Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Saturday, October 30, 2010

خضاب کے رنگ دھنک پر

میں نے اخبار میں پڑھا تو یقین آیا اور اطمینان ہوا کہ اللہ کے دین کے سپاہی سو نہیں رہے ،جاگ رہے ہیں۔
 حضرت مولانا نے جو وفاق المدارس کے ناظم اعلیٰ ہیں فرمایا کہ ’’ نیلو فر بختیار کا بیان اسلام اور آئینِ پاکستان سے غداری کے مترادف ہے۔ اس خاتون کو سینٹ کارکن ہونے کا کوئی حق نہیں اس کی رکنیت فوراً ختم کردینی چاہیے‘‘۔
مفتی صاحب نے بھی انہی خطوط پر قاف لیگ کی اس خاتون کی مذمت کی اور فرمایا کہ دستوری اور اخلاقی دونوں اعتبار سے نیلو فر بختیار پارلیمنٹ کی رکن ہونے کا حق کھو بیٹھی ہیں۔
خاتون نے وضاحت پیش کی ہے کہ سینٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اس نے صرف یہ کہا تھا کہ اگر محکمۂ سیاحت کے سرکاری ہوٹلوں میں شراب پر پابندی ہے اور فائیو سٹار ہوٹلوں میں یہ پابندی نہیں ہے تو یہ قانون کا مساوی نفاذ نہیں ہے لیکن میں ذاتی طورپر یہ وضاحت قبول کرنے کے حق میں نہیں۔ ایک عورت کا بیان دو علماء دین کے بیان پر کس طرح حاوی ہوسکتا ہے؟ مجھے اطمینان ہوا ہے کہ اللہ کے دین کے یہ بے لوث اور بے غرض سپاہی جاگ رہے ہیں’’ ملک کا اسلامی تشخص مجروح‘‘ کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دینگے۔

یُو ٹیوب پر لاکھوں کروڑوں افراد نے دیکھا ہے اور ہر روز دیکھ رہے ہیں کہ ایک صوبے کے وزیراعلیٰ کس حالت میں تقریر کر رہے ہیں۔ وہ بار بار اٹکتے ہیں الفاظ اُنکی زبان سے لرز لرز کر نکل رہے ہیں۔ تقریر کرتے کرتے بار بار خاموش ہوجاتے ہیں۔ خاموشی کے یہ وقفے طویل سے طویل تر ہوتے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ لڑ کھڑا کر گرا ہی چاہتے ہیں کہ ہر طرف سے خدام اور جاںنثار بھاگ کر آتے ہیں اور صوبے کے حاکمِ اعلیٰ کو تھام لیتے ہیں۔ اسلام کے سپاہی چوکس ہیں‘ وہ اگر اس حرکت پر گرفت نہیں کرتے تو صاف ظاہر ہے کہ یہ حرکت خلافِ اسلام نہیں۔ پھر یہ بات بھی اہم ہے کہ اگر جرم کا عملی ارتکاب کرنیوالا مر د ہو اور برسرِ اقتدار ہوتو مذہب کے سپاہیوں کا فیصلہ اور ہوتا ہے اور اگر خاتون ہواور اس نے عملی ارتکاب نہ کیا ہو، صرف بیان دیا ہو، اور پھروہ برسرِ اقتدار بھی نہ ہو تو اس سے مملکتِ خداداد کو جو خطرات پیش آسکتے ہیں ان کا تصور بھی محال ہے۔ اسلام کے سپاہی چوکس ہیں۔ وہ ایسا نہیں ہونے دینگے۔

کچھ جاہل لوگ اس غلط فہمی میں ہیں کہ ملک کے مختلف حصوں میں پنچایتیں پانچ پانچ دس دس سال کی بچیوں کی شادیاں ساٹھ ساٹھ سال کے بوڑھوں سے کرنے کا جو حکم دیتی ہیں تو یہ اسلام کے اصولوں کیخلاف ہے۔ تھوڑا عرصہ گزرا ہے کہ بلوچستان میں عورتوں پر کتے چھوڑے گئے اور پھر انہیں زندہ دفن کردیا گیا۔ سندھ میں کاروکاری کے حوالے سے قبرستان ہی الگ بنے ہوئے ہیں‘ جہاں مقتول عورتوں کو دفن کیا جاتا ہے۔ میانوالی کے علاقے میں ونی کی رسم ہے جسکی رُو سے جھگڑا چکانے کیلئے نابالغ بچیوں کے نکاح بوڑھوں سے کردئیے جاتے ہیں‘اگر یہ سب خلاف اسلام ہوتا تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ حضرت مولانا اور حضرت مفتی صاحب خاموش رہتے۔ حضرت مفتی صاحب تو عام گفتگو بھی قرأت میں فرماتے ہیں اور اٹک پار نکلا ہوا چاند ہزاروں لوگوں نے دیکھا ہو تب بھی وہ نہیں مانتے اس لیے کہ اس میں اسلام کو خطرہ درپیش ہوتا ہے۔ رہے بچیوں کے نکاح اور خواتین کے قتل، تو وہ اگر خلافِ اسلام ہوتے تو حضرت ضرور فتویٰ دیتے!

