Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, September 27, 2011

انوری کا گھر کہاں ہے؟

مشہور شاعر انوری نے کہا تھا کہ ہر بلا آسمان سے اترتے ہوئے میرے گھر کا پتہ پوچھتی ہے۔ لگتا ہے انوری بیچارے کا گھر بھی پاکستان جیسا تھا۔ جب بھی شمعِ حوادث کی لَو تھرتھراتی ہے مصیبتوں کا ایک نیا سلسلہ پاکستان پر ٹوٹتا ہے۔ غریب کی جورو.... طالبان کا زور بھی پاکستان پر ہے، امریکہ بھی اپنی شکست کا غصہ پاکستان پر اتارنا چاہتا ہے۔ کرپٹ انسانوں کا ایک مکروہ طائفہ لوٹ کھسوٹ کے مال سے دنیا بھر میں جائیدادیں خرید رہا ہے، کارخانے لگا رہا ہے اور بنکوں کی تجوریاں بھر رہا ہے، طبقہء علماءکے بڑے حصے کو  بھی اقتدار کا ذائقہ راس آگیا ہے!
آپ پاکستان اور اہل پاکستان کی بدقسمتی کا اندازہ لگائیے کہ پرویز مشرف جیسے شخص میں بھی یہ حوصلہ ہے کہ وہ برملا پاکستان واپس آکر اقتدار سنبھالنے کا دعویٰ کر رہا ہے اور اس سے بھی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اس نے عمران خان کو اپنا حلیف قرار دیا ہے۔ کہا تو اس نے یہ بھی ہے کہ ایم کیو ایم بھی اس کا ساتھ دے گی لیکن ایم کیو ایم کے ماضی اور ہر لحظہ موقف بدلتے حال کے پیش نظر، اس کا پرویز مشرف کی حمایت کرنا حیرت انگیز بالکل نہیں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ پرویز مشرف نے عمران خان کو بھی اپنا حلیف ظاہر کیا ہے اور اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ عمران خان نے (تادم ایں تحریر) اس کی کوئی تردید نہیں کی۔ گویا خاموشی نیم رضا!
پرویز مشرف 8 سال تک اس مجبور، مظلوم اور مقہور قوم کی گردن پر پیرِ تسمہ پا کی طرح سوار رہے، شام اور شب کے ”مشاغل“ کا خرچ قومی خزانے سے چلتا رہا، کراچی جب بھی جاتے، شاہراہیں بند ہونے کی وجہ سے اموات واقع ہوتیں اور سکولوں کے بچے رات تک پھنسے رہتے اور کراچی کے ٹھیکیدار چوں تک نہ کرتے۔ پرویز مشرف نے 8 سال شہنشاہوں کی طرح گزارے، مزے سے ٹینس کھیلتے رہے، چار چار لاکھ کے سوٹ پہن کر دنیا کی سیر کرتے رہے، ریس کھیلنے والے قمار باز سرکاری بابوﺅں کو ملک کی تقدیر سے کھیلنے پر مامور کئے رکھا اور اعصاب کی مضبوطی دیکھئے کہ اب پاکستان واپسی پر ایک لاکھ افراد کے استقبال کی توقع کر رہے ہیں۔ قوم کے احسانات کا بدلہ چکانے کا یہ طریقہ خوب ہے کہ ایک بار پھر قوم پر سواری کی جائے۔ خیر، احسان فراموشی کا تو یہ عالم ہے کہ موصوف نے ایک بار بھی میاں نواز شریف کے اس احسان کا ذکر تک نہیں کیا کہ انہوں نے میرٹ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسے آرمی چیف بنایا حالانکہ ڈاکٹر قدیر خان کہتے ہیں کہ انہوں نے پرویز مشرف کی ”نیک نام“ شہرت کے پیش نظر (غالباً بڑے میاں صاحب مرحوم کے ذریعے) منع کیا تھا۔ پرویز مشرف نے نواز شریف کے اس احسان کا شکریہ ادا کیا نہ نواز شریف ہی نے قوم سے آج تک اس جرم کی معافی مانگی کہ انہوں نے جانتے بوجھتے، لوگوں کے منع کرنے کے باوجود، میرٹ کُشی کر کے پرویز مشرف کو عالمِ اسلام کی سب سے بڑی فوج کا سالار مقرر کیا حالانکہ پرویز مشرف کے ”مشاغل“ اور ”روز و شب“ کا چرچا اس وقت بھی چار دانگِ عالم میں تھا!
