Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, April 26, 2011

یہ سب بھی معافی مانگیں

جاوید ہاشمی کی تقریر سے جتنی گرد بیٹھی، اتنی ہی اُڑی، صادق نسیم مرحوم کے بقول

وہ میرا شعلہ جبیں موجہ ہَوا کی طرح

دیے بُجھا بھی گیا اور دیے جلا بھی گیا

اُس نے درست کہا کہ باہر پیسہ رکھنے والے خود کو قوم کا لیڈر نہ کہیں۔ اس سے بحی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر دس ارب روپے سے صرف رائے ونڈ روڈ بنی تو باقی علاقوں کے لئے ترقّی کی رقم کہاں سے آئے گی ؟عمران کی ساری باتیں درست ہیں لیکن اُس نے صرف سیاست دانوں کو معافی مانگنے کا کہہ کر .... نادانستہ .... اُن ”معزز“ لوگوں کو محفوظ راستہ دے دیا جو قوم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کر سکتے! اس کالم نگار کو سیاست دانوں سے کبھی حسنِ ظن نہیں رہا۔ اُنکا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ وہ اپنے آپکو قانون سے بالاتر گردانتے ہیں لیکن بات وہ کرنی چاہیے جو سچی ہو اور انصاف پر مبنی ہو۔

جاوید ہاشمی آمروں کا ساتھ دینے پر صرف سیاست دانوں پر کیوں گرفت کر رہے ہیں؟ صرف سیاست دان کیوں معافی مانگیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے شروع کے تین سالوں میں سیاست دان نہیں بلکہ غیر سیاست دان اُسکے ساتھ وابستہ تھے؟ آخر وہ پردہ نشین سامنے کیوں نہیں لائے جاتے اور اُنہیں معافی مانگنے کا کیوں نہیں کہا جاتا؟ سب سے بڑا ملزم تو پلاسٹک کا وزیراعظم شوکت عزیز ہے۔ اُسے واپس کیوں نہیں لایا جاتا؟ جاوید ہاشمی کا بڑا پن ہے کہ وہ ”ضیاالحق کابینہ کا حصہ بننے پر“ عوام اور ایوان سے معافی مانگ رہا ہے لیکن وہ لوگ جو آمریت کےلئے آکسیجن کا کردار ادا کرتے رہے، قوم سے معافی کیوں نہیں مانگتے؟ پوری قوم کو معلوم ہے کہ وہ کون سے صحافی  تھے جو فوجی آمروں کے کراماً کاتبین بنے رہے اور وزارتوں اور سفارتوں کے فیصلے کرتے اور کراتے رہے۔ کسی آمر کو بیورو کریٹ ملے اور ”عشرہ ترقی“ کے مشورے دیتے رہے۔ عشرے منانے سے ملک مضبوط ہوتے تو مشرقی پاکستان الگ نہ ہوتا۔کسی آمر کو صحافیوں نے گھیرے میں لے لیا، گیارہ سال تک مرضی کے فیصلے کراتے رہے اور ان گنت فائدے اٹھاتے رہے۔مجیب الرحان شامی صاحب نے تو خود  اعتراف کیا ہے کہ""جاوید ہاشمی کے لئے وزارت میں میری کوشش کا سو فی صد دخل تھا ""  کیا ہی اچھا ہو کہ جاوید ہاشمی ان حضرات کو بھی معافی مانگنے کا کہیں! پنجابی ماہیے کےمطابق جو لوگ خالص کھانڈ کے بنے ہوئے سفید مکھانے اور بتاشے کھاتے رہے، وہ اب سامنے تو آئیں! پاکستان کے جن سترہ امیر ترین افراد کے نام انٹرنیٹ پر پوری دنیا نے دیکھے اور آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں ان میں سیاست دانوں کے علاوہ دوسرے لوگ بھی تو ہیں! ان میں ہر طرح کے سرکاری ملازم بھی ہیں اور وہ بھی جن کی بے پناہ دولت کے ڈانڈے کسی نہ کسی اوجڑی کیمپ سے جا ملتے ہیں۔

اہل سیاست سے ماورا بھی تو دیکھئے۔ وہ جس کے چودہ محلات بنے تھے وہ سیاست دان تو نہیں تھا۔ ایسے ایسے ”فقرا“ بھی ہو گزرے ہیں جنہوں نے زرِ خالص سے بنے ہوئے جوتے بیٹی کو شادی پر تحفے میں دیے۔ ایک اور صاحب جن کی سفارت کے کاغذات ایک مغربی ملک نے یکسر نامنظور کر دیے تھے اور جو اس ملک کے کھرب پتیوں میں سرفہرست تھے سیاست دان تو نہیں تھے۔