مقتدر طبقات سے تعلق رکھنے والے با اثر افراد آئے دن کروڑوں روپوں کے قرضے معاف کرالیتے ہیں۔ یہ قرضے ٹیکس ادا کرنیوالے غریب عوام ادا کرتے ہیں۔ دوسری طرف کوئی سفید پوش بنک کے چند سو یا چند ہزار روپے واپس کرنے میں تاخیر کا مرتکب ہوجائے تو پولیس اُسکے رشتہ داروں کا ناطقہ بند کردیتی ہے۔ گھر قرقی ہوجاتا ہے اور سامان اور بچے سڑک پر پھینک دئیے جاتے ہیں۔آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ ظلم اور یہ امتیازی سلوک اگر اسلام کیخلاف ہوتا تو دین کے یہ سپاہی آرام سے بیٹھے رہتے؟ نہیں آپ یقین کیجئے کہ یہ سب کچھ اسلام اور آئینِ پاکستان کے عین مطابق ہے اسی لیے تو حضرت خاموش ہیں!

لاکھوں ہاریوں کی بیویاں اور بیٹیاں زمینداروں کی حویلیوں میں قید ہیں‘اینٹوں کے بھٹوں میں نسل در نسل غلام بیگار میں مصروف ہیں۔ وہیں پیدا ہوتے ہیں اور وہیں مر جاتے ہیں۔ جھوٹ اور سچ میں تمیز کرنے کیلئے جلتے انگاروں پر چلایا جاتا ہے۔ عورتوں کو وراثت میں اُن کا جائزحصہ کوئی نہیں دیتا۔ لاکھوں بچے اور بچیاں زیورِ علم سے محروم ہیں۔ پھول سے رخساروں والے بچے ریستورانوں میں برتن مانجھ رہے ہیں یا ورکشاپوں میں مشقت اور زیادتی کا شکار ہورہے ہیں جبکہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا تھا’’ علم حاصل کرنا ہرمسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے‘‘ عورتیں مزاروں کی مٹی چاٹ رہی ہیں یا خواہشِ اولاد پر’’ روحانی شخصیات‘‘ کے نرغے میں ہیں۔ جرائم پیشہ ملنگ دندناتے پھر رہے ہیں اور تقدیس کے لبادے اوڑھے ہیں‘ ٹیکس چوری کرنیوالے، ملاوٹ کرنیوالے ، جعلی دوائیں بنانے اور فروخت کرنیوالے، چینی اور آٹے کی مصنوعی قلت پیدا کرنیوالے، اقربا پروری اور سفارش کے دروازوں سے داخل ہوکر حقداروں کا حق مارنے والے سب کھلے عام پھر رہے ہیں۔ مفتی اور مولانا ان سب سے کوئی تعرض نہیں کرتے۔یقینا یہ سب کچھ اسلام میں جائز ہوگا ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ عبائوں میں ارتعاش نہ پیدا ہوتا۔ دستاریں غصے سے کانپنے نہ لگ جاتیں، عصا ہوا میں نہ اُٹھ جاتے اور خضاب کے رنگ دھنک پر نہ جا لگتے!

