مزارع کا لڑکا پڑھ لکھ کر افسر بن گیا تو اس نے اسی چودھری کی بیٹی سے شادی کرنے کی ضد کی جس کی زمین پر اس کا باپ ہل چلاتا تھا۔ مزارع نے جا کر اظہار مدعا کر دیا۔ چودھری نے سنا تو آگ بگولا ہو گیا اور اپنے ’’خاص‘‘ ملازموں کو حکم دیا کہ سائل کا دماغ درست کیا جائے۔ دماغ کی درستی کے دوران مزارع کو جہاں زخم آئے‘ ہڈیاں ٹوٹیں اور کپڑے تار تار ہوئے وہاں اس کی پگڑی بھی کھل گئی۔ وہ اٹھا‘ رہے سہے کپڑے جھاڑے اور کھلی ہوئی پگڑی سر پر باندھنے لگا۔ پگڑی باندھتے ہوئے اس نے چودھری سے فیصلہ کن لہجے میں پوچھا کہ ’’چودھری صاحب! آپ کی طرف سے پھر میں انکار ہی سمجھوں؟‘‘
مشرقی پاکستان چودھری تھا‘ نہ مغربی پاکستان مزارع‘ لیکن یہ لطیفہ اس لئے یاد آیا کہ گذشتہ ہفتے مشرقی پاکستان کی افسوس ناک علیحدگی کی انتالیسویں برسی پر ہمارے ٹیلی ویژن چینل جو پروگرام دکھاتے رہے ان میں سے کچھ کے موضوع اس قسم کے تھے۔ ’’کیا مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان دوبارہ اکٹھے ہو سکتے ہیں؟‘‘ کیا پاکستان اور بنگلہ دیش ایک بار پھر ایک ملک بن سکتے ہیں؟ ’’مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں ہندوؤں کا کردار‘‘ وغیرہ وغیرہ!
ہمیں نہیں معلوم کہ بنگلہ دیش کا اپنا ردعمل کیا ہو سکتا ہے۔ غالباً بنگلہ دیش دوبارہ پاکستان سے آملنے کی بات سن کر یہی کہے گا کہ …؎
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے‘ اب مرا انتظار کر
لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ جس سانحے کو چار دہائیاں گزر چکی ہیں‘ باقی ماندہ پاکستان ابھی تک اس کے اسباب پر سنجیدگی سے غور کرنے کو تیار نہیں وگرنہ ناقابل عمل قسم کی خواہشات پر گفتگوئیں نہ کی جاتیں! پانی کے دو سو ڈول نکالے جا چکے ہیں لیکن مرا ہوا کتا ابھی تک کنویں ہی میں پڑا ہے۔ وہ اسباب جو مشرقی پاکستان سے علیحدگی کا باعث بنے‘ آج پہلے سے بھی زیادہ پاکستان میں موجود ہیں اور سطحیت کا یہ عالم ہے کہ ان کا ادراک ہی نہیں ہو پا رہا۔ رہا یہ الزام کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں وہاں کی ہندو آبادی نے اہم کردار ادا کیا تو اس سے زیادہ سفاک توہین مشرقی پاکستان کے مسلمانوں کی نہیں کی جا سکتی۔ ہم سطحی سوچ رکھنے والے مغربی پاکستانی یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کی جنگ مشرقی محاذ پرلڑی گئی تھی اور وہیں جیتی بھی گئی تھی۔ مشرقی پاکستان کے سو فیصد مسلمانوں نے پاکستان کی حمایت کی تھی۔ وہاں احراری تھے نہ خاکسار‘ جماعت اسلامی تھی نہ یونینسٹ پارٹی‘ وہاں ٹوانے تھے نہ نون‘ سکندر حیات جیسے انگریز پرست تھے نہ پنجاب کے گدی نشین اور فیوڈل جن کی وہ تحریری عرضداشتیں آج بھی تاریخ کے صفحات پر دیکھی جا سکتی ہیں جن میں ملکہ برطانیہ سے التجا کی گئی تھی کہ انگریز برصغیر کو آزاد کریں نہ واپس جائیں۔ تعجب ہے کہ جس پاکستان میں آج نوے فیصد شادیوں میں دولہا راجستانی پگڑی پہنتے ہیں اور اب صرف پھیرے ڈالنے رہ گئے ہیں اور جو پاکستان‘ بھارت کے بعد‘ دنیا میں بھارتی فلموں کی سب سے بڑی منڈی ہے‘ وہ پاکستان مشرقی پاکستان کو ہندوؤں کے کردار پر طعنہ دے رہا ہے! ہمیں تو یہ بھی یاد نہیں کہ کراچی کے علاوہ صرف مشرقی پاکستان سے مادر ملت فاطمہ جناح انتخابات جیتی تھیں۔عظیم صوفی شاعر ابو سعید ابوالخیر کی رباعی یاد آرہی ہے …؎
گفتی کہ فلاں زِ یاد ما خاموش است
از بادہِ عشقِ ِ دیگراں مدہوش است
شرمت بادا ! ہنوز خاکِ درِ تو
از گرمی ِ خونِ ِ دلِ من در جوش است
تو نے طعنہ دیا کہ ’’فلاں‘‘ ہماری یاد سے غافل ہے اور دوسروں کی محبت کا اسیر ہو گیا ہے۔ تجھے شرم آنی چاہئے! میرے دل کے لہو کی گرمی سے تیرے دروازے کی مٹی ابھی تک جوش میں ہے!