آپ اس قوم کی بدقسمتی کا اندازہ لگائیے کیسے کیسے لوگ کیا کیا لبادے اوڑھ کر اسکی"" خدمت"" کر رہے ہیں۔ پرویز مشرف سے حال ہی میں کسی پاکستانی صحافی نے پاکستان کی ایک مذہبی سیاسی جماعت کے سابق رہنما کے بارے میں پوچھا اور اس نے یہ کہا کہ میں ان سے نہیں ملا تو اس سابق رہنما نے (جو بہرحال کسی نہ کسی طرح، ریٹائرمنٹ کے باوجود ”اِن“ رہنا چاہتے ہیں) ایک اخبار میں زور و شور سے مضمون لکھ کر پرویز مشرف کو یاد دلایا کہ میں تو آپکے اقتدار کے اوائل میں آپ کو اڑھائی اڑھائی گھنٹے تک ملا تھا۔ یہ سابق رہنما ترکی اور عرب دنیا سے لےکر، پرویز مشرف تک ہر موضوع پر لکھتے ہیں لیکن حسرت ہی رہی کہ انکی کوئی تحریر پاکستان کے عوام کے مسائل پر بھی نظر آ جائے۔ یوں لگتا ہے کہ جاگیردارانہ نظام، ملکیت زمین کے فرسودہ ڈھانچے ،تعلیمی نظام اور عوام کی معاشی بدحالی پر لکھنا قابل دست اندازیء  پولیس ہے!
”جمہوریت پسندی“ کا یہ عالم ہے کہ پرویز مشرف نے جب جمہوریت پر شب خون مار کر منتخب وزیراعظم کو قید کر دیا تو یہ سابق رہنما پرویز مشرف کو اسکے محل میں تنہا ملے یعنی اپنی  جماعت کا کوئی فرد بھی ساتھ لے جانا مناسب نہ سمجھا۔خود لکھتے ہیں....”میں وزیراعظم ہاﺅس کے اسی میٹنگ روم میں اکیلا بیٹھا ہوا چیف آف آرمی سٹاف ا ور ان دنوں چیف ایگزیکٹو پرویز مشرف کی آمد کا منتظر تھا“۔
اس خفیہ ملاقات کا ذکر جماعت کے سابق رہنما اب بھی نہ کرتے‘ وہ تو پرویز مشرف نے کہہ دیا کہ میں ان سے نہیں ملا تو انہیں اس ملاقات کا ذکر کرنا پڑا تاکہ یہ ثابت ہو جائے کہ وہ تو اس سے ملے تھے! ورنہ دس سال تک یہ طویل ملاقات پردہ راز میں رہی اس لئے کہ ا نکے اپنے الفاظ میں ”میٹنگ کے اختتام پر باہر نکلتے ہوئے انہوں نے (یعنی پرویز مشرف نے) دبی آواز میں خواہش ظاہر کی کہ میں پریس میں اس کا ذکر نہ کروں۔ اس ملاقات کو اب دس سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے“۔
اس خفیہ ملاقات کا سبب بھی سابق رہنما خود ہی بتاتے ہیں۔”جب انکی ٹیم کےساتھ مذاکرات کے دوران ہم نے ان سے فوجی عہدہ ترک کرنے کا مطالبہ کیا تو انکی ٹیم نے کہا کہ تم خود ان سے مل کر بات کرو “۔ سیاق و سباق سے یہ تاثر واضح ہے کہ ”ٹیم کےساتھ مذاکرات“ یہ سابق رہنما تنہا نہیں کر رہے تھے۔ اور لوگ بھی ہوں گے لیکن جب پرویز مشرف کی ٹیم نے کہا کہ تم خود ان سے مل کر بات کرو تو یہ تن تنہا ہی ملاقات کیلئے محل میں پہنچے، اکیلے بیٹھ کر ”چیف ایگزیکٹو“ کی آمد کا انتظار کرتے رہے اور اڑھائی کھنٹے تک ”ملاقات“ کرتے رہے۔ یہ سابق رہنما اقبال کے اشعار بہت سناتے ہیں۔ اقبال نے تو یہ بھی کہا تھا ....
