیں اس کا تعلق یقینا خطے میں امریکی مداخلت سے بھی ہے۔ لیکن امریکی مداخلت کو واحد سبب قرار دینا درست ہے نہ دانش مندی۔ اسباب کے ڈانڈے ہماری اس پالیسی سے جا ملتے ہیں جو ہم نے انگریزی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی اپنے قبائلی علاقوں کے لیے جاری رکھی اور اس نظام تعلیم سے بھی جس نے ایک طرف مدارس کو کھڑا کر رکھا ہے اور دوسری طرف سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو۔ لیکن یہ موضوع طویل ہے، اسے کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیں۔

سلطان محمود غزنوی اور فردوسی کا ہم عصر اسدی طوسیؔ ایک جنگل کی تعریف کرتے ہوئے بیان کرتا ہے کہ جنگل کس قدر گھنا تھا ؎

نتابیدہ اندر وی از چرخ ہور

ز تنگی رہش پوست رفتی ز مور

سورج کبھی اس جنگل میں چمکا ہی نہ تھا اور گھنا اتنا تھا کہ چیونٹی اس میں چلتی تو اس کی کھال اتر جاتی۔

ہم ایک ایسے ہی جنگل میں پھنس چکے ہیں۔

Facebook.com/izharulhaq.net

Monday, December 24, 2012

کلید

’’بُگارَخ‘‘ ایک ننھا منا پہاڑی گائوں ہے۔ فرانس کے جنوب مغربی حصے میں واقع اس گائوں کی کل آبادی دوسوافراد سے زیادہ نہیں۔ دسمبر کے آخر میں لوگوں نے اس گائوں کا رخ کرنا شروع کردیا۔ وسطی امریکہ کے قدیم کیلنڈر کے مطابق 21دسمبر 2012ء کے دن دنیا کا خاتمہ ہوجانا تھا۔ بہت سے لوگوں کا اس بات پر یقین تھا کہ بُگارَخ گائوں کے پہاڑوں میں اڑن طشتریوں پر آئی ہوئی دوسری دنیائوں کی مخلوق آباد ہے اور جب 21دسمبر کو دنیا ختم ہوگی تو یہ مخلوق اردگرد بسنے والے انسانوں کو کسی اور جہان میں لے جائے گی اور یوں کچھ لوگ تباہی سے بچ جائیں گے۔ گائوں کے میئر نے واویلا مچایا کہ ذرا سا گائوں ہزاروں لاکھوں لوگوں کو کیسے سنبھال سکتا ہے۔ بالآخر فرانس کی حکومت کو وہاں پولیس متعین کرنا پڑی جس نے باہر سے آنے والے لوگوں کو واپس بھیجنا شروع کردیا۔

21دسمبر 2012ء کے دن قیامت آنے کی اس خبر نے جس پر کروڑوں افراد نے یقین کرلیا‘ صرف فرانس کے اس گائوں ہی میں افراتفری نہیں برپا کی، دنیا کے مختلف حصوں میں لوگوں نے اس ’’مصیبت ‘‘ سے عہدہ برآہونے کی خوب خوب تیاریاں کیں۔ روس میں ماچسیں، موم بتیاں، لالٹینیں اور خوراک کے ڈبے اس قدر خریدے گئے کہ دکانیں خالی ہوگئیں۔ جنگ عظیم کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لئے سٹالن نے ماسکو میں ایک حفاظتی تہہ خانہ بنوایا تھا جس میں اب ایک عجائب گھر بنا ہوا ہے۔ اس عجائب گھر نے اعلان کیا کہ یہ تہہ خانہ دنیا کے خاتمے پر پناہ لینے والوں کو بچا سکتا ہے ۔ چنانچہ ایک ایک ٹکٹ اس میں پناہ لینے کے لئے 920پائونڈ میں بکا یہاں تک کہ تہہ خانے میں جس قدر گنجائش تھی، اس لحاظ سے سارے ٹکٹ فروخت ہوگئے۔ چین میں ’’قیامت‘‘ سے ایک دن پہلے بے شمار شادیاں رچائی گئیں۔ برازیل میں شہروں کی انتظامیہ خود شہریوں کو اس دن کے لئے تیار کرتی رہی اور ترغیب دیتی رہی کہ موم بتیاں اور خوراک کو ذخیرہ کرلیا جائے۔ ’’قیامت‘‘ سے بچ جانے والوں کے لیے کالونی تعمیر کی گئی۔ پولیس نے کئی گروہوں کو اجتماعی خودکشی سے روکا۔ ٹیلی ویژن کے ’’ہسٹری چینل‘‘،’’ڈسکوری چینل‘‘ اور ’’نیشنل جیوگرافک چینل‘‘ نے اس موقع کی مناسبت سے ڈاکو منٹری فلمیں دکھائیں اور متعدد پروگرام نشر کیے، ہزاروں کتابیں اس موضوع پر لکھی اور چھاپی گئیں۔ یورپ میں ہزاروں افراد نے خانقاہوں اور عبادت گاہوں کا رخ کیا اور دعائیں مانگیں۔

اس سارے ہنگامے کے دوران کسی مسلمان ملک میں کوئی ’’تیاری‘‘ ہوئی نہ کسی نے اس پیشگوئی پر یقین کیا۔ گنہ گار سے گنہ گار اور جاہل سے جاہل مسلمان کا بھی اس امر پر پختہ یقین بلکہ ایمان ہے کہ قیامت کا علم خدائے بزرگ وبرتر کے علاوہ کسی کو نہیں ہے! اس زمانے میں بھی جب مسلمانوں کی اکثریت اسلامی تعلیمات سے دور ہوتی جارہی ہے، اسلام کا معجزہ ہے کہ جس خبر کی وجہ سے کروڑوں لوگوں کا ذہنی سکون برباد ہوگیا، کسی مسلمان نے اسے گھاس کے تنکے جیسی اہمیت بھی نہیں دی۔ اس گنہ گار امت پر اسلام کا اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ایک عظیم احسان ہے۔

غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اسلام نے یہ کہہ کر کہ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، انسانیت پر خاص طورپر مسلمانوں پر خاص عنایت کی ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ اگر مستقبل کا علم ہمارے فائدے میں ہوتا تو خدا کے لیے یہ کام کون سا مشکل تھا کہ ہمیں مستقبل کا علم عطا فرما دیتا۔ لیکن ہمارا نفع اس میں ہے کہ مستقبل سے بے خبر رکھا جائے۔ فرض کیجیے مجھے معلوم ہوجاتا ہے کہ میں کسی ہسپتال میں مروں گا تو میں زندگی بھر ہسپتالوں سے دور بھاگتا رہوں گا۔ کسی کو بتا دیجیے کہ تمہاری عمر ایک سو دس سال ہوگی، اس نے اسی لمحے سے ماتم شروع کردینا ہے کہ میرا اتنا وقت کم ہوگیا۔ اسی لیے روایات میں بیان کیا گیا ہے کہ غیب کی خبروں پر یقین کرنا تو دور کی بات ہے، پوچھنا بھی جائز نہیں ہے۔ اگر کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ اسے ہمارے ماضی اور مستقبل کی خبریں معلوم ہیں تو ہمیں اس کے اس علم کا انکار یا اقرار کرنے کی ضرورت ہی نہیں، ہمارا مؤقف یہ ہے کہ ہمارے ماضی کی خبریں ہمارے لیے فضول ہیں کیوں کہ ہمارا ماضی ہمیں معلوم ہے، رہیں ہمارے مستقبل کی خبریں تو وہ ہمارے لیے نفع آور ہی نہیں۔ ان سے ہمارا سکون، ہمارا اعتماد، ہماری عزت نفس اور ہماری نفسیات۔ سب کچھ جاتا رہے گا! قیامت کل آنی ہے یا ایک سال بعد یا ہزار سال بعد‘ اس سے ہماری اس زندگی کو کیا فرق پڑے گا جس کے بارے میں اللہ اور اللہ کے رسولؐ نے ہمیں مفصل ہدایات دے دی ہیں۔ ہمیں تو اپنی زندگی ہروقت اس طرح بسر کرنی چاہیے گویا قیامت سرپر کھڑی ہے اور وقت بہت ہی کم ہے۔ ہمیں ایک لمحہ ضائع کیے بغیر فرائض کی انجام دہی کرنی چاہیے اور لوگوں کے حقوق ادا کردینے چاہئیں ۔ کیا ہم صرف اسی صورت میں غلط روی سے بچیں گے جب ہمیں کوئی یہ بتائے کہ قیامت فلاں دن آرہی ہے؟ یہ ایک مضحکہ خیز بات ہے۔

اسلام کا سب سے بڑا انعام بنی نوع انسان پر یہ ہے کہ انسان کو انسان کی غلامی سے بچا لیا گیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے غیب کا علم، مستقبل کا حال، صحت، عزت، اولاد، موسم، سب کچھ اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ اگر ہمیں یہ معلوم ہوجائے کہ فلاں انسان ہمیں قیامت کا دن یا ہمارے مرنے کا دن بتا سکتا ہے یا ہمیں عزت اور اولاد دے سکتا ہے تو ہم نہ صرف یہ کہ اس کے غلام ہو جائیں گے بلکہ شاید سجدہ بھی کرنے لگ جائیں۔ اگر عزت ، ذہانت ، صحت اور اولاد کسی انسان کے اختیار میں ہوتی تو ہما شما کی تو باری ہی نہ آتی۔ پہلے یہ نعمتیں قاف لیگ‘ نون لیگ، پیپلزپارٹی کو یا ارب پتیوں کو ملتیں! آج جو شہزادے محلات اور کارخانوں کے مالک ہیں جن کے ’’آبائی‘‘ اثاثے سارے براعظموں میں پھیلے ہوئے ہیں اور سیاسی جماعتوں کی سربراہی جنہیں وراثت میں ملے گی، ان کے پاس وہ ذہانت نہیں جو پروردگار عالم نے کسی غریب گھر میں پیدا ہونے والے بچے کو دی ہے جو دنیا کا بڑا سرجن، ڈاکٹر یا سائنسدان بن جاتا ہے اور مخلوق خدا اس کی عزت دل سے کرتی ہے۔

انسان خواہ جتنا بھی بڑا ہو دوسرے انسان کی تقدیر کا مالک نہیں بن سکتا! یہی وہ احتیاج ہے جس سے اسلام نے ہمیں نجات دی ہے۔ کوئی سادھو، کوئی جوگی، کوئی تھری پیس سوٹ پہن کر گھومنے والی کرسی پر براجمان شخص، کوئی سبز چغے یا لمبے کرتے والا، کوئی گلے میں منکے پہننے والا، ہمیں نقصان پہنچا سکتا ہے نہ فائدہ۔ ہمارا فائدہ صرف اس بات میں ہے کہ ہم اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کریں۔ میں اگر ناجائز مال کما رہا ہوں، رشتہ داروں سے قطع تعلق کرتا ہوں، کم تولتا ہوں، وعدہ خلافی کا مرتکب ہوتا ہوں ریاست کا ٹیکس چوری کرتا ہوں، تو میں لاکھ کسی کے ہاتھ چوموں، اسے نذرانے دوں، اس کے سامنے چارپائی الٹی کرکے بیٹھوں، مجھے کوئی ترکیب ناکامی اور رسوائی سے نہیں بچاسکتی۔ جن لوگوں کے حقوق میں پامال کررہا ہوں، وہی لوگ مجھے معاف کرنے کا حق اور اختیار رکھتے ہیں ۔ یہی وہ کلید ہے جو ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عطا کی ہے۔ اگر ہم دروازہ کسی اور کلید سے کھولنے کی کوشش کررہے ہیں تو ہم بدقسمت تو ہیں ہی، احمق بھی ہیں!

Friday, December 21, 2012

خوش بختی

پاکستان کے مسلمانوں کی خوش بختی ہے کہ جب بھی ان کا سفینہ گرداب میں پھنستا ہے، پردۂ غیب سے کوئی ملاح ظہور پذیر ہوتا ہے اور انہیں نجات کے ساحل پر پہنچا دیتا ہے۔ اہل سیاست نے اس وقت تباہی اور بربادی کا جو بازار گرم کیا ہوا ہے اس سے وطن کے ہر خیرخواہ کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ جمہوریت میں عوام کے لیے کوئی خیر نہیں۔

یہ جو ہم نے کہا ہے کہ کوئی نہ کوئی نجات دہندہ پردۂ غیب سے آتا ہے اور ہمیں ساحل نجات پر لا پھینکتا ہے تو اس کی تصدیق ہماری تاریخ بھی کر رہی ہے۔ 1958ء میں ملک تباہی کے دہانے پر تھا۔ قدرت نے کرم کیا اور بلند قامت جنرل ایوب خان کا طویل دور اس قوم کے سر پر سایہ فگن کر دیا۔ دس سال تک ہم عوام اور عوام کے نمائندوں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رہے۔ قدرت نے مزید کرم کیا اور الطاف گوہر جیسی ذہین و فطین نوکر شاہی نے ’’عشرۂ ترقی‘‘ جیسے تصورات دیے۔ خوشحالی کی اس قدر ریل پیل ہوئی کہ مشرقی پاکستان کے بپھرتے دریائوں میں ہچکولے کھاتی کشتیوں پر بھی DECADE OF DEVELOPMENT کے بینر لہرا رہے ہوتے تھے۔ اسی عرصۂ عافیت کے دوران قوم نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو بھی انتخابات جیتنے کی آزمائش سے بچایا۔ خدانخواستہ وہ الیکشن میں کامیاب ہو جاتیں تو ان کے ناتواں کندھوں پر پورے ملک کا بوجھ آ پڑتا؛ چنانچہ جنرل ایوب خان کے مخلص مشیروں اور دوستوں نے مادر ملت کو اس پریشانی سے بچانے کے لیے انتخابات کو کامیابی سے ’’کنٹرول‘‘ کیا۔ ہاں، مشرقی پاکستان کے نامعقول باشندوں نے مادر ملت کے ساتھ دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے انہیں اپنے ہاں جتوا دیا۔

سترّ کی دہائی کا نصف آخر تھا جب قدرت پھر اہل پاکستان پر مہربان ہوئی۔ جمہوریت کا منحوس دور تھا۔ عوام کو یہ احساس دلایا جا رہا تھا کہ وہ طاقت کا اصل منبع ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو روٹی، کپڑے اور مکان کے چکر میں تھے۔ اس اثنا میں ان سے یہ غلطی ہوئی کہ انہوں نے میرٹ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، سینئر جرنیلوں کو نظر انداز کر دیا اور جنرل ضیاء الحق کو فوج کا سربراہ مقرر کر دیا۔ یہ دھاندلی جنرل ضیاء الحق کو اس قدر ناپسند آئی کہ وہ غضب ناک ہو گیا اور اس نے حکومت کا پورا تختہ ہی الٹ دیا۔ جمہوریت تختے سے نیچے گر پڑی۔ ضیاء الحق نے تختے کو جھاڑا، صاف کیا، بچھایا اور خود اس پر بیٹھ گیا۔ یوں ایک بار پھر اہل پاکستان بچ گئے۔

یہ دور نجات دس سال تک ضوفگن رہا۔ الطاف گوہر تو تھے نہیں کہ ایک اور ’’عشرۂ ترقی‘‘ منایا جاتا؛ اگرچہ بیوروکریسی میں ایسے ملازمین کی کمی نہیں تھی جو جنرل صاحب کو امیر المومنین سمجھتے تھے۔ ان لوگوں نے نکٹائیاں اتار کر گوداموں میں رکھ دیں کہ پھر کام آئیں گی اور واسکٹیں پہن لیں۔

88ء میں بدبختی نے ایک بار پھر سر اٹھایا اور جنرل صاحب داغ مفارقت دے گئے حالانکہ ارادہ ان کا ایسا کرنے کا ہرگز نہ تھا۔ 1999ء تک جمہوریت نے ملک کو پھر اندھیروں میں ڈالے رکھنے کی کوشش کی۔ کبھی موٹروے بنی اور کبھی عوامی فلاح کے اور ڈھکوسلے ہوئے۔ ہر طرف اندھیرا چھا رہا تھا کہ قدرت نے ایک بار پھر فریاد سنی۔ پرویز مشرف نے جمہوریت کو چلتا کیا اور لوگوں کو یقین دلایا کہ ان کی نجات اس میں ہے کہ ملک کو بچایا جائے۔ اس نے ’’پہلے پاکستان‘‘ کا دردمند نعرہ لگایا۔ دوسرے نمبر پر اپنے آپ کو رکھا اور یوں ملک کو نو دس سال کے لیے جمہوریت کے پھندے سے باہر نکال لیا۔

