Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, March 15, 2011

غلیل اور لیپ ٹاپ

ہم  لوگ اتنے قنوطی ہو چکے ہیں کہ خدا کی پناہ  

ہر معاملے میں ناشکری، ہر بات پر شکوہ اور شکایت، ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں نہ اپنی خوش قسمتی ہمیں نظر آتی ہے۔ ہم ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ آدھا گلاس خالی ہے۔ کبھی یہ نہیں سوچتے کہ آدھا گلاس پانی سے بھرا ہے۔ ہماری حالت اُس مایوس شخص جیسی ہے جسے اُسکے بیٹے نے خوش ہو کر بتایا کہ ہمارا کتا پانی پر چل سکتا ہے۔ اُس نے بُرا سا منہ بنا کر کہا کہ کاش! وہ تیر سکتا!لیکن میں نے یہ رویہ تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں اب کُڑھنے اور جلنے کے بجائے ہر بات کا روشن پہلو دیکھا کروں گا۔ اس صحت مند رویے کا آغاز میں نے آج ہی سے کر دیا ہے۔

مجھے علی الصبح خبر ملی کہ بلوچستان کے ضلع جعفرآباد میں راکٹ کے حملے سے پورے کا پورا خاندان موت کے گھاٹ اتر گیا۔ یہ دو دن پیشتر کا واقعہ ہے۔ کچھ محب وطن افراد نے راکٹ چلائے جن میں سے ایک فلّو خان کے گھر کی چھت پر پھٹا۔ اسکی بیوی مائی خاتون اور چاروں بیٹیاں موقع ہی پر ہلاک ہو گئیں۔ دیکھئے اس خبر میں کتنا روشن پہلو ہے۔ خدا کا شکر ہے میں بلوچستان میں نہیں ہوں اور راکٹوں کے حملے سے بچا ہوا ہوں۔

کراچی کے علاقے کھارادر میں دو افراد تاجروں سے جگا ٹیکس وصول کر رہے تھے۔ ایک دکاندار نے انکار کیا تو جگا ٹیکس وصول کرنے والوں نے اُسے گولی مار کر موقع ہی پر ہلاک کر دیا۔ عوام اکٹھے ہو گئے۔ انہوں نے اُسے پکڑ لیا اور مار مار کر ختم کر دیا۔ اُسکے زخمی ساتھی نے اعتراف کیا کہ ہاں! وہ تاجروں سے غنڈہ ٹیکس وصول کیا کرتے تھے۔
گذشتہ ایک سال کے دوران کراچی سے سو سے زیادہ تاجر تاوان کے لئے اغوا کئے گئے۔ اب دیکھئے، اس میں روشنی کی تہہ در تہہ کئی پرتیں ہیں۔ میری پہلی خوش قسمتی یہ ہے کہ میں کراچی میں نہیں رہتا۔ اور دوسری خوش قسمتی یہ ہے کہ تاجر نہیں ہوں۔
خادم پنجاب نے لاہور میں کم آمدنی والے بے گھر افراد کے  لیے بےمثال رہائشی منصوبے کا افتتاح کیا ہے۔ میں خوش قسمت ہوں کہ لاہور میں رہتا ہوں اور میری خوش قسمتی ہے  کہ لاہور  ہی پنجاب ہے۔پنجاب کے بجٹ کا بڑا حصّہ لاہور  پر صرف ہو رہا ہے۔شاہراہیں،انڈرپاس،پارک،باغات،مکانوں کے منصوبے،ہائوسنگ سوسائٹیاں،کالج، یونیورسٹیاں سب کچھ ایک ہی شہر میں بنایا جا رہا ہے۔خدا کا شکر ہے کہ میں میاںوالی، اٹک یا بہاولپورمیں نہیں رہتا جنہیں صرف پنجاب کو سب سے بڑا صوبہ ثابت کرنے کے لیے استعمال  کیا جاتا ہے۔
پیپلز پارٹی نے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے خلاف سندھ میں احتجاج کیا ہے۔ صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کی قیادت میں پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی نے ہائیکورٹ تک مارچ کیا۔ صوبے میں ہڑتال بھی کی گئی۔ اب اس معاملے میں بھی روشن پہلو واضح ہے۔ میں خوش قسمت ہوں کہ پیپلز پارٹی نہیں ہوں ورنہ مجھ پر الزام لگتا کہ میں سپریم کورٹ کی توہین کر رہا ہوں۔ خوش قسمتی سے میں نون لیگ ہوں اور بہت آرام سے یہ سارا تماشا دیکھ رہی ہوں۔ کسی کو یاد ہی نہیں کہ  عدالتوں کی توہین میں نے شروع کی تھی۔ ....

