Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, November 29, 2011

فال اور اُلّو

اُس سے تعارف اُس وقت ہوا جب چھ سال پہلے میں کچھ عرصہ کیلئے انگلستان کے ایک خوبصورت قصبے گلو سٹر میں مقیم تھا۔پہلی دفعہ اسے مسجد میں دیکھا۔سفید فام انگریز! جسے ہم پاکستانی عام طور پر گورا کہتے ہیں۔وہ بہت انہماک سے نماز پڑھ رہا تھا۔ میں اسے ملا اور چند دنوں میں ہم دوست بن چکے تھے۔اکثر اسکی سفیدفام بیوی بھی مسجد میں اسکے ساتھ ہوتی۔اس نے بتایا کہ دونوں ایک ساتھ اسلام کی پناہ میں داخل ہوئے تھے۔ بیوی ڈاکٹر تھی اور وہ خود بزنس مین۔

ایک ماہ پہلے اس کا فون آیا کہ وہ دارالحکومت کے فلاں ہوٹل میں ٹھہرا ہوا ہے۔میں نے اپنے گھر کا پتہ بتایا اور فوراَ  آنے کی فرمائش کی لیکن اس کا اصرار تھا کہ میں اسکے ہوٹل آﺅں کیونکہ اس کے پاس وقت کم تھا۔ شام کو اس کی فلائٹ تھی۔ وہ گلوسٹر واپس جارہا تھا۔میں تین گھنٹے اسکے پاس بیٹھا ۔ ہم نے دنیا جہان کی باتیں کیں۔ جب میں نے پوچھا کہ وہ پاکستان کیوں آیا تو پہلے تو وہ طرح دے گیا لیکن جب میں نے اصرار کیا اور اس نے  لگی لپٹی رکھے بغیر وجہ بتائی تو سچی بات یہ ہے کہ میرے ہوش اُڑ گئے ۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کہوں۔

اس نے بتایا کہ وہ پاکستان مستقل رہنے کےلئے آیا تھا۔ لیکن چھ ماہ یہاں گذارنے کے بعد اپنا ارادہ بدل کر واپس جا رہا ہے۔ ا سکی تفصیل یہ تھی کہ وہ کئی سال سے کسی مسلمان ملک میں آباد ہونے کا سوچ رہا تھا۔ اسکی نگاہِ انتخاب پاکستان پر اس لئے پڑی کہ یہ واحد مسلمان ملک تھا جو ایٹمی طاقت تھی۔ اس کا خیال تھا کہ اسلامی دنیا میں یہ ملک سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہو گا ۔ یہ ترقی اسکے اندازے کےمطابق ذ ہنی بھی ہوگی اور معاشی بھی۔

وہ یہاں آگیا۔ اس نے اپنا کاروبار بھی شروع کیا لیکن افسوس اسکے سارے اندازے غلط اور سارے خواب جھوٹے نکلے۔ جب وہ اپنی ناکامی کی داستان سنا رہا تھا تو مجھے نظیری نیشا پوری کا شعر یاد آرہا تھا :

یک فالِ خوب راست نہ شُد بر زبانِ ما

شومئی چغد ثابت و یُمنِ ہما غلط

یعنی کوئی ایک فال بھی درست نہ نکلی۔ اُلّو کی نحوست تو ثابت ہو گئی لیکن ہما کی برکت والی بات غلط تھی !

پہلا بڑا جھٹکا اُسے اُس وقت لگا جب اس نے اپنی بیوی کی ہمراہی میں لاہور سے پشاور تک سفر کیا۔ مسلمان ہونے کے بعد دونوں میاں بیوی ترکی ، سعودی عرب اور چند دوسرے مسلمان ملکوں میں سیر و تفریح اور مشاہدے کیلئے گئے تھے۔ لیکن پاکستان میں یہ سفر ان کیلئے ایک عجیب و غریب تجربہ تھا جو دلچسپ تو خیر کیا ہونا تھا، خوفناک ضرور تھا جو انہی کی زبانی کچھ یوں تھا :

” ہم جس مسلمان ملک میں بھی گئے ، وہاں میری بیوی کو
 نماز پڑھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ ترکی اور سعودی عرب میں میری بیوی مسجد ہی میں نمازیں پڑھتی تھی۔ دوسری خواتین بھی ہر نماز میں موجود ہوتی تھیں۔ برطانیہ کی مسجدوں میں بھی یہی معمول تھا۔ یہاں تک کہ قرطبہ اور غرناطہ کی مسجدوں میں بھی میری بیوی دوسری خواتین کےساتھ نمازیں ادا کرتی رہی۔ پاکستان میں جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا اس سے ہم سخت خوف زدہ ہو گئے۔ ہم نے لاہور سے پشاور تک جی ٹی روڈ پر سفر کیا۔ ہم یہ تاریخی شاہراہ دیکھنا چاہتے تھے اور ساتھ ساتھ اپنے بزنس کیلئے کچھ مشاہدہ اور تجزیہ بھی کرنا چاہتے تھے۔ ظہر کی نماز کا وقت ہوا اور ہم ایک مسجد میں رکے ۔ معلوم ہوا کہ مسجد میں خواتین کی نماز کا تصوّر ہی نہیں۔ وضو والی جگہ مردوں سے بھری ہوئی تھی۔ یہاں کسی عورت کا وضو کرنا ناممکن تھا۔ ہم یکے بعد دیگرے راستے میں سات مسجدوں میں رکے۔ کسی ایک میں بھی خواتین کیلئے نماز پڑھنے کی سہولت نہیں تھی ۔ ترکی میں خواتین مسجد کے ہال ہی میں مردوں کے پیچھے صفیں بنا لیتی ہیں لیکن یہاں وہ بھی ممکن نہ تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے ان مسجدوں میں سالہا سال سے کوئی عورت داخل نہیں ہوئی اور اگر ہو جائے تو یہ ایک عجوبہ ہو گا۔

