Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, March 22, 2011

تم اگر خودکشی نہ کرتیں تو کیا کرتیں؟

تم ایک علامت ہو

تم صدیوں کی غلامی کی علامت ہو

تم علامت ہو اس حقیقت کی کہ جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات کے سوا کچھ  نہیں ہو سکتی

تم اگر خودکشی نہ کرتیں تو کیا کرتیں؟

تمہارے ہم وطنوں کے پاس کوئی ایسی فوج نہیں تھی جو امریکہ پر حملہ کر سکتی‘انکے پاس ایئر کرافٹ کیریر تھے‘ نہ ڈرون‘ ڈیزی کٹر بم تھے‘ نہ کیمیائی ہتھیار۔

یہ سب تو دور کی باتیں ہیں‘ تمہارے ہم وطنوں کے پاس تو کچھ بھی نہیں‘ کھاد سے لے کر چینی تک‘ گندم سے لے کر دودھ تک‘ دواﺅں سے لے کر ہر قسم کی مشینری تک‘ کار سے لے کر ریفریجریٹر تک‘ جہاز سے لے کر آبدوز تک‘ ہر شے کیلئے وہ دوسروں کے دست نگر ہیں‘ جو قوم کبھی ڈالروں کیلئے جھولی پھیلاتی ہے اور کبھی یورو کیلئے‘ وہ تمہارے لئے کیا کر سکتی تھی! اچھا ہوا تم نے خودکشی کرلی۔

تم اگر خودکشی نہ کرتیں اور زندہ رہتیں تو یقین کرو تم ایسے ایسے دکھ اٹھاتیں کہ تمہارے چاہنے والے تمہیں دیکھ کر انگاروں پر لوٹتے‘ تم اس قوم کی بیٹی ہو جس کے رہنماءچھینک اور زکام کیلئے انگریزوں کے وطن میں جاتے ہیں‘ انکے کارخانے‘ انکے محلات‘ انکی اولاد‘ سب کچھ انہی گوروں کے پاس ہے‘ جن کے ظلم اور دھاندلی کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے تم نے اپنی جان اپنے ہاتھوں سے لے لی۔ تم نے اچھا کیا‘ تمہارے رہنماءجن کے سامنے دست بستہ کھڑے ہیں‘ ان سے وہ تمہارے شوہر کے خون کا بدلہ کس طرح لیتے؟

آج جو لوگ تمہاری خون آلود قمیضکا پرچم‘ شاہراہوں پر لہرا کر ہڑتالوں اور جلوسوں میں مصروف ہیں‘ یہ وہی لوگ ہیں جو اس قوم کو ہر وعظ‘ ہر نصیحت کرتے ہیں‘ سوائے ایک بات کے کہ علوم و فنون میں ترقی کرو‘ سائنس اور ٹیکنالوجی میں آگے بڑھو تاکہ تم بھی ڈرون کے مقابلے میں ڈرون اڑا سکو‘ تمہارے پاس بھی ہوائی جہازوں سے بھرے ہوئے بحری بیڑے ہوں اور تم بھی خلا میں تیرتے سیاروں سے امریکیوں کی ایک ایک نقل و حرکت کو دیکھ سکو اور ریکارڈ کر سکو۔

جہاں تم ہماری بے بسی‘ ضعف‘ پسماندگی اور شکست کی علامت ہو‘ وہاں ریمنڈ ڈیوس ایک قوم کی برتری‘ طاقت اور ترقی کی علامت ہے‘ یہ برتری‘ یہ طاقت کئی صدیوں کی محنت شاقہ کا لازمی اور منطقی نتیجہ ہے۔ ریمنڈ ڈیوس اس حقیقت کی علامت ہے کہ جو قوم رات دن محنت کرے‘ اپنے ہاں انصاف کا نظام قائم کرے‘ ایسا انصاف کہ صدر کلنٹن کو بھی کٹہرے میں کھڑا کر دے‘ وہ قوم جو چاہتی ہے کر دکھاتی ہے۔

ریمنڈ ڈیوس ایک علامت ہے اس حقیقت کی کہ امریکیوں نے طاقت اور برتری سائنس اور ٹیکنالوجی کی وساطت سے حاصل کی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کی قوم کے تھیلے میں بہت کچھ ہے۔ عینک کا بائی فوکل شیشہ (1760ئ)‘ آٹا پیسنے کی خودمختار مشین (1787ئ)‘ ریفریجریٹر (1841ئ)‘ برقی گھنٹی (1831ئ)‘ گندم کاٹنے والی مشین (1834ئ)‘ سلائی مشین (1833ئ)‘ سرکٹ بریکر (1836ئ)‘ ٹائلٹ پیپر (1857ئ)‘ متحرک برقی سیڑھی (1859ئ)‘ ڈاک میں بھیجا جانیوالا پوسٹ کارڈ (1861ئ)‘ مشین گن (1861ئ)‘ موٹر سائیکل (1867ئ)‘ کپڑے لٹکانے والا ہینگر (1969ئ)‘ برقی پنکھا (1882ئ)‘ تھرموسٹیٹ (1883ئ)‘ ٹریکٹر (1892ئ)‘ ریڈیو (1893ئ)‘ آلہ سماعت (1902ئ)‘ ایئرکنڈیشنر (1902ئ)‘ ہوائی جہاز (1903ئ)‘ کپڑے دھونے والی برقی مشین (1908ئ)‘ ٹریفک کے برقی اشارے (1912ئ)‘ ایئر ٹریفک کنٹرول (1929ئ)‘ دھوپ کا چشمہ (1929ئ)‘ چیئر لفٹ (1936ئ)‘ نائلن (1938ئ)‘ کینسر کے علاج کیلئے کیموتھراپی (1946ئ)‘ آواز سے زیادہ تیز رفتار طیارہ (1947ئ)‘ پولیو کا انجکشن (1952ئ)‘ ایٹمی آبدوز (1955ئ)‘ صنعتی روبوٹ (1956ئ)‘ ہڈی کے اندر گودے کا ٹرانسپلانٹ (1956ئ)‘ مواصلاتی سیارہ (1962ئ)‘ پھیپھڑوں کی پیوند کاری (1963ئ)‘ انسانی دل کی پیوند کاری (1964ئ)‘ لیزر پرنٹر (1969ئ)‘ ای میل (1971ئ)‘ موبائل فون (1973ئ)‘ انٹرنیٹ (1983ئ)‘ مصنوعی جگر (2001ئ)۔