یہ کالم نگار 1967ء سے 1970ء تک ڈھاکہ یونیورسٹی کا طالب علم رہا۔ آج یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ ڈھاکہ یونیورسٹی کے طالب علم کس قدر گہرا سیاسی ادراک رکھتے تھے۔ وہ ہمیں یعنی اپنے مغربی پاکستانی دوستوں کو اکثر بتایا کرتے کہ یاد رکھو! اگر مشرقی پاکستان کی کوئی سیاسی جماعت انتخابات میں اکثریت حاصل کر بھی گئی تو اسے اسلام آباد میں حکومت کبھی نہیں دی جائیگی اور یہی ہوا۔ عوامی لیگ کو اکثریت حاصل ہوئی۔ دنیا کے کسی قانون کی رو سے عوامی لیگ کو حکومت سے محروم نہیں کیا جا سکتا تھا لیکن دن دیہاڑے ڈاکہ پڑا۔ ’’ادھر ہم اور ادھر تم‘‘ کا نعرہ لگایا گیا‘ ڈھاکہ میں منعقد ہ اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنیوالوں کی ٹانگیں توڑنے کا اعلان کیا گیا اور یوں بھارت کا دانستہ یا نادانستہ آلہ کار ہونے کا ثبوت دیا گیا۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ پاکستان حاصل کرنے والے مشرقی پاکستانی آخر کیوں الگ ہو گئے؟ (یہ ’’الگ ہونے‘‘ والی بات بھی خوب رہی! کیا اکثریت‘ اقلیت سے الگ ہوتی ہے؟ پچاس فیصد سے زیادہ آبادی تو مشرقی پاکستان کی تھی!) کیا اچانک ان کا دماغ خراب ہو گیا؟ اور وہ اچانک (بقول ہمارے) ہندوؤں کے ہاتھوں میں کھیلنے لگ گئے؟ کوئی مانے یا نہ مانے حقیقت یہ ہے کہ دو عوامل مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کو اکٹھا رہنے کی اجازت دے ہی نہیں سکتے تھے! ایک مغربی پاکستان کا جاگیردارانہ زرعی نظام اور دوسرا‘ مغربی پاکستانی جرنیلوں کی پے در پے تخت نشینیاں! آج چالیس سال بعد بھی ہمارے ہاں ملکیت زمین کا ڈھانچہ اسی طرح ہے اور ہمیں اس پر شرمندگی تک نہیں! وزیرستان اور دوسرے قبائلی علاقوں میں گنتی کے چند خان باسٹھ برس عملاً حکمران رہے اور ہر حکومت سے نقد رقوم اور پجارو گاڑیاں لے لےکر ضمیر فروشی کرتے رہے۔ ردعمل میں آج عام قبائلی نے بندوق اٹھا لی ہے! بلوچستان میں چند سردار حکومت کر رہے ہیں۔ سندھ اور جنوبی پنجاب میں اتنی بڑی بڑی جاگیریں ہیں کہ دنیا میں انکی مثال مشکل سے ملے گی! دوسری طرف مشرقی پاکستان میں مڈل کلاس کا راج تھا۔ لوگ پڑھے لکھے تھے۔ سیاسی شعور رکھتے تھے اور جاگیردارانہ نظام سے نفرت کرتے تھے۔ پھر انہیں معلوم تھا کہ جرنیلوں کے منہ کو اقتدار کا خون لگ گیا ہے اور کوئی مشرقی پاکستانی ملک کا سربراہ نہیں بن سکتا۔
رہی سہی کسر 25 مارچ 1971ء کے آرمی ’’ایکشن نے پوری کر دی۔ صرف ایک مثال دیکھے‘ ڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ کے سربراہ پروفیسر جی سی دیو
(G C DEV)
کے گھر کے دروازے پر گھنٹی بجتی ہے۔ وہ باہر نکلتا ہے‘ اسی کے جسم پر کئی گولیاں بیک وقت چلتی ہیں۔ اسکی منہ بولی (مسلمان) بیٹی رقیہ آگے بڑھتی ہے تو اسے بے رحمی سے پیٹا جاتا ہے۔ رقیہ کا شوہر محمد علی آگے بڑھتا ہے تو اسے بھی گولی مار کر ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ پروفیسر جی سی دیو ایک مکمل غیر سیاسی اور غیر مذہبی شخصیت تھے اور فلسفے پر اتھارٹی تھے۔ ’’علامہ اقبال بطور فلسفی‘‘ ان کا پسندیدہ موضوع تھا۔ ہوائی چپل پہن کر یونیورسٹی آنیوالا یہ پروفیسر اپنی آمدنی کا زیادہ حصہ یونیورسٹی کو دے دیا کرتا تھا۔ یہ صرف ایک مثال ہے۔ کئی دانشور اسی طرح قتل ہوئے۔ ایسے اقدامات سے کوئی قطعئہ زمین، کوئی حصئہ وطن‘ کوئی گروہ‘ زبردستی ساتھ نہیں رکھا جا سکتا!