قوموں کی تقدیر وہ مرد درویش
جس نے نہ ڈھونڈی سلطاں کی درگاہ
اگر پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے کا خفیف سا امکان بھی ہے تو اسے یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ میں تو آپ سے ملا تھا۔ یوں بھی اگرمنتخب اداروں کےلئے خواتین کی نامزدگی کا وقت آئے تو اپنی لخت جگر کو نامزد کرنا عین جمہوریت ہے حالانکہ  جماعت میں ایسی ایسی خواتین موجود ہیں جنہوں نے ساری زندگی دین کی جدوجہد میں گزار دی اور اب بھی فقیری اور مسلسل خدمت اور دعوت و تبلیغ میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں لیکن  جماعت کے ارباب قضا وقدر کی نظر جب بھی پڑی اپنے ہی کنبوں پر پڑی۔
سادہ لوح اور مخلص ارکان پر مشتمل اس مذہبی سیاسی  جماعت کے رہنماﺅں کی رفاقت لشکریوں کے ساتھ قدیم ہے۔ یحییٰ خان کے زمانے میں مشرقی پاکستان کی قتل و غارت میں جرنیلوں کا ساتھ دیا۔ ضیاءالحق کے پورے دور میں یک جان دو قالب رہے اور ماموں بھانجا جالندھری نیٹ ورک پر کھل کر کھیلے۔ پرویز مشرف کو سترھویں ترمیم پلیٹ میں رکھ کر پیش کی جو اب تاریخ کا حصہ ہے۔ اس پرانی رفاقت پر ایک معتبر صحافی نے بھی گواہی دی ہے۔ ہوا یوں کہ اس سابق رہنما نے کچھ عرصہ قبل ایک تھنک ٹینک نما مجلس برپا کی۔ صحافی اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں....”اگلے روز اخبارات میں جو تصویر شائع ہوئی اس میں ان کے ساتھ ریٹائرڈ جرنیل ہی نظر آ رہے تھے تصویر دیکھ کر میری زبان پر یہ شعر آیا کہ.... میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب۔ اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں۔ ساتھ بیٹھے ہوئے ایک صاحب ادراک بولے میر ہرگز سادہ نہیں۔ پچاس سالہ رفاقت ہے۔ میر ا ور عطار کا ایک دوسرے کے بغیر وقت ہی نہیں گزرتا“۔
بات پرویز مشرف کے دوبارہ اقتدار میں آنے کی خواہش سے چلی تھی۔ پاکستان بھی انوری کا گھر بن گیا ہے
ہر بلائی     کز آسمان آید
گرچہ بردیگری قضا باشد
برزمین نارسیدہ می پرسد
خانہء  انوری    کجا باشد
یعنی جو بلا بھی آسمان سے اترتی ہے۔ راستے ہی میں پوچھنے لگتی ہے کہ انوری کا گھر کہاں ہے؟

Tuesday, September 20, 2011

میں پرتھ یونیورسٹی سے متاثر کیوں نہیں ہوا؟

اٹھانوے برس پہلے جب یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کا پرتھ میں آغاز ہوا تو اُسکے طلبہ کی تعداد صرف 184تھی۔ یونیورسٹی کی عمارت کیا تھی، دیواریں لکڑی کی تھیں اور چھتیں ٹین کی چادروں کی تھیں۔ یونیورسٹی کی قسمت اچھی تھی۔ علی گڑھ یونیورسٹی کی طرح پرتھ یونیورسٹی کو بھی ایک سرسید میسر آگیا۔ اس کا نام وِن تھراپ تھا۔ سَر جان ونتھراپ روزنامہ ویسٹ آسٹریلیا کا مالک اور مدیر تھا۔ اس نے یونیورسٹی کےلئے دن رات ایک کر دئیے۔ یہ بانی چانسلر بھی تھا۔ اس نے اپنی جیب سے سوا چار لاکھ پاﺅنڈ کا عطیہ دیا جو آج کے تین کروڑ ڈالر بنتے ہیں! آج یونیورسٹی کے طلبہ کی تعداد اکیس ہزار ہے جن میں تقریباً پانچ ہزار غیر ملکی ہیں۔ اساتذہ کی تعداد ایک ہزار چار سو ہے لیکن یونیورسٹی کی وجہ شہرت تحقیق اور تحقیقی کام کی تربیت ہے۔ آسٹریلیا میں تحقیق کے حوالے سے یونیورسٹی دوسرے نمبر پر ہے۔

مجھے گذشتہ ہفتے یونیورسٹی میں منعقد کی جانےوالی کانفرنس اور سمپوزیم کےلئے مدعو کیا گیا تھا۔ یہ سرگرمیاں تین دنوں پر محیط تھیں۔ کانفرنس نائن الیون کے حوالے سے تھی اور سمپوزیم آسٹریلیا کے مسلمانوں کے مسائل کے بارے میں تھا جس میں اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی تھی۔ ملائیشیا سے سابق وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر کی بیٹی مرینہ مہاتیر آئی ہوئی تھیں اور کینبرا سے فارسی کی ایرانی پروفیسر ڈاکٹر زہرہ طاہری بھی تھیں۔ زہرہ کو دیوان حافظ ازبر ہے۔ کوئی شعر پڑھا جائے، پوری غزل سنا دیتی ہیں۔ خدا میرے والد گرامی کی لحد پر نور کی بارش کرے، میری فارسی کی گفتگو سن کر پوچھنے لگیں ”ایران میں رہے ہو؟“ میں نے جواب دیا کہ ہاں! لیکن یہ ایران میرے گھر میں تھا!
