Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, February 14, 2012

اسے مسجد کے دروازے پر جوتے مارے جائینگے

ایک چھوٹی سی خبر.... کسی نے دیکھی کسی نے نہیں.... لیکن اگر ذہن کھلا ہو اور نیت صاف ہو تو یہ چھوٹی سی خبر ہی بیماری کی تشخیص بھی ہے اور علاج بھی۔ ہاں‘ اگر کوئی حیرت سے یہ پوچھے کہ کون سی بیماری؟ ہم تو بالکل تندرست ہیں ، بالکل نرول‘ تو پھر علاج کی ضرورت ہے نہ تشخیص کی!

الحمد للہ! پہلے کی نسبت ہماری مسجدیں زیادہ آباد ہیں۔ باریش چہروں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ نقاب اوڑھنے والی اور حجاب کرنے والی بیٹیوں اور بہنوں کا تناسب بڑھ گیا ہے۔ نماز پڑھ کر باہر نکلنے والے لوگ‘ صحن میں دھری ہوئی صندوقچی میں ضرور کچھ نہ کچھ ڈالتے ہیں۔ دعوت دینے والے بھائیوں کے اجتماع آئے دن برپا ہوتے ہیں اور لاکھوں میں حاضری ہوتی ہے۔ احرام کی چادریں‘ ٹوپیاں‘ اور عبائیں‘ تسبیحیں‘ جائے نمازیں اور مسواکیں بیچنے والوں کے ہاں رونقیں لگی ہیں۔ الحمد للہ آج پہلے کی نسبت مذہب کا ہماری زندگیوں میں کہیں زیادہ عمل دخل ہے!

بس ایک ذرا سا مسئلہ ہے۔ سندھ حکومت نے بتایا ہے کہ چالیس ہزار ایسے افراد کا پتہ چلا ہے۔ جو تنخواہیں لے رہے ہیں لیکن کبھی ڈیوٹی پر نہیں آئے۔ لاکھوں افراد اور سینکڑوں ہزاروں کاروباری مراکز بجلی چوری کر رہے ہیں۔ لاکھوں دکاندار اپنی دکانوں کے سامنے فٹ پاتھ یا سڑک استعمال کرکے تجاوزات میں اضافہ کر رہے ہیں۔ جانتے بوجھتے ہوئے ٹریفک کے قوانین توڑے جا رہے ہیں۔ مسجدوں ہسپتالوں بازاروں کے سامنے گاڑیوں کے پیچھے گاڑیاں کھڑی کرکے دوسروں کو اذیت پہنچائی جا رہی ہے۔ کروڑوں تاجر کم تول رہے ہیں۔ کم ماپ رہے ہیں۔ شے بیچتے وقت شے کا نقص نہیں بتایا جاتا۔ خرید و فروخت میں دھوکے دئیے جا رہے ہیں۔ ایک کلو سیب لیں تو چپکے سے گندے سڑے ہوئے سیب دئیے جاتے ہیں۔ منڈی سے پھلوں کی پوری پیٹی خریدیں تو آدھی خالی نکلتی ہے۔ کھانے پینے کی اشیاءمیں ملاوٹ کی جا رہی ہے۔ جعلی دوائیں بنائی جا رہی ہیں فروخت کی جا رہی ہیں۔ ہسپتالوں سے ادویات چوری کی جا رہی ہیں۔

 کارپوریشنوں اور خود مختار اداروں میں‘ تحصیلوں اور ضلعوں میں‘ صوبائی اور مرکزی دارالحکومتوں میں ہر روز جعلی بل‘ جعلی رسیدیں‘ جعلی وائوچر‘ جعلی گوشوارے‘ جمع کرا کر کروڑوں اربوں روپے کی خیانت کی جا رہی ہے۔ عدالتوں میں ہر روز جھوٹی شہادتیں دی جا رہی ہیں۔ جھوٹی قسمیں کھائی جا رہی ہیں۔ قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر سچ سے انحراف کیا جا رہا ہے اربوں روپے کی رشوت دی جا رہی ہے اور وصول کی جا رہی ہے۔ ہر شہر‘ ہر قصبے ہر گائوں میں‘ دکانوں کارخانوں منڈیوں‘ بندرگاہوں دفتروں میں ٹیکس کی چوری کی جا رہی ہے۔