رہے ریستورانوں کے باتھ روم تو وہ اس قدر گندے اور عفونت زدہ تھے کہ وہاں وضو کرنے کے تصور ہی سے روح کانپ جاتی تھی۔ اکثر باتھ روموں کے فرش پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ فلش ٹوٹے ہوئے تھے اور جو سلامت تھے ان میں پانی نہیں تھا۔ کموڈ جن پر بیٹھا جانا تھا ان پر جوتوں کا کیچڑ لگا تھا۔ صاف معلوم ہو رہا تھا کہ ان پر پاﺅں کے بل بیٹھا جاتا رہا ہے حالانکہ اس مقصد کیلئے دیسی سٹائل کی ڈبلیو سی موجود تھیں ۔ دنیا کی واحد ایٹمی اسلامی طاقت میں صفائی کے اس ماتمی معیار پر ہمارا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ راولپنڈی گذری تو کچھ دیر کے بعد ہم نے اٹک کا پُل پار کیا۔ اٹک پُل سے لے کر پشاور تک میری بیوی کہیں بھی وضو نہ کر سکی اور تیمّم کر کے نماز گاڑی میں سیٹ پر بیٹھ کر پڑھتی رہی۔

یوں تو سارے سفر ہی کے دوران میری بیوی کو ہر جگہ انتہائی ” غور “ سے دیکھا جاتا رہا تاہم اٹک کے پار اس سرگرمی میں اضافہ ہو گیا۔ پشاور سے واپس ہم نے ہوائی جہاز سے آنا تھا۔ پی آئی اے کے ایک اہلکار سے ہم کوئی بات کر رہے تھے۔ آن کی آن میں ہمارے ارد گرد بہت سے لوگ جمع ہو گئے۔ وہ سب میری بیوی کو اور اسکے لباس کو اس قدر غور سے دیکھ رہے تھے کہ وہ سخت خوفزدہ ہوگئی۔ ایک سمجھ دار اہلکار کا بھلا ہو وہ اس صورت حال میں ہمارا خوف بھانپ گیا اور جلدی سے ہمیں ایک دفتر نما کمرے میں لے گیا۔

ہمیں انگلینڈ میں اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کی ایک بات رہ رہ کر یاد آرہی تھی ۔ ہم نے جب اسلام قبول کیا تو بہت سوں نے کہا کہ ٹھیک ہے تم نے اسلام قرآن پڑھ کر قبول کیا ہے لیکن جب تم مسلمان ملکوں میں جاﺅ گے تو اکثر میں تمہارا تجربہ افسوسناک ہو گا۔

افسوس انکی یہ بات صحیح نکلی۔ ہم اپنا بزنس سنٹر اسلام آباد میں قائم کرنا چاہتے تھے۔ ہم نے ایک عمارت اس مقصد کیلئے کرائے پر لی۔ اسکے بعد جو کچھ ہوا وہ اس قدر عجیب و غریب ہے کہ کبھی کبھی تو خود ہم میاں بیوی کو ناقابل یقین لگتا ہے۔ اگر ایک جملے میں اسے بیان کرنا پڑے تو وہ یہ ہے کہ کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ملا جو وعدہ پورا کرتا ہو یا سچ بولتا ہو۔ ہم نے اپنی عمارت میں جن لوگوں سے فرنیچر کا کام کرایا وہ وعدہ کرنے کے باوجود کئی کئی دن غائب ہوتے رہے۔ گارنٹی زبانی تھی۔ یہاں لکھ کر کوئی نہیں دیتا۔ فرنیچر کو چند ہفتوں میں ہی کیڑا لگ گیا۔ وہ لوگ کہتے رہے کہ آکر ٹھیک کر دینگے یا تبدیل کر دینگے لیکن کچھ بھی نہ ہوا۔ تنگ آ کر ہم نے کہنا ہی چھوڑ دیا۔ جس پارٹی نے لوہے کا کام کیا وہ مشہور لوگ ہیں اور ان کا بہت بڑا سیٹ اپ ہے۔ تینوں باپ بیٹے متشرّع ہیں۔ لیکن سارا کام ناقص نکلا۔ گیٹ، بل کھاتی سیڑھیاں، ریلنگ، کچھ بھی اسکے مطابق نہ تھا جو طے ہواتھا۔ پانچ بار آنے کا وعدہ کیا گیاکہ آ کر دیکھیں گے اور نقائص دور کرینگے ۔ لیکن نہ آئے۔ آخری بار میں خود انکے پاس گیا صرف یہ پوچھنے کہ کیا ان کا اس حدیث پر یقین ہے کہ لا ایمانَ لمن لا عہدَ لہُ۔ جو وعدہ خلافی کرے اس کا کوئی ایمان نہیں۔ مجھے تعجب ہوا کہ میری بات کو سنجیدگی سے سننے کے بجائے وہ لوگ صرف یہ کہتے رہے کہ کوئی بات نہیں دیر سویر ہو ہی جاتی ہے۔ جن ڈسٹری بیوٹرز نے ہمیں مال پہنچانا تھا ان میں سے سوائے ایک کے، کوئی بھی طے شدہ وقت پر نہیں آیا۔

گیس اور بجلی والے، کارپٹ والے، ائر کنڈیشننگ والے، کسی کے ہاں وقت کی پابندی کا تصور ہے نہ وعدہ ایفا کرنے کا۔ یہاں تک کہ نناوے فیصد لوگ ٹیلیفون کرنا بھی گوارا نہیں کرتے کہ وہ طے شدہ وقت پر نہیں آئینگے اس لئے ان کا انتظار نہ کیا جائے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ جھوٹ بولنے والے اور وعدہ پورا نہ کرنےوالے ان لوگوں نے اپنی دکانوں کے اوپر کلمہ اور قرآنی آیات لکھ کر لٹکائی ہوئی ہیں اور ہاتھوں میں تسبیحیں پکڑی ہوئی ہیں۔ اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ جمعہ کے خطبات میں ان لوگوں کو معاملات اور حقوق العباد کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا جاتا۔ سارا زور اس بات پر ہے کہ ظاہری شکل و صورت اور لباس کیسا ہو۔ہمیں اس بات پر بھی سخت حیرت ہوئی کہ یہاں بھاری اکثریت مذہب کے معاملے میں سخت پُرجوش اور جذباتی ہے لیکن تقریباَ پچانوے فیصد لوگ قرآن پاک کے مطلب اور مفہوم سے مکمل طور پر نابلد ہیں بلکہ اکثریت پانچ وقت کی نماز میں جو کچھ پڑھتی ہے اس کا مطلب بھی نہیں سمجھتی ! “

میں نے کھانے کی دعوت دی لیکن اس نے ایک المناک اداسی کے ساتھ معذرت کر دی۔ ان کی پرواز کا وقت ہو رہا تھا۔ مجھے یوں لگا جیسے وہ کہہ رہا ہو کہ جن کے اسلام میں صرف ظا ہر پر زور ہو اور باطن اسلام سے مکمل طور پر محروم ہو ان کے ہاں کھانا کھانا جائز ہی نہیں!