کانفرنس سے جب امریکی خاتون علیشہ نے خطاب کیا جو پرتھ میں امریکی کونسلر ہیں تو ردِعمل دیکھ کر حیرت ہوئی۔ سب سے زیادہ سوالات عراق اور افغانستان پر امریکی حملے کے بارے میں تھے اور سوالات کرنےوالے سب سفید فام اور غیر مسلم تھے۔ کیا عراق اور افغانستان نائن الیون کے ذمہ دار تھے؟ اب تک دونوں ملکوں میں کتنے لوگ ہلاک ہو چکے ہیں؟ امریکی پالیسیوں کا کیا جواز ہے؟ امریکہ نے نائن الیون کے ردِعمل میں جو کچھ کیا، کیا آج دنیا اسکی وجہ سے زیادہ محفوظ ہے یا زیادہ خطرناک؟ امریکی کونسلر کے پاس ان سوالات کا کوئی جواب نہیں تھا سوائے اسکے کہ وہ گفتگو کو اِدھر اُدھر لے جاتی تھی۔ مرینہ مہاتیر کی لکھی ہوئی تقریر، اعتدال اور حسنِ بیان کی خوبصورتی سے لبریز تھی۔ اس نے امریکہ پر بھرپور تنقید کی اور شائستگی سے کی۔ ملائیشیا میں اسلام اور مسلمانوں کے حال اور مستقبل پر اس نے سوالوں کے جواب حیران کن مہارت اور علم سے دئیے۔ اُس شام جب ایک چرچ میں تینوں مذاہب کے لوگ اکٹھے ہوئے اور مسلمان عالمِ دین جب کلامِ پاک کی تلاوت کر رہے تھے تو میرے ساتھ بیٹھی ہوئی مرینہ مہاتیر رو رہی تھیں۔ پوچھا تو کہنے لگیں میں نے زندگی میں پہلی دفعہ چرچ میں قرآن پاک کی تلاوت سنی اس لئے جذبات پر قابو نہ رکھ سکی۔
تین دن کے قیام میں سب سے زیادہ جس چیز نے متاثر کیا وہ یونیورسٹی کی مجموعی فضا تھی۔ علم، متانت، برداشت، بے خوفی، شائستگی، دھیما پن، یہ اِس فضا کے اجزا تھے۔ میں نے کسی طالب علم کو بلند آواز میں بات کرتے ہوئے، کسی کو چیخ کر بلاتے ہوئے، کسی سے مذاق میں بھی ہاتھا پائی کرتے ہوئے اور کیفے اور کینٹین میں ہنگامہ برپا کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ سمپوزیم میں جب آسٹریلوی مسلمانوں کے مسائل پر بحث مباحثہ ہوا تو سوال کرنےوالے طلبہ کا ڈسپلن قابلِ دید تھا۔ ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ دو طلبہ بیک وقت بولے ہوں۔ اِن دنوں نقاب پر پابندی کا موضوع پورے ملک میں زیر بحث ہے۔ کئی غیر مسلم طلبہ نے پابندی کی مخالفت کی کہ یہ ذاتی پسند پر قدغن لگانے والی بات ہے۔ اکثر مسلمان طالبات کی رائے یہ تھی کہ مسلمان علما چہرہ چھپانے پر متفق نہیں ہیں۔ اور یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے اس لئے نقاب پر پابندی کی مخالفت ہم اسلام کے حوالے سے نہیں بلکہ ذاتی پسند کے حوالے سے کرینگی۔ پابندی کی حمایت کرنے والوں کی دلیل یہ تھی کہ پبلک مقامات پر سیکورٹی کے لحاظ سے چھُپے ہوئے چہرے کی شناخت کس طرح ہو گی؟ یہ نکتہ بھی زیر بحث آیا کہ آخر پچپن سے زیادہ مسلمان ملکوں میں سے ایک ملک بھی ایسا کیوں نہیں جہاں مسلمان اِس طرح ہجرت کر سکیں جس طرح امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور دوسری مغربی ملکوں میں ہجرت کر رہے ہیں۔ آخر وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر کروڑوں مسلمان اِن غیر مسلم ممالک میں رہنے پر مجبور ہیں؟ یہ صرف اقتصادیات کا مسئلہ نہیں، بہت سے مسلمان اپنے اپنے ملک کو چھوڑ کر اِن ملکوں میں اس لئے آئے ہیں کہ یہاں شخصی اور مذہبی آزادی ہے، امن و امان ہے، انصاف ہے، معیارِ تعلیم بلند ہے اور زندگیاں محفوظ ہیں؟ یہ سب کچھ مسلمان ملکوں میں کیوں نہیں میسر آ رہا؟ آج آسٹریلیا میں لاکھوں ترک، لبنانی، مصری اور ایرانی آباد ہیں، انکی اپنی مسجدیں ہیں، اپنے سکول ہیں اور اپنے بازار ہیں، آخر تیل برآمد کرنےوالے امیر مسلمان ملک اپنے دروازے دوسرے مسلمانوں کےلئے اس طرح کیوں نہیں کھولتے جس طرح مغربی ملکوں نے کھولے ہوئے ہیں؟