آج پھر ہر طرف سے کالی گھٹائیں امڈ امڈ کر آ رہی ہیں۔ آندھی ہے کہ تھم ہی نہیں رہی۔ دن کو بھی رات کی سیاہی کا سماں ہے۔ جمہوریت نے تباہی کو بالکل گھر کے باہر لا بٹھایا ہے۔ سیاست کا بازار گرم ہے۔ پانچ سال سے مارشل لا لگا نہ کسی نے قوم کو یہ بتایا کہ پہلے پاکستان کو بچائو، اور جمہوریت اور سیاست کی انتہائی خطرناک سرگرمیوں کو بند کرو۔ عمران خان سے کچھ امید تھی۔ اس نے ضمنی انتخابات سے کنارہ کشی اختیار کی تو یہ امید جگمگا اٹھی کہ کوئی تو ہے جو انتخابات سے گریزاں ہے لیکن سنا ہے کہ عام انتخابات میں وہ بھی کود رہا ہے اور ریاست کو بچانے کی اسے فکر ہی نہیں۔

مایوسی کے ان گھنے کالے بادلوں میں امید کی آخرکار کرن نمودار ہوئی ہے۔ شیخ الاسلام حضرت ڈاکٹر طاہر القادری نے کینیڈا کے برف زار کو داغ مفارقت دے کر واپس آنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے سیاست کے بجائے ریاست کو بچانے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ وہ قوم کے نجات دہندہ ہیں۔ عوام کی آنکھیں انتظار کرتے کرتے پتھرا گئی تھیں کہ قدرت نے ان کی دعائوں کو ثمربار کیا اور حضرت نے وطن کا رخ کیا حالانکہ اٹلانٹک کے اس پار جس ملک کو انہوں نے اپنی سکونت سے سرفراز کیا ہے، اس ملک کو بھی حضرت کی اشد ضرورت ہے لیکن آں جناب نے وطن مالوف کو ترجیح دی۔

شکر گزاری کی اس کیفیت ہی میں تھا کہ خیر کا ایک اور پہلو روشنی بن کر چاروں طرف پھیل گیا۔ ایک معاصر کا مطالعہ کرتے ہوئے سینئر کالم نگار جناب عرفان صدیقی کے ذریعے یہ خبر ملی کہ شیخ الاسلام کے پاس کینیڈا کی شہریت بھی ہے۔ اس پر فقیر سجدۂ شکر بجا لایا کہ غیب سے اس قوم کو ایک عظیم موقع صف اول کے ملکوں میں جگہ بنانے کا مل رہا ہے۔ معلومات عامہ میں دلچسپی رکھنے والے قارئین کو یاد ہوگا کہ چند دن پہلے جن ملکوں کو بدعنوانی سے پاک قرار دیا گیا ہے ان میں نیوزی لینڈ سرفہرست ہے۔ اسی طرح آسٹریلیا کے باشندوں کو دیانت میں بلند مقام دیا گیا ہے۔ کینیڈا کی معیشت اس وقت دنیا کی کامیاب ترین معیشت قرار دی جاتی ہے۔ اگر آپ غور کریں تو ان تینوں ممالک میں ایک شے مشترک پائیں گے اور وہ یہ ہے کہ یہ تینوں برطانیہ عظمیٰ کی ملکہ الزبتھ کی حکمرانی میں شامل ہیں۔ تینوں ملکوں کے گورنر ملکہ کے نمائندے ہوتے ہیں۔ اب اس حقیقت کو ملک کی اس خوش قسمتی سے ملا کر دیکھیے کہ حضرت شیخ الاسلام اگر کینیڈا کے شہری ہیں تو وہ ملکہ الزبتھ کی نمائندگی بھی کر رہے ہیں۔ کینیڈا کا شہری بننے کے لیے جو حلف اٹھانا پڑتا ہے۔ وہ آنجناب نے بھی اٹھایا ہوگا۔ اس حلف کے الفاظ یہ ہیں:

I SWEAR THAT I WILL BE FAITHFUL AND BEAR TRUE ALLEGIANCE TO HER MAJESTY QUEEN ELIZABETH II, HER HEIR AND SUCCESSORS, AND THAT I WILL FAITHFULLY OBSERVE THE LAWS OF CANADA AND FULFIL MY DUTY AS A CANADIAN CITIZEN.

اس حلف میں قسم اٹھا کر یہ عہد کیا گیا ہے کہ کینیڈا کی شہریت لینے والا شخص ملکہ الزبتھ اور اس کے جانشینوں کا وفادار رہے گا اور سچی وفاداری اور عقیدت پر کاربند رہے گا۔ اس کے آخری حصے میں اس عزم کی قسم اٹھائی جاتی ہے کہ ’’میں کینیڈا کے شہری کی حیثیت سے اپنا فرض پورا کروں گا…‘‘

اگر شیخ الاسلام سیاست کے بجائے ریاست کو بچانے کا فرض کینیڈا کے شہری کی حیثیت سے پورا کر رہے ہیں تو اہل پاکستان کو مبارک ہو، اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں، اللہ کے بندو! اگر ملکہ کے نام لیوا نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور کینیڈا کے گورنر بن کر ان ملکوں کی تقدیر بدل سکتے ہیں تو حضرت شیخ الاسلام جنہوں نے ملکہ کا وفادار رہنے کی قسم اٹھائی ہوئی ہے، پاکستان کو اپنے فیض سے چار چاند کیوں نہیں لگا سکتے؟

ہم بارگاہ رب العزت میں دست بدعا ہیں کہ حضرت حاسدوں کے شر سے محفوظ رہیں۔ چند دن ہوئے ایک بدخواہ نے ہمیں سمندر پار سے ایک ویڈیو ارسال کی جو EUROPENEWS.DK/EN/NODE/58303 پر کلک کرکے دیکھی جاتی ہے۔ اس میں حاسدوں نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ حضرت شیخ الاسلام بعض پاکستانی قوانین کے بارے میں غیر ملکی سامعین سے کچھ اور کہہ رہے ہیں اور اپنے ہم وطنوں سے خطاب فرماتے ہوئے کچھ اور موقف اپناتے ہیں۔ اس قسم کی بھونڈی کوششوں سے عوام کو گمراہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ ہم ان مذموم کوششوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ سیاست مردہ باد… ریاست زندہ باد۔

Facebook.com/izharulhaq.net

Thursday, December 20, 2012

رہے دیکھتے اوروں کے عیب وہنر

مشرقی پاکستان کی الم ناک علیحدگی کو اکتالیس سال ہورہے ہیں۔ اس کے بعد پیدا ہونے والی نسل جوانی پار کرچکی ہے۔ دیکھے ہوئے دیار بھولنے لگے ہیں۔ یادوں پر وقت کی دھول جم رہی ہے۔ فضا میں مجید امجد کا لکھا ہئوا نوحہ آہستہ آہستہ بلند ہوتا ہے۔

کتنے تارے چمک چمک ڈوبے
کتنے بادل برس برس گذرے
وہ نہ پھر لوٹے مدّتیں بیتیں
انہیں دیکھے ہوئے برس گذرے
اب تو یاد ان کی دل میں آتی ہے
جیسے بجلی بہ نبضِ خس گذرے
دُور سے راہرو کے کانوں میں
جس طرح نالہء جرس گذرے
ابدی خامشی کی آندھی میں
جیسے کوئی پرِ مگس گذرے

سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اس معاملے میں اپنا محاسبہ کیا ہے؟ کیا ہم نے کوئی سبق سیکھا ہے ؟ کیا ہم نے اپنے رویے پر نظرثانی کی ہے؟ سارے جواب نفی میں ہیں۔ اپنے آپ پر ظلم ڈھانے کی انتہا یہ ہے کہ ہمارا نعرہ اب بھی وہی ہے‘ ہمچوما دیگرے نیست ۔ ہے کوئی ہم سا ؟ ہم سا ہوتو سامنے آئے!آگے بڑھنے والی قومیں اپنی غلطیوں کی نشان دہی کرتی ہیں۔ پھر حکمت عملی وضع کرتی ہیں کہ آئندہ یہ غلطیاں دہرائی نہیں جائیں گی۔ ہمارا دین بھی یہی سکھاتا ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا۔ مگر ہم یہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ بنگالیوں کو الگ ہوکر ملا ہی کیا؟ وہ تو خراب اور خستہ حال ہیں۔ ایسی ایسی باتیں لکھی جارہی ہیں کہ افسوس ہوتا ہے اور حیرت بھی !کبھی کہا جارہا ہے کہ بنگلہ دیش میں طوائفیں زیادہ ہوگئی ہیں اور بھارت کو سپلائی ہورہی ہیں۔ کبھی کہا جارہا ہے کہ بنگالی پاکستان میں آکر باورچی بنے ہوئے ہیں اور یہ سب اس لیے ہورہا ہے کہ وہ پاکستان سے الگ ہوگئے ہیں۔ کبھی کہا جارہا ہے کہ اقتصادی عدم مساوات کی ساری باتیں جھوٹ تھیں۔ انتہایہ ہے کہ یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ مشرقی پاکستانی اکھنڈ بھارت کا حصہ بننا چاہتے تھے۔ ہمارے دوستوں نے مشہور مصنفہ ڈاکٹر فوزیہ سعید کی تصانیف شاید نہیں دیکھیں جو پاکستان میں قحبہ گری کے بارے میں ہیں۔ جان ہاپکن یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق ہمارے ملک میں بیس ہزار تو صرف بچے ہیں جو ’’دھندے‘‘ میں مبتلا ہیں اور یہ وہ اعداد وشمار ہیں جو میسر آئے ہیں۔ جوکچھ ریکارڈ پر نہیں ہے، وہ اس کے علاوہ ہے۔ لیکن یہ ایک لایعنی بحث ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ دلیل کا یہ انداز اپنی شکست خود تسلیم کررہا ہے۔ اگر بنگلہ دیش میں مسائل ہیں اور اگر ان مسائل کا سبب پاکستان سے علیحدگی کو قراردیا جائے تو یہ ایک خطرناک رویہ ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سوویت یونین سے الگ ہونے کے بعد مسلم وسط ایشیائی ریاستوں سے آئی ہوئی بکائو عورتوں سے پاکستان کے ہوٹل اور گیسٹ ہائوس بھر گئے تھے اور یہ ’’درآمد‘‘ آج بھی جاری ہے۔ مڈل ایسٹ کی’’منڈی ‘‘ میں بھی یہ مال وافر ہے۔ تو پھر کیا اس کا سبب سوویت یونین سے آزادی ہے؟ اور ان ریاستوں کو آزاد نہیں ہونا چاہیے تھا؟ اس سے بھی زیادہ خطرناک رخ اس دلیل کا یہ ہوگا کہ آج پاکستان جن حالات سے گزررہا ہے ، بھارت بھی یہی کہہ سکتا ہے کہ ہندوستان سے الگ ہونے کا انجام ہے! آج جس طرح لاکھوں پاکستانی مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں اپنے اپنے کفیل کی غلامی کررہے ہیں، پاسپورٹ چوبیس گھنٹے سینے پر باندھے ہوئے ہیں، ’’رفیق رفیق‘‘ کے ذلت آمیز خطاب برداشت کررہے ہیں اور سربھی قلم کرارہے ہیں تو کیا یہ بھارت سے الگ ہونے کی سزا ہے؟
رہا یہ سوال کہ کیا سن  انیس سو  اکہتر سے پہلے کوئی بنگالی غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر بھارت گیا؟ تو حضور ذرا ایک مہینے کے لیے بھارت اور پاکستان کے درمیان پابندیاں نرم کر کے دیکھ لیجیے، آٹے دال کا بھائو معلوم ہو جائے گا، جتنے چوکیدار شمال  سے کراچی میں جا کر کام کر رہے ہیں اور مسلسل جا رہے ہیں اس سے دس گنا  زیادہ  بھارت  کا رُخ کریں گے۔تقسیم سے پہلے کلکتہ اور بمبئی شمال مغربی علاقوں سے بھرے ہوئے تھے۔ آج اگر  لاہور میں رکشا چلانے والے اور ریڑھیوں پر امرود بیچنے والے محنت کش دیر اور سوات کے ہیں تو تو وہ لاہور پہنچ کر اس لیے نہیں  رُک گئے کہ  ان میں مزید سفر کرنے کی سکت نہیں تھی، وہ اس لیے وہیں ٹھہر گئے کہ آگے بارڈر ہے اور وہ کراس نہیں کر سکتے۔   
یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ جن اداروں کے پیش کردہ اعدادوشمار ہمیں گورکھ دھندا اور فراڈ لگتے ہیں، انہی کے اعدادوشمار کی بنیاد پر ہم اپنی تھیوری صحیح ثابت کرنے لگ جاتے ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ 1971ء کے بعد بنگلہ دیش کی معیشت نے ترقی کی ہے اور وہ آج کئی لحاظ سے ہم سے آگے ہے۔ عصمت فروشی تو خیر دنیا کا قدیم ترین پیشہ ہے اور کرۂ ارض کا شاید ہی کوئی ملک اس لعنت سے پاک ہوگا، لیکن ہمارے ہاں تو غربت کا یہ عالم ہے کہ والدین اپنے دودو اور چار چار سال کے جگر گوشوں کو مشرق وسطیٰ کے اونٹ دوڑانے والے بدوئوں کے ہاتھ فروخت کررہے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ بھاگتے ہوئے اونٹوں کے سفاک پیروں تلے کچلے جاسکتے ہیں۔ مظفرآباد ، مری، گلیات ، ہزارہ، چترال اور دوسرے کوہستانی علاقوں کے لاکھوں بچے اسلام آباد ، پنجاب اور خیبرپختونخوا کے ہوٹلوں میں برتن مانجھ رہے ہیں اور ورکشاپوں میں مزدوریاں کررہے ہیں۔