ہر شخص جھوٹ بول رہا ہے۔ اولاد ماں باپ سے ماں باپ بچوں سے‘ بیوی شوہر سے‘ شوہر بیوی سے‘ ماتحت افسر سے اور افسر ماتحتوں سے جھوٹ بول رہا ہے۔ اسمبلیوں میں‘ بازاروں میں‘ عدالتوں میں گھروں میں‘ یہاں تک کہ جنازہ گاہوں میں جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ رات دن وعدہ خلافی کی جا رہی ہے۔ وقت طے کر کے اسکی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ معاہدوں پر دستخط کرکے انحراف کیا جاتا ہے۔

یہ سب کچھ کرنے والے باقاعدگی سے مسجدوں میں حاضری دے رہے ہیں۔ برے سے برا مسلمان جمعہ کی نماز ضرور پڑھتا ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق نوے فیصد پاکستانی جمعہ کی نماز ضرور پڑھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر سات دن کے بعد وعظ سنتے ہیں اور یہ ہفتہ وار وعظ یہ سب لوگ بچپن سے سن رہے ہیں۔ تو پھر آخر کیا وجہ ہے کہ ان پر کوئی اثر نہیں ہو رہا؟

یہ ناممکن ہے کہ ایک شخص پوری زندگی ہر ہفتے یہ نصیحت سنے کہ تم نے جھوٹ نہیں بولنا‘ حرام نہیں کھانا‘ وعدہ خلافی نہیں کرنی‘ دھوکا نہیں دینا‘ جعل سازی نہیں کرنی.... اور اس کے باوجود وہ ایسا کرے! نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے کہ ہفتہ وار وعظ میں اسے یہ تلقین نہیں کی جا رہی۔ اسے کچھ اور بتایا جا رہا ہے! اور اس بات کی گواہی وہ چھوٹی سی خبر دے رہی ہے جس کا ذکر اس تحریر کے آغاز میں ہوا ہے۔

خبر یہ ہے کہ پاکستان کے ایک بڑے شہر میں‘ ایک اسلامی مدرسہ کے ناظم نے پولیس کو رپورٹ کی کہ اس کے مدرسہ میں بچے قرآن پاک کا سبق پڑھ رہے تھے کہ پڑوس کے گھر سے قرآن پاک پر اینٹیں پھینکی گئیں۔ چنانچہ سیکشن 295 بی کے تحت ایف آئی آر کٹ گئی۔ پڑوس کے مکان میں ایک بیوہ رہتی تھی۔ پولیس نے اسکی ملازمہ اور ڈرائیور کو گرفتار کر لیا۔ خبر اس قدر پھیلی کہ میڈیا کا نمائندہ بھی پہنچ گیا۔ اس نے دیکھا کہ ناظم مدرسہ کے پاس ایک سابق کونسلر بھی موجود ہے ۔ ان دونوں نےمیڈیا کو بتایا گیا کہ مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ ناظم صاحب نے مقدمہ واپس لے لیا ہے اور اس کے بدلے میں پڑوسن بیوہ نے ڈیڑھ مرلہ زمین مدرسہ کو دے دی ہے۔ جب اخباری نمائندے نے بیوہ سے ملنا چاہا تو ناظم اور کونسلر نے سمجھایا کہ اسے ملنے کی ضرورت نہیں کیوں کہ معاملہ ختم ہو گیا ہے۔ لیکن اخباری نمائندہ نے بیوہ سے ملاقات کی۔ عمر رسیدہ بیوہ زار و قطار روئی اور بتایا کہ ایک مسلمان عورت اپنی جان تو دے سکتی ہے کلام پاک پر اینٹ نہیں پھینک سکتی۔ میں تو ہمیشہ سے اس مدرسہ کو کچھ نہ کچھ دیتی ہی رہی ہوں۔ بات صرف اتنی ہے کہ مدرسہ کے ناظم میری کچھ زمین مدرسے میں شامل کرکے توسیع کرنا چاہتے تھے اور میں اس پر رضامند نہیں تھی۔ یہ مقدمہ اسی سلسلے میں ”تصنیف“ کیا گیا۔

اخباری نمائندے نے یہ بھی معلوم کر لیا کہ پولیس کے فلاں شخص کو ناظم صاحب نے چالیس ہزار روپے اس خدمت کے ”معاوضہ“ کے طور پر دئیے ہیں!

