آپ کا کیا خیال ہے کہ ملک کو درپیش اکثر عوامی مسائل کا ذمہ دار کون سا طبقہ ہے؟
بات سیاسی مسائل کی نہیں ہو رہی۔ عوام کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ کمر توڑ مہنگائی کا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آسمان کو چھوتی قیمتیں ادا کرنے کے بعد بھی کیا وہ خالص خوراک اور خالص دوا حاصل کر سکتے ہیں؟
اب اس مسئلے کو تھوڑی دیر کے لئے یہیں رہنے دیجئے۔ ہم ایک اور پہلو کی طرف آتے ہیں۔ علماءکو چھوڑ کر، سب سے زیادہ بظاہر دیندار لوگ کس طبقے میں نظر آتے ہیں؟ آپ اتفاق کریں گے کہ دیندار نظر آنے والے لوگوں کی سب سے زیادہ تعداد تاجر برادری میں شامل ہے۔ یہ لوگ ماشاءاللہ متشرع ہیں۔ زکوٰة ادا کرتے ہیں، مسجدیں بنواتے ہیں، چندے دیتے ہیں، خیراتی اداروں کی دل کھول کر امداد کرتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں، عمرے اور حج ادا کرتے ہیں اور اگر ہم غلطی نہیں کر رہے تو مدارس میں تعلیم پانے والے بچوں کی اچھی خاصی تعداد بھی انہی کے گھرانوں سے آ رہی ہے۔
لیکن بدقسمتی دیکھئے کہ اس کے باوجود پاکستان دنیا کے ان چند ملکوں میں سرفہرست ہے جہاں کھانے پینے کی اشیاءمیں سب سے زیادہ ملاوٹ ہے۔ ہماری تاجر برادری کا کمال یہ ہے کہ مذہب کے سارے ظاہری تقاضے پورا کرتے ہیں اور پیروی اُس شخص کی کرتے ہیں جو ایک پہاڑی پر جائے نماز بچھائے نفل پر نفل پڑھے جا رہا تھا، پہاڑی کے دامن سے ایک مسافر گذرنے لگا تو وہ نفل چھوڑ کر نیچے اترا، مسافر کو لوٹا اور مصلّے پر کھڑے ہو کر نفل دوبارہ شروع کر دئیے۔ کسی نے اس حرکت کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا یہ میرا دین ہے اور وہ میری دنیا ہے۔ جعلی ادویات، بچوں کے معصوم منہ میں جاتا ناخالص دودھ ، آٹا، چائے، گھی، دودھ، بیسن، سوجی، مرچ، شیمپو، سب جعلی اور ملاوٹ زدہ۔ آپ ان کی سینہ زوری کا اندازہ لگائیے کہ اگر پٹرول کی قیمت آج بڑھی ہے تو یہ مہینوں پہلے خریدا ہوا مال بھی مہنگا کر دیتے ہیں۔بہت کم تاجر ایسے ہیں جو مانگے بغیر رسید دیں گے۔ مال کی گارنٹی کا دعویٰ کریں گے لیکن جب آپ کہیں گے کہ یہ گارنٹی لکھ کر عنایت کر دیجئے تو صاف انکار کر دیں گے۔ ان کی سب سے بڑی دلیل ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ ”آپ بے فکر ہو کر یہ مال لے جائیے، آج تک شکایت نہیں آئی“ اور شکایت لے کر آنےوالےسے یہ لوگ جس حُسنِ سلوک کا مظاہرہ کرتے ہیں اُس کی نسلیں بھی شکایت کرنے سے توبہ کر لیتی ہیں۔ پوری مہذب دنیا میں گاہک کا بنیادی حق ہے کہ وہ خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل کرے۔ دو ڈالرکی شے بھی خریدیں تو ساتھ ایک کاغذ ملتا ہے جس میں واپس کرنے یا تبدیل کرنے کا طریق کار لکھا ہوتا ہے۔ رسید دکھا کر آپ مہینوں بعد بھی خریدی ہوئی شے تبدیل کر سکتے ہیں اور واپس بھی کر سکتے ہیں لیکن اپنے ملک میں جب آپ دکان میں داخل ہوتے ہیں تو تاجر برادری کی طرف سے پہلا زناٹے دار تھپڑ آپ کے منہ پر اُس وقت پڑتا ہے جب آپ سامنے لکھا ہوا بورڈ پڑھتے ہیں کہ خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں ہو گا۔ فروخت کرتے وقت شے کا نقص واضح طور پر بتانا بنیادی اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے۔ یہاں شاید ہی کوئی کام کرتا ہو۔لگتا ہے کہ ”جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں ہے‘ جس نے ذخیرہ اندوزی کی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“ یہ ساری تعلیمات یہ سارے احکام غیر مسلموں کےلئے ہیں کیوں کہ وہی ان پر عمل پیرا ہیں۔ ہمارے حاجی صاحبان کا ان سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ رہا وعدہ پورا کرنا تو اس کا ہماری تاجر برادری سے دور کا بھی واسطہ نہیں اور وعدہ خلافی کا سب سے زیادہ شکار ہماری خواتین ہیں۔ اس ملک میں ہر سال لاکھوں کروڑوں شادیاں ہوتی ہیں، لاکھوں کروڑوں کے حساب سے دلہنوں کے غرارے، لہنگے اور ملبوسات تیار کرائے جاتے ہیں، مرد حضرات یہ سارا کام خواتین کے ذمے لگا دیتے ہیں، وہ تاجر جو یہ مصنوعات تیار کراتے یا فروخت کرتے ہیں ان میں سے ننانوے فیصد خواتین سے وعدہ خلافی کا سنگین ارتکاب کرتے ہیں، دس دس چکر لگواتے ہیں، کام معاہدے کے مطابق نہیں ہوتا۔ چونکہ ہمارے کلچر میں احتجاج کا رواج نہیں، اس لئے خواتین یہ تمام وعدہ خلافیاں اور بددیانتیاں خاموشی سے برداشت کرتی جاتی ہیں۔
آپ ظلم کی انتہا دیکھئے کہ پٹرول کے نرخ بڑھنے کی افواہ پھیلتی ہے تو پٹرول پمپ بند کر دیے جاتے ہیں تاکہ ذخیرہ اندوزی ہو سکے۔ ان حضرات نے ہمیشہ چینی کی مصنوعی قلت پیدا کر کے اربوں روپے کمائے جو ظاہر ہے ناجائز کمائی ہے۔ کسان سے گندم سستی خرید کر منڈی میں گراں فروخت کرنا ان حضرات کا سالانہ معمول ہے۔
جب بھی کوئی حکومت خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ تجارتی سرگرمیاں بڑھانے کا پروگرام بناتی ہے تو ہماری تاجر برادری آسمان سر پر اٹھا لیتی ہے اور ”وطن پرستی“ کی آڑ میں اپنی ناروا منافع خوری کی حفاظت کرنے لگتی ہے۔ ٹیکس کے محکمہ کے اہلکاروں کی جیبیں بھر کر ملک کے خزانے کو سالانہ کھربوں روپے کا ٹیکہ لگایا جا رہا ہے۔
تاجر برادری کی تازہ ستم کاری یہ ہے کہ انہوں نے شام کے آٹھ بجے تجارتی سرگرمیاں بند کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ غالباً ہمارا ملک دنیا کا واحد ملک ہے جہاں دکانیں دن کے بارہ بجے کے بعد کھولی جاتی ہیں۔عرب ملکوں میں دکانیں صبح کی نماز کے بعد کھل جاتی ہیں۔ آسٹریلیا سے لے کر امریکہ تک صبح نو بجے سارے بازار، تجارتی سرگرمیاں شروع کر دیتے ہیں۔ یہاں آپ چھٹی لیتے ہیں کہ گھر کے لئے خریداری کر لیں لیکن ظہر تک تاجر حضرات آپ کی شکل ہی نہیں دیکھنا چاہتے۔ایک دلیل یہ آئی ہے کہ موسم گرما کی شدت میں گاہک شام کے بعد آتے ہیں۔ تو کیا آپ حضرات موسم سرما میں شام کے بعد دکانیں بند کر لیں گے کیونکہ سردی کی شدت میں گاہک نہیں آئیں گے؟صرف سینہ زوری ہے اور ایک غیر منطقی ضد.... ایک بے لچک رویہ جس کا کوئی جواز نہیں ۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق عشاءکی نماز کے بعد جلد سونے کا حکم ہے تاکہ سحر خیزی میں رکاوٹ نہ ہو۔ پوری دنیا میں بازار سرِشام غروب آفتاب سے پہلے بند ہو جاتے ہیں سوائے ریستورانوں اور چند دوا فروشوں کے۔!
