Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, May 29, 2012

گنوار کا وحشت کدہ

میں بنیادی طور پر ایک اجڈ اور جنگلی آدمی ہوں۔ گائوں کا گنوار پن جوں کا توں موجود ہے۔ ظفر اقبال نے شاید میرے لیے ہی کہا ہے :
ظفر میں شہر میں آ تو گیا ہوں
مری خصلت بیابانی رہے گی
چنانچہ میں نے اپنا رہائشی جھونپڑا شہر سے باہر پہاڑ کے دامن میں بنایا ہے۔ مَری جاتے ہوئے،راستے میں ایک اکیلی ، اپنے آپ میں ڈوبی ہوئی، دم بخود ، ندی پڑتی ہے جس کے کنارے کھڑا یہ خانہءوحشت دور ہی سے نظر آتا ہے :
میں دل کو اُس کی تغافل سرا سے لے آیا
اور اپنے خانہءوحشت میں زیرِ دام رکھا
دشت میں خیمہ زن ہونے کے ، گنوار پن کے علاوہ بھی اسباب ہیں۔ ایک یہ کہ دارالحکومت کے اندر رہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپکے گھر کے ایک طرف کوئی ریٹائرڈ بیوروکریٹ رہ رہا ہے اور دوسری طرف بزنس مین ہے۔ ریٹائرڈ سرکاری ملازموں کے ساتھ رہنے سے بہتر ہے کہ آدمی کُچلا کھا لے کیونکہ مردہ فائلوں کے اصلی اور فرضی نوٹ سُن سُن کر مرنے سے  زہر بہتر ہے ۔  رہے بزنس مین تو ان کا کیا ہی کہنا ! بزنس مین سبزی فروش ہو یا جدہ سے لے کر دبئی تک پھیلے ہوئے لوہے کے کارخانوں کا مالک , ایک جیسا ہی ہوتا ہے اور چمڑی اور دَمڑی میں سے دمڑی ہی کا انتخاب کرتا ہے۔ الغرض ہر دو مخلوقات کے ساتھ رہنا خدا کی بخشی ہوئی زندگی کی ناشکری ہے۔ جبھی تو احمد جاوید نے کہا ہے :
اک شخص بادشہ ہے تو اک شخص ہے وزیر
دونوں نہیں ہیں گویا ہماری قبیل سے
دوسری وجہ اصلا َ َ َ َ     کسان ہونا ہے۔ شہر میں جتنا رقبہ مکان کے لیے ملتا ہے اس سے کئی گُنا زیادہ تو مجھے            ویہڑا   ( جسے   اردو   والے  صحن  اور  انگریز    لان   کہتے ہیں ) درکار تھا جس میں مجھے قسم قسم کے بوٹے لگانے تھے۔ ہم فتح جنگ اور پنڈی گھیب کے علاقے کے لوگ چھوٹے کمروں میں گذارا   کر لیتے ہیں لیکن ہمارے گھروں کے صحن ہمارے دلوں کی طرح وسیع ہوتے ہیں جن میں اور بُوٹے ہوں نہ ہوں ، سرخ پھولوں والا  انار کا   بُوٹا ، گھنی چھائوں والی  دھریک  اور   نیاز بو (ریحان) کے پست قد بوٹے لازمی ہوتے ہیں کہ یہ صدیوں سے ہمارے کلچر کا حصہ ہے:
گُلِ انار کُچھ ایسے کھِلا تھا آنگن میں
کہ جیسے کوئی کھڑا رو رہا تھا آنگن میں
تیسری وجہ یہ ہے کہ ہم بادیہ نشین ڈبّوں میں رہ سکتے ہیں نہ ڈربوں میں ۔ ہم بڑی ڈیوڑھیوں ، کھُلے چھپّروں اور وسیع و عریض دالانوں کے عادی ہیں۔ ہمارے حُجروں ، بیٹھکوں او ر چوپالوں میں سب کے بیٹھنے کی جگہ ہوتی ہے۔ اُس دانا وزیر اعظم نے جس کا نام یحیٰ تھا اور جس کی وجہ سے برامکہ کا نام آج بھی زندہ ہے اور جس کے بارے میں شاعر نے کہا تھا کہ احسان کرتا ہے تو بھول جاتا ہے لیکن وعدہ کرتا ہے تو نہیں بھولتا ، ہاں اسی دانا یحیٰ برمکی نے کہا تھا کہ دنیا کی راحت آٹھ چیزوں میں ہے :