پاکستانی نژاد ڈاکٹر ثمینہ یاسمین یونیورسٹی کے اساتذہ میں ممتاز مقام رکھتی ہیں اور اسلامی تعلیمات کے حوالے سے یہ پابندِ صوم و صلوٰة خاتون طلبہ میں اپنا حلقہ اثر رکھتی ہیں۔ لشکرِ طیبہ (جماعت الدعوة) کے ماہانہ رسالہ سے لے کر جاوید غامدی صاحب کی کتابوں تک .... سب کچھ ڈاکٹر یاسمین کے زیرِ مطالعہ ہے۔ کلکتہ میں پیدا ہونےوالی منحنی سی ڈاکٹر کرشنا سین فیکلٹی آف آرٹس کی ڈین ہیں اور انڈونیشیا کے مسلمانوں کی ثقافتی زندگی پر طویل تحقیق کر چکی ہیں۔
لیکن جب میں نے یونیورسٹی آف پرتھ کا موازنہ اپنے ملک کی یونیورسٹیوں سے کیا تو ایک کھرا اور سچا پاکستانی ہونے کے ناطے سے میں اِس یونیورسٹی سے بالکل بھی متاثر نہیں ہوا۔ مجھے پرتھ کے طلبہ پر رحم آیا۔ یہ بے چارے اتنے پِسے ہوئے ہیں کہ جلوس نکال کر امتحان کی تاریخ تک نہیں بدلوا سکتے۔ آپ آسٹریلیا کی اس دوسری بڑی یونیورسٹی کی بے بسی کا اندازہ لگائیے کہ داخلے کی تاریخ، انٹرویو کی تاریخ، امتحان کا دن، نتیجے کا اعلان، سب کچھ مقرر ہے اور ملک کا وزیراعظم بھی ایک دن کی تاخیر و تقدیم نہیں کر سکتا! یونیورسٹی کی ایک اور بدقسمتی یہ ہے کہ کسی سیاسی یا مذہبی پارٹی کا سٹوڈنٹ وِنگ یہاں موجود نہیں! کتاب میلے کے پردے میں یونیورسٹی پر کسی گروپ کا قبضہ نہیں۔ آج تک کسی پروفیسر پر حملہ نہیں ہوا نہ کسی وائس چانسلر کے دفتر کا گھیراﺅ کیا گیا۔ کسی سیاسی جماعت کے کارکن طلبہ کا روپ دھار کر کسی ہوسٹل پر قابض نہیں نہ ہوسٹلوں کے وارڈن طلبہ کے ہاتھوں میں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ کوئی جلوس ہے نہ ہڑتال، نعرے ہیں نہ کلاسوں کا بائیکاٹ، نئے طلبہ آتے ہیں تو ”رہنمائی“ کے پردے میں کوئی انہیں قابو کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ آپ اس یونیورسٹی کی بدقسمتی کا اندازہ لگائیے کہ آج تک اِسے کسی جرنیل وائس چانسلر کے نیچے زندگی گزارنے کا اعزاز حاصل نہیں ہوا۔ آج تک کوئی واقعہ ایسا نہیں ہوا کہ پولیس کو کیمپس کے کسی حصے یا کسی ہوسٹل کا محاصرہ کرنا پڑے۔ کسی سیاسی جماعت میں یہ ہمت نہیں کہ وہ اپنے حامیوں کو لیکچرر بھرتی کروائے یا مخالف لیکچراروں کو قتل کروا دے۔ اس یونیورسٹی نے ایسا کوئی سٹوڈنٹ لیڈر بھی نہیں پیدا کیا جس کی مہارت تو پراپرٹی کی خرید و فروخت میں ہو لیکن رہنما وہ سیاسی جماعت کا ہو۔ اس یونیورسٹی کے اجتماعات میں ایسے دانشور، صحافی اور اہلِ قلم بھی نہیں مدعو کئے جاتے جنہوں نے کسی یونیورسٹی میں تعلیم تو کیا حاصل کی، یونیورسٹی کی شکل بھی کبھی نہیں دیکھی۔
مجھے فخر ہے کہ یہ یونیورسٹی مجھے متاثر نہیں کر سکی۔ یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا سے میری درخواست ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے حامی ”طلبہ“ کو اس یونیورسٹی میں درآمد کیا جائے!!