بنگلہ دیش کے گرامین بنک نے دنیا میں ایک نیا دروازہ کھولا ہے اور درجنوں ممالک اس کی پیروی کررہے ہیں۔ اکانومسٹ لندن کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش ریڈی میڈ کپڑوں کا تیسرا بڑا برآمد کنندہ ملک ہے۔ 2002ء میں یہ برآمد پانچ ارب ڈالر کی تھی لیکن گزشتہ سال بنگلہ دیش نے اٹھارہ ارب ڈالر کے ملبوسات برآمد کیے۔ تیس لاکھ محنت کش اس صنعت سے وابستہ ہیں اور نوے فیصد تعداد خواتین کی ہے! آپ اگر پاکستان اور بنگلہ دیش کی معیشتوں کا طائرانہ موازنہ بھی کریں تو عبرت کے کئی پہلو دکھائی دیں گے۔ گزشتہ تین سالوں میں ہماری شرح ترقی (گروتھ ریٹ) تین اعشاریہ آٹھ فی صد سے اوپر نہیں جاسکی۔ بنگلہ دیش میں گزشتہ سال چھ اعشاریہ چارفیصد تھی۔ ہماری بیروزگاری کی شرح بنگلہ دیش سے زیادہ ہے۔ افراط زر بھی ہمارے ہاں زیادہ ہے یعنی مہنگائی زیادہ ہے، آج کی تاریخ میں ایک امریکی ڈالر اٹھانوے پاکستانی روپوں کا ہے جب کہ ایک امریکی ڈالر میں بنگلہ دیشی اسی ٹکے مل رہے ہیں۔ صنعت کے شعبے میں ہماری شرح اضافہ تین فیصد اور بنگلہ دیش کی ساڑھے سات فیصد ہے! خواندگی کا تناسب ہمارے ہاں 55فیصد اور بنگلہ دیش میں ستاون فیصد ہے ۔ وہاں باون فیصد عورتیں خواندہ ہیں جب کہ ہمارے ہاں خواتین کی خواندگی چالیس اعشاریہ تین فی صد سے زیادہ نہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بنگلہ دیش میں مسجدوں کے باہر بندوق بردار پہریداروں کی ضرورت نہیں۔ اسی ہفتے کی خبر ہے کہ کراچی میں امن وامان کی صورت حال یہ ہے کہ ایک سو چھ رینجرز کے جوان گورنر صاحب کی حفاظت پر مامور ہیں، ستر وزیراعلیٰ کے اردگرد تعینات ہیں۔ آٹھ ڈاکٹر فاروق ستار ،آٹھ فریال تالپور ، آٹھ جسٹس مقبول اور پانچ مفتی منیب الرحمن کو سیکورٹی فراہم کررہے ہیں! باقی صورت حال کا اندازہ دیگ کے ان چند چاولوں سے لگایا جاسکتا ہے!
 ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کرنے میں  آخر کیوں شرم محسوس ہوتی ہے کہ مذہب کا رشتہ مظبوط اور مقدّس ہے لیکن ثقافت، زبان، دسترخوان  لباس اور دوسری  سماجی شناختوں کی بھی زبردست اہمیت ہے اور ہمارے مذہب نے  ان شناختوں پر کوئی پابندی  عاید نہیں کی۔ بیرون ملک پاکستانی نماز تو یقینا  اپنے عرب، ترک اور دوسرے مسلمان بھائیوں کے ساتھ  پڑھتے ہیں لیکن یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ  کھانا کن ریستورانوں میں کھاتے ہیں، گپ شپ کن لوگوں کے ساتھ  کرتے ہیں  اور ثقافتی تقریبات میں کس ملک کے لوگوں کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔ مشرقی پاکستان ہم سے ایک ہزار میل دورتھا اوردرمیان میں دشمن کا علاقہ تھا۔ یہ ایک عجیب وغریب اتحاد تھا جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ زبان، لباس، دسترخوان، ادب، ثقافت ،مزاج ، نفسیات سب کچھ الگ تھا۔ دوسری طرف دیکھیے کہ جن ملکوں میں مذہب کے ساتھ ساتھ زبان، لباس، دستر خوان اور ثقافت سب کچھ مشترک ہے اور وہ جغرافیائی طورپر متصل بھی ہیں، وہ بھی الگ الگ شناختوں کے ساتھ سرحدی لکیریں کھینچ کر بیٹھے ہیں۔ قطر اور متحدہ عرب امارات‘ جزیرہ نمائے عرب کا حصہ ہیں لیکن ننھی ننھی یہ ریاستیں الگ الگ ملکوں کی صورت میں ہیں ۔ چلیے ،یہ حصے بخرے اگر سامراج نے کیے تھے تو اب یہ ممالک متحد کیوں نہیں ہوجاتے؟

بنگلہ دیش کا قیام ایک المیہ تھا لیکن پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا ہے۔ آج اگر یہ برادر ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے تو کیڑے نکالنے کے بجائے ہمیں اظہار مسرت کرنا چاہیے۔ ہمارے دوست اور صاحب اسلوب کالم نگار جناب ہارون الرشید اکثر کہتے ہیں کہ زندگی دوسرے کے عیوب پر نہیں اپنے محاسن پر گزارنا ہوتی ہے۔ رنگون کی خاک میں ابدی نیند سونے والے بہادر شاہ ظفر نے کہا تھا ؎

نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر، رہے دیکھتے اوروں کے عیب وہنر

پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر، تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا

ہمیں دوسروں کی برائیاں کرنے کے بجائے یہ سوچنا ہوگا کہ جس گرداب میں وطن کا سفینہ ہچکولے کھارہا ہے اس سے کیسے نمٹا جائے؟ ہمیں اس مائنڈ سیٹ سے اب باہر نکل آنا چاہیے کہ چونکہ ہم نے یہ ملک خدا کے نام پر حاصل کیا ہے اس لیے پوری دنیا اس کے خلاف ہے ۔ جس زمانے میں ہم معاشی لحاظ سے اور امن وامان کے اعتبار سے مضبوط تھے اور یورپ کے گورے کراچی اور لاہور میں آباد ہونا چاہتے تھے، اس وقت بھی تو یہ ملک خدا ہی کے نام پر بنا ہوا تھا۔

سچی بات یہ ہے کہ جس طرح ہم نے اپنا سرریت میں چھپایا ہوا ہے، کسی اور کو ہمارے خلاف ہونے کی ضرورت ہی کیا ہے ؎

میں اگر سوختہ ساماں ہوا تو یہ روز سیاہ

خود دکھایا ہے مرے گھر کے چراغاں نے مجھے

Tuesday, December 18, 2012

علیحدگی کے اسباب

ہوا چلی،پتے گرے، ٹہنیوں پر بیٹھے ہوئے پرندوں نے گریہ کیا، اس بات پر کہ وہ بلبلیں اور کوئلیں جو مشرقی پاکستان کے آم اور جامن کے درختوں پر بیٹھ کر گیت گایا کرتی تھیں جدا ہو گئیں ،اور گریہ کیا اس بات پر کہ جب بھی سولہ دسمبر آتا ہے، ان روتے سسکتے پرندوں کو بھانت بھانت کی بولیاں سننا پڑتی ہیں۔ ’’دانشور‘‘ جنہیں مشرقی پاکستان کے مزاج اور مسائل کی الف بے بھی نہیں معلوم، عجیب و غریب تجزیے پیش کرتے ہیں ؎

کس کا یقین کیجیے، کس کا یقیں نہ کیجیے

لائے  ہیں  بزمِ ناز  سے یار خبر الگ الگ

سب اسباب بیان کیے جاتے ہیں سوائے اپنی غلطیوں کے۔ غیر ملکی مداخلت کا ذکر بھی ہوتا ہے اور مشرقی پاکستانی سیاست دانوں کے ’’باغیانہ‘‘ انداز فکر کا بھی۔ نہیں ہوتا تو اس بات کا ذکر نہیں ہوتا کہ مرکز کیا کرتا رہا اور مغربی پاکستان کے سیاست دان اور پالیسی ساز کیا کرتے رہے؟ ؎

نہ روزنوں سے کسی نے جھانکا نہ ہم ہی مانے

وگرنہ  سرزد  ہوئے  تو  ہوں  گے  گناہ  سارے

مشرقی پاکستانیوں کو پہلا دھچکا اس وقت لگا جب انہیں بتایا گیا کہ ملک کی قومی اور سرکاری زبان ایک ہی ہوگی اور وہ اردو ہوگی! وہ بھونچکے رہ گئے۔ بنگالی زبان اردو کی نسبت سینکڑوں سال پرانی اور زیادہ ترقی یافتہ زبان تھی۔ اس کا ادب تو عالمی سطح کا تھا ہی، تقریباً سبھی علوم میں یہ زبان بڑی حد تک خود کفیل بھی تھی۔ مشہور خاتون ریفارمر رقیہ سخاوت حسین جنہوں نے مسلمان عورتوں میں تعلیم کا شعور عام کیا تھا، بنگالی زبان ہی کی ادیبہ تھیں۔ 1937ء میں جب لکھنؤ میں منعقدہ مسلم لیگ کے اجلاس میں شمالی ہند کے رہنمائوں نے اردو کو مسلم ہندوستان کی واحد زبان قرار دیا تو اس وقت بھی بنگال کے مندوبین نے اس تجویز کی مخالفت کی تھی۔ پاکستان بنا تو مشرقی پاکستانی نمائندوں کو اسمبلی میں بنگالی بولنے کی اجازت نہ دی گئی۔ ڈاکٹر شہید اللہ جیسے محقق اور سکالر نے سمجھانے کی کوشش کی لیکن بے سود۔ خواجہ ناظم الدین نے بطور گورنر جنرل جنوری 1952ء میں ایک بار پھر ’’اردو اور صرف اردو‘‘ کا ذکر اپنی سرکاری تقریر میں کیا۔ احتجاج ہوا۔ دفعہ 144 نافذ ہوئی۔ گولی چلی، فسادات ہوئے، طلبہ مارے گئے، شہید مینار بن گئے اور دلوں میں ایسی گرہ پڑی کہ کبھی کھل نہ سکی۔ 1956ء میں بنگالی کو قومی زبان کا درجہ دے دیا گیا لیکن کوتاہ نظری اور کج فہمی اپنا کام کر چکی تھی۔

پھر مشرقی پاکستان کی اکثریت کو مغربی پاکستان کی کم آبادی کے برابر کرنے کے لیے ون یونٹ بنایا گیا۔ ون یونٹ ایک دو دھاری تلوار تھی۔ لاہور کو پورے صوبے کا دارالحکومت بنا کر سندھ، سرحد اور بلوچستان کے دور افتادہ مقامات کو اذیت میں ڈالا گیا۔ پنجاب کے خلاف خوب نفرت پھیلی جو آج تک قائم ہے۔ دوسری طرف مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان قومی اسمبلی میں مصنوعی برابری پیدا کی گئی۔

وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم خود سرکاری دستاویزات سے عیاں ہوتی ہے۔ 58 فیصد آبادی رکھنے والے مشرقی پاکستان کو 1955-60ء کے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبے کے دوران 31.7 فیصد حصہ ملا۔ اگلے تین منصوبوں میں یہ حصہ اکتالیس فیصد سے نہ بڑھ سکا۔ زرمبادلہ کمانے میں سالہا سال تک مشرقی پاکستان کا حصہ زیادہ رہا۔ فوج میں بنگالیوں کی تعداد برائے نام تھی۔ بہت کم لوگوں کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ برصغیر کے جن علاقوں نے برطانوی فوجوں کا مقابلہ کیا، برطانوی حکومت نے ’’پالیسی‘‘ کے طور پر انہیں فوج میں تعداد کے لحاظ کبھی ابھرنے نہ دیا۔ انگریزوں کا مقابلہ بنگالیوں نے کیا تھا، پھر یوپی کے مسلمانوں نے، جہاں 1857ء کی جنگ آزادی کے میدان سجے تھے اور پھر سندھیوں نے مدافعت کی تھی۔ سندھ کے تالپور حکمرانوں نے 1843ء میں حیدر آباد سندھ پر چڑھائی کرنے والی برطانوی فوج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا۔ میر شیر محمد تالپور سپہ سالار تھا۔ انگریز توپ خانے کی برتری کی وجہ سے جیتے۔ کئی سندھی سورما شہید ہوئے۔ اس کے بعد ہی سندھ انگریزوں کے ہاتھ لگا؛ چنانچہ بنگالیوں، یوپی کے مسلمانوں اور سندھیوں کو برطانوی ہند کی فوجوں میں کبھی غلبہ نہ پانے دیا گیا۔ پنجاب اور سرحد میں انگریزوں کو کسی فوجی مدافعت کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ اس لیے وہ ’’مارشل ایریا‘‘ قرار دیے گئے۔ پنجابی سپاہیوں نے انگریزی فوج کا حصہ ہونے کی حیثیت میں کعبہ پر بھی گولیاں چلائیں اور ترکوں پر بھی۔ شورش کاشمیری نے کہا تھا ؎

اوڈؔوائر کی رضا جوئی کی خاطر گولیاں

تُرک فوجوں پر چلائو کیا یہی اسلام ہے

بدقسمتی سے پاکستان بننے کے بعد بھی بنگالیوں کو ’’قد کاٹھ‘‘ کی نام نہاد بنیاد پر فوج میں وہ پزیرائی نہ ملی جو ان کا حق تھا۔ ہم اس سے پہلے ایک کالم میں لکھ چکے ہیں کہ پست قد ویت نامیوں نے طویل قامت قوی ہیکل امریکیوں کو شکست دے کر ’’قد کاٹھ‘‘ اور ’’مارشل ایریا‘‘ جیسی سطحی تھیوریوں پر خط تنسیخ پھیر دیا ہے۔ آج ہمارے جو دوست الیکٹرانک میڈیا پر بنگالیوں اور ان کے لیڈروں کو فسطائی کہہ رہے ہیں، یہ بھول رہے ہیں کہ دس سال تک ایوب خان کی آمریت اور پھر یحییٰ خان کی جانشینی کے بعد مشرقی پاکستان کا کون سی جمہوریت اور کون سے مستقبل پر ایمان قائم رہ سکتا تھا؟ اعتراض بہت سادہ تھا کہ اگر جرنیلوں ہی نے حکومت کرنی ہے تو ہم جرنیل کہاں سے لائیں گے؟ ایوب خان کے جس عہد کو نام نہاد معاشی ترقی کا مظہر کہا جاتا ہے، وہ دراصل آمریت کا آسیب تھا جو مشرقی پاکستان کے سر پر چھایا رہا اور وہ مستقبل سے مایوس ہو گئے۔

پھر، ایک مجموعی حقارت تھی جس سے مغربی پاکستانی بنگالیوں کو ’’نوازتے‘‘ تھے۔ کیا فوجی اور کیا سول بیوروکریٹ اور کیا عوامی نمائندے! کل ہی ایک کالم نگار نے قدرت اللہ شہاب کے حوالے سے لکھا ہے کہ کس طرح مغربی پاکستانی وزراء اپنے بنگالی ساتھیوں کی تذلیل کرتے تھے۔ ایک بزرگ صحافی، زمینی حقائق کو مکمل طور پر پس پشت ڈالتے ہوئے اکثر فرماتے ہیں کہ دونوں بازوئوں کو پھر ایک ہو جانا چاہیے۔ انہی کے اخبار میں کچھ عرصہ پیشتر ایک قلم کار نے لکھا ہے کہ ایک میس میں مولوی فرید احمد لُنگی (تہمد) میں ملبوس تشریف لے آئے تو ان کی ناقابلِ یقین حد تک تحقیر کی گئی۔ اس کالم نگار نے اڑھائی تین سالہ قیام کے دوران مشرقی پاکستان میں کئی بار ان گنہگار آنکھوں سے دیکھا کہ کیا وہاں رہنے والے مہاجر اور کیا مغربی پاکستانی، بالخصوص پنجابی، بنگالیوں کے لباس، زبان، خوراک اور تمدن کا تمسخر اڑاتے تھے۔ وہ ان کی ’’بھات خوری‘‘ پر آوازے کستے تھے اور انہیں غیر مہذب اور سوقیانہ القابات سے پکارتے تھے۔ اس کالم نگار کا تعلق ’’مارشل ایریا‘‘ سے ہے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں قیام کے دوران اپنے گائوں اور علاقے کے فوجی بھائیوں سے ملنے اکثر و بیشتر ڈھاکہ چھائونی جانا ہوتا تھا۔ کئی دوستوں نے بتایا کہ وہ بنگالی دکاندار سے بھائو پوچھتے تھے۔ فرض کیجئے اس نے آٹھ آنے بتایا، ایک تھپڑ لگاتے تھے کہ اتنا مہنگا… پھر چھ آنے دے کر شے اٹھا لیتے تھے۔ میں فروری 1970ء میں واپس آیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ہی کسی فوجی جوان کا چھائونی کی حدود سے اکیلے نکلنا ممنوع قرار دے دیا گیا!

لیکن ان سب غلطیوں ،زیادتیوں اور حماقتوں کی تلافی ہو سکتی تھی اگر 1970ء کے عام انتخابات کے نتائج تسلیم کر لیے جاتے! کاش ان لوگوں میں جو اس وقت قضا و قدر کے مالک بنے بیٹھے تھے، اتنی دور اندیشی ہوتی، اتنا وژن ہوتا اور اتنی انصاف پسندی ہوتی کہ قومی اسمبلی میں بھاری اکثریت حاصل کرنے والی عوامی لیگ کو پرامن انتقال اقتدار کر دیتے! الجزائر میں اسلام پسندوں کو انتخابات جیتنے کے بعد حکومت نہ دی گئی تو آج تک عالم اسلام اس کا ماتم کر رہا ہے لیکن ہمارے الیکٹرانک میڈیا پر روح کی گہرائیوں تک اِمتلا لانے والے دانشور یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کسی بھی اخلاقی، قانونی، سماجی اور شرعی اعتبار سے عوامی لیگ کو حکومت بنانے کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا تھا!مگر ’’اِدھر ہم ،اُدھر تم‘‘ کی  سرخی لگا کر تاریخ صحافت میں ایک سطر اپنے نام کرا لی گئی۔ بس ایک سطر! قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند ۔کسی نے کہا کہ دو وزیراعظم ہونے چاہئیں، کوئی گرجا کہ جو ڈھاکہ جا کر اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرے گا اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ یہ ’’مشورہ‘‘ بھی دیا گیا کہ جو ڈھاکہ جائے، واپسی کا ٹکٹ نہ خریدے!