انصاف کی بات یہ ہے کہ اگر ملک میں توانائی کا بحران نہ بھی ہو تو بازار صبح نو بجے کھلنے چاہئیں اور سرِشام بند ہونے چاہئیں۔ قدرت نے رات سونے کےلئے بنائی ہے اور دن کام کرنے کے لئے۔ اگر حکومت بدعنوان ہے، اگر سیاستدان خود غرض ہیں، اگر بیورو کریسی نااہل ہے تو کم از کم تاجر برادری تو عوام کا ساتھ دے!
Tuesday, April 17, 2012
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
6 comments:
بالکل صحیح۔ اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی یہی وقت یعنی صبح کا وقت تجارت کی گرم بازاری کا ہوتا تھا۔ اس وقت میں اللہ نے برکت رکھی ہے۔
بہت زبردست بات ہے جناب مجھے آپ سے پورا اتفاق ہے بس ایک جملہ تھوڑا سا اختلافی نوعیت کا ہے (گو کہ صرف مجھے اس سے اختلاف ہے)
"""""""""پوری دنیا میں بازار سرِشام غروب آفتاب سے پہلے بند ہو جاتے ہیں سوائے ریستورانوں اور چند دوا فروشوں کے۔""""""""""
ایسا نہیں ہے، میں خود متحدہ عرب امارات میں ہوں ادھر بھی دکانیں صبح جلدی نہیں کھولی جاتی اور رات دیر تک کھلی رہیتی ہیں۔
حضور دکانیں بند کرنے سے انکار سے لیکر ٹیکس نہ دینے کی وجوہات بہت گہری ہیں۔ یہ ریاست پر بے اعتباری کا ایک مظاہرہ ہے اور ریاست کا ۱۹۴۷ سے اب تک کا رویہ بھی ایسا ہی رہا ہے کہ لوگ ٹیکس دینے کی بجائے خیرات کر دینا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔
درست مگر پہاڑی کے اوپر جاۓ نماز بچھاکر نماز پڑھنے والے کے مصداق خیرات دینے کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ لوٹ مار کا لائسنس مل گیا۔ ہمارے ہاں تاجروں کی اکثریّت ایسا ہی کرتی ہے۔
درست مگر پہاڑی کے اوپر جاۓ نماز بچھاکر نماز پڑھنے والے کے مصداق خیرات دینے کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ لوٹ مار کا لائسنس مل گیا۔ ہمارے ہاں تاجروں کی اکثریّت ایسا ہی کرتی ہے۔
پچھلے دنوں کلاسرا صاحب کا ایک کالم تھا " ہونا کجھ وی نئیں " مگر ان کی یہ دلیل بڑی زبردست تھی کہ کوئی ایشو کو بس بریک کر دینا رپورٹ کر دینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ مسلسل اسے فالو کیا جائے اور اس کا ذکر ہوتا رہنا چاہیے ۔۔بالکل ایسے ہی آپ مسلسل اپنے کالموں میں گاہے بگاہے ان متشرع اور حاجی صاحبان تاجر حضرات کے بارے میں لکھتے رہتے ہیں ان کو اثر ہو نہ ہو مگر ہمیں ہماری تریبت ضرور ہو گئی ہے کہ باقی دین کے کام کے ساتھ ساتھ خوش اخلاقی اور خلق خدا کا خیال کرنا بھی ضروری ہے ۔۔۔یہ آپ کے ایسے کالمز ہی ہین جن کی بدولت اب میں اپنے کسٹمرز سے جائز منافع تک ہی رہتا ہوں کبھی کبھار اوپر سے پریشر ہو تو کچھ زیادہ کا کرنا پڑتا ہے ورنہ کوئی ایمرجنسی کا جانے والا بھی ہو تو وہی نارمل چارج کرتا۔۔۔ایک بات یاد آ گئی ایک بزرگ ہیں ابھی تک کاروبار تو نہیں انہوں نے کیا ویسے دینی اور دنیاوی دونوں تعلیم ماسٹر لیول تک حاصل کر رکھی ہیں اور ان کا کاروباری اصول جو وہ اکثر بتاتے ہیں وہ ہوتا ہے " ضرورت مند کولوں شے خریدو تے ضرورت مند نوں ویچوں" منافع صحیح لبھ جاندا اے
Post a Comment