 اوّل  اچھا کھانا ،
دوم  اچھی خوشبو ،
سوم  ٹھنڈا پانی ، 
 چہارم   آرام دہ لباس ،
 پنجم  اپنی بی بی کے ساتھ ہم ذوقی ،
 ششم  وسیع ہوا دا ر مکان ،
 ہفتم ہم خیال دوست ، 
 اور ہشتم رشتہ داروں کےساتھ فیّاضی کا برتائو !
! تو وسیع اور ہوادار مکان اب وسطِ شہر میں تو ملنے سے رہا ! یوں بھی جس بدقسمت ملک کے حکمران اسّی اسّی لاکھ روپے کے لباس خریدیں اور جس کے حزب اختلاف کے رہنما چھینک آنے پر بھی لندن جا پہنچیں اُس ملک میں بجلی کا پنکھا عوام کی قسمت میں کبھی نہیں ہو سکتا چنانچہ پہاڑ کا دامن اور ندی کا کنارہ گرما کی شدّت میں بہشت سے کم نہیں۔ مجید امجد یاد آ گئے :
افق افق پہ زمانوں کی دھُند سے اُبھرے
طیور ، نغمے ، ندی ِ، تتلیاں ، گلاب کے پھول
چوتھی وجہ یہ ہے کہ کتابوں کیلئے کم از کم دو بڑے کمرے درکار تھے۔ اگرچہ بہت سی کتابیں میں دل پر جبر کر کے لائبریری میں محفوظ نہیں کرتا لیکن اسکے باوجود تعداد اتنی کثیر ہے کہ کتابیں سنبھالے نہیں سنبھلتیں ! بڑی جھونپڑی کا یہ فائدہ ہے کہ میں باقی گھر والوں سے الگ ، اپنی کتابوں کےساتھ باعزت طریقے سے پناہ گزین ہوں اور اُن نادر و نایاب قلمی نسخوں کی حفاظت کر رہا ہوں جو میرے دادا کی ملکیت تھے۔ اور جن میں سے کچھ شاہ جہان کے عہد کے ہیں۔ میرے دادا ایک بار ایک کتاب خریدنا چاہتے تھے لیکن اُس وقت وہ خالی ہاتھ تھے ۔ انہوں نے فروخت کرنے والے کو اپنی قمیض اتار کر دے دی اور کتاب حاصل کر لی۔ اب جب میں اپنی لائبریری میں گلستانِ سعدی کا وہ نسخہ دیکھتا ہوں جو آبِ زرّیں سے لکھا گیا ہے اور جو دھوپ میں او ر رنگ دیتا ہے اور سائے میں اور ، یا امیر خسرو کی مثنوی © © © مطلع الانوار دیکھتا ہوں یانظامی گنجوی کا سکندر نامہ دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ کیا خبر ! یہی وہ کتاب ہو جو انہوں نے قمیض دےکر خریدی تھی ! میں اپنے خاندان میں تین نسلوں سے کتابوں کی ہر روز بڑھتی ہوئی تعداد پر خواتینِ خانہ کی پریشانی دیکھ رہا ہوں۔ دادی جان کتابوں اور رسالوں کو ©،، پھڑکے ،، کہتی تھیں اور اپنے شوہر کے بارے میں اکثر و بیشتر شکایت کرتیں تھیں کہ ”بھاگوان جہاں بھی جاتا ہے پھڑکے لے آتا ہے“۔
امّی جان کا اندازِ شکایت بدلتے وقت کی وجہ سے نرم ہو گیا تھا۔ وہ کتابوں کی تعداد اور بے ترتیبی دونوں پر شکوہ کناں رہتی تھیں ۔ پھر میری بیگم کا زمانہ آیا۔ اُ س کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ گھر میں جہاں بھی کوئی میز ، کوئی صوفہ ، کوئی الماری رکھتی ہے تو تھوڑے عرصہ بعد اُس پر کتابوں کا قبضہ ہو چکا ہوتا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ جس طرح لکھنے والے کی انگلیوں پر روشنائی کا نشان لازماَ َ ہوتا ہے اور جس طرح سپاہی کے لباس پر اسلحہ کے اثرات ضرور ہوتے ہیں اور جس طرح کسان کے کپڑوں پر گوبر ہر حال میں لگا ہوتا ہے اسی طرح ہم جیسے طالب علموں کا اوڑھنا بچھونا مال اسباب سب کچھ کتابیں ہی ہوتی ہیں ۔  اگرچہ آسٹریلیا میں قیام کے دوران اسرار نے مجھے ،، آئی پیڈ ،، بھی تحفے میں دیا اور پھر اس میں کتابیں بھی بھر دیں۔ چنانچہ کاپی کے سائز کے اِس آئی پیڈ میں  پی  جی   وُڈ   ہائوس  کے سارے ناول ، شفیق الرحمان کی تمام تصانیف ، وسط ایشیا اور ترکی کی تاریخ کی کئی کتابیں ، فریڈرک  فور سائیتھ   کے متعدد ناول اور مقامات حریری جیسی عظیم الشان کلاسکس کے انگریزی تراجم اَپ لوڈ ہیں اور بٹن دبانے سے سم سم کا یہ طلسمی دروازہ کھُل جاتا ہے!