سات مارچ 1971ء کو ریس کورس گرائونڈ ڈھاکہ میں شیخ مجیب الرحمن نے اپنی تقریر میں چار شرائط پیش کیں اور مطالبہ کیا کہ یہ شرائط تسلیم کی جائیں تاکہ 25 مارچ کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جا سکے۔ مارشل لاء فوری طور پر ختم کیا جائے۔ مسلح افواج کو بیرکوں میں واپس بھیجا جائے۔ جانی نقصانات کے بارے میں انکوائری کرائی جائے اور منتخب نمائندوں کو انتقال اقتدار کیا جائے۔ یہ تجاویز حقارت سے ٹھکرا دی گئیں اور پھر اسی گرائونڈ میں سولہ دسمبر 1971ء کے دن ٹائیگر نیازی نے ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط کیے۔

آپ کسی خطے کو بھی گولی اور گالی کے زور پر اپنے ساتھ رہنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ ٹوکا خان تو کیا، راکٹ خان اور توپ خان بھی جمہوریت کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔ احمد ندیم قاسمی نے ایشیا کے حوالے سے کہا تھا ؎

جنسِ ناموسِ آدم کے سوداگرو! یہ صدی ہے مرے ایشیا کی صدی

اب جو مانگو تو برگِ گلاب ایشیا اور چھینو تو موجِ سراب ایشیا

یہ اصول ہر زمانے اور ہر خطے پر کارفرما ہے۔ چھیننے سے ہاتھ ضائع تو ہو جاتا ہے، ہاتھ آتا کچھ نہیں!

اکتالیس سال بعد بھی بنگلہ دیش کے حوالے سے ہم حقائق سے کس قدر دور ہیں اور کن غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں، اس کا ذکر ہم اگلی نشست میں کریں گے۔

Facebook.com/izharulhaq.net

Monday, December 17, 2012

دسمبر کے زخم

سولہ دسمبر آتا ہے اور گزر جاتا ہے۔ زخم ہرے ہو جاتے ہیں۔ کم ہی ہیں یہاں جو ان زخموں کو دیکھ سکیں۔ ہوا چلتی ہے تو خون رسنے لگتا ہے۔ کبھی نہ بھرنے والے زخموں سے کسک اٹھتی ہے، کسک جو اندر تک درد کی لہر ابھار دیتی ہے۔
اُنیس کا سن تھا جب میں سبزہ و گل کے اس شہر میں اترا جس کے بارے میں جعفر طاہر نے کہا تھا ع

ڈھکنی سے اک شہر ڈھکا اور ڈھاکہ جس کا نام

1967ء کا اکتوبر تھا۔ میں مرکزی حکومت پاکستان کے بین الصوبائی فیلوشپ پر ڈھاکہ یونیورسٹی سے اقتصادیات میں ایم اے کرنے کے لیے منتخب ہوا تھا۔ وہی ڈھاکہ یونیورسٹی جو بیس کی دہائی میں کلکتہ یونیورسٹی کے جواب میں بنی تو ہندو اسے طنز سے مکہ یونیورسٹی کہتے تھے۔ جس کے اسلامک ہسٹری اینڈ کلچر، کامرس، اکنامکس اور انگریزی ادب کے شعبے دنیا بھر میں معروف تھے۔ وہی ڈھاکہ یونیورسٹی جہاں مولوی تمیز الدین خان کی صاحبزادی  پڑھاتی تھیں۔ وہی یونیورسٹی جہاں پڑھنے اور پڑھانے والوں نے ’’چھ نکات‘‘ پیش کیے تھے جو مشرقی اور مغربی پاکستان کے اتحاد کی واحد صورت تھی اور آخری صورت تھی۔ آخری اور واحد صورت… جو کم فہموں اور خود غرضوں کی ہاہاکار میں گم ہو گئی۔ بغیر جانے اور بغیر پڑھے جن ’’بزر جمہروں‘‘ اور ’’دانائوں‘‘ نے ان نکات کی مذمت کی، ان سے اب کون پوچھے کہ جو کچھ ہوا، کیا چھ نکات، اس سے بھی بدتر تھے؟ ؎

کھویا ہے اُسے جس کا بدل کوئی نہیں ہے

یہ  بات  مگر  کون  سنے ، لاکھ   پکارو

پلٹ کر دیکھتا ہوں تو ڈھاکہ یونیورسٹی میں گزارے ہوئے شب و روز نخیل زندگی کے بہترین برگ و بار لگتے ہیں۔ کیا شہر تھا اور کیا لوگ تھے۔ کیا رونقیں تھیں اور کیا ہماہمی تھی۔ یونیورسٹی کی لائبریری رات دن، چوبیس گھنٹے کھلی رہتی تھی۔ ہڑتالیں، جلسے جلوس اور ہنگامے بھی تھے لیکن جنہیں دُھن تھی وہ مطالعہ، تحقیق اور تصنیف و تالیف میں ہر وقت مگن رہتے تھے۔ بہت سے مشاہیر زندگی میں پہلی بار وہیں دیکھے، حکیم سعید، سید ابو الاعلیٰ مودودی، طارق علی، مولوی فرید احمد، مولانا
عبدالستار نیازی اور بہت سے دوسرے۔ نواب زادہ نصر اللہ خان کو ہم طالب علم خواجہ خیر الدین کی حویلی میں ملنے گئے تو ڈھاکہ کا مشہور عالم پنیر پہلی بار وہیں کھایا۔
شامیں بیت المکرم کے سائے میں گزرتی تھیں تو دوپہریں بو ُری گنگا کے پانیوں میں سفینہ راں ہوتی تھیں۔ میمن سنگھ کے گھنے جنگل دیکھے، حدِّنظر تک پھیلی ہوئی جھیلوں پر کنول کے پھول تیر رہے ہوتے تھے۔ سلہٹ میں جلال بابا کے مزار پر حاضری دی، چائے کے باغات کی سیر کی، وہ پہاڑ دیکھے جو سرحد کے پار بھارت میں واقع تھے۔ رانگامتی اور کپتائی کے پانیوں کی سیر کی۔ زرد کپڑوں میں ملبوس بھکشو دیکھے۔ چکمہ قبیلے سے ملے۔ راجہ تری دیو رائے کا محل دیکھا۔ چٹاگانگ سے آگے کاکسِس بازار میں برما کی سرحد پر آباد قبیلوں کو دیکھا۔ نسوانی پیکروں میں آسمانوں کا حسن اُتر آیا تھا۔ بپھرے ہوئے میگنا کے دریا کو کئی بار فیری کے ذریعے پار کیا۔ کیا نعمتیں تھیں جو قدرت نے اُس سرزمین کو عطا کی تھیں، انناس، آم، کھجور، املی، کٹھل، شریفہ اور ناریل۔ اُس زمانے میں مغربی پاکستان میں لیچی اور چیکو کا وجود ہی نہ تھا اور کیلا برائے نام تھا۔ پان اور چائے سمیت سب کچھ وہیں سے آتا تھا۔ ابھی پلاسٹک یا تو ایجاد نہ ہوئی تھی یا عام نہیں تھی اور پٹ سن کے خزانے مشرقی پاکستان میں تھے۔

وہاں سُندربن کا جنگل تھا اور باری سال کے دریا، اینٹوں کے بنے ہوئے پختہ تالاب تھے جن کے چاروں طرف سیڑھیاں اترتی تھیں اور اردگرد آم، جامن اور املی کے پیڑوں کے حصار تھے جہاں بلبلیں چہکتی تھیں اور کوئلیں کوکتی تھیں۔ حدِّنگاہ تک ہریالیاں تھیں اور رنگ رنگ کے پھول۔ بنگالی دوست بے پناہ محبت سے عید پر اپنے گھروں میں لے کر جاتے تھے۔ کبھی کوئی ٹرین میں بٹھا کر کومیلا لے جا رہا ہے اور کبھی بس میں بیٹھے شیرپور جا رہے ہیں۔

ڈھاکہ یونیورسٹی میں ہوسٹل کو ہال کہتے تھے اور ہال تقریباً درجن بھر تھے۔ محسن ہال، جناح ہال، فضل الحق ہال، رقیہ ہال، جگن ناتھ ہال۔ ہر ہال میں مسجد تھی اور نمازِ باجماعت اور نمازِ جمعہ کا انتظام اور اہتمام تھا۔ ہر روز شام کو نیو مارکیٹ کا چکر لگتا تھا۔ سبز ناریل کا پانی ہر روز پیتے تھے جسے ڈاب کہا جاتا تھا۔ بہت سی چیزیں وہاں پہلی بار دیکھیں اور بہت سی چیزوں پر تعجب ہوا کہ مغربی پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہوتا تھا۔ لائبریری کے چوبیس گھنٹے کھلے رہنے کا تذکرہ تو ہو چکا،امتحان کا پرچہ وہاں تین گھنٹے کا نہیں، چار گھنٹے کا ہوتا تھا۔ رمضان بھر تعلیمی اداروں میں تعطیل ہوتی تھی۔ یہاں کی یونیورسٹیوں میں طالب علم تھری پیس سوٹوں میں ملبوس آتے تھے۔ وہاں دیکھا کہ طلبہ کی اکثریت کرتے پاجامے اور چپل میں ہوتی تھی۔ پروفیسر بھی سادگی کا نمونہ تھے لیکن اپنے فرائض ادا کرنے میں انتہا درجے کے دیانت دار اور سخت محنت کرنے والے۔ پروفیسر سی۔ جی۔ دیو جو ہندو تھے اور شعبہ فلسفہ کے سربراہ تھے، اقبالیات کے ماہر تھے اور علامہ کے بے حد گرویدہ، تقریبات میں اقبالؔ اور اقبالیات پر اُن کی تقریریں سننے سے تعلق رکھتی تھیں۔ آرمی ایکشن ہوا تو وہ بھی بہت سے دوسرے دانشوروں کے ساتھ اُس کی نذر ہو گئے۔ دستک ہوئی، باہر نکلے، گولی مار دی گئی۔

ایوب خان نے کٹھ پتلی عبدالمنعم خان کو، جس کا کوئی سیاسی پس منظر نہ تھا، مشرقی پاکستان کی گورنری کے لیے منتخب کیا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں اُس کے متعلق کئی لطیفے زبان زدِ خاص و عام تھے۔ مثلاً وہ چین گیا اور مائوزے تنگ سے ملاقات ہوئی تو اُس سے پوچھا کہ ہمارے ہاں بائیں بازو والے دو گروہوں میں منقسم ہیں۔ ایک روس نواز اور دوسرا چین نواز، آپ کا تعلق کس گروہ سے ہے؟ ایک اور لطیفہ یہ مشہور تھا کہ ایوب خان ڈھاکہ ایئرپورٹ پر اُترا تو عبدالمنعم خان نے استقبال کیا۔ بغل گیر ہوتے ہوئے ایوب خان کو محسوس ہوا کہ منعم خان نے اپنے لباس کے نیچے کچھ چھپایا ہوا ہے۔ خطرے کا احساس کرتے ہوئے اُس نے حکم دیا کہ اس کی تلاشی لی جائے۔ تلاشی لی گئی تو سینے کے ساتھ ایوب خان کی تصنیف ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ بندھی ہوئی ملی۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی ایک سانحہ تھا۔ بہت بڑا سانحہ لیکن اس سے بھی بڑا سانحہ یہ ہے کہ ہم نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اکتالیس سال ہو گئے ہیں۔ آج تک یہی طے نہیں ہو رہا ہے کہ کس کی کیا غلطی تھی۔ ہم نے اپنے گریبان میں جھانکنا تو شاید سیکھا ہی نہیں۔ ’’سازش‘‘ کا سر ُمہ پوری طرح ہماری بینائی کو زائل کر چکا ہے۔ اپنی کسی غلطی کو تسلیم کرنے کے بجائے ہم ایک ہی رٹ لگائے رکھتے ہیں کہ ہمارے خلاف سازش ہوئی اور دھوکا ہوا۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ مومن تو دھوکا کھاتا ہی نہیں! ہم اپنے بچوں کو یہ پڑھاتے آئے ہیں کہ انگریزوں نے مکاری اور دھوکے سے برِّصغیر پر قبضہ کیا۔ وہی بچے جب برطانیہ اور امریکہ جا کر اپنا اور اُن کا فرق دیکھتے ہیں تو اُن کی آنکھیں کھلتی ہیں اور ’’مکاری اور دھوکے‘‘ والی تھیوری پر ہنستے ہیں۔ مکاری سے آپ ایک دو علاقوں پر قبضہ کر سکتے ہیں اور پھر وہ قبضہ کچھ عرصہ ہی برقرار رکھ سکتے ہیں۔ لیکن درجنوں ریاستوں، بیسیوں حکومتوں اور برِّصغیر جیسے وسیع و عریض علاقے پر یعنی برما سے لے کر پشاور تک اور سری لنکا سے لے کر نیپال اور تبت تک۔ مکاری سے قبضہ کیا جا سکتا ہے نہ سینکڑوں سال تک برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ ہم اپنے بچوں کو یہ سچائی بتانے کے لیے تیار نہیں کہ کلائیو اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے گھوڑے کی پیٹھ پر ہوتا تھا اور ہمارے نواب اور راجے مہاراجے پالکیوں میں سوار ہو کر میدانِ جنگ میں آتے تھے اور بیگمات ساتھ
ہوتی تھیں۔ ہمارے ہاں موتیوں سے منہ بھرنے اور سونے میں تولنے کا رواج تھا جبکہ ایسٹ انڈیا کمپنی میں ایک ایک پیسہ کمپٹرولر جنرل اور مالیات کے افسران سے پوچھ کر خرچ کیا جاتا تھا۔ چالیس سال سے ہم یہ پڑھ اور پڑھا رہے ہیں کہ بھارت نے حملہ کرکے مشرقی پاکستان کو الگ کر دیا۔ ہم شدید کوتاہ نظری کا شکار ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ کسی بیرونی طاقت کی مداخلت صرف اُسی صورت میں کامیاب ہوتی ہے جب گھر کی دیواریں کمزور ہوں اور عوام کو حکومت پر اعتماد نہ ہو۔ پاکستان کی جنگ تو لڑی ہی مشرقی محاذ پر گئی تھی۔ کیا یہ بات زبان زدِ خاص و عام نہ تھی کہ :

BATTLE OF PAKISTAN WAS FOUGHT AND WON ON EASTERN FRONT.