حاشا وکلا۔ مقصود یہ نہیں کہ کسی کی دل آزاری کی جائے۔ اچھے بُرے عناصر ہر شعبے میں ہیں۔ مدارس چلانے والے بھی اسی معاشرے سے ہیں۔ ان میں اچھے بھی ہیں اور خراب بھی‘ جو بات یہاں سمجھ میں آتی ہے یہ ہے کہ ناظم مدرسہ‘ سابق کونسلر اور پولیس.... کوئی بھی جھوٹ اور فریب دہی کو برا نہیں سمجھ رہا۔ اہل محلہ مولوی صاحب کی مذمت تو کریں گے لیکن یہ نہیں کہیں گے کہ جھوٹ بولنے والے یا فریب دہی کرنےوالے شخص کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جا سکتی۔ ہاں اگر بیچارے مولوی صاحب فلم دیکھتے پکڑے جاتے‘ پتلون میں ملبوس دیکھ لئے جاتے‘ ان کی بیگم صاحبہ کے سرسے دوپٹہ اترا ہوا دریافت کر لیا جاتا‘ انکی بیٹی بیچاری اپنے کالج کے کسی تفریحی ڈرامے میں اداکاری کر لیتی تو یہ جرم ناقابل معافی ہوتا اور پورا محلہ فتویٰ دیتا کہ ”فحاشی“ کرنے یا پھیلانے والے مولوی کے پیچھے ہم نماز نہیں پڑھ سکتے!

اللہ نے اس قوم کی اصلاح کا جتنا موقع جمعہ کے دن وعظ کرنےوالے عالم دین اور محلے کی مسجد کے امام کو دیا ہے‘ کسی کو بھی نہیں دیا۔ آج اگر ہمارے مولوی صاحبان خوف اور مصلحت سے بے نیاز ہو کر لوگوں کو ظاہری حلیہ بدلنے کی تلقین کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتانا شروع کر دیں کہ جھوٹ بولنا‘ جھوٹی گواہی دینا‘ کم تولنا‘ حرام کھانا‘ ٹیکس چوری کرنا بھی اسی طرح غلط ہے جس طرح داڑھی مونڈنا اور حجاب نہ کرنا غلط ہے تو اس معاشرے کا رنگ ہی بدل جائے۔ آج اگر ہمارے علماءمدرسوں اور مسجدوں کےلئے عطیات قبول کرنے سے پہلے دینے والے کی آمدنی کا جائز ہونا بھی کنفرم کرا لیں‘ آج اگر وہ یہ طے کر لیں کہ رشوت دینے اور لینے والے کو ہم اہل محلہ کے سامنے ذلیل کرکے رہیں گے‘ آج اگر وہ منبر پر کھڑے ہو کر ٹیکس چوری کرنےوالے‘ کم تولنے والے اور جعلی دوائیں بنانے اور بیچنے والے کے سماجی بائیکاٹ کا حکم دے دیں اور آج اگر وہ یہ اعلان کر دیں کہ پبلک کی سڑک یا فٹ پاتھ پر تجاوزات قائم کرنےوالے کو مسجد کے دروازے پر جوتے مارے جائیں گے کیوں کہ یہ ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے تو خدا کی قسم! اس ملک کے سیاستدان بھی تیر کی طرح سیدھے ہو جائیں۔

19 comments:

ali said...

کوئی انہیں سمجھائے لیکن
کون انہیں سمجھائے؟؟

مکی said...

بات یہ سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی...

یاسر خوامخواہ جاپانی said...

اگر مولوی حضرت ایسا کرنا شروع ہوگئے تو
ریڑھ کی ہڈی سامنے سے نظر آنا شروع ہو جائے گی توند ندارد
مولوی بھوکے مریں گئے۔
مسجد مین بجلی پانی غائب ہو جائے گا۔
جنازہ پڑھانے کیلئے مولوی ساب کہاں سے آئیں گے؟

Anonymous said...