یہ ان چند ایجادات میں سے ہیں‘ جو امریکیوں نے کیں اور جن سے آج دنیا بھر میں فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کو ہم قاتل کہیں‘ یا جاسوس‘ وہ بہرحال ایک قوم کی برتری کی علامت ہے اور یہ برتری قرن ہا قرن کی محنت سے حاصل ہوئی۔ تمہاری ضعیف قوم سمندروں‘ فضاﺅں اور خلاﺅں سے امڈتے ہتھیاروں کا مقابلہ کس طرح کرتی؟ ریمنڈ ڈیوس کے ملک میں ہزاروں یونیورسٹیاں دن رات‘ بارہ مہینے‘ چوبیس گھنٹے تحقیق میں مصروف ہیں‘ ریسرچ اور ریسرچ اور ریسرچ.... اسی کے نتیجہ میں سینکڑوں ایجادات اور سینکڑوں دریافتیں ریمنڈ ڈیوس کی قوم کے ماتھے پر سجی ہیں۔ اس قوم کا مقابلہ وہ ملک کس طرح کرتا جس کے مریض تعویذوں اور مزاروں کی مٹی سے علاج کرتے ہیں‘ جس کے ہاریوں کی عورتیں جاگیرداروں کی ملکیت ہیں۔ جس کے طالب علم بغیر چھت کے سکولوں میں ”زیر تعلیم“ ہیں‘ جس کے بیروزگار نوجوان خودکش جیکٹیں پہن کر گھر والوں کو رقم بھیجتے ہیں اور جس کے وزیرستان‘ سوات اور بلوچستان میں یونیورسٹیاں ہیں‘نہ کارخانے‘ ہسپتال ہیں‘ نہ دواخانے‘ لائبریریاں ہیں‘ نہ عدالتیں‘ ہاں سردار اور خان ہیں‘ ملک اور قبائلی سربراہ ہیں۔

شمائلہ! ایک قوم کے ضعف کی علامت تم ہو.... اور ایک قوم کی طاقت کی علامت ریمنڈ ڈیوس ہے۔

4 comments:

عامر شہزاد said...

تم اگر خودکشی نہ کرتیں تو کیا کرتیں؟
صبر کرتیں‌ اور بے شک یہ بہت بڑی چیز ہے۔
خودکشی تو ہار ماننے کا نام ہے اور اسلام ہمیں‌ یہی درس دیتا ہے کہ ہار نہیں‌ماننی، چاہے جتنی بھی بار ہارتے جائیں۔

Anonymous said...

Izhar sahib,
I am glad you are drawing your reader’s attention toward science and technology, the subject of my heart. You may recall, I have always emphasized the point that the only way to survive in the world and lead a half decent life is by being self sufficient in science and technology. Pakistan never had any ruler who was intelligent enough to look into this essential requirement, a serious deficiency has always existed in this area.
When the western world was working on the industrial revolution, our people were either busy writing poetry or surviving under the colonial slavery.
As the British took over the government of India in 1857, instead of learning science from the western people, our Mullahs advised us to learn Arabic instead of the kutti (bitch) science. They considered English language as kufer and discouraged people from learning it. This was one of the factors that kept the Muslims behind the Hindus. That went on throughout the second half of the 19th century. During the early 20th century while others were working on new technologies like electricity, radio and aviation, our people took them as the work of Satan.
At present, in stead of making dams, constructing power stations, the mullahs have entangled every one in non-issues like namoos-e-resalat, blasphemy and Ahmadya problem. The government continues to be incompetent in every area and the parliament of the so called democracy is totally ineffective.
Due to the lack of electricity, what little industry existed, is disappearing, creating additional economic problems. No industry means no science and technology.
Can you name even one person in the government who realizes the need and the importance of science and technology and how it helps the economy and strength of the country?

Javed

Anonymous said...

عامر شہزاد صاحب یہ ایک طنزیہ کالم ہے۔ آپ تو سیریس ہی ہو گ؁؁ے ہیں۔
بہت عمدہ تحیر یر اظہار صاحب۔
حقیقت بیان کی ہے آپ نے

عامر شہزاد said...

جی مجھے اندازہ ہے۔ بے شک بہت اچھی تحریر ہے۔ مگر مجھے اس میں خودکشی کا حوالہ پسند نہیں آیا۔

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com