مشرقی پاکستان میں تو تحریک پاکستان کی مخالفت ہی نہیں ہوئی تھی۔ وہاں احراری تھے نہ خاکسار، جماعت اسلامی تھی نہ یونینسٹ پارٹی کے ٹوڈی جاگیردار! تو پھر مشرقی پاکستانی عوام کیا موم کی ناک تھے یا احمق تھے کہ اچانک، بغیر کسی سبب کے بھارت کی مداخلت کا شکار ہو گئے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہاں ہندو تھے اور وہ پاکستان کی وحدت کے خلاف کام کرتے رہے۔ ہندو تو وہاں اُس وقت بھی تھے جب تحریکِ پاکستان مشرقی بنگال کی رگوں میں خون بن کر دوڑ رہی تھی اور سلہٹ سے لے کر خلیج بنگال تک اور برما کی سرحد سے لے کر کلکتہ کے مشرق تک پاکستان کے نعرے لگ رہے تھے۔ یہ ہندو اُس وقت بھی وہاں موجود تھے جب لاکھوں مہاجرین کو مشرقی پاکستان کے عوام نے خوش آمدید کہا اور پوسٹل اور ریلوے جیسے پورے پورے محکمے مہاجرین سے بھر دیے۔ اصل میں ہمارا روّیہ اُن ناخواندہ اور بے وقوف والدین کا سا ہے جو امتحان میں بچے کی ناکامی کا الزام سکول اور اساتذہ پر ڈال دیتے ہیں۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے کیا عوامل تھے؟ ہم نے کہاں کہاں ٹھوکر کھائی اور کہاں کہاں اپنے پیروں پر خود کلہاڑی ماری، اس کا جائزہ ہم کل والی نشست میں پیش کریں گے۔

Facebook.com/izharulhaq.net

Friday, December 14, 2012

کیا محرومیوں کا شکار صرف سرائیکی پٹّی ہے؟



سرائیکی علاقہ خوش بخت ہے کہ اسے رئوف کلاسرا جیسا لائق صحافی میسر آیا۔

خوش بختی کے مظاہر سرائیکی پٹی کے حوالے سے اور بھی بہت ہیں۔ جتنے حکمران پاکستان کو بالعموم اور پنجاب کو بالخصوص یہاں سے ملے ہیں اتنے مغلیہ خاندان نے بھی ہندوستان کو نہیں عنایت کیے۔ ممتاز احمد خان دولتانہ، مشتاق احمد گورمانی، غلام مصطفی کھر، صادق قریشی، نواب عباسی، مخدوم سجاد قریشی، ذوالفقار کھوسہ، لطیف کھوسہ، دوست محمد کھوسہ، فاروق لغاری، بلخ شیر مزاری، عبدالحمید خان دستی، یوسف رضا گیلانی سب سرائیکی خطے سے ہیں۔ یہ تو خیر وہ اصحاب ہیں جو وزیراعظم، صدر ، وزیراعلیٰ یا گورنر رہے۔ ان کے علاوہ بااثر شخصیات بھی جو حکومتوں کو جوڑنے، توڑنے اور پالیسیاں مرتب یا تبدیل کرنے کے حوالے سے پیش منظر پر رہیں اور آج بھی ہیں، کم نہیں ہیں۔ اسحاق خاکوانی، جاوید ہاشمی، شاہ محمود قریشی، حنا ربانی کھر سب یہیں سے ہیں۔ سرائیکی وسیب کے علم بردار ڈیرہ اسماعیل خان کو بھی راجدھانی کا حصہ گردانتے ہیں۔ اس لحاظ سے سابق چیف منسٹر سرحد مفتی محمود مرحوم اور ان کے انتہائی متحرک اور بااثر سیاستدان فرزند مولانا فضل الرحمن بھی اسی کھاتے میں پڑتے ہیں اور فیصل کریم کنڈی بھی یہیں سے ہیں۔ سرائیکی علاقے کی محرومی کی لاکھ داستانیں بیان کی جائیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ خوش قسمت علاقہ اکثر و بیشتر پورے ملک اور پورے صوبے کے سیاہ و سفید کا مالک رہا ہے! اس پٹی کے پاس بقول منیر نیازی ایسا طلسم ہے جو کئی زمانوں کا اسم ہے
رئوف کلاسرا لکھتے ہیں… ’’سندھ واحد صوبہ تھا جس کے لیے اربن اور رورل کوٹے کی تقسیم رکھی گئی تھی۔ پنجاب بڑا صوبہ تھا لیکن بھٹو صاحب نے سرائیکیوں کو نوکریوں میں علیحدہ کوٹہ نہیں دیا تھا اور آج بھی سرائیکیوں کو پورے پنجاب کے ساتھ مقابلہ کرکے کوئی بچی کھچی نوکری تلاش کرنا پڑتی ہے۔‘‘

غالباً وہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ سندھ میں تو اربن رورل کی تقسیم ہے لیکن پنجاب میں دیہاتی اور دور افتادہ علاقوں کو مراعات یافتہ علاقوں کے ساتھ مقابلہ کرنا پڑتا ہے! ظاہر ہے سرائیکی علاقے کے علاوہ بھی پنجاب کے محروم توجہ غیر ترقی یافتہ اور پس ماندہ حصے موجود ہیں! مثلاً ضلع اٹک اور اس کی ایک سابق تحصیل تلہ گنگ ہی کو لے لیجئے، غربت، محرومی اور سیاسی بے چارگی میں شاید ہی کوئی خطہ یہاں کا مقابلہ کر سکے۔ ایک بدقسمتی کی بنیاد تو انگریزی سامراج ہی رکھ گیا کہ چونکہ یہ ’’مارشل ایریا‘‘ ہے اس لیے یہاں صنعت لگانے کی ضرورت نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ ملازمتیں میسر آنے لگیں تو فوج کی بھرتی کم ہو جائے۔ یہ رجحان ابھی تک قائم ہے۔ حالانکہ آج کے زمانے میں، جب ساڑھے چار فٹ کے ویت نامیوں نے نردبان جیسے امریکیوں کو لوہے کے چنے چبوا دیے، کسی خاص علاقے کو مارشل ایریا قرار دینا سراسر زیادتی ہے! وہ تو بھلا ہو دفاعی پیداوار کے سیکٹر کا جس نے واہ، سنجوال اور کامرہ میں دفاعی مقاصد کے لیے کارخانے لگائے اور مقامی لوگوں کو روزگار ملنے لگا۔

پس ماندہ علاقوں کے مسائل ایک جیسے ہیں۔ سرائیکی علاقہ ہو یا اٹک تلہ گنگ ہو، مری کی گلیات ہوں یا جھنگ کے میدان اور میانوالی کے پہاڑ ہوں یا جہلم کی سطح مرتفع، غربت کا رنگ یکساں ہے۔ بنیادی طور پر ان علاقوں کو، رواں ایام کے حوالے سے، دو مصیبتوں کا سامنا ہے۔ ایک وہی جس کا ذکر کلاسرا صاحب نے کیا ہے۔ ضلعی حکومتوں کا نہ ہونا۔ پرویز مشرف کا نامۂ اعمال حکومتی اقدامات کے لحاظ سے، حوصلہ افزا ہرگز نہیں۔ اس کے جرائم کی فہرست طویل ہے اور سنگین بھی، لیکن اس کے باوصف سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہے بغیر چارہ نہیں۔ ضلعی حکومتوں کا قیام اس کا ایسا کارنامہ ہے جس کی افادیت سے وہی شخص انکار کر سکتا ہے جو منصف مزاج نہ ہو۔ خاص طور پر وہ لوگ جو شہروں سے ہیں، اس مسئلے کی نزاکت کو پوری طرح سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ڈپٹی کمشنر (آج کل ڈی سی او) اور ناظم ضلع میں وہی فرق ہے جو غیر ملکی حاکم اور مقامی نمائندے میں ہوتا ہے۔ ڈپٹی کمشنر یا ڈی سی او کو معلوم ہے کہ اس نے دو یا تین سال گزارنے ہیں اس کے بعد اس کا اس ضلع سے اور ان عوام سے شاید ہی کوئی تعلق ہو۔ گویا ؎

میں نے جو آشیانہ چمن سے اٹھا لیا

میری بلا سے بُوم رہے یا ہما رہے

ترقی اور آئندہ تعیناتی کے لیے اس نے لاہور کی طرف دیکھنا ہے۔ وہ عملی طور پر وائسرائے ہے اور اگر ضلع دور افتادہ ہے تو پھر تو اس کی کوشش آنے کے فوراً بعد یہ ہوتی ہے کہ جلد از جلد ڈھنگ کی کوئی پوسٹنگ ہاتھ لگ جائے۔ اس کے مقابلے میں ضلع ناظم کو معلوم ہے کہ اس نے ساری زندگی یہیں گزارنی ہے۔ آئندہ انتخابات لڑنے ہیں۔ اپنی شہرت کو مثبت رنگ دینا ہے اور اپنی مقبولیت کے لیے استحکام حاصل کرنا ہے؛ چنانچہ وہ علاقے کی ترقی کے لیے اور اپنی نیک نامی کے لیے جان لڑا دیتا ہے۔ اٹک ہی کی مثال دوبارہ لیتے ہیں۔ ضلعی حکومت کے زمانے میں میجر طاہر صادق ناظم ضلع تھے۔ ان کی حرکت پذیری اور فعالیت دیکھ کر تعجب ہوتا تھا۔ آج حضرو میں ہیں تو کل پنڈی گھیپ میں، صبح جنڈ میں ہیں تو شام فتح جھنگ میں۔ اس کالم نگار نے ٹیلی فون کیا کہ ہمارے گائوں کے معززین کو ملنے کا وقت دیجیے، سخت مصروفیت کے باوجود دوسرے دن بلا لیا۔ ہم گائوں کے دس پندرہ لوگ تھے۔ ہمارے دو مطالبات تھے۔ پرائمری سکول کو مڈل سکول کا درجہ دیجیے اور گائوں کے لیے ڈسپنسری منظور کیجیے۔ ڈسپنسری کے لیے جگہ کے کاغذات ہم ساتھ لے کر گئے تھے۔ ناظم نے دونوں مطالبات منظور کر لیے۔ آج گائوں میں پرائمری کی بجائے مڈل سکول قائم ہے، ڈسپنسری کا قصہ سن کر ہمارے پڑھنے والوں کو یہ سمجھنے میں ذرا اشکال نہ رہے گا کہ ضلعی حکومت اور لاہور شاہی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ تین سال سے معاملہ لاہور میں پڑا ہے۔ ڈسپنسری کو صرف بیس لاکھ روپے درکار ہیں۔ ڈی سی او نے پورا کیس بنا کر بھیجا ہے، لیکن ؎

کجا دانند حالِ ماسبکسارانِ ساحل ہا

اتنی شدید ’’مرکزیت‘‘ زیادہ عرصہ کہیں بھی نہیں چل سکتی اور ’’مرکز‘‘ کو اس بادشاہت کی جلد یا بدیر قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ پنجاب کی موجودہ حکومت کو اس حقیقت کا ادراک ہی نہیں کہ ضلعی حکومتوں کو ختم کرکے انگریز کے زمانے کا فرسودہ نظام واپس لانا گھوڑے کو ٹانگے کے پیچھے جوتنے کے مترادف ہے۔

دوسری مصیبت یہ ہے کہ شریف برادران اپنی افتاد طبع کے

باعث ذہنی طور پر لاہور سے باہر نکل ہی نہیں سکتے۔ اگر وہ دیوار کے پار دیکھنے کی صلاحیت رکھتے تو سوچتے کہ پرویز مشرف کے ذریعے آسمان نے جب انہیں اقتدار کی غلام گردش سے باہر پھینک دیا تو آخر کیا سبب تھا کہ 70فی صد ’’رعایا‘‘ نے اس تبدیلی کو درست قرار دیا تھا؟ اس زمانے کے اخبارات میں نمایاں طور پر شائع ہونے والی ایک خبر آج بھی بھولتی نہیں۔ چالیس سے زیادہ کلیدی اسامیوں پر ایک مخصوص علاقے سے تعلق رکھنے والے بیوروکریٹ بٹھا دیے گئے تھے۔ آج بھی لاہور میں فیصلے کرنے والے لوگ صوبے کے اطراف و اکناف سے تعلق رکھتے ہیں نہ حقائق ہی کا ادراک کر سکتے ہیں، افسر شاہی کی نچلی سطح کو تو چھوڑ ہی دیجیے، مسلم لیگ نون کے مرکزی ستونوں ہی پر نگاہ دوڑا لیجیے، عابد شیر علی سے اسحاق ڈار صاحب تک اور خواجہ آصف صاحب سے خواجہ سعد رفیق تک، سب لاہور کے ہیں یا نواح لاہور سے ہیں۔ سردار ذوالفقار کھوسہ صوبے کے جنوب سے تھے لیکن ان کی موجودہ حیثیت ڈھلتی دھوپ سی ہے۔ لے دے کر ایک چوہدری نثار ہیں جو وسطی پنجاب سے باہر کے ہیں۔ اس حقیقت سے مسلم لیگ نون کے کٹر حمایتی بھی انکار نہیں کر سکتے کہ صوبے کے بجٹ کا معتدبہ حصہ ایک ہی شہر پر صرف کیا جاتا رہا ہے۔ خدا اس شہر کو آباد اور شاد رکھے، مسئلہ وہی ہے جو شاعر کہہ گیا ہے ؎

خوبصورت بہت ہو تم لیکن

دوسروں کا بھی کچھ خیال کرو

سرائیکی پٹی کے مسائل سے کسی کو انکار نہیں، رونا یہ ہے کہ اگر ارتکاز کا یہی رنگ رہا تو مطالبہ صرف ایک نئے صوبے تک محدود نہیں رہے گا!! ؎

پاپوش کی کیا فکر ہے دستار سنبھالو

پایاب ہے جو موج، گزر جائے گی سر سے

Facebook.com/izharulhaq.net

Thursday, December 13, 2012

طوطا اور طوطے کا بیٹا

وہ جو کہتے ہیں کہ بڑے آدمیوں کے بارے میں لوگ مختلف اور متضاد آراء رکھتے ہیں تو اس تعریف کا اطلاق حسن نثار پر بھی ہوتا ہے۔ ان کے چاہنے والے بے شمار ہیں اور برا بھلا کہنے والوں کی بھی کمی نہیں! یو ٹیوب پر ’’عُشاق‘‘ نے کیا کیا مہربانیاں کی ہوئی ہیں! یوں بھی عربی میں کہتے ہیں کہ مَن صَنَّفَ قَدِ استَہدَفَ۔ جس نے بھی نیا راستہ نکالا، تنقید کا ہدف بنا۔ مجھے بھی ان سے کچھ معاملات میں اختلاف ہے۔ مثلاً ان دنوں ان کا میلان کچھ کچھ اس طرف ہے کہ کسی مذہبی رہنما کو بھی آزمایا جایا جائے اور اُسے ووٹ دیے جائیں۔ اس فقیر کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ علماء کا اصل کام دعوت و تدریس ہے اور حکومت کا محاسبہ کرنا ہے۔ حکومت میں آنے کے بعد جیسا کہ تجربے نے ثابت کیا ہے، علماء بے توقیر ہو جاتے ہیں اور کم فہم لوگ ذمہ داری دین پر ڈالتے ہیں۔ بہرحال میں کیا اور میرا اختلاف کیا۔ ایک طالب علم ہوں اور حسن نثار سے اور تمام سینئرز سے، اختلافِ رائے سے قطعِ نظر، ہمیشہ سیکھنے کی کوشش کی ہے۔

بات دوسری طرف نکل گئی۔ حسن نثار کا تذکرہ اس لیے کیا جا رہا ہے کہ چند دن پہلے ان کے ٹی وی پروگرام ’’میری دنیا‘‘ کے حوالے سے خبر پڑھی جس میں ایک ایسی بات تھی جو فکر کو مہمیز لگا گئی؛ اگرچہ ان کا یہ کہنا بھی کہ پرویز مشرف‘ نوازشریف ہی کا تحفہ تھے ، توجہ کا مستحق ہے اور اس فقیر نے بھی متعدد بار بے حد خلوص نیت سے عرض کیا ہے کہ میاں صاحب کو اس بات پر قوم سے معافی مانگنی چاہیے کہ انہوں نے میرٹ کو پس پشت ڈال کر ایک پلے بوائے کو عالمِ اسلام کی عظیم الشان سپاہ کا سالار بنا دیا۔ حالانکہ خدا کی کتاب میں صاف صاف کہا گیا ہے کہ امانتیں صرف انہی کے سپرد کرو جو اہل ہوں۔ لیکن حسن نثار کی جو بات ان سطور کا محرک بنی وہ اور ہے۔ پاکستان کے موجودہ حالات کے پیش نظر انہوں نے اپنے بارے میں بتایا کہ وہ ملک سے دور نہیں رہ سکتے۔ لیکن بچوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ شاید انہیں بیرون ملک بھجوا دیں۔ یہ بات اگر کوئی ایسا بابو یا برائون صاحب کہتا جو گرمیوں کی تعطیلات یوں بھی الپس کے پہاڑوں میں گزارتا ہے اور بچوں کو ڈزنی لینڈ کی سیر کے لیے بھیج دیتا ہے تو تعجب کی بات نہیں تھی اور ایسے بابو اور برائون صاحب بدعنوانی کے اس عہد نامسعود میں روپے کے دس مل جاتے ہیں۔ لیکن یہ بات اگر ایسا دیسی شخص کہہ دے جو شہر سے اٹھ کر جنگل میں جا بسے اور پرندوں اور پھولوں کے درمیان بسیرا کر لے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ ع

چمن تک آ گئی دیوارِ زنداں، ہم نہ کہتے تھے!