لیکن شہر سے باہر پڑائو ڈالنے میں مسائل بھی ہیں۔ مثلا َ َ ایک یہی مسئلہ دیکھیے کہ میری سٹریٹ خستہ حال ہے۔ اس سٹریٹ میں اور بھی گھر ہیں۔ چند دن پہلے میں اسلام آباد کے چیف کمشنر جناب طارق پیر زادہ سے ملا اور درخواست کی کہ سٹریٹ ٹھیک کرنے کا حکم جاری کریں۔ وضعدار شخص ہیں۔ انتہائی شائستگی سے پیش آئے لیکن کام ابھی تک نہیں ہئوا۔ اگر وہ یہ تحریر پڑھیں تو اسے یاد دہانی سمجھ کر کام کرا دیں۔ اُنہیں کچھ نہیں کہا جائےگا ! اگر کالم پڑھنے والے کسی صاحب کو پیر زادہ صاحب ملیں تو وہ بھی انہیں یاد دلائیں۔ ان صاحب کو بھی کچھ نہیں کہا جائے گا ۔ اس لیے کہ جو کچھ بھی کہنا تھا سعدی کہہ گئے ہیں :
خیری کُن ای فلان و غنیمت شمار عمر
زان پیشتر کہ بانگ بر آید فلان نماند
ناصر کاظمی نے جیسے اسی کا ترجمہ کر دیا ہے :
کل یہ تاب و تواں نہ رہے گی ٹھنڈا ہو جائے گا لہو
 نام ِ خدا ہو  جوان   ابھی کُچھ کر گذرو تو بہتر ہے

6 comments:

یاسر خوامخواہ جاپانی said...

جناب۔۔۔۔۔۔اظہار حیرت کی گستاخی کی اجازت فرمائیں۔
آپ کی گلی تو قلم کے بلڈوزر سے تعمیر جائے گی۔۔۔اور آپ کسی کو کچھ کہیں گے بھی نہیں۔۔
جن کے پاس زور قلم بھی نہیں۔۔۔۔
وہ گرد غبار میں ہی آبلہ پا رہیں گے۔۔
ویسے مان گیا کہ ہمارے اہل قلم و اہل علم بھی "اپنا کام " نکلوا ہی لیتے ہیں۔

محمد اظہار الحق said...

یاسر جاپانی صاحب تسلّی رکھیں سٹریٹ ٹھیک ہونے کی کوئی امید نہیں۔ نہ ہی کالم کلھنے کا یہ مقصد تھا

Anonymous said...

محمد اظہار الحق صاحب ۔ آپ بلاشبہ اظہار مدعا پر قدرت رکھتے ہیں اور حق نے آپ کو اس کی اسظاعت سے بھی خوب نوازا ہے ۔ ایسے ’’ کنج ‘‘ میں گھر بنانا، جنت کے گوشے میں جگہ لینا ہے ۔ مندرجہ بالا کالم کو میں ’ حاکم کے ہاں فریاد‘ نہیں بلکہ ٹوٹی، بکھرتی اور ختم ہوتی اپنی اس تہذیب کا نوحہ ضرور کہوں گا جسے آپ بچانے کوششیں کر رہے ہیں ۔ اللہ آپ کا دالان سلامت رکھے ۔ اس میں انار کھلتے رہیں اور بوئے ریحان مہکتی رہے ۔ اور آکے علم و ادب کے موتی وہ کتابیں اپنے آبا کی، ان کی تعداد میں اضفہ ہوتا رہے اور آپ کے اہل و عیال اور علم کے پیاسے دیگر لوگ ان سے استفادہ کرتے رہیں ۔
نصر ملک ۔ کوپن ہیگن ۔ ڈنمارک

میں بھی پاکستان ہوں said...

Very nice, Great Sir, I want to meet you when ever I will be back In Rawalpindi, Pakistan. Inshallah.

یاسرخوامخواہ جاپانی said...

جناب میں نے پہلے ہی گستاخی کی معافی مانگ لی تھی۔
ہم آپ کے مستقل قاری اور فین ہیں۔
ہمارے لئے آپ قابل احترام ہیں اور ہم آپ کا بلاگ سیکھنے کیلئے پڑھتے ہیں۔
امید ہے درگذر فرمائیں گے۔

Tahseen Amjad said...

پیارے انکل
السلام علیکم
آپ کا کالم ”گنوار کا وحشت کدہ“ پڑھا ایسا محسوس ہوا جیسے پڑھنے والا کسی پرفضا مقام کی طرف لانگ ڈرائیو پر جا رہا ہو۔
موجودہ گرمی کے موسم میں یہ بہت ہی ٹھنڈا ٹھاراور پرلطف کالم تھا۔ ایک خاص بات آپ کا کتابوں سے رومانس ہے جسے پڑھ کر بڑی خوشی ہوئی اور حیرانی اس بات پر کہ یہ رومانس ہمارے آج کل کے سٹوڈنٹس میں کیوں ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ اسے کس طرح اور کیونکر سٹوڈنٹس میں اجاگر کیا جائے۔
ایک سٹوڈنٹ
پنجاب یونیورسٹی لاہور

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com