Tuesday, November 22, 2011

گٹھری اور تھیلا

کار نئی تھی اور چلانے والا جوان تھا۔اس کم عمری میں وہ کمپنی کا ایگزیکٹیو ڈائرکٹر تھا اور یہ قیمتی گاڑی اسے آج ہی کمپنی نے دی تھی۔ اسے چلاتے ہوئے وہ یوں محسوس کر رہا تھا جیسے آسمان پر اُڑ رہا ہو۔ ایک گلی سے گذرتے ہوئے اسے احتیاط کرنا پڑی۔ دائیں بائیں گاڑیاں کھڑی تھیں اور ان کے پیچھے سے کوئی کھیلتا ہئوا بچہ نکل کر سامنے آسکتا تھا۔ پھر بھی اس کی رفتار خاصی تیز تھی۔ اتنے میں زور کی آواز آئی اور اس کی گاڑی جیسے لرزی۔ وہ گاڑی روک کر باہر نکلا۔ ایک اینٹ اس کی گاڑی کو آ کر لگی تھی۔ دایاں دروازہ تقریباَ ٹوٹ چکا تھا۔ ایک سراسیمہ بچہ پاس ہی کھڑا تھا۔ اس نے اسے پکڑ کر جھنجھوڑا۔

” کیا تمہیں معلوم ہے یہ گاڑی کتنی قیمتی ہے ؟ میں تم سے ایک ایک پائی وصول کرونگا۔ “ بچّہ کانپ رہا تھا۔

 مجھے معاف کر دیجیے لیکن مجھے مجبوراَ آپ کی گاڑی کو اینٹ مارنا پڑی۔ سب لوگ اتنی تیز رفتاری سے جا رہے ہیں کہ کوئی رک ہی نہیں رہا تھا۔ شکر ہے آپکی گاڑی کو میری اینٹ لگی اور آپ رک گئے۔ میرا معذور بھائی وِیل چیئر سے گر گیا ہے اور میں اکیلا اسے اُٹھا کر ویل چیئر پر دوبارہ نہیں بٹھا سکتا۔ کیا آپ میری مدد کریں گے؟ “

وہ کبھی اپنی نئی گاڑی کا ٹوٹا ہوا دروازہ دیکھتا اور کبھی بچے کو دیکھتا ۔ بالآخر اس نے بچے سے پوچھا “ کہاں ہے تمہا را بھائی ؟ “ بچہ اسے گاڑیوں کے پیچھے لے گیا ۔ ایک نوجوان جو ٹانگوں سے معذور تھا بے بسی سے زمین پر پڑا تھا۔اس نے اور بچے نے ملکر اسے اٹھایا اور ویل چیئر پر بٹھایا۔ بچے نے اس کا شکریہ ادا کیا اور گاڑی کے ٹوٹے ہوئے دروازے کی طرف دیکھے بغیر ویل چیئر کو دھکیلتا ایک طرف چلا گیا۔

یہ کہانی ایک دوست نے ای میل کے ذریعے بھیجی ہے۔ ممکن ہے بہت سے قارئین کو یہ پہلے ہی معلوم ہو لیکن اصل مسئلہ کہانی کا نہیں ہے۔ اصل مسئلہ وہ ہے جو اس کہانی سے نکلتا ہے اور ہم میں سے اکثر اسے سمجھنے کیلئے تیار نہیں۔ ہم سب تیز رفتاری کا شکار ہیں۔نئی گاڑیاں ہیں۔ تازہ جوانیاں ہیں۔ ترقی کرنے کے ہدف ہیں۔ آگے بڑھنے کی خواہشات ہیں۔دولت کمانے کی دھن ہے۔ شہرت پانے کی آرزو ہے۔ بڑے سے بڑا منصب حاصل کرنے کیلئے تگ و دو ہے۔ اولاد کیلئے بہت کچھ چھوڑنے کی منصوبہ بندی ہے۔ زمین ، محلات ،گاڑیاں ، زیورات ، جواہرات اور ساز و سامان اکٹھا کرنے کی فکر ہے۔ یہ سب کچھ تیز رفتاری کے بغیر نہیں حاصل ہو سکتا۔ اس لیے ہم بگٹٹ بھاگ رہے ہیں۔ ہمیں کسی چیز کا ہوش نہیں۔ خدا کا نہ مخلوقِ خدا کا۔دوسروں کے حقوق کا نہ اپنے فرائض کا۔ یہاں تک کہ کہیں سے ایک زور کی اینٹ آتی ہے ۔ کار کا دروازہ ٹوٹتا ہے ۔ تب ہم رکتے ہیں اور اس ویل چیئر کی طرف دیکھتے ہیں جو ہمارا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔

کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم اینٹ لگنے سے پہلے رُک جائیں ۔ یا کم از کم اپنی رفتار ہی کم کر دیں؟ کیا ہم اس ناقابلِ تردید حقیقت کا ادراک نہیں کر سکتے کہ دنیا میں دولت، منصب ، شہرت اور چکا چوند کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے جو ہماری توجہ کا محتاج ہے۔ آخر ہم اینٹ ہی کا کیوں انتظار کرتے ہیں ؟

یوں لگتا ہے کہ پاکستان اس وقت تیز رفتار لوگوں کے پنجے میں بلکہ شکنجے میں پھنسا ہوا ہے۔ یہ لوگ سرپٹ دوڑ رہے ہیں۔ گٹھڑیاں انکے سروں پر ہیں۔ تھیلے ان کے ہاتھوں میں ہیں۔ یہ گٹھڑیاں ، یہ تھیلے سونے اور جواہرات سے بھرے ہیں۔ یہ لوگ مزید سونے اور مزید جواہرات کیلئے بھاگے جا رہے ہیں۔ انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ ایک اینٹ زور سے لگنے والی ہے جس کے بعد انہیں ہر حال میں رُکنا پڑےگا۔