پس جو جانتا ہے وہ تو جانتا ہے اور جونہیں جانتا وہ جان لے کہ حضرت کے اسلام میں اجتماعی عدل کی کوئی گنجائش نہیں۔ طلبِ علم بیکار ہے، عورت کھاد اور بنولہ کی قسم کی جنس ہے‘ لڑکیاں لینے دینے کی چیز ہیں‘ ہاری مجرم ہیں‘ چیف منسٹر مقدس ہیں خواہ لڑ کھڑا کر گر رہے ہوں۔ہر وہ جرم جائز ہے جو اہلِ اقتدار کرتے ہوں اور ہر وہ جرم قابلِ گرفت ہے جو حکومت سے محروم افراد سے سرزد ہو، مرد پر سات خون معاف ہیں۔ عورت کی نگرانی واجب ہے۔ کہیں مذہب کو نقصان نہ پہنچا دے آخر پسلی سے نکلی ہے۔ناقص العقل ہے۔ خاص طورپر اگر یہ کہہ اٹھے کہ میں فلا ں سے شادی نہیں کرناچاہتی اور فلاں سے کرناچاہتی ہوں تو اس بات کا  پورا امکان ہے کہ زمین کسی سیارے سے ٹکرا جائے۔










30 comments:

fikrepakistan said...

بہت خوبصورت تحریر ھے جناب، یہ سب بکاو مال ہیں جی ابھی آپ مدرسوں کی رجسٹریشن کی بات کر کے دیکھ لیں، یا جمعہ کا خطبہ حکومت لکھ کر دے گی یہ بابندی لگا کر دیکھ لیں یا فرقہ بندی کہ خلاف بات کر کے دیکھ لیں، ایسی کوئی بھی بات کر کے دیکھ لیں جس سے ان کے مفادات پر چوٹ پڑے پھر دیکھیں آپ کیسے کیسے فتوے آتے ہیں ان فتوی فیکڑیوں سے۔ عام آدمی کی تنخواہ سات ہزار رکھی گئی ھے گورنمنٹ کی طرف سے اور مہنگائی کا یہ عالم کہ پندرہ بیس ہزار میں بھی عزت سے گزارہ ناممکن ھوچکا ھے مگر اس پر کوئی فتوی نہیں دیتے یہ دین فروش۔ معصوم بچے چھوٹی چھوٹی عمروں میں کام کرتے ہیں اس پر کوئی فتوی نہیں آتا، بس جہاں ان کے مفاد پر ضرب پڑے وہیں بھونکنا شروع کر دیتے ہیں یہ کتے۔

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

محترم!۔

بدقسمتی سے آج کل پاکستان میں یہ چلن عام چل نکلا ہے کہ ہر کسے نا کسے کسی بھی واقعے ، کسی انفرادی حرکت اور بیان ، یا پاکستان جیسے ملک کے تہطیر پذیر معاشرے میں جس کے اخلاقی انحطاط کی بنیادیں اپنے مخصوص مقاصد کی آبیاری کے لئیے انگریز اور انگریزوں کے جانشینوں نے پاکستان بننے سے قبل ہی رکھ دیں تھیں ۔ اور جنہیں پاکستان بننے کے بعد پاکستان کے حکمرانوں نے اپنے غیر اخلاقی و غیر آئینی اقتدار کے دوام کے لئیے در حقیقت پاکستان کے اقتدارِ اعلٰی کی نمائیندگی کا اعلٰی نمونہ پیش کرنے کی بجائے اغیار کے تلوے چاٹے اور اپنے اور مغربی طاقتوں کے پردہ در پردہ مفادات کی آبیاری کی۔ محض اپنے اقتدار کی خاطر طرح طرح کے ڈرامے اسٹیج کئیے کہ بیان کرتے ہوئے گھن آتی ہے۔ لیکن ملک و قوم اور معاشرے کے سدھار کی کوئی ایک ذمہ داری بھی نہیں نبھائی بلکہ گزرے وقتوں کے راجوں مہاراجوں کی طرح عوام کے شرم و اخلاق کے بگاڑ کے سو جتن کئیے تانکہ عوام حکمرانوں کے کرتوت پہ انگلی نہ اٹھا سکیں اور اپنے جائز حقوق کا جائز مطالبہ کرنے کی طرف دھیان نہ دیں سکیں۔ یوں پاکستانی معاشرے نے ہر سطح پہ منافقت کو وہ رواج دیا ہے جو پاکستان کے ہر طبقے اور ہر حصے میں جاری و ساری ہے۔ قبل اسلام اس دنیا میں گزریں اُن سبھی قوموں جن کے انجام کےبارے میں قرآن کریم نے روشنی ڈالی ہے وہ سبھی خباثتیں اور جرائم ایک ہی وقت میں ہماری قوم میں پائے جاتے ہیں تو ایک ایسا معاشرہ جس میں ہر قسم کی مادر پدر آزادی اور خرابی سمیت ہر جُرم ہوتا ہو اور جسے روکنے کے ذمہ داران ، ملک کے حکمرانوں اور متعلقہ وزارتوں کے وزراء مشراء سمیت اہلکاران کار حکومت کی ایک کثیر تعداد بجائے خود شرعی و اخلاقی عیوب میں ڈوبی ہو۔ وہاں ایسے معاشرے میں کسی نیکی اور خیر کی امید رکھنی اور حق بات کہنا بجائے خود کسی معجزے سے کم نہیں۔