آخر میں ’’ڈھاکہ یونیورسٹی کیلئے ایک نظم‘‘ جو ان سطور کے لکھنے والے نے 1971ء کے دسمبر کے تاریک دنوں کے حوالے سے کہی تھی!
سر پہ کتنے ہی لڑھکتے ہوئے سنگ آہ! گرے
ہم جو چوٹی پہ تھے‘ کس کھائی میں ناگاہ گرے
خلقت شہر ہنسی‘ تو نے بھی دیکھا ہو گا
ہم بہ ایں خلعتِ شاہانہ سر ِ راہ گرے
دل دہکتا ہے ترے درد کے ہالے کی طرح
ایسے لگتا ہے کہ سینے میں شبِ ماہ گرے
قربتیں‘ حوصلے‘ رگ رگ میں مچلتا ہوا خون
ایک اک کرکے زمیں پر مرے بدخواہ گرے
[2]
بہت ویران ہے آنگن
ہر اک مٹی کا ذرّہ زخم خوردہ
ہر اک شے ہول سے ٹوٹی ہوئی بوسیدہ اور مردہ
جہاں اک پیڑ تھا سرسبز شاخوں، چہچہاتے طائروں کا گھر
وہاں گہرا گڑھا ہے اور کچھ ٹوٹے ہوئے پر
پھڑپھڑاتے ہیں چلے جب بھی ہوا
چٹختے ہیں چلے جب بھی جھلستی لُو
کوئی کمرہ نہیں کھُلتا مگراندرسے ماضی کی گھنیری سسکیاں آتے دنوں کی اجنبی بے مہر آوازیں سنائی دے رہی ہیں
شگاف ایسے پڑے ہیں قرب کی دیوار میں
چٹیل لق و دق پارکا میداں نظر آنے لگا ہے صاف
کوسوں تک نہیں جس میں کوئی روئیدگی
جس میں سرابوں،ہڈّیوں اورکاسہ ہائےسرسوا کچھ بھی نہیں
ملتا۔
یہاں وہ ساتھ ہوتا تھا
بپا اک جشن سا دن رات ہوتا تھا
یہاں رو دوں
کوئی صورت نہیں باقی بجز اس کے
کہ اپنے آپ کو اس صحن میں بو دوں
[۱]
[1]
2 comments:
Through the TV talk shows or other means, I suppose, people are only trying to reminisce the old times, perhaps subconsciously hoping to be able to identify the factors which caused the breakup. Unfortunately, as we look at Pakistan, the socio-economic and internal political situation present today are enough to cause further breakup of the country into several pieces. The possibility of Balkanization has been hinted by various circles including myself. Due to an extremely weak and totally indifferent central government of today, the internal socio-political health of the country is at its lowest ebb. The sectarian issues, a general intolerance for each other, religious extremism, lack of trust between provinces and to top it all, the runaway inflation due to poor governance is a recipe for disaster. The terrorism due to and associated with the American invasion of Afghanistan is yet another concern for the general public and the future of the country.
No doubt, India and local Hindus (in East Pakistan) had played their negative roles to help breakaway the eastern wing, but the main responsibility lies squarely on the ruling elite of West Pakistan. They brought the situation to a point such that the outsiders could jump in and do what suited them. Although several reasons are cited for the breakup, but the incompetence of the upper crust was surely at the top. Unfortunately, the incompetence of the ruling elite is maintained to this day with no hope for a let up in the near future.
Javed
اظہار الحق صاحب، میں بھی آج تک پاکستانی سرحدوں کے اندر جن بنگالیوں سے ملیں ان میں سے کسی نے کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ پاکستان کے ساتھ دوبارہ ملنا چاہتے ہیں۔
آپ نے کہا کہ سوائے کراچی اور مشرقی پاکستان کے کسی نے فاطمہ جناح کو ووٹ نہیں دیا۔ آجکے پاکستان میں بھی یہ تقسیم اسی طرح موجود ہے اور اگر کوئ کچھ کہے تو وہ متعصب ٹہرتا ہے باقی تصورارتی دنیا کی خواہشیں، مطالبات، نظریات، اخلاق اور جذبات دیکھنے اور دکھانے والے لوگ ہر میدان میں حاضر ہیں۔ چاہے وہ ادب ہو، صحافت ہو ، سائینس ہو یا بلاگنگ۔
اور انکے مداحوں کی بھی کوئ کمی نہیں۔ سب ایکدوسرے کو سراہتے رہتے ہیں اور سب شیزوفرینیا کی تمام علامتیں رکھتے ہیں۔
کسی کو مرض دور ہونے کی خواہش نہیں۔ بلکہ سب اس انتظار میں ہیں کہ مرض انہیں ختم کر دے تو ہمیشہ کے لئے اپنی تصوراتی دنیا کے باسی بن جائیں۔
آ عندلیب مل کر کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار، میں کہوں ہائے دل
Post a Comment