لیکن صورتحال اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے۔ عام طور پر ہمارا تائثر یہ ہوتا ہے کہ تیز رفتاری کا شکار یہ لوگ دنیا دار ہیں ، دنیا پرست ہیں اور دین کے نام لیوا ان میں شامل نہیں ۔ کاش ایسا ہوتا لیکن افسوس ایسا نہیں ہے۔ گٹھڑیاں سروں پر اُٹھائے اور تھیلے ہاتھوں میں پکڑے ان لوگوں میں سیاست دان ہیں، بیوورو کریٹ ہیں ،جرنیل ہیں، تاجر ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ان میں وہ لوگ بھی باقاعدہ شامل ہیں جو اپنے آپ کو دیندار کہتے ہیں، صالحین ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام چلانے کی بات کرتے ہیں اور بزعمِ خود ان لوگوں سے مختلف بلکہ برتر ہونے کا گمان رکھتے ہیں جن کا شمار بقول ان کے سگانِ دنیا میں ہے۔اس المیے کی ایک ہلکی سی جھلک دیکھیے۔

یہ جنرل ضیا کا زمانہ تھا۔ 1981ءکا سال تھا۔ دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کو جنرل ضیا کا فرمان وصول ہوتا ہے : ”میں نے منظوری دےدی ہے کہ ”آئی پی ایس “ کو، جو اس وقت F-6/1
 میں واقع ہے ، ایک مناسب عمارت بنانے کیلئے متعلقہ سائز کا پلاٹ دیا جائے۔ یہ وہی سائز چاہتے ہیں جو تعلیمی اداروں کو دیا جاتا ہے کیونکہ یہ اُس اعلیٰ کام کو مزید بہتر بنانا چاہتے ہیں جو انسٹی ٹیوٹ پہلے سے کر رہا ہے اور سہولیات بڑھانا چاہتے ہیں۔ پلاٹ اس طرح کی الاٹمنٹوں کی نارمل قیمت کی ادائیگی پر دیا جا ئےگا

یہ ” تحقیقاتی" ادارہ [ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز]ایک ایسے پروفیسر صا حب کا ہے جو ایک سیاسی مذہبی پارٹی کے ممتاز رہنما ہیں اور طویل عرصہ سے اسکی نمائندگی سینیٹ میں بھی کر رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں کو پلاٹ سیکٹر ایچ ۔ نائن میں دئیے جاتے تھے۔ یہ پلاٹ لیز پر ہوتے ہیں اور ترقیاتی ادارے کے قوانین کےمطابق ناقابل فروخت اور ناقابلِ انتقال ہوتے ہیں۔ اس ادارے کو بھی پلاٹ ایچ نائن سیکٹر ہی میں دیا جا رہا تھا لیکن جنرل ضیا نے ایک بار پھر مداخلت کی اور دو کنال کا یہ پلاٹ جناح سپر مارکیٹ میں دیا گیا جہاں کوئی اور تعلیمی یا تحقیقاتی ادارہ کام نہیں کر رہا تھا کیونکہ یہ مارکیٹ تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں کے لیے مختص تھی۔ پھر یوں ہوا کہ تعلیمی مقاصد کیلئے ملنے والے اس پلاٹ پر تین منزلہ پلازہ بن گیا جس میں مشہور بین الاقوامی برانڈز کی دکانیں کھُل گئیں۔ اسکے بعد جو کچھ ہوا وہ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز تھا ۔ 2009ءمیں ترقیاتی ادارے نے اپنے ہی قوانین کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے تحقیقاتی ادارے کو اجازت دے دی کہ پلاٹ پر بنے ہوئے عالیشان پلازے کو ایک نجی تعمیراتی کمپنی کے نام منتقل کر دیا جائے۔ اور یہ انتقال ہو بھی گیا۔

یعنی ملکی قوانین صرف پیپلز پارٹی، نون لیگ، قاف لیگ یا جرنیلوں ہی کیلئے نہیں بدلتے۔ یہاں گٹھری سر پر رکھے اور تھیلا ہاتھ میں پکڑے بھاگنے والوں میں ماشا ءاللہ وہ بھی حسب توفیق شامل ہیں جو اقامت دین کے دعویدار ہیں۔ پہلے تو صدارتی طرفداری سے پلاٹ وہاں الاٹ کرایا گیا جہاں تعلیمی مقاصد کے لیے مل ہی نہیں سکتا تھا۔ پھر عمارت کا ایک حصّہ خالص منافع آور استعمال میں رکھ دیا گیا۔ پھر اس پلاٹ کو جو لیز پر ہے اور ناقابلِ فروخت اور ناقابلِ انتقال ہے بیچ دیا گیا۔ اس ” تحقیقاتی “ کار و بار سے کتنے ارب روپے کا منافع ہوا اس کا اندازہ وہ لوگ بخوبی لگا سکتے ہیں جو جناح سپر مارکیٹ کی قدر و قیمت سے واقف ہیں۔ کہا یہ جائےگا کہ یہ سب کچھ ترقیاتی ادارے کی اجازت سے کیا گیا۔ اب یہ کس کی مجال ہے کہ پوچھے کہ ترقیاتی ادارے نے یہ غیر قانونی اجازت کیوں دی اور کس کے دباو پر دی؟ اگر ترقیاتی ادارہ یہی حرکت کسی اور کیلئے کرتا تو سینیٹ میں قانون شکنی کےخلاف ایک دھواں دھار تقریر کی جاتی اور ترقیاتی ادارے کو چھٹی کا دودھ یاد آ جاتا !

معاملے کا ایک مضحکہ خیز پہلو اور بھی ہے۔ اس پر بھی غور فرما یئے ۔ جب جنرل ضیا نے ترقیاتی ادارے کو پلاٹ دینے کا حکم دیا تھا تو اُس وقت یہ ادارہ ایف سکس سیکٹر میں واقع تھا ۔ اب پلاٹ اور پلازہ فروخت کر کے یہ ادارہ اسی سیکٹر یعنی ایف سکس میں دوبارہ واپس چلا گیا ہے ! ! ! ناصر کاظمی نے کیا خوب کہا تھا ....