Wednesday, September 07, 2011

مائینڈ سیٹ

اس کالم نگار کی جاوید ہاشمی سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی‘ ظاہر ہے کہ ایک سست الوجود اور عافیت پسند شخص کسی بھی سیاست دان سے ملنے کا شرف نہیں حاصل کر سکتا۔ سیاست دانوں کو ملنے کیلئے تو بہت دوڑ دھوپ کرنا پڑتی ہے‘ یا پھر کالم نگاری اس ”پائے“ کی ہو کہ سیاست دان خود آکر ملیں‘ وقتاً فوقتاً فون کریں اور بعض مواقع پر ڈھونڈتے بھی رہیں لیکن اس ”پائے“ کی کالم نگاری ہر کہہ و مہ نہیں کر سکتا۔ یہاں بنیادی شرط ”پائے“ کی ہے‘ مشتاق احمد یوسفی ایک جگہ لکھتے ہیں کہ یہ جو پائے کھائے جاتے ہیں‘ بکری کے یا گائے کے‘ تو ان سب میں صرف چارپائی کے پائے صاف ستھرے ہوتے ہیں۔ پائے کے حوالے سے اپنا ہی ایک شعر بھی یاد آرہا ہے....
کسی سے شام ڈھلے چھن گیا تھا پایہء تخت
کسی نے صبح ہوئی اور تخت پایا تھا
جاوید ہاشمی نے خدشے کا اظہار کیا ہے کہ چند سالوں بعد لاہور کا حال بھی کراچی جیسا نہ ہو جائے۔ جاوید ہاشمی کو اس وقت بھی پارٹی ترجمان قسم کی مخلوقات نے غیردانشمند قرار دیا تھا‘ جب اٹھارہویں ترمیم منظور ہوتے وقت اس نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر سیاسی جماعتوں میں موروثی بادشاہت کی مذمت کی تھی۔ ہو سکتا ہے لاہور کے بارے میں اسکے خدشے کو بھی تنقید یا مذاق میں اڑا دیا جائے لیکن اگر حکومت کے گردن بلندوں میں ذرا بھی وژن ہو تو ہاشمی کی یہ تنبیہہ ایک سنجیدہ مسئلے کی طرف اشارہ کرتی ہے....ع
بارہا گفتہ ام و بارِد گرمی گویم
کہ کراچی اس وقت جس سرطان کا شکار ہے‘ اسکی ایک وجہ وہاں مختلف لسانی گروہوں کی الگ الگ آبادیاں بھی ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کے کچھ حصوں سے لوگ مسلسل نقل مکانی کرتے رہتے ہیں اور وسطی پنجاب یا کراچی کی طرف یہ ہجرت جاری رہتی ہے۔ یہ رجحان کئی سو سال سے چلا آرہا ہے‘ شمالی ہندوستان میں روہیل کھنڈ اور رامپور کی ریاستیں نقل مکانی کے اسی رجحان کی وجہ سے وجود میں آئی تھیں اور ان علاقوں کے لوگ جنہیں آج اردو سپیکنگ کہا جاتا ہے‘ شروع میں ایک اور زبان بولتے تھے۔ شیرشاہ سوری جدی پشتی سہسرام کا نہیں تھا‘ اس کا خاندان نقل مکانی کرکے وہاں آباد ہوا تھا‘ نقل مکانی کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے‘ اسکے عوامل تاریخی بھی ہیں اور اقتصادی بھی‘ اسے روکا جا سکتا ہے نہ روکنا درست ہے۔ لیکن یہ تو کیا جا سکتا ہے کہ لاہور جیسے عظیم الجثہ شہر میں نقل مکانی کرکے آنیوالوں کو لسانی بنیاد پر کسی ایک جگہ یا چند مخصوص جگہوں پر آباد ہونے سے روکا جائے۔ نئے آنیوالوں کو بسانے کیلئے سائنسی بنیادوں پر حکمت عملی اور اس کا نفاذ ہونا چاہیے۔ اگر کراچی کے رہنماﺅں اور حکام میں کل وژن ہوتا تو آج وہاں لیاری یا سہراب گوٹھ جیسے علاقے ایک زبان بولنے والوں کا گڑھ نہ ہوتے۔ اس تناظر میں جاوید ہاشمی کی تنبیہہ سنجیدہ توجہ کی مستحق ہے‘ ہم اس موضوع پر تفصیل سے اظہار رائے کرتے لیکن سرطان کی جڑ اور ہے‘ ہم اس کا ذکر کرنا چاہتے ہیں۔