Izhar sahib,

The attitudes demonstrated by the ordinary public of a society normally reflect the values held by the rulers of the society. The chaos and the pandemonium that you have mentioned in your column, has been filtered down from the high ranking officials of the country. Look at the president, the prime minister, the ministers, the parliamentarians and then their counterparts in the provincial assemblies. Name one person who is honest, trustworthy, honorable and intelligent enough to be in the offices they are occupying. Just as a load of books does not turn a donkey into a scholar, similarly, the fraudulent votes cannot turn thugs into national leaders.
If you want to fix the ills of the country, fix the thugs at the top of the pyramid first, and then move downwards. Higher the position more corrupt they are – or conversely, more they are corrupt, higher positions they acquire on the national totem pole. Look at the PM, he does not care about the millions of stolen dollars from the national coffer, but he is determined to save the chief thug, the owner of his mafia group.

Javed

Anonymous said...

Very Very Nice Izhar ul Haq Sahib

Anonymous said...

I beleive we need to work on the grass root level. Educate people around us at personal level. If we can practice and teach basic values in life we can improve society. Ironically, these values are not exclusive to Muslims, Christians..., they are core human values that any decent human being posses including non-beleivers.
I also beleive that in the present status of our society it seems very unlikely to find ethical leaders. The society they represent has to change first. I am afraid it is a hard task but well worth our efforts.
Azhar

Anonymous said...

Thank you Izhar Sb, you send such messages very occasionally. This is a hit against evils in our society, every one must share his views, comments and also do something good.

kashif kamal said...

Bohat Khoob Likha hy janab ny.. syasat dan ho ya Molvi, Police wala ho ya koi aour sahib e akhtyar.. sab Pakistan k sath sath Islam ko b nuqsaan pohancha rahy hain.aap ki tahreer bohat ummda hy, Khuda karay k ye awaz un zalimoon k zameer py click kr jay jo muashray ko gumrah aour nuqsaan pohancha rahy hain.

Kashif Kamal
Librarian,
ISCP, Kuwait
00965 55464023
kashif_librarian@yahoo.com

Anonymous said...

متفق

احمر

hashminaveed said...

I don't know why people always jump over "Maulvis" and "Madrassahs".... Although quite rightly, the writer has mentioned the social issues but I tell you that such people don't comprise of even half of our population (although that is still a big number). Further, only 5% of our population (or may be I am exaggerating a bit) are regular at 5 daily prayers.

To point out social issues and corruption at individual level is absolutely fine and to endeavor to eradicate it is really really marvelous. But again, writing an article for sake of writing it is surely not the way. The writer is merely trying to correlate increased religious influence and increased social and individual corruption. That is certainly defying any logic. It is for us to understand from where these “Maulvis” come? Or what are the circumstances which translates pupil to be like the current corp. of our “Maulvis”. If one analyze by an open and neutral mindset, you will definitely realize that most of children residing and studying in local “Madrassahs” come from very poor backgrounds from Southern Punjab or from NWFP where their families even struggle to provide them food twice or sometimes once a day. So it is relatively easier for then just to send their children to “Madressahs” so that they can get proper food, shelter and some education.

So, quite simply, some of these pupils are developed into “not-so-groomed” individuals morally or socially. But of course, religious education has a huge impact of a majority of those and despite their upbringing, they prove to be really honest and God loving and fearing individuals. I personally know some of them whom I can blindly pick over any other “well versed” “social animal”.

Having said that, I do agree that our current religious educational system and “Madrassah” system are not keeping pace with the modern education requirements and will continue to create certain “Maulvis” like the one mentione din the article. But I feel that it is OUR mistake. Yes the mistake of people like us who never dedicate our children in Religious education and research. Believe me, unless we step forward, these things are going to remain the same. Believe me there are a few such examples as well but they are too little to count. For instance, there is Dr. Imran Usmani who is a highly qualified “Moulvi” and a great Economist too (he is part of Shariah board of numerous international banks). We definitely have to step forward. After all, I haven’t seen a machine or a system which can intake iron and delivers diamonds.

Anonymous said...

Izhar sahib,
bohat hi acha topic hai. Molvi hazrat ko chahiye k wo logon k liye khud ko example bana k dars dain ta k koi amal b kary.
Nabeela Shafiq
Librarian
PGC, Jhelum

muhammad Arshad Ali said...