سادگی سے تم نہ سمجھے ترکِ دنیا کا سبب

ورنہ وہ درویش پردے میں تھے دنیا دار بھی

تو جناب ہنگامہ برپا ہے۔ لوگ بھاگے جا رہے ہیں۔ کان پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی ....

صبح ہو تے ہی نکل آتے ہیں بازار میں لوگ

گٹھڑیاں سر پہ اٹھائے ہوئے ایمانوں کی

اور اس میں سب شامل ہیں۔ کسی ایک پر الزام نہ لگائیے۔ دنیا کے پیچھے صرف وہی نہیں بھاگ رہے جنہیں ہم آپ دنیا دار سمجھتے ہیں !

Tuesday, November 15, 2011

صرف دو قومیتیں

تلخ نوائی



بزرگ پڑھا رہے تھے۔

وہ عالم بھی بہت بڑے تھے اور استاد بھی کمال کے تھے۔دور و نزدیک سے علم کے شائقین آتے اور فیض یاب ہوتے۔اُس دن وہ ذرا بے تکلّفی کے مُوڈ میں تھے۔ انہوں نے دستار اتار رکھی تھی۔ دیوار سے ٹیک لگا کر ٹانگیں لمبی کر لی تھیں۔شاگرد عبارت پڑھتا۔ وہ تشریح کرتے۔ تشریح کیا کرتے، علم اور حکمت کے موتی رولتے۔

اسی حالت میں انہوں نے دیکھا کہ ایک دراز قد وجیہ شخص مسجد میں داخل ہئوا۔اس کی شخصیت بارعب تھی۔لباس سے بہت بڑا عالم لگتا تھا۔سفید دستار،اس پرطُرّہ۔ بزرگ محتاط ہو گئے۔اتنا بڑا عالم غلطی بھی نکال سکتا ہے، اعتراض بھی کر سکتا ہے۔ انہوں نے اپنی پھیلی ہوئی ٹانگیں سمیٹ لیں۔ پگڑی سر پر رکھ لی اور زیادہ توجّہ سے پڑھانے لگ گئے۔ دراز قد بارعب شخص نے وضو کیا اور مسجد کے اندر آ گیا۔پڑھنے والے طالب علم خاموش ہو گئے۔قریب آیا تو پڑھانے والے بزرگ نے بہت احترام سے پوچھا  ” جناب کا اسم گرامی ؟ “ اس پر اُس نے اپنی بتیسی کی نمائش کی اور کہا ” مجھے آپ کی بات سمجھ میں نہیں آئی “ اب کے بزرگ نے پوچھا ” آپ کا نام کیا ہے ؟ “ اس پر اس نے پھر بتیسی کی نمائش کی اور بتایا ” جی میرا نام محمد جوسف ہے “ استاد نے پگڑی اتار کر ایک طرف رکھی ، ٹانگیں پھر پھیلا لیں اور شاگردوں سے فرمایا ” تم سبق پڑھنا جاری رکھو بھئی ۔ یہ تو جوسف ہے “

یہ واقعہ ہمیں اُس سیاسی پارٹی نے یاد دلایا ہے جو زور و شور سے تبدیلی کی بات کر رہی ہے۔اس کا دعویٰ ہے کہ پٹواری کا کلچر بھی بدلے گی تھانیدار کا کلچر بھی بدلے گی اور اُس کی حکومت میں فوج اور آئی ایس آئی بھی وزیر اعظم کو جوابدہ ہو ںگی۔ اس پر سب محتاط ہو گئے۔ پھیلی ہوئی ٹانگیں سمٹ گئیں۔ لوگ پگڑیاں سروں پر رکھ کر با ادب ہو گئے۔ لیکن جب ایک خفیہ ادارے کے سابق سربراہ نے اس سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کی اور اس بات کو اتنی اہمیت دی گئی کہ پارٹی کے سربراہ نے اس نووارد کے ہمراہ با قاعدہ پریس کانفرنس کی تو معلوم ہئوا کہ یہ سای احتیاط بیکار تھی ۔ اندر سے وہی بات نکلی کہ جی میرا نام جوسف ہے! یہ صاحب پیپلز پارٹی میں ضرور تھے لیکن انہوں نے کوئی الیکشن جیتا نہ ان کی کسی اور حوالے سے کوئی اہمیت ہے۔ اگر کوئی ایسی سیاسی شخصیت ہو جو پیروکاروں کا حلقہ رکھتی ہو یا کوئی دانشور ہو یا قومی اہمیت کا حامل فرد ہو تو اس کی شمولیت پر ایک بھرپور تقریب کا انعقاد تو سمجھ میں آتا ہے لیکن ایک جاسوسی ادارے کے سابق سربراہ کی شمولیت پر اتنا ہنگامہ ! یہ تو وہی بات ہوئی کہ بقول ظفر اقبال

دیکھ رہ جائے نہ حسرت کوئی دل میں تیرے

شور کر اور بہت ، خاک اُڑا ا ور بہت

رہا اثاثوں کا مسئلہ تو یہ ایک خوش آیند امر ہے۔ آخر کسی نے تو اسے اہمیت دی ہے۔ آخر کچھ لوگوں نے تو سوچنا شروع کیا ہے کہ یہ ایک بنیادی اور فیصلہ کن امر ہے۔ آخر کچھ لوگوں نے تو ڈرنا شروع کیا ہے۔اب تک تو اس غریب ملک کے بدقسمت عوام نے یہی دیکھا ہے کہ جس کسی کے ڈالر، محلات، اور فیکٹڑیاں بیرون ملک جتنے زیادہ ہیں وہ اتنا ہی ملک وقوم کا بڑا خادم ہے۔
 لیکن ایک ضمنی سوال اس سلسلے میں اور بھی ہے۔ کیا اثاثے صرف سیاست دانوں ہی کے باہر ہیں؟اور کیا صرف سیاست دان ہی ناجائز اثاثوں کے مالک ہیں؟ کیا سرکاری ملازم ، کیا سول اور کیا خاکی ، سارے کے سارے ، دُھلے دھلائے ہیں؟ ایک انگریزی معاصر میں ایک مغربی خاتون صحافی نے کس کے بارے میں لکھا تھا کہ اس کا معیارِ زندگی جنوبی امریکہ کے ڈکٹیٹروں کو ماند کرتا ہے ؟