مگرمجھے حیرت ہوتی ہے ۔ کہ جن مفتی و مولانا صاحب کہ جنکا اسم گرامی تک لینا آپ نے اپنی شان کے خلاف سمجھا اُن مولانا نے اگر ایک غیر اسلامی بیان پہ تنقید کی ہے تو آپ نے یہ کیسے فرض کر لیا کہ وہ "اسلام کے سپاہی" جیسے القاب سے جانے جاتے ہیں؟۔یا یہ آپ کے زریں ذہن کی پیداوار ہے تانکہ آپکا قاری جزبات میں آکر مسلمانوں کو خوب ملعون سمجھ سکے؟۔
آپ نے یہ کیسے فرض کر لیا کہ پاکستان کے تریسنٹھ سالوں سے بگڑے حالات کے ذمہ دار صرف مولانا موصوف ہیں؟۔پاکستانی معاشرے کے دن دوگنے اور رات چوگنے بگڑتے معاشرے کے بگاڑ کے سدھارنے کے مولانا موصوف ہی کیوں ذمہ دار ہیں؟۔ کیا آپ کو پاکستانی حکومت کے تمام ذمہ دار بھول گئے ہیں یا آپ نے بھی اسلام سے محبت رکھنے والوں یا اسلام کو اپنی شناخت بنانے والوں کو رگیدنے والوں کی طریقت اپناتے ہوئے مسلمان شناخت رکھنے والوں کو رگڑا دیان اپنا فرض سمجھا ہے؟۔

محترم !۔ آپ اپنی تحریر کو خود بھی ایک بار پڑہیں ۔ آپ نے جس طرح جذبات کی رُو میں اپنے قاری کی سوجھ بُوجھ کو یرغمال بناتے ہوئے مولانا موصوف یا باالفاظِ دیگر "اسلام کے سپاہیوں" یعنی پاکستان میں اسلام اور اسلامی طرز معاشرت کا نام لینے والوں کو نشانہ بنایا ہے یہ ایک احسن کام نہیں۔ "اسلام کے سپاہیوں" جن کے بارے میں آپ شاید خود بھی لاعلم ہیں اور انکا وجود اس نام سے پاکستان میں نہیں مگر آپ کے اسطرح کہنے اور لکھنے سے اگر دانستہ یا نادانستگی میں آپ نے اپنے قلم کے ذریعیئے اپنے قاری کے شعور میں اسلام بیزاری ڈالی ہے تو ایک مسلمان کے ناطے اپنے قلم کو بہتر استعمال کریں کہ بہت ممکن ہے میری وضاحت آپ کی انا کے آبگینے کے لئیے خاصی تلخ ہو مگر کل کو اللہ تعالٰی کے دربار میں شرمندگی کے سامنے اس تلخی کی کوئی حقیقت نہیں۔

امید کرتا ہوں آپ صدق دل سے غور فرمائیں گے اور قاری کا ذہن بناتے ہوئے اپنے الفاظ کے استعمال میں احتیاط سے کام لیں گے ۔

Saad said...

مجھے نہیں معلوم کہ کس مولانا کا یہ بیان ہے مگر معذرت کے ساتھ، آپ یہ تحریر لکھتے ہوئے اسی چیز کے زیرِ اثر تو نہیں تھے جسکا ذکر نیلوفر بختیار نے کیا؟

آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ملک کا "اسلامی تشخص" کیا ہے اور اس کو مجروح کون کر رہا ہے۔ مک کو بیچ کھانے والے شراب نوش ہیں یہ مولانے نہیں۔
یہ اوپر فکر پاکستان صاحب سے عرض ہے کہ اگر آپ مسلمان ہیں تو آپ کا نکاح انہی "کتوں" نے پڑھایا ہو گا اور جب آپ مریں گے تو آپ کی نماز جنازہ آپ کے ابا نہیں پڑھائیں گے بلکہ یہی "کتے" پڑھائیں گے۔ افسوس آپ اس وقت کتنا تڑپیں گے مگر کچھ کر نہیں سکیں گے!۔

عنیقہ ناز said...