Izhar Sahib, Assalamu Alaikum, You wrote very very well, qiyamat ke neshaniyaa hain, aj kal chori aam hae qatal aam hae, aap roz newspaper daikh lain wahan daikhain har roz jurm ho raha hae, hor roz zina ho raha hae, 3 chezain aesi hae k Allah in ko boht jald pakarta he 1 zina 2 moseqi 3 shraab.aur ye 3 kaam pakistan mae ho rahay hain. itna bara sonami aanay say be loog baaz nahi aae, dengue aaya phir be log baaz nahi aae. ye cable ko band hona chahey.Mae tu ye heeran hon k fajar ki nammaz be farz hae aur jumma ki namaz be farz hae, log jumma parhnay aajatay hain par fajar ki namaz nahe parhtay , zuhar be tu farz hai, ye musalmao ko pata nahe kiya hogeya hae, 1 namaz ko qaza karnay say insaan crore saal tak aag mae jalta rahay ga.

Muhammad Arshad Ali
King college Librarian
104/105 , Garden Block , New Garden Town, Lhr.

Ghulam Rasool said...

Mr.Hashmi Naveed is totally irrelevant.
1. Columnist has not talked about those who are " regular at five daily prayers." The columnist is just saying that a huge majority of Pakistanis does attend friday sermons but they are not taught true Islamic teachings in these sermons.

2.How can he say that its just a writing for the sake of writing? what else a writer should do?

3 There was no mention of Madrasas in the article. Mr. Hashmi is not concerned with the central theme of the article.


I think the columnist has rightedly pointed out that appearance and dress has nothing to do with Islamic teachings like honesty and akl-e-halal.

Anonymous said...

Why the Molvi to b blamed for entire social catastrophe. Firstly,he is the part of this corrupt society. Secondly, if he did not talk about such social evils, it does not mean that he is promoting these evils. In this regard if his role is not positive, nevertheless not even negative. He is not the "thekedar" of the society. While presenting our views, we should not digress from "Justice" in both cases of likeness & dis-likeness.

Naseem Khan said...

Yes. He is certainly ""thekedar"" of the society.For the simple reason:He addresses people on every friday.He himself claims that he imparts teachings of Quran and Hadees.He is paid for this by the society. He is given, in most of the cases, free accomodation. His son , in most of the cases, inherits all this.
In spite of all these rewards, he is just telling people not to shave and wear green or red or black turban.
Its certainly unfortunate.

Irfan said...

very serious and sensitive issues are addressed

Mr. Kundi said...

Sana Kundi: Agr main apnain app ko Sahi ker loon......tu Shahid.......sab acha ho jay........../ per main asa kerna hi nahin chahata......?

محمد جہانزیب عادل said...

ہمتِ مرداں، مدد خدا

اس کیلئے پوری قوم کو تیار کرنا پڑے گا۔ اور یہ کام تمام "اساتذہ" کی ذمہ داری ہے۔۔۔

طاہر علی بندیشہ said...

۔شے بیچتے وقت شے کا نقص نہیں بتایا جاتا۔ اس بات سے دیون سنگھ مفتون صاحب کی کتاب " ناقابل فراموش " میں ایک کالم ان کا یاد آ گیا انگریزوں کا کریکٹر اس میں وہ لکھتے ہیں کہ وہ کتے پالنے کے بہت شوقین تھے ان کی نظر سے ایک انگلش اخبار میں اشتہار گزرا پلوں کی فروخت کی بابت جو مسز وار برٹن جو مسٹر وار برٹن کی بیوی تھی ، جو انسپکٹر جنرل پولیس بھی رہے اور اور شیخوپورہ میں وار برٹن کے نام سے ایک دیہات بھی آباد ہوا۔ ۔وہ لکھتے ہیں میں نے مسز واربرٹن کو خط لکھا کہ مجھے دو پلے چاہیے میرا آدمی دو سو روپے لے کر آجائے گا اور وہ آپ کو رقم ادا کر کے پلے لے آئے گا۔۔معاملہ طے پا گیا تو انہوں نے جوابی خط لکھا کہ ٹھیک ہے مگر میں ایک بات آپ کو بتائے دینا چاہتی ہوں کہ ان پلوں کا دادا جو تھا وہ آخر میں پاگل ہو گیا تھا۔۔۔۔
یہاں پھر وہ نتیجہ نکالتے ہین کہ انگریز ہم ہندوستانیوں کی نسبت تجارت میں بھی کہیں بلند کردار رکھتے ہیں ۔۔۔ایک اور واقعہ نیوز آف دی ورلڈ اخبار جو لندن سے نکلتا ہے اس کا حوالہ دیتے ہوئے بھی لکھتے ہیں

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com