1988
 اور 1991 کے درمیانی عرصہ میں کراچی میں منعقد ہونے والا شادی خانہ آبادی کا وہ فنکشن بے شمار لوگوں کو یاد ہو گا جس کی وسعت اور ہمہ گیری کا مقابلہ شاید ہی کوئی تقریب کر سکے اور جس میں بڑے بڑے صالحین کچّے دھاگے سے بندھے چلے گئے تھے!
دلچسپ سوالات اور بھی ہیں۔ شہرِ ” عدل و انصاف “ اسلام آباد میں چودہ محلات کس کے بنے تھے؟ سونے سے بنے ہوئے جوتے کس نے تحفے میں دیے تھے؟ جنوب کے کس شہر میں ایک گھر کے اندر سے اربوں روپے نکلے تھے؟ وہ کون تھا؟ یہ اور اس قبیل کے کئی مقدس معززین ابھی تک اتنے ہی معزز ہیں اور اقتدار بدستور ان کے اور ان کے خاندانوں اور ان کی نسلوں کی دہلیز پر سر بسجود ہے۔
ہماری جذباتی قوم سوالات اٹھانے والوں کو دھمکیاں تو دے سکتی ہے لیکن سوالات دلوں سے کھرچ تو نہیں سکتی ! اس ملک کے لوگ جانور تو نہیں جنہیں کچھ بھی پتہ نہ ہو ! کیا وہ نہیں جانتے کہ سائنس دان عبد الکلام کے پہلے کیا اثاثے تھے اور اور اب اس کے پاس کیا کچھ ہے؟ وہ تو ایوان صدارت میں بھی کئی سال گذار کر آچکا!  کیا محسنِ پاکستان سے اثاثے پوچھے جا سکتے ہیں؟ عبدالکلام  نے یقینا ایسا کوئی دور نہیں دیکھا جب تعیناتیاں ، ترقیاں ، تبادلے سب کچھ اس کی مرضی سے ہوتا تھا۔ کاش اس ملک کے سادہ دل پرستاروں کو معلوم ہوتا کہ اس نے تعلیم کے میدان میں کیا کیا کام کیے ہیں؟ بات اثاثوں کی ہو رہی تھی۔ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں! سیاست دان فرشتے نہیں ، ان کے جرائم ریت کے ذرّوں سے زیادہ ہیں لیکن وہ جو سیاست دان نہیں ، اور تقدیس کے ریشمی پردوں کے پیچھے چھُپے بیٹھے ہیں ان کا حساب کیسے ہو گا اور کون کرے گا؟

اثاثوں کا ہنگامہ اُ ٹھا تو اس سے لطیفے بھی نکلے۔ جو عوام عزتِ نفس رکھتے ہیں وہ انہیں لطیفے نہیں کہتے۔ وہ ایسے لطیفوں کو اپنے چہرے پر تھپّڑ کی طرح محسوس کرتے ہیں۔ اور پھر ایسے تھپڑوں کو یاد بھی رکھتے ہیں۔ کیا عزت نفس رکھنے والے عوام ایسا مذاق برداشت کر لیتے ہیں کہ ہمارے نام پر تو کوئی اثاثہ ہے ہی نہیں اور یہ کہ ہم نے تو سب کچھ اپنے بچوں کے نام منتقل کر دیا ہے۔ یہ تو اتنا دردناک مذاق ہے کہ اس پر ہنسا بھی نہیں جا سکتا۔

ویسے یہ خوب ہے کہ خونی انقلاب کا نعرہ بھی لگتا رہے اور اثاثے بھی اولاد کے نام منتقل ہوتے رہیں۔ انقلابی شاعروں کی نظمیں بھی گائی جائیں اور سیکنڈری بورڈ پر ایسے ” دیانت دار “ کارندوں کو بھی مسلط کیا جائے جو یونی ورسٹی میں اپنی ” دیانت “ کی دھاک بٹھا چکے ہوں۔ اس سے پہلے ڈاکٹر بھی ڈسے گئے۔ اس لیے کہ ان کی قسمت ایسے ذاتی خدمت گاروں کے حوالے کر دی گئی جو اس کے اہل ہی نہیں تھے۔ اگر سرکاری ڈیوٹی سے طویل رخصت لے کر اپنے سرپرستوں کی فیکٹریوں میں ملازمت کی جائے تو بعد میں انعام و اکرام تو ملتا ہی ہے۔ اس چکر میں اگر چند ہزار ڈاکٹروں کے ساتھ ظلم ہو جائے تو اسے برداشت کر لینا چاہیے!

یہاں کئی دلچسپ معاملے اور بھی ہیں ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو خلق خدا نے سکھ کا سانس لیا سوائے ان کے جن کے ذاتی مقدر ملوّث تھے ! اصل بات یہ ہے کہ کچھ لوگ ذہنی لحاظ سے نمو نہیں پا سکتے۔ وہ اسی سطح پر رہتے ہیں جس پر سال ہا سال پہلے تھے۔ سنٹرل لندن لندن کا ایسا حصّہ ہے جو دل کو موہ لیتا ہے ۔ جو وہاں کا باسی ہو اسے کوئی اور جگہ کبھی پسند نہیں آسکتی۔ فرض کیجیے سنٹرل لندن کا کوئی باسی پورے انگلینڈ کا صوبیدار بن جائے۔ لیکن بدقسمتی سے ذہنی طور پر پر وہ سنٹرل لندن سے باہر ہی نہ نکلے۔ وہ ترقی کی طرف جو قدم بھی اُٹھائے سنٹرل لندن ہی سے متعلق ہو۔ سڑکیں، پُل، پارک ، مواصلات اطلاعات سب کچھ اسی حوالے سے ہو تو آپ کا کیا خیال ہے انگلینڈ کے باقی شہروں کا رد عمل کیا ہو گَ َا؟ آج وزیر اعلی پنجاب عملی طور پر وزیر اعلی  لاہور بنے ہوئے ہیں۔ لوگ الگ صوبے نہ مانگیں تو کیا کریں 