ادب کا قافلہ تھا سُست گام اے سیماب

رواجِ گرم روی میرے کارواں سے چلا
خدا کا شکر ہے  یہ کوئی نہیں  کہہ رہا  کہ سپریم کورٹ پر باقاعدہ حملے کا رواج میرے زمانے میں پڑا تھا۔دیواریں پھلانگیں گئی تھیں۔ بسیں بھر بھر کر لائی گئی تھیں اور حملہ آوروں کو قیمے والے پراٹھے  کھلائے گئے تھے تاکہ اُن کی انرجی بحال رہے۔ 
میری خوش قسمتی دیکھئے کہ میں ڈاکٹر نہیں ہوں۔ ڈاکٹروں سے زیادہ مظلوم اس ملک میں شاید ہی کوئی طبقہ ہو۔ ڈاکٹر بننے کےلئے جتنی محنت کرنا پڑتی ہے اور سات سال جس طرح پاگلوں کی طرح رات دن سوتے جاگتے پڑھائی کرنا پڑتی ہے، اخباروں میں سرکاری خرچ پر ڈاکٹروں کےخلاف پورے پورے صفحے کے مضحکہ خیز اشتہارات شائع کرانےوالے ”عالم فاضل“ اتنی پڑھائی اور اتنی محنت کا تصور تک نہیں کر سکتے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ڈاکٹروں کا کیریر شروع ہی گریڈ اُنیس (19) سے ہونا چاہئے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ڈاکٹر یہ ملک چھوڑ کر ترقی یافتہ دنیا کی طرف ہجرت کرتے رہیں گے اور جو رہ جائیں گے وہ مقابلے کا امتحان دے کر ڈپٹی کمشنر اور پولیس افسر لگتے رہیں گے۔ اگر ڈاکٹروں کو اُنکے حقوق نہ دئیے گئے تو اس ملک کے قصبے اور دیہات ڈاکٹروں سے محروم ہی رہیں گے اور ملنگوں، عاملوں، جعلی پیروں، ان پڑھ حکیموں اور جُز وقتی ہومیو پیتھوں کی چاندی ہوتی رہے گی۔

آپ کہاں تک گنیں گے اور میں کہاں تک گنواﺅں گا؟ میری خوش قسمتیوں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اس کےلئے صفحوں کے صفحے درکار ہیں۔ مثلاً یہی بات لے لیجئے کہ میرے بچے مدرسے میں نہیں پڑھتے، ورنہ اس ملک کے لاکھوں بچے مدارس میں ”زیر تعلیم“ ہیں۔ انہیں جس طرح کھانا دیا جاتا ہے، جو رہائش کی جگہ مہیا کی جاتی ہے، آٹھ سال، رات دن جو ”تربیت“ دی جاتی ہے، میرے بچے اُس سے محفوظ ہیں۔ ایک اور خوش قسمتی ملاحظہ کیجئے کہ میں قبائلی علاقے سے نہیں ہوں۔ باسٹھ سال میں قبائلی علاقوں کو کوئی کالج، کوئی یونیورسٹی کوئی انڈسٹری، کوئی شاپنگ مال، کوئی لائبریری نہیں دی گئی۔ وہ تو اللہ کا شکر ہے میں قبائلی علاقے میں نہیں رہتا ورنہ پجارو لے کر ووٹ ڈالنے والے اور لاکھوں روپے لے کر سینیٹر بنانے والے ملک اور خان مجھ عام قبائلی کی قسمت کے مالک ہوتے، میرے بچوں کو غلیل اور بندوق چلانا سکھائی جاتی  اور وہ جو میرے بچوں کو قبائلی ثقافت کے نام پر غلیل اور بندوق کے ساتھ پوری دنیا کو دکھاتے ہیں، اُنکے اپنے بچے کتابوں اور لیپ ٹاپ کی معیت میں او لیول اور اے لیول کر کے امریکہ اور برطانیہ جا رہے ہوتے!

آپ گواہ رہئے گا کہ میں نے اپنا رویہ تبدیل کر لیا ہے۔ میں آج سے قنوطی نہیں ہوں۔ میں ہر معاملے کا روشن پہلو تلاش کیا کروں گا۔ یہ دیکھئے، لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے برقی روشنی چلی گئی ہے۔ اس معاملے کا روشن پہلو یہ ہے کہ میں کالم کو یہیں ختم کیے دیتا ہوں۔

13 comments:

حجاب said...

ہر بات کا روشن پہلو وہ بھی آج کل کے زمانے کے لحاظ سے ہے تو مشکل مگر یہی بہتر ہے زندہ رہنے کے لیئے ۔۔۔۔ میں اپنے علاوہ ہر کسی کے لیئے روشن پہلو پہ سوچتی ہوں ۔۔۔ اپنے لیئے کیوں نہیں سوچتی اس پہ کبھی سوچنے کا خیال نہیں آیا ۔۔۔ ویسے آپ کی دوسری پوسٹ کا انتظار رہے گا اسی حوالے سے کچھ عرصے بعد ضرور لکھیئے گا کہ آپ اپنے فیصلے پر قائم ہیں یا نہیں ۔۔۔

Anonymous said...