طوطا اپنے وطن سے دور دیارِ غیر میں محنت مزدوری کر رہا تھا۔ جب بھی شام کو دوسرے طوطوں کے ساتھ گپ شپ کے لیے بیٹھتا تو آہ بھر کر کہتا: ’’ہائے میرا وطن! بہت یاد آ رہا ہے!‘‘ دوسرے طوطے پوچھتے کہ اتنی سرد اور لمبی آہ جو بھر رہے ہو تو کیا تمہارا وطن بہت دلکش ہے؟ طوطا جواب دیتا کہ میرے وطن کا جواب ہی نہیں! روئے زمین پر اس سے زیادہ دل نشیں گوشہ کوئی نہیں، یہ وطن تو میری روح اور میری زندگی ہے! روز روز کی اس قصیدہ خوانی سے طوطے اکتا گئے اور ایک دن انہوں نے فیصلہ کیا کہ ذرا اس کا وطن دیکھیں تو سہی؛ چنانچہ سارے طوطے اس کی قیادت میں جو ہر وقت وطن کی تعریفیں کرتا رہتا تھا اڑ کر اس کے وطن آ پہنچے۔ تجسس اور اشتیاق ان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہا تھا کہ آج اس طوطے کا وطن دیکھیں گے۔ طوطا انہیں ایک تالاب پر لایا جو پانی سے لبالب بھرا تھا۔ تالاب کے کنارے ایک درخت تھا۔ درخت کی ایک ٹہنی زمین سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھی۔ اس ٹہنی پر ایک اجاڑ سا گھونسلا بنا ہوا تھا۔ تیز ہوا چل رہی تھی۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد ٹہنی ہوا کے زور سے جھُکتی اور آدھا گھونسلا پانی میں ڈوب جاتا۔ پھر ٹہنی اوپر کو اُٹھتی اور گھونسلے سے پانی نچڑ کر نیچے بہہ جاتا۔ طوطے نے کہا یہ گھونسلا اور یہ ٹہنی میرا وطن ہے۔ دوسرے طوطوں نے ملامت کی کہ کیا اس وطن کے لیے رات دن تمہارا سینہ لوہار کی دھونکنی کی طرح چلتا تھا۔ طوطے نے کہا ہاں! جیسا بھی ہے، یہی میرا وطن ہے اور اسی پر میں فدا ہوں۔ لیکن تماشا یہ ہوا کہ طوطے کے بچے بھی یہ مکالمہ سُن رہے تھے۔ سب سے بڑا بیٹا آگے بڑھا اور باپ سے کہنے لگا، ابّا بہت ہو گئی، ہم اس سیلاب کے گھر میں مزید نہیں رہ سکتے، درخت اور بھی بہت ہیں اور ہمارے پروں میں طاقت بھی بہت ہے!

زندگی جذبات اور رومان میں نہیں گزر سکتی۔ انسان ہمیشہ انصاف کا طلب گار رہا ہے اور انصاف کا سب سے بڑا مظہر یہ ہے کہ اُس کی محنت کا جائز پھل ملے، اُسے ذلیل نہ کیا جائے اور ایک مخصوص طبقے کو دیکھ کر اُسے اپنی بے بضاعتی کا احساس نہ ہو۔ آپ تصور کیجیے، پچیس سال کا ایک نوجوان، جس نے سکول کالج اور یونیورسٹی میں ہمیشہ محنت کی، اپنے ماں باپ کے خون پسینے کی کمائی سے پڑھ کر اعلیٰ ڈگری لی اور پھر یہ بھی فرض کرتے ہیں کہ اُسے ملازمت بھی مل گئی، اپنے شب و روز کیسے گزارتا ہے!

وہ رات کو جلد سوتا ہے کہ صبح سات بجے اُس نے دفتر کے لیے روانہ ہونا ہے۔ لیکن رات کو ایک بجے اس کی بیوی اُسے جگاتی ہے کہ یوپی ایس چلنا بند ہو گیا ہے اور اُن کا تین ماہ کا بچہ رو رہا ہے۔ اندھیرے میں وہ اُس کا دودھ فیڈر میں کیسے ڈالے۔ وہ آنکھیں ملتا اُٹھتا ہے اور موبائل فون کی روشنی میں بیٹریوں کا پانی چیک کرتا ہے۔ پانی تو کم نہیں، پرسوں ہی ڈالا تھا۔ پھر وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ بیٹریاں وقت پورا کر چکی ہیں اور دو نئی بیٹریوں کا خرچ کم از کم اٹھارہ ہزار روپے ہے۔ جوں توں کرکے رات گزرتی ہے، صبح وہ اپنی پتلون استری کر رہا ہے کہ بجلی پھر چلی گئی، ناشتہ آدھا ہی کر پاتا ہے اور چل دیتا ہے۔ آج نو بجے دفتر میں میٹنگ ہے اور اُسے ایک پریزنٹیشن دینا ہے۔ ابھی دفتر سے دو میل دور ہے کہ پولیس کا سپاہی چوک پر اُس کی ننھی منی مہران گاڑی کو ہاتھ دے کر روک دیتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ
چوک کے دوسری طرف بھی گاڑیاں رُک گئی ہیں۔ پندرہ منٹ گزرتے ہیں پھر بیس منٹ ہو جاتے ہیں، پھر آدھا گھنٹہ، ایک سپاہی اس کے پاس سے گزر رہا ہے، وہ شیشہ نیچے کرکے پوچھتا ہے کہ ٹریفک کیوں روکی گئی ہے، سپاہی اچٹتی ہوئی نگاہ اس پر ڈالتا ہے اور بے بسی سے بتاتا ہے کہ رُوٹ لگا ہوا ہے، فلاں حکمران ائرپورٹ جا رہا ہے۔ وہ پیچ و تاب کھاتا ہے، فراٹے بھرتی جہازی سائز کی گاڑیوں کا قافلہ زن سے گزرتا ہے، اُسے اپنی عزتِ نفس تیزاب میں گھُلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ وہ دفتر پہنچتا ہے۔ میٹنگ شروع ہو چکی ہے، اُس کا باس اُس کی روداد سنتا ہے تو مشورہ دیتا ہے کہ یار! ذرا پہلے نکل آیا کرو نا گھر سے! وہ بُجھا ہوا شکستہ حوصلے کے ساتھ اپنی سیٹ پر آتا ہے۔ ابھی اُس نے لیپ ٹاپ آن کیا ہی ہے کہ بیوی کا فون آتا ہے، گیس کا پریشر برائے نام ہے۔ کھانا نہیں پک رہا، آتے ہوئے کچھ لے آنا۔ دو گھنٹے بعد پھر فون آتا ہے۔ سرکاری سپلائی والا پانی دو دن سے نہیں آیا، انڈر گرائونڈ ٹینک خالی ہو گیا ہے۔ وہ ٹینکر والے کو فون کرتا ہے۔ ٹینکر والا وعدہ کرتا ہے کہ چند گھنٹوں میں پانی لے آئے گا لیکن ساتھ ہی کہتا ہے… ’’صاب! ریٹ بڑھ گیا ہے۔ اب ٹینکر تیرہ سو کا نہیں، پندرہ سو روپے کا ہوگا۔‘‘ شام کو وہ انتہائی انہماک سے ایک پروجیکٹ کے لیے سلائیڈز تیار کر رہا ہے کہ اچانک انٹرنیٹ کا کنکشن غائب ہو جاتا ہے۔ وہ متعلقہ محکمے کو فون کرتا ہے لیکن فون کوئی نہیں اٹھاتا۔ وہ بے بسی سے بیوی کو بتاتا ہے کہ اب انٹرنیٹ کل ہی بحال ہوگا، وہ بھی سفارش کرانا پڑے گی۔ اچانک اُسے یاد آتا ہے کہ بیٹا تین ماہ کا ہو گیا اور ابھی تک اُس کا ’’ب فارم‘‘ نہیں بنا۔ ب فارم بنانے والے، پیدائش کا سرٹیفکیٹ مانگ رہے تھے اور میونسپلٹی کے کئی چکر لگانے کے باوجود متعلقہ کلرک سرٹیفکیٹ نہیں دے رہا تھا حالانکہ ہسپتال سے بنا ہوا سرٹیفکیٹ اس نے میونسپلٹی والے بابو کو دو ہفتے پہلے دے دیا تھا۔ بابو نے اُس سے پوچھا تھا کہ وہ ملازمت کہاں کرتا ہےاُس نے بتایا کہ کمپیوٹر والی ایک کمپنی میں، اس پر بابو نے بڑی ڈھٹائی سے اسے بتایا کہ اسے ایک ڈیسک کمپیوٹر کی ضرورت ہے، کیا وہ اسے ’’اُدھار‘‘ دلوا سکتا ہے؟ ابھی وہ یہ ساری بات سوچ ہی رہا ہے کہ نظر اچانک اخبار پر پڑ جاتی ہے جو بیوی پڑھتے پڑھتے اُس کے سامنے پھینک کر روتے ہوئے بچے کو اٹھانے کمرے میں چلی گئی ہے۔ اپنے بچے کو ڈاکٹر بنانا اُس کا خواب ہے اور اخبار کی خبر اُس کے سینے میں خنجر کی نوک کی طرح اترتی جا رہی ہے…‘‘ ڈاکٹر نیازی پنجاب ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں 20 ویں گریڈ کے سینئر ڈاکٹر تھے۔ 14 فروری 2012ء کو انہیں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال راولپنڈی میں میڈیکل سپرنٹنڈنٹ مقرر کیا گیا۔ چار دن بعد یعنی 18 فروری کو راولپنڈی کے ایک بااثر سیاسی رہنما کی فرمائش پر انہیں او۔ایس۔ ڈی بنا دیا گیا۔ ان کی ریٹائرمنٹ کو دو سال رہ گئے ہیں وہ دل کے مریض ہیں۔ انہیں تعیناتی کے لیے پورے آٹھ ماہ انتظار کی اذیت میں رکھا گیا۔ انہیں بہاولپور تعینات کیا گیا جس کا مقصد خود ڈاکٹر نیازی کے بقول صرف یہ سبق سکھانا تھا کہ اگر میں نے ایک سیاسی شخصیت کے خلاف ڈٹ جانے کی جرأت کی تو صوبے کے کسی دور افتادہ کنارے پر پھینک دیا جائوں گا۔‘‘ خبر میں آگے کچھ اور بھی ’’اصول پرستیوں‘‘ کی تفصیل ہے لیکن وہ پڑھنے کی ہمت نہیں پاتا۔ وہ اپنے بچے کو غور سے دیکھتا ہے۔ پھر اُس کے منہ سے دو لفظ نکلتے ہیں… ’’نہیں۔ نہیں۔‘‘ وہ اپنے چچازاد بھائی کو ناروے فون ملاتا ہے جس نے اُسے بتایا تھا کہ جو کوالیفکیشن اُس کے پاس ہے سکنڈے نیویا میں اُس کی ضرورت ہے اور قدر بھی!



Facebook.com/izharulhaq.net

Tuesday, December 11, 2012

بصد احترام


بالآخر لال محمد سے معاملہ طے ہوا۔ ہم دونوں میں غیر تحریری معاہدہ ہوا کہ وہ میرے گھر کے کونے میں پانی بور کرے گا اور میں اسے اتنے روپے فی منٹ کے حساب سے ساتھ ساتھ ادائیگی کرتا جائوں گا۔ دارالحکومت کی جس آبادی میں، میں رہ رہا ہوں وہاں تو پانی کی کمی ہے ہی، اب تو آئی ایٹ جیسے وی آئی پی اور بیش بہا سیکٹروں میں بھی ہر  شخص گھر میں پانی بور کرا رہا ہے۔

لال محمد شریف اور بھلے مانس شخص ہے۔ اس کے گیارہ بچے ہیں۔ خیبر پختونخوا سے اس کے والد مرحوم آ کر اسلام آباد کی اس بستی میں آباد ہوئے تھے۔ پانی بور کرانا پڑا تو یہ بھی معلوم ہوا کہ اس ’’گھریلو صنعت‘‘ میں کام کرنے والوں کی اکثریت ہمارے پختون بھائیوں کی ہے۔ لال محمد انہی میں سے ایک ماہر ہے۔ یہ لوگ گھر میں پشتو بولتے ہیں اور گھر سے باہر اردو۔ اردو ان کے روزگار کی زبان ہے۔ اسی کی مدد سے یہ محنت کش اپنے بچوں کا رزق حاصل کرتے ہیں اور صرف اسلام آباد ہی میں نہیں، کراچی سے لاہور تک اور گلگت سے ملتان تک ملک کی معیشت میں ہمارے پختون بھائی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کل جب روزنامہ ’’دنیا‘‘ میں یہ اندوہناک خبر پڑھی کہ پشاور کے جلسے میں اے این پی کے کارکنوں نے اسفند یار ولی خان کا خطاب اردو زبان میں سننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اردو ہماری دشمن زبان ہے،اس میں بات کرنا حرام ہے اور اسفند یار کارکنوں کو سمجھاتے رہے کہ اردو میں بات نہ کی تو میڈیا کو سمجھ نہیں آئے گی جس پر انہیں صرف پانچ منٹ اردو میں بات کرنے کی اجازت دی گئی۔

تو میں سوچ رہا تھا کہ اگر جناب اسفند یار اپنی پارٹی کے کارکنوں کی تربیت کرتے اور انہیں تھوڑے سے جنرل نالج کی تعلیم بھی دیتے تو ہمارے ان عزیز بھائیوں کو معلوم ہوتا کہ چند ماہ پہلے ’’انجمن تحفظ حقوق پختوناں کلر کہار‘‘ کے عہدیداروں نے جو عرضداشت پنجاب کے وزیراعلیٰ کی خدمت میں پیش کی تھی اور جس کے جواب میں وزیراعلیٰ نے ’’انجمن‘‘ کو ایمبولنس کا تحفہ دیا تھا، وہ عرضداشت اردو زبان ہی میں تھی! یہ جو ایبٹ آباد کی جھُگیاں سے لے کر راولپنڈی میں فوارہ چوک تک اور لاہور میں لبرٹی کی بغل تک ہر شہر اور ہر قصبے میں ایک باڑہ کھلا ہوا ہے اور جس میں کپڑے سے لے کر کراکری تک اور کھلونوں سے لے کر الیکٹرانک اشیا تک دنیا کی ہر چیز بک رہی ہے تو ان کاروباری مراکز میں اردو بولے بغیر ایک دھیلے کا بزنس بھی نہیں ہو سکتا۔ آخر اے این پی کے ’’وسیع الظرف‘‘ اور ’’وسیع العلم‘‘ کارکن ان محنت کرنے والے دیانت دار اور سیدھے سادے پختونوں کے روزگار کے دشمن کیوں بننا چاہتے ہیں؟

یہ صرف آج کی بات نہیں، پختون ہمیشہ سے متحرک اور سفر کے دلدادہ رہے ہیں۔ انیسویں صدی کے آخری تیس سالوں میں یہ پختون شتربان ہی تھے جنہوں نے آسٹریلیا کے لق و دق صحرائوں میں ٹیلی گراف کی لائنیں اور ریلوے کی پٹری بچھائی۔ برطانوی آباد کاروں کے بس کی یہ بات ہی نہیں تھی۔ ان لوگوں نے، جو کراچی اور بمبئی کی بندرگاہوں سے جہازوں میں اپنے اونٹوں سمیت آئے تھے، آسٹریلیا کے دور افتادہ گوشوں میں مسجدیں بنائیں۔ انتہائی شمال سے لے کر انتہائی جنوبی کنارے تک جو ریل چلتی ہے اسے افغان ایکسپریس کہا جاتا تھا۔ آج بھی آسٹریلوی اسے ’’غان‘‘ ایکسپریس کہتے ہیں۔ معروف آسٹریلوی ادیبہ حنیفہ دین نے، جو انہی شتربانوں کی اولاد میں سے ہیں، اپنی مشہور کتابوں ’’کاروان سرائے‘‘ اور ’’علی، عبدل، ورسز دی کنگ‘‘ میں ان لوگوں کے حالات جمع کیے ہیں۔ معروف امریکی محقق پروفیسر 
Robert Nichols
 نے ’’ہسٹری آف پشتون مائگریشن‘‘ میں  بتایا ہے کہ کس طرح 1775ء سے لے کر 2006ء تک پختون پورے برصغیر اور پھر پاکستان کے طول و عرض میں آباد کاری کرتے رہے۔ اٹھارہویں صدی میں شمالی ہند کی روہیل کھنڈ ریاست پختونوں ہی کی تھی۔ رام پور ریاست بھی، بریلی جس کا دارالحکومت تھا، پٹھانوں ہی کی تھی۔ حافظ رحمت خان پختون تھے۔ پانی پت کی تیسری لڑائی میں حافظ رحمت خان مرہٹوں کے خلاف احمد شاہ ابدالی کے شانہ بشانہ لڑے۔ پھر جب 1764ء میں ہندو جاٹوں نے سورج مل کی قیادت میں مغل فوج کا تیا پانچہ کر دیا اور تاج محل کے چاندی کے دروازے تک اکھاڑ کر لے گئے، تو بہادر پٹھان حافظ رحمت خان ہی تھے جنہوں نے بدلہ لینے کی قسم کھائی اور سورج مل کو شکست دے کر جہنم رسید کیا۔ اودھ کے نواب شجاع الدولہ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی اطاعت قبول کرکے خراج دینا شروع کر دیا۔ جب اس نے روہیلوں سے رقم مانگی تو حافظ رحمت خان نے انکار کر دیا۔ نواب نے انگریزوں کے ساتھ مل کر روہیل کھنڈ پر حملہ کر دیا۔ حافظ صاحب لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ انگریزوں نے غارت گری کی انتہا کر دی۔ روہیلے پٹھان گنگا کے کنارے جنگلوں میں روپوش ہو گئے اور کئی سال تک انگریزوں کے خلاف گوریلا جنگ لڑی لیکن ہتھیار نہ ڈالے۔ بہت سے پختون ہجرت کرکے حیدر آباد دکن چلے گئے جہاں نظام کے دم سے مسلمانوں کی ایک سلطنت باقی تھی!

حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی پٹھان تھے۔ محمد علی جوہر اور ان کے بھائی یوسف زئی تھے۔ جنرل اختر عبدالرحمن روہیلے پٹھان تھے۔ جنرل رحیم الدین (اعجاز الحق کے سسر) آفریدی پٹھان تھے اور بھارت کے تیسرے صدر ڈاکٹر ذاکر حسین ان کے چچا تھے۔ ان حضرات کے جدِّامجد کوہاٹ سے ہجرت کرکے یوپی گئے تھے۔ معروف شاعر پرتو روہیلہ جو سول سروس کے دوران پشاور ایک عرصہ رہے اور اپنی پسند سے رہے، پٹھان ہیں۔ معروف شاعر، ڈرامہ نگار اور فنکار جیدی (اطہر شاہ خان) خالص پختون ہیں۔ روزنامہ کوہستان کے چیف ایڈیٹر عبدالوحید خان بریلی کے پٹھان تھے۔ انہوں نے سید ابو الاعلیٰ مودودی کے ہمراہ کئی سال جیل میں گزارے۔ وہ معروف صحافی جناب سلمان غنی کے سسر تھے۔ عبدالوحید خان کے صاحبزادے ڈاکٹر عمار حمید خان لاہور کے معروف ہارٹ سرجن ہیں اور گنتی کے اُن چند ڈاکٹروں میں سے ہیں جو بچوں کے دل میں پڑنے والے پیدائشی سوراخ کے علاج کے ماہر ہیں۔ عمار حمید نے امریکہ اور سعودی عرب کے ہسپتالوں سے بھاری بھرکم تنخواہوں کی پیشکشیں ٹھکرا کر وطن واپس آنے کو ترجیح دی۔ پاکستان کے یہ سارے قابلِ فخر سپوت پختون ہیں۔

برِّصغیر کا ایک ایک گوشہ پختونوں کی محنت، بہادری اور دیانت داری کا مرہونِ احسان ہے۔ یوپی کا قصبہ فرح آباد بنگش قبیلے سے آباد ہے۔ پٹھان کوٹ پختونوں نے آباد کیا۔ اعظم گڑھ، بھوپال اورنگ آباد (حیدر آباد دکن، موجودہ مہاراشٹر) میں مروَت آج بھی موجود ہیں۔ گجرات (بھارت) کے قصبے بڑودہ میں یوسف زئیوں کا راج ہے۔ لودھی اور خلجی پٹھان تھے۔ ہندوستان کا نامور ترین حکمران جو پانچ سال میں پورے برِّصغیر کو سو سال آگے لے گیا، شیر شاہ سوری پٹھان تھا اور بہار کا قصبہ سہسرام اُس کی جنم بھومی تھی۔ دلیپ کمار، شاہ رخ خان، عامر خان، منصور علی خان پٹودی، ظہیر خان سب پختون ہیں۔ ’’برکی‘‘ 1617ء میں جنوبی وزیرستان سے نکلے اور جالندھر آ بسے۔ ہوشیار پور، لدھیانہ، ملیر کوٹلہ، امرتسر پختونوں کا گڑھ تھے۔ قصور اور لاہور آج بھی پختونوں کے دم سے رونق پزیر ہیں۔ عمران خان، مصباح الحق، ماجد خان، جاوید برکی، انتخاب عالم کون پٹھان نہیں ہے؟ سابق سیکرٹری خارجہ اور کرکٹ بورڈ کے سابق سربراہ شہریار خان جو بھوپال سے ہیں، اورک زئی پختون ہیں۔ اگر آج اردو ’’حرام‘‘ ہے تو کیا یہ تمام پختون صرف پشتو بولتے تھے؟

پورے برِّصغیر میں اردو کی زلف سنوارنے والے اور اردو زبان و ادب کو چار چاند لگانے والے پختونوں کو اے این پی کے مٹھی بھر ’’کشادہ نظر‘‘ کنوئیں کا مینڈک بنا دینا چاہتے ہیں۔ اللہ کے بندو! شبیر حسن خان جوش ملیح آبادی،  منیر نیازی، کوثر نیازی سب پٹھان تھے۔ صرف جوش ہی نے، جو خالص آفریدی پٹھان تھے، تیس سے زیادہ کتابیں لکھی ہیں اور سب کی سب ’’حرام‘‘ اردو میں ہیں، احمد فراز اور محسن احسان کون تھے اور کس زبان کے شاعر تھے؟ غلام محمد قاصر کے دو شعر آج پوری دنیا میں لاکھوں لوگوں کی زبان پر ہیں ؎

کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام

مجھے تو اور کوئی کام ہی نہیں آتا

تم یوں ہی ناراض ہوئے ہو ورنہ میخانے کا پتہ

ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے!

اس فہرست کی انتہا کوئی نہیں۔ سارے نامور ناموں کا احاطہ کرنا اس ناقص العلم قلم کار کے بس سے باہر ہے!

اور یہ جو ہم نے آغاز میں اے این پی کے ساتھ ’’مٹُھی بھر‘‘کا لفظ لگایا ہے تو اس گستاخی کی بنیاد اعداد و شمار پر ہے۔ 2008ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے لیے خیبر پختونخوا سے 35 نشستیں تھیں (اس میں خواتین کی آٹھ مخصوص نشستیں شامل نہیں)۔ 35 میں سے اے این پی کی نشستیں صرف دس ہیں۔ یعنی اٹھائیس فیصد۔ صوبے سے کل ووٹ 34,85,725 پڑے۔ ان میں سے اے این پی کو چھ لاکھ نو ہزار چھ سو بتیس ووٹ ملے یعنی سترہ اعشاریہ پانچ فیصد۔ باقی بیاسی اعشاریہ پانچ فیصد (82.5) ووٹ ایم ایم اے، مسلم لیگ نون، مسلم لیگ قاف، پی پی پی اور پیپلزپارٹی (شیرپائو گروپ) میں تقسیم ہو گئے۔ سو، اردو کے بارے میں اِس ’’خوش کلامی‘‘ کا خیبر پختونخوا کے تراسی فیصد عوام سے کوئی تعلق نہیں۔ اور کسے معلوم ہے کہ اے این پی کے سارے ارکان بھی اس ’’گُل افشانی‘‘ سے اتفاق کرتے ہیں یا نہیں؟

Facebook.com/izharulhaq.net



Friday, December 07, 2012

غیب سے کوئی سوار

ضمنی انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (نون) نے حریف جماعتوں کا صفایا کر دیا اور زبردست کامیابی حاصل کی لیکن ٹھہریے۔ کچھ اور تازہ خبریں بھی ہیں۔ ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل نے پاکستان کو بدعنوانی کے مقابلے میں زبردست نمبر دیے ہیں۔ سات ارب روپے روزانہ کی کرپشن ہو رہی ہے۔ اس حساب سے گزشتہ پانچ سال کے دوران 12600 ارب روپے کی کرپشن ہوئی ہے۔ ایک اور بین الاقوامی رپورٹ میں وطن عزیز کو ستانوے ممالک میں ساتواں بدعنوان ترین ملک قرار دیا گیا ہے۔ صرف چھ بدقسمت ملک پاکستان سے زیادہ کرپٹ ہیں جبکہ نوے ملک کرپشن میں پاکستان سے کوسوں پیچھے ہیں۔

اس سے دو روز پہلے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس دوست محمد خان نے کہا ہے کہ سرکاری اداروں میں کرپشن انتہا کو پہنچ چکی ہے اور یہ صورت حال نیب، ایف آئی اے، پولیس اور کئی دیگر انسدادی محکموں کی موجودگی میں ہے۔

تین دن پہلے سپریم کورٹ کے حضور ملک کی اکلوتی سرکاری ائرلائن کے سینئر افسروں نے ’’فخر‘‘ کے ساتھ بتایا کہ ائر لائن میں صرف تین فیصد ملازمین میرٹ کی بنیاد پر بھرتی ہوئے ہیں۔ باقی ستانوے فیصد ’’کوٹہ سسٹم‘‘ کی بیساکھی پر چل کر آئے۔ انگریزوں نے ایک بڑا اچھا لفظ اپنی لغت میں تراشا ہے۔ یہ جامع اور کارآمد لفظ EUPHEMISM ہے۔ اسے آپ خوش کلامی اور حسن ادا بھی کہہ سکتے ہیں لیکن اس کا اصل مطلب یہ ہے کہ کڑی اور کڑوی بات کو نرم الفاظ میں بیان کیا جائے اور ناخوشگوار حقیقت پر ملمع سازی کا عمل کرکے اس میں خوشگوار تاثر بھرا جائے۔ اس کے فلک بوس اونچے افسروں نے یقینا ’’یُو فے مزم‘‘ سے کام لیا ہے۔ بے چارے یہ کہنے کی جرأت کہاں کر سکتے تھے کہ ستانوے فی صد بھرتیاں سیاسی، ذاتی اور دھڑے بندی کی بنیادوں پر کی جاتی ہیں۔ کبھی جیالے، کبھی متوالے اور کبھی گورے اور کبھی کالے‘ میرٹ کی بنیاد پر نہیں بلکہ پرچیوں کی بنیاد پر اس بدقسمت ادارے میں آتے ہیں۔ سپریم کورٹ بنچ کے ایک فاضل رکن جناب جسٹس عظمت سعید نے تو حساب کرکے یہ بھی بتایا کہ پی آئی اے کے ملازمین فی جہاز پانچ سو ستر پڑ رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہر جہاز کے لیے پانچ سو ستر ملازمین ’’کام‘‘ کر رہے ہیں۔ فاضل جج کی تجویز تھی کہ یہ تناسب گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا جانا چاہیے۔

دوسرے ادارے بھی اس نیک نامی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ انگریزی حکومت نے جس ریلوے کو دنیا کی کامیاب ترین ریلوے بنایا تھا، اسے کرپشن کھا کر ہضم کر چکی ہے۔ سٹیل مل نشان عبرت بن چکی ہے۔ دارالحکومت کا ترقیاتی ادارہ، پلاٹوں کی ریکارڈ تعداد اپنے ہی ملازمین کو دے کر دنیا بھر میں ریکارڈ قائم کر چکا ہے۔ واپڈا جتنی بجلی پیدا کرتا ہے اس کا زیادہ حصہ اس کے ملازمین کھا جاتے ہیں یا ملک کے ان حصوں کو چلی جاتی ہے جو بل ادا ہی نہیں کرتے اور یہ مفت خوری علی الاعلان ہو رہی ہے، صوبوں کی حالت مرکز سے بھی بدتر ہے۔ ایک بڑا بنک کمال کی لاقانونیت کا شکار ہے۔ اس کے کسی ذمہ دار شخص تک کوئی شکایت کنندہ رسائی ہی نہیں پا سکتا۔ اس کی ویب سائٹ پر جو ای میل ایڈریس درج ہے وہ کام ہی نہیں کرتا۔ چیف ایگزیکٹو آفیسر جو صدر بھی ہیں کسی میل یا فون کال کا جواب دینا گوارا نہیں کرتے۔ ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ جو بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین ہیں، بے بسی سے بتاتے ہیں کہ میں نے چیف ایگزیکٹو آفیسر اور صدر سے کہا تو ہے کہ وہ جواب دے، اس سے ان کی شکایت کنندگان کی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جو ای میل بھی نہیں کر سکتے اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین سے بات کرنے کا موقع یا حوصلہ نہیں پاتے۔ اس کے باوجود پنجاب کے وزیراعلیٰ خونی انقلاب کی ’’نوید‘‘ حریفوں کو دیتے ہیں، حالانکہ حریف اور حلیف ’’اصل میں دونوں ایک ہیں۔‘‘ مسئلہ کلاس کا ہے، یعنی حکمران طبقہ کھیل کے دوران ٹینس کورٹ کے دو حصوں میں بٹ کر کھیل رہا ہے لیکن کورٹ سے باہر  سب باہم شیر و شکر ہیں۔

اب اس پس منظر میں وہ خبر دیکھیے، جس سے ہم نے کالم کا آغاز کیا ہے۔ ضمنی انتخابات میں جو بھی جیتا ہے، کیا وہ ان سے مختلف ہے جو ان نشستوں پر پہلے کامیاب ہوئے تھے؟ کیا کوئی ایسا امیدوار منتخب ہوا ہے جو اسمبلی میں کھڑا ہو کر کہے کہ ائر لائن میں سیاسی بھرتیاں بند کی جائیں ورنہ میں مستعفی ہوتا ہوں۔ کیا کوئی ایسا شخص منتخب ہوا ہے جو اعلان کرے کہ صوبائی حکومت نے قاف لیگ کے پرندوں کو جال میں پھنسانے کے لیے فلاں فلاں ضلع میں ان کی مرضی کے افسروں کو تعینات کیا ہے اور مرکزی حکومت نے اتحادی جماعتوں کو جال کے اندر روکنے کے لیے سب کچھ ان کے حوالے کر دیا ہے؟ کیا کوئی ایسا دیانت دار شخص اسمبلی میں بھیجا جا رہا ہے جو کھڑا ہو کر پوچھے کہ آخر کیا ’’مجبوری‘‘ ہے کہ فلاں وزارت ہمیشہ فلاں پارٹی کو دی جاتی ہے اور فلاں وزیر دھمکی دیتا ہے کہ مجھ سے فلاں وزارت لی گئی تو کابینہ چھوڑ دوں گا؟… اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا کوئی ایسا مائی کالال جیتا ہے جو فلور پر کھڑا ہو کر یہ کہے کہ آج سے کوئی وزیر، کوئی منتخب نمائندہ کسی کی سفارش نہیں کرے گا اور کسی ادارے کے کام میں مداخلت نہیں کرے گا۔ آئو اس بات کا سب عزم کریں اور حلف اٹھائیں ورنہ یہ ہے میرا استعفیٰ اور جو بھی اس ملک کا وفادار ہے وہ میرے ساتھ آ کر کھڑا ہو جائے۔

نہیں! بالکل نہیں! کوئی ایسا بہادر منتخب نہیں ہوا۔ سب دیکھے بھالے ہیں۔ سب کی چونچ بھی کالی ہے۔ پر بھی کالے ہیں۔ پہلے باپ ممبر تھا، اب فرزند آ گیا، پہلے چچا تھا، اب برادر زادہ منتخب ہو گیا۔ یہ وہ کبوتر ہیں جو منڈیر پر بیٹھے رہتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کا دانہ موٹا ہو تو وہ چُگ لیتے ہیں۔ نون یا قاف لیگ اچھا راتب ڈالے تو غٹر غوں غٹر غوں کرتے اس کے ہاتھوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔ ان حضرات کا کوئی نظریہ ہے نہ منشور، ان کے فرشتوں کو بھی خبر ہے نہ پروا کہ ملک میں زرعی اصلاحات درکار ہیں یا تعلیمی اصلاحات ناگزیر ہیں۔ خدا کی قسم ان میں بہت سے تو ایسے ہیں کہ وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر تک نہیں سمجھ سکتے!