لیکن بے زبان ملکوں میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ یہاں جو کام بھی کیا جائے اس کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے والے میسّر آ جاتے ہیں۔ اس ملک میں خدمت گار کثرت سے ملتے ہیں اور ہر قبیل کے ملتے ہیں۔ مجموعی طور پر دو قومیتیں ہی یہاں آباد ہیں : خدمت گار اور خدمت لینے والے۔ باقی جو کچھ ہے حشو و زوائد میں آتا ہے۔ ہاں اگر کوئی خدمت گار کہلانا پسند نہیں کرتا تو جو نام بھی رکھ لے رہے گا خدمت گار ہی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Tuesday, November 01, 2011

اذانیں دینے کا وقت

اس کے سر میں ایک سو آنکھیں ہیں
مونہہ میں اڑتالیس دانت ہیں
جسم میں تین دل ہیں۔
ناک کے اندر چھ چاقو ہیں اور ہر چاقو کا استعمال مختلف ہے۔ جسم کے دونوں طرف تین تین پَر ہیں۔ اسی جسم میں جدید ترین ایکس رے مشین نصب ہے۔
یہ کوئی سمندری بلا نہیں، نہ کسی عفریت کی داستان ہے۔ نہ جادو پری کا قصّہ ہے۔ یہ اُس مچھر کا ذکر ہے جو ہمارا خون چوستا ہے لیکن ابھی حیرت کے دروازے بند نہیں ہوئے۔
مچھر کے جسم میں ایک خاص دوا ہے جو انسانی بدن کے اُس حصّے کو سُن کر دیتی ہے جہاں یہ اپنے دانت گاڑتا ہے تاکہ جس کا خون چوسا جا رہا ہے اسے کم سے کم احساس ہو! اسکے اس ذرا سے جسم میں خون ٹیسٹ کرنے کی ایک جدید مشین بھی لگی ہوئی ہے تاکہ یہ انسانی خون کو ٹیسٹ کرے اور اپنی پسند کا خون پی سکے۔ پھر یہ خون پینے کے عمل کو تیز تر بھی کر سکتا ہے تا کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ خون پی سکے۔
 یہ آ ج مچھروں کی خصوصیات کے بارے میں ہم آپ کو کیوں بتانے بیٹھ گئے۔ اس کا جواب تھوڑی دیر میں عرض کرتے ہیں لیکن پہلے ایک ایسی خبر سنیے جو عبرت کا مرقّع ہے۔
ملک میں کرائے کے بجلی گھروں کے ضمن میں کرپشن کا جو بازار گرم ہے اور جس طرح بجلی کے صارفین کو دن دہاڑے لوُٹا جا رہا ہے اس کا سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا۔ اور اسی حکومت کے ایک وفاقی وزیر نے اپنی حکومت کےخلاف کروڑوں اربوں کے کرپشن کے نہ صرف الزامات لگائے بلکہ ان الزامات کے بارے میں ثبوت پیش کر کے الزامات کو درست بھی ثابت کردیا۔
وفاقی وزیر فیصل صالح حیات نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ ”نیپرا سمیت متعلقہ اداروں نے منصوبوں میں شفافیت کیلئے بنائے گئے رولز کو فالو نہیں کیا ۔ جو دعوے کیے گئے کہ ان منصوبوں میں بین الاقوامی نیلامی رولز کو فالو کیا گیا وہ غلط موقف ہے “ وفاقی وزیر نے عدالت عظمیٰ کو یہ بھی بتایا کہ ”نیپرا ریگولیٹری اتھارٹی ہے۔ اس نے آٹھ کمپنیوں کے ٹیرف طے کیے تو کوئی اشتہار شائع نہیں کیا۔ اسکی وجہ بھی معلوم ہونی چاہیے۔ “
بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ نیپرا کس چڑیا کا نام ہے؟ در حقیقت یہ چڑیا نہیں بلکہ ہاتھی ہے اور وہ بھی سفید ہاتھی ! یہ وفاقی حکومت کا ایک محکمہ ہے جو واپڈا اور وفاقی وزارتِ بجلی سمیت تمام اداروں سے بالا تر ہے اور بجلی کے تمام معاملات طے کرتا ہے۔ اس کی اپنی وضع کردہ تعریف کے مطابق ”یہ ایسا تنظیمی ڈھانچہ مہیا کرےگا جو پاکستانی صارفین کو قابل اعتماد ، محفوظ اور مناسب قیمت پر بجلی میسر کرنے کا انتظام کرےگا “
آ پکا کیا خیال ہے کہ اتنے اہم اور ٹیکنیکل ادارے کا سربراہ کون ہے؟
ایک بار پھر اپنے ذہن میں یہ بات جاگزین کر لیجیے کہ یہ ادارہ پورے ملک کی بجلی کا مائی باپ ہے۔ بجلی پیدا کرنےوالی کمپنیوں کو کنٹرول کرنا، قوانین بنانا ،ان قوانین پر عمل کرانا ، بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانا اور قیمت کو متوازن رکھنا ۔ یہ سب اس ادارے کا یعنی نیپرا کا کام ہے۔
آپ کہیں گے کہ اس ادارے کا سربراہ یقینا کوئی انجینیر ہو گا جو بجلی کے سارے تکنیکی معاملات کا ماہر ہو گا۔ اس ٹیکنو کریٹ کی ساری زندگی بجلی کے امور سر کرنے میں گذری ہو گی اور وہ یقینا اتنا علم اور تجربہ رکھتا ہو گا کہ رینٹل پاور منصوبے چلانے والے خرّانٹ انجینئروں اور سائنسدانوں سے معاملات مہارت سے طے کرے!
کاش ایسا ہوتا !
 لیکن ایسا نہیں ہے۔