ہے۔پنجاب کے بجٹ کا بڑا حصّہ لاہور پر صرف ہو رہا ہے۔شاہراہیں،انڈرپاس،پارک،باغات،مکانوں کے منصوبے،ہائوسنگ سوسائٹیاں،کالج، یونیورسٹیاں سب کچھ ایک ہی شہر میں بنایا جا رہا ہے۔خدا کا شکر ہے کہ میں میاںوالی، اٹک یا بہاولپورمیں نہیں رہتا جنہیں صرف پنجاب کو سب سے بڑا صوبہ ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

سارے فساد کی جڑ یہیں سے شروع ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس دن پنجاب باقی صوبوں کے برابر ہو جائے گا سارے مسئلے ختم ہوجائیں گے،انشاءاللہ
Abdullah

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

بجٹ کا بڑا حصّہ لاہور پر صرف ہو رہا ہے۔شاہراہیں،انڈرپاس،پارک،باغات،مکانوں کے منصوبے،ہائوسنگ سوسائٹیاں،کالج، یونیورسٹیاں سب کچھ ایک ہی شہر میں بنایا جا رہا ہے۔خدا کا شکر ہے کہ میں میاںوالی، اٹک یا بہاولپورمیں نہیں رہتا جنہیں صرف پنجاب کو سب سے بڑا صوبہ ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔


اسمیں اگر لاہور کی بجائے کراچی اور اسلام آباد لکھ دیں تو بھی وہی نتیجہ آئے گا کیونکہ اندرونی پنجاب کے حالات اسقدر خراب نہیں جو اندرون سندھ میں غربت اور جہالت کی وجہ سے ہیں۔یعنی اس حمام میں سبھی ننگے ہیں خواہ وہ نون لیگ ہو یا ایم کیو ایک یا پیپلز پارٹی یا نینشل عوامی پارٹی۔


اور اگر آپ کی تحریر میں لفظ مدرسے کو سرکاری اسکول سے بدل دین تو بھی بات زیادہ بہتر سمجھ میں ائے گی ۔ کہ مدرسے مفت تعلیم دے کر حکومتوں کا ہاتھ بٹا رہے ہیں ۔ جبکہ انھیں ھکومت نے کبھی اس قابل نہیں سمجھا کہ ان پہ توجہ دی جائے جبکہ اربوں کے سالانہ بجٹ سے چلنے والے سرکاری سکولوں کے مخدوش حالات پہ ہماری حکومتوں اور تعلیمی محکمہ جات کو ڈوب مرنا چاہئیے۔

پھر بھی آپ کی نظر کرم صرف مدرسوں پہ ہی ٹہری اور آپ کس خوبی سے سرکاری اسکول نظر انداز کر گئے ۔ واللہ آپ کی جانبداری کھل کھل کر بیاں ہورہی ہے۔

Anonymous said...

اندرون پنجاب کے حالات اس قدر خراب نہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
تو یہ جو انکا جم غفیر کراچی اور ملک کے دوسرےحصوں مین موجود ہے یہ کیا ہے؟؟؟؟؟؟؟
یہ پنجابی طالبان یہ کیا ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟
یہ آئے دن بچوں کو قتل کر کے خود کشیاں کرنا،یہ کیا ہے؟؟؟؟؟؟
Abdullah

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

کراچی کسی کی جاگیر نہیں کہ وہاں ایک کیو ایک کے بھتہ خور ہی رہ سکتے ہیں۔ پنجاب کی آبادی پاکستان کی ساٹھ فیصد سے زائد آبادی ہے اور کراچی کا پنجاب سے کیا موازنہ؟

جب پنجابی اکثریت ہیں تو تو ہر موجود بھی ہونگے، بعین اسی طرح جیسے پنجاب میں مہاجر بھی ہیں پٹھان بھی ہیں بلوچ اور سندھی بھی رہتے ہیں۔

دعا کے پنجاب پنجاب کر کے پنجابیوں سے کو محض اسلئیے نشانہ بنانے والے کہ پنجاب میں ایک کیو ایک کو کوئی نہیں جانتا ۔ اللہ انھیں ہدائت دے آمین

Anonymous said...

تو کیوں ہے پنجاب کی آبادی ساٹھ فیصد سے زائد،
جب سمبھالا نہیں جاتا تو مزید صوبے بنا کر سارے صوبوں کو برابر کیوں نہیں کیا جاتا؟؟؟؟؟
میں تو لوگوں کے لیئے عقل سلیم کی دعا مانگتا ہوں!!!!!
Abdullah

Anonymous said...