جاوید گوندل صاحب، نہیں اسلام کے سپاہیوں کو صرف خاص لوگوں کو بچانے اور خاص لوگوں کا دماغ صحیح کرنے کا ٹھیکہ ملا ہوا ہے۔ یہ خصوصیت اللہ نے نہیں آپ جیسے لوگوں نے بہ رضا و رغبت انہیں دی ہے۔ اس کی رو سے ڈاکٹر عافیہ کے لئے مہم چلا کر حکومتی ایوانوں کو ہلانا بالکل اسلامی قرار پاتا ہے اور ملک کے اندر موجود دیگر خواتین پہ جو انسانیت سوز ظلم ہوتے ہیں انکی طرف سے آنکھیں بند کر لینا بھی بالکل اسلامی ہوتا ہے۔ اسکی رو سے کوئ امریکی اگر کسی مسلمان کو مارے تو یہ فعل قبیح ٹہرتا ہے اور اگر کوئ جہادی اپنے آپکو بے گناہ لوگوں کے درمیان اڑادے یا کسی شخص کو بر سر عام گولی مار دے تو وہ بالکل اسلامی ہوتا ہے۔ ایسے تمام افعال پہ یہ سارے سپاہی اس چیز کے زیر اثر ہوتے ہیں جنکا ذکر نیو فر بختیار نے کیا۔ لیکن توبہ وہ اس قبیح چیز کو کہاں استعمال کرتے ہونگے۔ انہں تو اسلامی ٹھیکیداری کا نشہ اتنا زیادہ ہے کہ اب کسی نشے کی حاجت نہیں۔
سعد صاحب، ذرا آُ مجھے قرآن کی کسی آیت کا حوالہ دیں گے یا کسی مضبوط حدیث کا جس میں نکاح پڑھانے اور نماز جنازہ پڑھانے کے لئے کسی مولوی کا ہونا ضروری قرار دیا گیا ہو۔ اگر انکے ابا اس مخصصوص صفت پہ پورے اترتے ہوں تو وہ بھی نماز جنازہ پڑھا سکتے ہیں۔ نکاح کی ضرورت گواہ ہیں نکاح پڑھانے والا نہیں۔ یہ نکاح کوئ بھی شخص کنڈکٹ کر سکتا ہے چاہے وہ ایک عورت ہی ہو۔ اسلام نے اپنے آپکو ٹھیکے پہ نہیں دیا۔ تو آپکو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ غلط بات کی شہرت کریں۔
ملک کا اسلامی تشخص۔ پاکستان دنیا کا واحد اسلامی ملک نہیں ہے اسکے علاوہ بھی چالیس سے زیادہ ممالک موجود ہیں مگر اسلامی تشخص کی فکر صرف پاکستانیوں کو زیادہ ہوتی ہے۔ چاہے لوگ سیلاب میں بہہ رہے ہوں یا زلزلے میں دبے پڑے ہوں۔ کیونکہ کسی خفیہ ذریعے سے اب صرف پاکستانی اس بات کے ذمے دار بنائیں گئے ہیں کہ چاہے انکے شہری دانے دانے کو ترس رہے ہوں لیکن فکر کرنے والوں کو صرف ملک کے اسلامی تشخص کی فکر کرنی چاہئیے۔

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

عنیقہ بی بی!