 آپ کا اندازہ سراسر غلط ہے۔ آپ بھول گئے ہیں کہ آپ کس ملک میں رہ رہے ہیں۔ یہ وہ ملک نہیں جو امانتوں کو انکے سپرد کرے جو انکے اہل ہیں۔ یہاں تو مناصب ان کو دیے جاتے ہیں جو نہ صرف نا اہل ہیں بلکہ متعلقہ شعبے سے کوئی سروکار ہی نہیں رکھتے۔
نیپرا کا سربراہ ایک ایسا شخص ہے جس نے زندگی نوکرشاہی میں گذاری۔ یہ صاحب پلاسٹک کے وزیراعظم شوکت عزیز کے سیکرٹری تھے۔ شوکت عزیز کے ذاتی معاون ہونے کے ناطے اختیارات انکے سامنے بچھے ہوئے تھے۔ ریٹائر ہونے کا وقت آیا تو ان صاحب نے اپنے آپ کو ورلڈ بنک میں تعینات کرا دیا ۔ اتنے میں پیپلز پارٹی کی حکومت آگئی اور ورلڈ بنک کی اُس گھی سے چُپڑی پوسٹ پر کسی اور کو بھیج دیا گیا۔ یہ صاحب نیپرا کے سربراہ بن گئے۔ مقصد یہ نہیں تھا کہ نیپرا چلے اور بجلی کے مسائل حل ہوں۔ مقصد یہ تھا کہ ریٹائر ہو کر بھی یہ پانچ سال کیلئے ٹیکس دہندگان کے خرچے پر پرورش پاتے رہیں۔ اہل پاکستان گرانی کے سیلاب میں غوطے کھا رہے ہیں۔ بجلی ناپید ہے۔ کئی کئی گھنٹے شہر ،قصبے اور گاوں اندھیروں میں ڈوبے رہتے ہیں اور بجلی کے ادارے ، یعنی نیپرا ، کا سربراہ وہ شخص ہے جس کا اس شعبے سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ کیا ٹیکس دینے والے عوام کو بتایا جائےگا کہ نیپرا کے سربراہ کو اب تک خزانے سے کتنی رقم بطور تنخواہ، اور کتنی رقم بطور سفر خرچ ادا کی گئی ہے؟ کیا کیا مراعات مل چکی ہیں اور بدستور مل رہی ہیں؟ اور انکی وہ کون سی اہلیت اور خصوصیت تھی جس کی بنیاد پر اس ٹیکنیکل اسامی پر انہیں تعینات کیا گیا؟
اب آئیے مچھر کی اُن ”صفات “ کی طرف جو ہم نے اس تحریر کے آغاز میں بیان کی ہیں۔ اگر آپ غور کریں اور انصاف سے کام لیں تو یہ ساری صفات آپ کو نوکرشاہی میں ملیں گی۔جی۔ او ۔ آر کے کئی کئی ایکڑوں پر مشتمل محلات میں مستقل رہنے والے اور ریٹائر ہو کر بھی پانچ پانچ سال جونک کی طرح ریاست کا خون پینے والے نوکر شاہی کے ان اہلکاروں کو غورسے دیکھیے۔ انکے دہانوں میں اڑتالیس اڑتالیس دانت ہیں۔ انکے ایک ایک نتھنے میں چھ چھ چاقو ہیں۔ یہ انسانی کھال کو خوب پہچانتے ہیں اور اس کھال کو اتارنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انکے جسموں کے اندر خون ٹیسٹ کرنے کی جدید ترین مشینیں نصب ہیں جن کی مدد سے یہ اپنی پسند کا خون پیتے ہیں۔ میٹھا ، گاڑھا اور لذیذ خون ! کوئی نیپرا میں بیٹھا ہے ، کوئی پیمرا میں بھنبھنا رہا ہے، کوئی زندگی کے آخری سانس تک اسلام آباد کے حکومت خانوں میں بیٹھ کر اپنی ”مہارت “ کو ”استعمال“ کرنا چاہتا ہے اور کچھ پیرانِ تسمہ پا لاہور اور کراچی کے بابو خانوں میں  بےزبان ٹیکس دہندگان کی گردنوں پر بیٹھے بیٹھے ملکِ عدم کو سدھارنا چاہتے ہیں۔ ان کا بس چلے تو قبروں کے اندر میز کرسیاں لگوا لیں !
ان   موذیوں پہ  قہرِ الٰہی  کی شکل  میں
نمرود سا بھی خانہ خراب آئے تو ہے کم
اسی لیے تو یہ ملک ایڑیاں رگڑرہا ہے۔ بین الاقوامی حوالے سے ہم پستی کی اُس انتہا پر پہنچ چکے ہیں کہ آئے دن ہماری عزت نیلام ہو رہی ہے۔ ابھی چند دن پہلے جاپانی سرمایہ کاروں نے ہمارے رخساروں پر زنّاٹے کا تھپڑ رسید کیا ہے۔ پاکستان نے انہیں کراچی میں دو ہزار ایکڑ پر مشتمل معاشی زون کی پیشکش کی تھی لیکن اسے مسترد کرتے ہوئے وہ بھارت پہنچ گئے ہیں جہاں وہ چھ بڑے شہروں میں کاروبار کرینگے۔ دو سال میں جاپان کی پاکستان میں سرمایہ کاری131 ملین ڈالر سے کم ہو کر 26 ڈالر رہ گئی ہے۔ پانی گیس بجلی کا بحران، انفرا سٹرکچر کا نہ ہونا اور بے پناہ کرپشن ! ایسے میں سرمایہ کاری وہی کرےگا جو اندھا بھی ہو اور بہرا بھی۔ جاپان کو تو چھوڑیے اُس پاکستانی کا عزم صمیم دیکھیے جس نے بریڈ فورڈ میں اعلان کیا ہے کہ اب وہ کبھی بھی پاکستان نہیں آئےگا۔ وہ اپنے ملک آیا تھا کہ راولپنڈی سے اسے اغوا کر لیا گیا۔ بیس دن تک اسے زنجیروں سے باندھ کر رکھا گیا اور پندرہ ہزار پائونڈ لے کر چھوڑا گیا۔ اگر پولیس کا کام صرف حکمرانوں کا باڈی گارڈ بننا ہے تو اغوا کنندگان تاوان دے کر ہی چھوٹیں گے !
 اڑتالیس اڑتالیس نوکیلے دانت،
 چھ چھ چاقو اور پسند کا خون تلاش کرنے کیلئے دہانوں کے اندر لیبارٹریاں !
چھتوں پر چڑھ کر اذانیں دینے کا وقت ہے۔
 

powered by worldwanders.com