کل صبح اخبار پڑھ کر ہم قہقہے لگا رہے تھے کہ سب گھر والے پریشان ہو کر پوچھنے لگے کہ اخبارات پڑھ کر رویا جاتا ہے‘ تم ہنس کیوں رہے ہو اور وہ بھی اس فیاضی سے؟ چین میں ایشیائی ملکوں کی سیاسی جماعتوں کی ایک کانفرنس ہو رہی ہے‘ اس کانفرنس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے وفد کی قیادت بلاول بھٹو زرداری کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ قاف کی نمائندگی مشاہد حسین کر رہے ہیں‘ چین روانہ ہونے سے پہلے مشاہد حسین صدر پاکستان سے ملے‘ (ملاقات میں انکے ساتھ حسب معمول چودھری شجاعت بھی تھے) اخبار کی خبر کے مطابق ملاقات کے دوران جناب صدر نے مشاہد حسین کو حکم دیا (یافرمائش کی) کہ کانفرنس کے دوران وہ بلاول کی سیاسی تربیت کرنا نہ بھولیں۔ کالم نگار یہ سوچ رہا تھا کہ اگر مونس الٰہی قید میں نہ ہوتے تو کیا عجب قاف لیگ کی قیادت وہ کرتے۔ اسکے ساتھ ہی اخبار نے یہ دلچسپ خبر بھی دی کہ مشاہد حسین کے فرزند ارجمند بھی کانفرنس میں ان کا ساتھ دینگے۔ یہاں کئی سوال پیدا ہوتے ہیں اور کئی زاویے سامنے آتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ پیپلز پارٹی کے وفد میں جہانگیر بدر جیسے رہنماءبھی شامل ہیں‘ جنہوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں‘ کوڑے کھائے لیکن پارٹی سے اپنی وفاداری پر کوئی داغ نہ لگنے دیا۔ صدر پاکستان‘ جہانگیر بدر کو بھی تو یہ حکم دے سکتے تھے کہ نوجوان رہنماءکی تربیت کا خیال رکھیں لیکن پھر یاد آیا کہ جہانگیر بدر میں جتنی خصوصیات بھی ہوں‘ ایک چیز کا تجربہ انہیں بالکل نہیں ہے اور وہ ہے وفاداریاں بدلنا۔ ظاہر ہے تربیت وہی کر سکتا ہے جس کا تجربہ زیادہ ہو گا اور تجربہ اس کا زیادہ ہو گا جس نے ”مختلف“ حالات میں کام کیا ہو گا۔ پہلے نوازشریف کے ساتھ‘ پھر پرویز مشرف کے ساتھ اور پھر آصف علی زرداری کے ساتھ۔ یہاں ایک سوال یہ بھی ذہن میں اٹھتا ہے کہ کیا قاف لیگ کے نوخیز سیاسی رہنماﺅں کی تربیت کا کام بھی بزرگوں نے شاہ صاحب ہی کے سپرد کیا تھا؟ اس موضوع پر بھی ہم خواہش کے باوصف زیادہ نہیں لکھ رہے کیونکہ سرطان کی جڑ اور ہے اور ہم اس کا ذکر کرنا چاہتے ہیں۔
یہ 29 اگست کا واقعہ ہے‘ یعنی آج سے آٹھ دن پہلے کا۔ دارالحکومت کے ہوائی اڈے سے قومی ایئرلائن کی پرواز دن کے تین بجے کراچی کیلئے روانہ ہونا تھی‘ ساری تیاری مکمل تھی‘ بریفنگ ہو چکی تھی کہ جہاز کے عملے کو ایک وفاقی وزیر کے عملے کا حکم پہنچا کہ جب تک وزیر موصوف نہیں پہنچتے‘ پرواز کو روانہ نہ کیا جائے۔ اسکے ساتھ دوسرا حکم یہ تھا کہ تاخیر کا سبب سیکورٹی کا مسئلہ قرار دیا جائے‘ طیارہ رکا رہا‘ مسافر انتظار کرتے رہے‘ یہاں تک کہ وزیر صاحب پہنچے اور جہاز تین بجے کے بجائے ساڑھے تین بجے روانہ ہوا۔