یونس حبیب اور مہران بنک معاملے کے بانی مبانی بھی سیاستدان  نہیں تھے۔ ہمارے اہل سیاست اگر عقل اور علم رکھتے اور تھانے کچہری سے ذہنی طور پر باہر نکلتے تو اپنا کیس لڑتے اور اہل وطن کو بتاتے کہ پس پردہ رہ کر سب کچھ کرنےوالے کون تھے اور کیا تھے لیکن افسوس! اہل سیاست میں اتنا شعور ہی نہیں!
 زرداری سے لےکر نواز شریف تک، پرویز الٰہی سے لےکر یوسف رضا گیلانی اور شیخ رشید تک .... اکثر و بیشتر سیاستدانوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، لیکن وہ جو نقاب اوڑھ کر بادشاہتیں کرتے ہیں اور کرتے رہے ہیں، ہمیشہ بچ جاتے ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ وہ غیر سیاستدان....جنکے پاس اتنا ہی، یا اس سے بھی زیادہ مال و دولت ہے، انہیں کوئی نہیں پوچھتا!

سیاست دان فرشتے نہیں، انکے گناہ ریت کے ذروں سے زیادہ ہیں، لیکن بات سچی کرنی چاہیے اور اصول یہ نہیں ہونا چاہیے کہ رسی اُس کے گلے میں ڈال دو جس کے گلے میں فِٹ آ رہی ہے، اور دوسروں کو چھوڑ دو۔ لیاقت علی خان سے لےکر بھٹو اور بے نظیر تک سیاست دان ہی خون میں نہاتے رہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ مجرم کون تھے اور کون ہیں اور اس غریب ملک میں کس معیارِ زندگی سے لطف اندوز ہوتے رہے اور ہو رہے ہیں! آج یہ ملک جس صورتحال سے دوچار ہے اُسکے ذمہ داروں کا تعین دیانت داری سے کرنا ہو گا۔ سیاست دان اپنے جرائم کا انکار نہیں کر سکتے۔ لیکن سوچنے کی بات ہے پالیسیاں کون بناتا رہا اور کون بنواتا رہا؟ پلاننگ کمیشن پر کن کا قبضہ رہا، وزارت خزانہ میں گزشتہ ساٹھ برس میں کن کن بزر جمہروں نے اس ملک کےلئے کھائیاں کھودیں؟ بیرون ملک تعیناتیوں کےلئے سیاست دانوں کی دہلیزوں پر کون لوگ ماتھے رگڑتے رہے اور غلط مشورے دیتے رہے۔ زراعت اور خوراک کی اہم وزارت میں کون کون لوگ کام کرتے رہے اور سال کے بیشتر دن ملک سے باہر رہتے رہے۔ دور کیوں جاتے ہیں چند دن پہلے ڈاکٹروں کے معاملے میں کون ضد پر اڑا رہا۔ نوکر شاہی کے اس جونیئر رکن کی طاقت کا کیا راز تھا؟ خلقِ خدا کیا کہتی ہے؟ پھر مرکز میں کون اصل اختیارات کا مالک تھا؟ڈاکٹروں نے کس کے پتلے جلائے اور جھولیاں پھیلا پھیلا کر کس کو بددعائیں دیں؟ ریٹائرمنٹ کے بعد دس دس پندرہ پندرہ سال تک کون عیش و عشرت والی اسامیوں پر تعینات ہوتے ہیں۔ آج بھی میاں نواز شریف کن لوگوں کے حصار میں ہیں اور کس کس کے خاندان .... پردے کے پیچھے رہ کر .... بے پناہ فوائد حاصل کر رہے ہیں۔ ہمارے سیاست دانوں کی ابلہی کا یہ عالم ہے کہ وہ اُن لوگوں کی خاطر بدنامی مول لیتے ہیں جو کسی کے نہیں رہے اور نہ کسی کے ہوں گے!
ریلوے دم توڑ رہی ہے۔ واپڈا بجلی سے خالی ہو چکا ہے، پانی کی قلت بھیانک روپ دھارے سامنے آنےوالی ہے۔ کون ہیں اور کس گروہ کے ارکان ہیں جو ان سارے اداروں پر مسلط رہے، پالیسیاں بناتے رہے اور بصارت اور بصیرت سے محروم ہو کر فائل فائل کھیلتے رہے؟ آج ہم شیخ رشید کو اور محمد علی درانی کو مطعون کرتے ہیں لیکن وزارت اطلاعات میں آمر کا مستقل نمائندہ کون تھا جسے  وزیروں کے آنے اور جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا!
جن سیاستدانوں کے نام جاوید ہاشمی نے گِنوائے ہیں وہ آمروں کا ساتھ دینے پر قوم سے ضرور معافی مانگیں اور وہ سیاست دان بھی جن کے نام جاوید ہاشمی نے نہیں لئے۔ لیکن بات سچی کرنی چاہیے اور انصاف پر مبنی آمریت کا اصل سہارا وہ تھے جو اونچی پشت والی کرسیوں پر دائیں بائیں گھوم کر ہلکورے لیتے رہے، کھڑکھڑاتی پوشاکیں پہنے سیاہ و سفید کے مالک رہے اور مغلوں کے تاریک دور کے سید برادران کی طرح بادشاہ گری کرتے رہے۔ یہ سب بھی معافی مانگیں۔