رونا تو اسی بات کا ہے،
ہے۔پنجاب کے بجٹ کا بڑا حصّہ لاہور پر صرف ہو رہا ہے۔شاہراہیں،انڈرپاس،پارک،باغات،مکانوں کے منصوبے،ہائوسنگ سوسائٹیاں،کالج، یونیورسٹیاں سب کچھ ایک ہی شہر میں بنایا جا رہا ہے۔خدا کا شکر ہے کہ میں میاںوالی، اٹک یا بہاولپورمیں نہیں رہتا جنہیں صرف پنجاب کو سب سے بڑا صوبہ ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
باقی پنجاب میں صرف بھوک جہالت اور جرائم اگتے ہیں،جو ملک کے باقی حصوں کو بھی متاثر کرتے ہیں،
:(
Abdullah

Anonymous said...

اور ہاں 10 اپریل کے جلسے تک انتظار کرلو تمھیں پتہ چل جائے گا کہ پنجاب میں ایم کیو ایم کو کوئی جانتا ہے یا نہیں!
:)
Abdullah

Anonymous said...

یہ پنجاب کی ساٹھ فیصدآبادی پر فخر کرنے والے، زرا ایک نظر اس رپورٹ پر بھی ڈال لو،
سڑکوں پر رلنے والے بچوں میں سے کم سےکم ساٹھ فیصد کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہوتا ہے،
http://www.dw-world.de/dw/article/0,,5785620,00.html
Abdullah

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

ٹینشن نہیں لینی ۔ بحث نہیں کرنی۔ البتہ انقلاب ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے بس کا روگ نہیں۔ کیونکہ ان کا ظرف کشادہ نہیں۔ اسلئیے ٹینشن نہیں ، بحث نہیں۔ اوکے

Anonymous said...

بیٹا بحث کرنے کے لیئے دلائل کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ تمھارے پاس ہیں نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
دوسروں کے ظرف سے پہلے اپنا ظرف چیک کرلو امید ہے کہ خاصا آرام آئے گا!
Abdullah

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

یار ویسے یہ متحدہ قومی مردر والوں کا پیر لنڈن اتنا ڈھیٹ اور بھتہ خور نہ ہوتا تو کوئی اسکا پورا نام پوچھ لیتا۔

ویسے تم بھی کم ڈھیٹ نہیں ہو۔ یار آپس کی بات ہے کیا تم قومی متحدہ مرڈر سے دیہاڑی لیتے ہو؟

آپس کی بات ہے کہ بیٹا جس زبان میں بات کرو گے تم جیسے لوگوں سے آئیندہ اسی زبان میں بات ہوگی۔
کتنے پردوں میں چھپوگی۔

Anonymous said...

اگر ڈاکٹروں کو اُنکے حقوق نہ دئیے گئے تو اس ملک کے قصبے اور دیہات ڈاکٹروں سے محروم ہی رہیں گے اور ملنگوں، عاملوں، جعلی پیروں، ان پڑھ حکیموں اور جُز وقتی ہومیو پیتھوں کی چاندی ہوتی رہے گی۔


آپ کہاں تک گنیں گے اور میں کہاں تک گنواﺅں گا؟ میری خوش قسمتیوں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اس کےلئے صفحوں کے صفحے درکار ہیں۔ مثلاً یہی بات لے لیجئے کہ میرے بچے مدرسے میں نہیں پڑھتے، ورنہ اس ملک کے لاکھوں بچے مدارس میں ”زیر تعلیم“ ہیں۔ انہیں جس طرح کھانا دیا جاتا ہے، جو رہائش کی جگہ مہیا کی جاتی ہے، آٹھ سال، رات دن جو ”تربیت“ دی جاتی ہے، میرے بچے اُس سے محفوظ ہیں۔ ایک اور خوش قسمتی ملاحظہ کیجئے کہ میں قبائلی علاقے سے نہیں ہوں۔ باسٹھ سال میں قبائلی علاقوں کو کوئی کالج، کوئی یونیورسٹی کوئی انڈسٹری، کوئی شاپنگ مال، کوئی لائبریری نہیں دی گئی۔ وہ تو اللہ کا شکر ہے میں قبائلی علاقے میں نہیں رہتا ورنہ پجارو لے کر ووٹ ڈالنے والے اور لاکھوں روپے لے کر سینیٹر بنانے والے ملک اور خان مجھ عام قبائلی کی قسمت کے مالک ہوتے، میرے بچوں کو غلیل اور بندوق چلانا سکھائی جاتی اور وہ جو میرے بچوں کو قبائلی ثقافت کے نام پر غلیل اور بندوق کے ساتھ پوری دنیا کو دکھاتے ہیں، اُنکے اپنے بچے کتابوں اور لیپ ٹاپ کی معیت میں او لیول اور اے لیول کر کے امریکہ اور برطانیہ جا رہے ہوتے

So True!
Abdullah

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com