یہ ہے وہ اصل سرطان جو اس ملک کو چاٹ رہا ہے اور سرطان پھیلانے والے وہ لوگ ہیں‘ جو کندھے اچکا کر کہہ دیتے ہیں کہ کوئی بات نہیں۔ یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں۔ یہ مسئلہ اس لئے بڑا ہے کہ اس سے ذہنی سطح کا‘ سوچ کا اور مائنڈ سیٹ کا پتہ چلتا ہے۔ اہل پاکستان کو جو چند بڑی بیماریاں لاحق ہیں‘ ان میں سے ایک بڑی بیماری یہی ہے۔ آپ نے بہت دفعہ دیکھا ہو گا کہ جہاں بھی ٹریفک کا حادثہ ہو‘ آناً فاناً لوگ جمع ہو جاتے ہیں اور جس کی غلطی ہو‘ فوراً اس کا دفاع شروع کر دیتے ہیں۔ سب سے بڑی دلیل یہی ہوتی ہے کہ کوئی بات نہیں‘ ایسا ہو جاتا ہے۔ آپ کسی ترقی یافتہ ملک میں جا کر دیکھیں‘ چھوٹی سے چھوٹی قانون شکنی کا دفاع بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ صرف یہاں ہوتا ہے‘ ہمارے ایک دوست کے بھائی کو ڈاکٹر نے پرانی دوائیں دیں‘ اس کا انتقال ہو گیا‘ ڈاکٹر کی ایک ہی دلیل تھی کہ تقدیر میں یہی لکھا تھا۔ پورا محلہ غم زدہ خاندان کو سمجھانے آگیا کہ مقدمہ نہ کریں۔ تقدیر میں یہی لکھا تھا۔ اگر ڈاکٹر صاحب کو ہر جانے میں ایک کروڑ روپیہ دینا پڑتا تو پاکستان میں کوئی ڈاکٹر اگلے دس سال تک اتنی ظالمانہ لاپروائی نہ کرتا۔ یہ رویہ جب منتخب اداروں اور سرکاری محلات میں پہنچتا ہے تو اس کا نقصان بھی اسی حساب سے کئی گنا زیادہ ہو جاتا ہے۔ سفارش سے حقداروں کی حق تلفی ہوتی ہے لیکن وزیر یا ایم این اے کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ کوئی بات نہیں۔ آخر ہم نے ووٹروں کو جواب دینا ہوتا ہے اور یہ کہ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔
دنیا کے کسی مہذب ملک میں وزیر تو کیا‘ وزیراعظم یا صدر کیلئے بھی پرواز کو لیٹ نہیں کیا جاتا۔ ایک منٹ کی تاخیر بھی ناممکن ہوتی ہے‘ اگر ایسا کیا جائے تو ایئرلائن ہر مسافر کو لاکھوں روپے کا ہرجانہ دیتی ہے‘ عدالتیں ایسے معاملات میں ملزم کمپنیوں کا جینا محال کردیتی ہیں‘ پی آئی اے یوں بھی ایک بیمار کمپنی ہے‘ جو ملک کی معیشت پر بہت بڑا بوجھ ہے۔ کھانے سے لے کر مسافروں کےساتھ برتاﺅ تک‘ ہر معاملے میں اسکی کارکردگی صفر ہے۔ یہ ان چند بدقسمت اداروں میں سے ہے‘ جس میں بھرتیاں ہمیشہ سیاسی بنیادوں پر ہوتی رہیں‘ اسکی فضائی میزبانوں کو دیکھ کر خالائیں اور دادیاں یاد آتی ہیں اور دوسرے عملے کو دیکھ کر خدا یاد آتا ہے۔ کتنی بڑی بدبختی ہے کہ خود پاکستانی پی آئی اے سے گریز کرتے ہیں‘ اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہر جہاز تاخیر سے روانہ ہوتا ہے اور اگلی منزل پر مربوط (Connected) پرواز چھوٹ جاتی ہے۔
پی آئی اے نے اگر اپنے آپ کو اس شرمناک اور عبرتناک صورتحال سے نکالنا ہے تو آغاز اسی واقعہ سے کرے اور وزیر صاحب کے عملے کا فون سن کر جن لوگوں نے پرواز کو موخر کیا‘ انہیں نشانِ عبرت بنائے ورنہ یہ کہنا بے محل نہ ہو گا کہ یہ نام نہاد قومی ایئرلائن ہماری پست سوچ کا نشان ہے۔
 

powered by worldwanders.com