3 comments:

افتخار اجمل بھوپال said...

بہت اچھے
ايک بات رہ گئی ۔ کسی خاص وقت پر خاص خبر دينے والے کون ہوتے ہيں ۔ ايک جھوٹی خبر دی جاتی ہے اور اُسے ايک دم اُچھا ديا جاتا ہے ۔ ميں صرف پنجاب کی حمائت نہيں کرنا چاہتا ليکن تازہ ترين دو خبريں پنجاب کے متعلق ہيں جو من گھڑت ہيں اور اُچھالی کئی ہيں ۔ رائے ونڈ روڈ 10 ارب روپے سے نہيں 3 ارب سے بھی کم ميں بنی تھی ۔ باقی پيسہ زيادہ تر گوجرانوالہ اور گوجرانوالہ سے لاہور کی سڑک پر خرچ ہوا ۔ گوجرانوالہ تا لاہور سڑک کا پرويز الِہی کے زمانہ ميں بةرا حال تھا ۔
جس بات کا بہانہ بنا کر کراچی والوں نے مسلم ليگ ن کے دفتر اور مسلم ليگ ن کے رہنما کے ہوٹل ميں توڑ پھوڑ کی يہ تھی کہ شہباز شريف نے کراچی کو صوبہ بنانے کا کہا ہے ۔ بات کو مروڑ ديا گيا تھا ۔ ميں نے خود وہ پريس کانفرنس ٹی وی پر ديکھی تھی
يہ سب کچھ کون کرواتا ہے ؟

Anonymous said...

I do not believe anyone has to ask for forgiveness or be repentant for their collaboration with the military rulers. Asking for forgiveness for which sin? Deviating or abolishing the constitution? Is the civilian government upholding the constitution? Are they upholding the constitution through bogus votes, fake degrees, ransacking the national coffer and their duplicity on drone attacks, a clear collusion with the US against Pakistan’s national interests? In the so called parliamentary sham democracy they have a partisan president – is any one going to ask for forgiveness for that? The military rulers may not have been a desirable lot, but can we say the current rulers are any more desirable? Who are they kidding?

Instead of repenting for their part in the military rule, the present civilian rulers and those in opposition, should all be repenting for their own poor governance that they have demonstrated during the last three years. They are digging the economic hole real deep for Pakistan from which it may never recover. They do not know the first thing about the economic management and its planning, they have taken no steps to manage the natural resources and have done nothing to improve the electric power situation. All they have done is amendments to the constitution to provide themselves additional security while they have done nothing for the security of the poor public whose sweat and blood they are living on. Can any one think of a single useful thing that these people have done for Pakistan or its people? Do they have any justification to be in power? Fraudulent votes and fake degrees hardly provide justification for them to be in the high offices. They have proved themselves to be totally unworthy of those offices. It is important that they voluntarily leave those offices and let some able, willing, competent and honest people run the country. The act of asking for forgiveness for their share in the military rule hardly has any value to the miseries of the people of Pakistan.

Javed

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

Are they upholding the constitution through bogus votes, fake degrees, ransacking the national coffer and their duplicity on drone attacks, a clear collusion with the US against Pakistan’s national interests? In the so called parliamentary sham democracy they have a partisan president – is any one going to ask for forgiveness for that? The military rulers may not have been a desirable lot, but can we say the current rulers are any more desirable?

@ Strongly agree with you.
مسئلہ یہ کہ پاکستان میں لکھنے والے عام طور پہ یک طرفہ سچ کہتے ہیں۔ اور حکومت وقت کے بارے لکھتے ہوئے پر جلتے ہیں۔

جس دن ہمیں سچ کہنے ، حق کہنے کی توفیق آگئی اس دن سے جعلی حکومتیں اپنا بوریا سمیٹ لیں گی۔

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com