اگر کوئی اس خوش گمانی میں مبتلا ہے کہ کل نوازشریف وزیراعظم بنے یا چودھری پرویز الٰہی حکومت کے سربراہ بنے تو کایا کلپ ہو جائے گی تو وہ اپنی خوش فہمی دور کر لے۔ نوازشریف کے اخلاص میں شبہ ہے نہ پرویز الٰہی کی دردمندی میں شک ہے، لیکن جو بھی وزیراعظم بنا وہ بہرحال انہی ارکان اسمبلی کے ہاتھوں میں یرغمال ہوگا جو ہاتھوں میں درخواستوں کے پلندے لیے اس کا تعاقب کر رہے ہوں گے، جو فنڈ لینے کے لیے بلیک میل کرنے والے ہوں گے، جو اپنا آدمی اعلیٰ عہدے پر تعینات کرانے کے لیے فلور کراس کرنے کی دھمکی دے رہے ہوں گے اور جن کے فکر کی معراج، تھانے، کچہری، پٹواری، استانی، تھانیدار، تحصیلدار، پجارو اور پلاٹ سے اوپر نہیں اٹھے گی۔

اوپر ہم نے استعفیٰ کی بات کی ہے اور اپنے آپ پر ہنسی آ رہی ہے۔ کیا بہکی ہوئی بات ہے۔ استعفیٰ؟ سفارش اور کرپشن روکنے کے لیے؟ سیاسی مداخلت کا سلسلہ بند کرنے کے لیے؟ ؎

یہ کس غموں کی ریت پر دُکھوں کو نیند آ گئی

وہ لہر کس طرف گئی، یہ میں کہاں چلا گیا!

بصارت سے محروم ڈاکٹر طٰہ حسین مصر کے وزیر تعلیم تھے، ایک صبح اسمبلی میں آئے تو اُٹھ کر اعلان کیا۔ ایک کاغذ میری دائیں جیب میں ہے۔ یہ قرارداد ہے کہ پرائمری تک تعلیم لازمی ہو اور مفت ہو، دوسرا کاغذ میری بائیں جیب میں ہے۔ یہ میرا استعفیٰ ہے۔ اس ایوان کو اختیار ہے کہ دونوں میں سے جو کاغذ چاہے‘ منظور کر لے۔ ایوان نے مفت لازمی تعلیم والا کاغذ پسند کیا۔ آج مصر میں دسویں جماعت تک تعلیم مفت ہے، استعفیٰ کی دھمکی وہی دیتا ہے جو عام سادہ گھر میں رہ رہا ہو اور تزک و احتشام والی سواری کی طرف دیکھتا بھی نہ ہو، آیئے، آسمان کی طرف منہ اٹھا کر اس سے پوچھیں کہ ایسے عوامی نمائندے ہمیں کب ملیں گے ؎

فلک کو بار بار اہلِ زمیں یوں دیکھتے ہیں

کہ جیسے غیب سے کوئی سوار آنے لگا ہے

Facebook.com/izharulhaq.net

Thursday, December 06, 2012

ہم اور ہمارے کمی کمین

میلبورن میں جہاں میری قیام گاہ ہے، وہاں سے پندرہ منٹ کے پیدل فاصلے پر محلے کی لائبریری ہے۔ محلے کو یہاں سبرب (SUBURB)کہا جاتا ہے۔ تقریباً ہر سبرب میں شہر کی لوکل گورنمنٹ نے ایک بڑی لائبریری قائم کررکھی ہے۔ کچھ سال قبل جب میں پہلی بار یہاں آیا اور لائبریری میں گیا تو کائونٹر والی خاتون سے درخواست کی کہ مجھے لائبریری کا ممبر بنایا جائے اور لائبریری کارڈ جاری کیا جائے۔ یہ بھی بتایا کہ میں آسٹریلوی شہری نہیں ہوں۔ اس نے پاسپورٹ مانگا جو اس وقت میرے پاس نہیں تھا۔ یہ سوچ کر کہ کل پاسپورٹ لاکر دکھائوں گا تو کارڈ بن جائے گا، کائونٹر سے پلٹنے لگا تو خاتون نے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس کوئی ایسی چیز ہے جس سے شناخت ہوسکے؟ میں نے اسلام آباد کلب کا ممبر شپ کارڈ دکھایا۔ کہنے لگی بس یہی کافی ہے۔ پانچ منٹ میں کارڈ تیار ہوگیا۔ لائبریری کا ہر ممبر بیک وقت تیس کتابیں لے سکتا ہے جو چارہفتوں کے لئے دی جاتی ہیں۔ لائبریری میں تقریباًسولہ کمپیوٹر پڑے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ میں ہرروز ایک سو بیس منٹ یعنی دوگھنٹے انٹرنیٹ مفت استعمال کرسکتا ہوں۔ سب سے زیادہ حیرت کتابوں کے اجرا پر ہوئی۔ ہرممبر پر مکمل اعتماد کیا جاتا ہے۔ کتابیں ایشو کرانے کے لیے کاونٹر پر جانے کی ضرورت نہیں۔ آپ کتابیں ایک خاص قسم کی خودکار مشین کے سامنے رکھ دیں۔ مشین میں لائبریری کے ممبر شپ کارڈ کو ایسے SWIPEکریں جیسے دکاندار کریڈٹ کارڈ کو کرتے ہیں۔ ساری کتابوں کے نام لکھے ہوئے سامنے آجائیں گے۔ پھر ایک بٹن دبانے سے رسید باہر نکلے گی اس پر کتابوں کے نام اور واپسی کی تاریخ درج ہوگی۔ دروازے پر کوئی چوکیدار نہیں جو آپ کو چیک کرے۔ کتابیں واپس کرنے کے لیے بھی کائونٹر پر جانے کی ضرورت نہیں۔ لیٹربکس کے سوراخ کی طرح ایک بڑا سا سوراخ دیوار میں بنا ہے۔ اس کے اندر کتابیں ڈال دیجئے ۔ بس واپس ہوگئیں۔ اگر کوئی کتاب کسی اور ممبر نے جاری کروا رکھی ہے تو آپ ای میل کے ذریعے اپنے لیے محفوظ کراسکتے ہیں۔ نئی کتاب تجویز کریں تو وہ بھی خرید کر باقاعدہ مطلع کرتے ہیں۔ بوڑھے معذور اور بیمار ممبروں کے لیے لائبریری کی گاڑی، جس میں بہت سی کتابیں ہوتی ہیں، ان کے گھروں میں جاتی ہے، اور وہ اپنے بستر پر لیٹے لیٹے، یا بیٹھے بیٹھے ، کتابیں پسند کرتے ہیں۔ واپسی کے لئے بھی لائبریری کا ملازم (یا رضا کار) گھر پر آتا ہے۔

یورپ اور امریکہ کے کئی چھوٹے قصبوں میں رہنے کا اتفاق ہوا۔ ہرجگہ لائبریری قریب تھی۔ امریکی لائبریریاں یورپ کی لائبریریوں سے بڑی ہیں۔ اپنے ہاں ’’پاکستان کونسل‘‘ کی لائبریری ہرشہر میں تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے سب مرحوم ہوگئیں۔ امریکن سنٹر اور برٹش کونسل لائبریریاں طالب علموں اور مطالعہ کے شائقین کے لیے بہت بڑی نعمت تھیں۔ اسلام آباد میں میلوڈی سینما کی بغل میں برٹش کونسل کی لائبریری ہروقت پڑھنے والوں اور کتابیں جاری کرانے والوں سے اٹی رہتی تھی۔ بچوں کے لیے کتابیں عجیب خود کار نظام کے تحت کام کرتی تھیں ۔کچھ کی پشت سفید رنگ کی تھی۔ کچھ کی سرخ رنگ کی، کچھ کی زرد رنگ کی اور کچھ کی سیاہ رنگ کی۔ ہررنگ مختلف سطح کے لیے تھا اور نئے الفاظ کی تعداد رنگوں کے لحاظ سے بڑھتی تھی ۔ کوئی بچہ سفید پشت کی کتابیں کافی تعداد میں پڑھ لیتا تھا تو اس سے اگلے مرحلے، مثلاً سرخ رنگ کی پشت والی، کتابیں اسے خود بخود سمجھ میں آجاتی تھیں اور اس کا زبان کا علم ترقی کرتا جاتا تھا۔ اس کالم نگار کے بچوں نے یہ ساری کتابیں سلسلہ وار پڑھیں اور طالب علمی ہی کے زمانے میں ان کے انگریزی مضامین اور نظمیں انگریزی اخبارات وجرائد میں شائع ہونے لگیں۔

پھر بدقسمتی کا بادل موسلا دھار برسا۔ ہرطرف ایسا جل تھل ہوا کہ یہ سب لائبریریاں غائب ہوگئیں۔ اب کسی شہر میں شاید ہی کوئی لائبریری ہو (سوائے یونیورسٹیوں کالجوں کی اپنی لائبریریوں کے)۔ اسلام آباد میں ایک نیشنل لائبریری ہے جو وزیراعظم کے دفتر کے بغل میں ہے۔ یعنی وہاں کوئی نہیں جاسکتا۔ سیکٹروں اور محلوں میں کسی لائبریری کی موجودگی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اس سے بھی بڑی بدبختی یہ ہوئی کہ کتاب فروش بھی دکانیں بڑھا گئے۔ جہاں شہر میں پچاس کتاب فروش تھے، وہاں پانچ رہ گئے۔ مجھے یاد ہے جب ستر کی دہائی میں کراچی سے ملازمت کا آغاز کیا تو صرف الفنسٹن سٹریٹ پر ہی کئی دکانیں تھیں۔’’کتاب محل‘‘ میں اردو کی ساری ادبی کتابیں میسر تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے الفنسٹن سٹریٹ کا نام زیب النساپڑگیا اور اس قومی ’’شعور‘‘ کے ساتھ ساتھ کتابوں کی دکانیں غائب ہوگئیں، آخری بڑی دکان امریکن بک کمپنی تھی جس کی وفات چند سال پہلے ہوگئی۔ پھر دومعروف دکانیں رہ گئیں۔ ایک ریگل چوک پر جس کا نام ’’تھامس اینڈ تھامس‘‘ تھا اور جس کے پاس زیادہ تر کتابیں پرانی تھیں۔ دوسری دکان زیب النسا سٹریٹ کے دوسرے کنارے، زینب مارکیٹ کے بالکل سامنے تھی۔ اس کا نام الماس بک ڈپو تھا۔ مالک ایک بزرگ پارسی تھا۔ اس کے پاس ایران کی مطبوعہ تازہ ترین فارسی کی ادبی کتابیں ہوتی تھیں۔ میں جب بھی کراچی جاتا، اس کے پاس ضرور جاتا۔ اپنی زنگ آلود فارسی گفتگو کو تازہ کرتا اور فارسی شاعری کی کچھ کتابیں خریدتا۔ 2010ء کے شروع میں کراچی جانا ہوا تو حسب معمول وہاں پہنچا۔ دکان بند تھی۔ بورڈ غائب تھا اور بند دروازے کے سامنے پان والا بیٹھا تھا۔ اس سے پوچھا کہ یہاں ایک کتابوں کی دکان تھی۔ کہنے لگا وہ تو بند ہوگئی اور دکان بک گئی ۔ اور مالک؟ علی اصغر فرزانہ۔؟‘‘ میں نے دھڑکتے دل سے پوچھا، کہنے لگا، اس کا مجھے کچھ معلوم نہیں۔ اسی شام کو میری واپسی تھی۔ میں کئی دن اس دکان کی وفات پر اداس رہا اور ایک ماتمی مضمون لکھا جو چارفروری 2010ء کے انگریزی معاصر’’ڈیلی نیوز‘‘ میں شائع ہوا۔

فارسی کتابوں کا ذکر چھڑا ہے تو یہ بات بھی ہوجائے کہ ایران کی چھپی ہوئی خوبصورت کتابیں افغان مہاجرین کی آمد یعنی 1980ء کے بعد آسانی سے ملنا شروع ہوئیں، وہ بھی پشاور میں۔ کم ازکم مجھے نہیں معلوم کہ اس سے پہلے کہاں دستیاب تھیں۔ ہمارے آبائی کتب خانے میں کلاسیکل فارسی ادب کی تمام کتابیں موجود تھیںلیکن ساری کلکتہ یا دہلی کی چھپی ہوئی۔ ان کا سائز بڑا ہوتا تھا اور کاغذ اعلیٰ نہیں ہوتا تھا۔ ان میں سے اکثر اب بھی میرے پاس محفوظ ہیں۔ لیکن ایران کی چھپی ہوئی کتابوں کا اپنا ہی نشہ ہے۔ دیدہ زیب طباعت، اعلیٰ دبیز کاغذ اور ہرلحاظ سے خوبصورت۔ جب تک والد گرامی مرحوم ایران جاتے رہے، میرے لیے لاتے رہے، فروغ فرح زاد، نیمانشیج، نادر نادر پور اور دوسرے جدید شعرا کے مجموعہ ہائے کلام بھی لائے اور دیوان حافظ، گلستان سعدی اور شاہنامہ فردوسی کے نسخے بھی۔ افغان مہاجرین کی آمد کے بعد پشاور میں ایران کی مطبوعہ کتابوں کا بڑا مرکز ایک چھوٹی سی دکان ’’کتاب فروشیء خاور ‘‘ رہی ہے جو یونیورسٹی کے پولیس اسٹیشن کے قریب ایک چھوٹی سی تنگ گلی میں واقع ہے۔ کئی سال تک اس کے پاس جاکر بیٹھنا، قہوہ پینا، اپنی زنگ آلود فارسی کو صاف کرنا، اور کچھ کتابیں خریدنا، معمول رہا۔ نظامی کا خمسہ، منوچہردامغانی کا دیوان، بیدل کا دیوان اور کئی دوسری کتابیں وہاں سے ہاتھ آئیں۔ دیوان ابوسعید ابی الخیر کا جو نسخہ میرے خاندانی کتب خانے میں تھا، وہ دہلی کا مطبوعہ تھا اور بوسیدہ ہوچکا تھا۔ کتاب فروشی ٔ خاور‘‘ سے اس کا نیا ایڈیشن مل گیا جس میں عظیم ایرانی محقق استاد سعید نفیسی کا طویل مقدمہ بھی ہے۔ ان کتابوں کا دوسرا بڑا منبع کوئٹہ کی علمدار روڈ رہی ہے جس پر فارسی بولنے والے ہزارہ کی کتابوں کی دکانیں ہیں۔ جب بھی کوئٹہ جانا ہوا، زیادہ وقت ان دکانوں پر گزرا۔ عراقی اور انوری کے دواوین یہیں سے خریدے۔ اب جو کوئٹہ کے احوال ہیں، خاص طورپر ہزارہ کے حوالے سے، ان کے پیش نظر اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ ۔ یاراں فراموش کردند عشق!

کتابوں کا ایک اور منبع پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ فارسی کے سربراہ، دوست گرامی، پروفیسر ڈاکٹر معین نظامی کی ذات بابرکات بھی ہے۔ جب بھی کوئی کتاب میسر نہ آئی، اس صاحب اسلوب شاعر نے پنجاب یونیورسٹی کی لائبریری سے نکلوا کر فوٹو کاپی کرائی اور پھر جلد کروا کر عنایت کی۔ کلیات فیضی ، اخلاق جلالی کا انگریزی ترجمہ، بہارستان جامی اور کئی اور نایاب کتابیں جو اس وقت فقیر کے کتب خانے میں موجود ہیں، نظامی صاحب کی محبت اور دریا دلی کی بدولت ہیں۔

بات لائبریریوں سے چلی تھی۔ ماتم یہ ہورہا تھا کہ اپنے وطن میں اب لائبریریاں عنقا ہیں۔ لاہور میں جس دن ایک ’’درآمدشدہ‘‘ جدید فاسٹ فوڈ کھلا تھا تو پہلے دن 35ہزار شائقین برگر تناول فرمانے تشریف لائے تھے۔ خوراک کی ضرورت ہمارے دماغوں کو نہیں معدوں کو ہے۔ ہم تو جاگیرداروں‘ سرداروں‘ چودھریوں اور خانوں کی قوم ہیں۔ یہ لائبریریاں اور یونیورسٹیاں کمی کمین لوگوں کے مشغلے ہیں۔ یہ جاپان یورپ اور امریکہ ہی کو مبارک ہوں، یہ کمی کمین ہی ہمارے لیے کاریں، کمپیوٹر، موبائل فون اور علاج معالجے کی مشینیں بھی بناتے ہیں۔ جب پڑھنے والے اور ایجادات کرنے والے موجود ہیں تو ہمیں سرکھپانے کی کیا ضرورت ہے؟

 

powered by worldwanders.com