ویسے تو عرصہ ہوا بدقسمتی سے آپ کے ہوم میڈ دلائل اور لایعنی تاویلات پہ اڑ جانے کی وجہ سے آپ سے مکالمہ تقریباَ ختم ہو چکا ہے۔ لیکن چونکہ آپ نے یہاں مجھے مخاطب کرتے ہوئے حسب عادت و روش سابق اپنے قیاسات اور واہموں کو مجھ ناچیز پہ ثبت کرنے کی بے سُود کوشش کی ہے تو عرض کرتا چلوں بہت ممکن ہے میں آپکے بارے میں آپکے گُمان سے بڑھ کر علم ہو جو آپ کے گُمان میں نہ ہو ۔ اسلئیے میں بہت سی باتیں نہائت وثوق سے کر سکنے کے باوجود محض ایسی معلومات کی بنیاد پہ کسی کی ذات کے بارے میں قیاس کرنا لغو اور فضول سمجھتا ہوں ۔ جبکہ آپ میرے بارے میں محض گُمان کی بنیاد پہ اسقدر وثوق سے قیاس آرائی کرنے سے نہیں چوکتیں جس کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا ۔ اوروں کے بارے میں تو مجھے علم نہیں کے اُن کے بارے آپ کے پاس کونسی معلومات ہوتی ہونگی مگر میرے بارے میں آپ نے کئی ایک دفعہ نہائت دیدہ دلیری سے قیاس آرائیوں کی انجمن سجائی ہے جس پہ مجھے حیرت ہی نہیں ہوتی بلکہ ہنسی آتی ہے ۔ اور بی بی! اب آپ یہ سمجھتی ہیں کہ شاید میں نے اپنے دین کا ٹھیکہ آپ کے کہنے پہ اِسطرح یا اُس طرح کے لوگوں کو دے رکھا ہے ۔ جبکہ آپ کی معلومات میرے بارے میں صفر ہیں۔ محض میری عام سے کسی بات سے آپ نتیجہ اخذ کرنے میں عجلت سے کام لیتی ہیں۔ اور زمانے بھر کے نقائص کا ذمہ دار اُن لوگوں کو ٹہرانا شروع کر دیتی ہیں جنہیں کسی نہ کسی حوالے سے یا کسی بھی لیول پہ پاکستان کے اندر اسلام سے دلچسپی ہو۔ آپ جیسی خاتون کو یہ زیب نہیں دیتا کہ بات کو گھما پھرا کر وہیں لے آئیں جو آپ کے من پسند موضوعات ہوں مثلاَ یہاں یعنی عافیہ صدیقی بی بی کی برائیاں اور اُن میں کیڑے نکالنے سے متعلق آپ کا دل پسند موضوع بیچ میں بغیر کسی وجہ کے آگیا ہے ۔ بی بی ! میں تو پہلے بھی کہیں آپ سے یہ عرض کر چکا ہوں کہ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ بی بی عافیہ صدیقی کی طرٖف آپ کا کوئی پرانا ادھار نکلتا ہے کہ آپ اُ ن سے اسقدر خار کھائے بیٹھی ہیں۔ اب یہ صرف پاکستانی عوام کے جذبات اور انا کا مسئلہ نہیں بلکہ اب اس معاملے میں حکومت پاکستان بھی ایک فریق ہے ۔ اسلئیے اس معاملے کو چھوڑتے ہوئے واپس اسی موضوع پہ چلتے ہیں جو آپ کا اور آپکی طرح کچھ لوگوں کا انٹر نیٹ پہ پسندیدہ موضوع ہے یعنی اسلام لیواؤں کو جی بھر کے کوسنا۔ تو بی بی! جہاں تک پاکستان میں ہزاروں خواتین کا مسئلہ جو آپ نے لازمی طور پہ بی بی!عافیہ صدیقی کی نسبت سے پاکستان میں اسلام پسندوں کے سر منڈ رکھا ہے ۔ کیا آپ بتا سکتی ہیں آپ نے خصوصی طور پہ ایسی خواتین کے لئیے کیا کر رکھا ہے؟ ۔ جبکہ چائلڈ لیبر جس کے لئیے پاکستان کی مغرب نواز این جی اوز جو مغرب سے رشوت میں ملی امدا کے سہارے چلتی ہیں اسی کے لئیے ہی آپ نے اپنے طور کیا کیا ہے ؟۔ آپ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ آپ کے اپنے گھر میں چائلڈ لیبر ہے۔

جن لوگوں کو آپ صرف اُن کے مسلمان ہونے کی وجہ سے ہر وقت رگڑا دینا اپنا عین فرضِ منصبی سمجھتی ہیں ۔ انہوں نے ھزاروں نہیں بلکہ لاکھوں افراد جن میں پاکستان کی مجبور بیٹیاں بھی شامل ہیں انکو نہ صرف پناہ دی ہے بلکہ انہیں زیور تعلیم سے آراستہ بھی کیا ہے۔ اب آپ حسب عادت باقی ماندہ خواتین یا پاکستان کے کسی اور مجبور طبقے کے حوالے سے سوال کریں گی کہ مولویوں نے انکے لئیے کیا کیا؟ ۔ بی بی! یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ جیسے لوگوں نے جو مغرب کو چہیتا سمجھتے ہیں انھوں نے مولویوں کے خلاف پروپگنڈے کے علاوہ پاکستان کی ان مظلوم بیٹیوں کے لئیے کیا کیا؟ ۔ کوئی ایک مثال بیان فرمادیں کہ اپنے آپ کو لادین یا سیکولر کہلوانے والوں نے کونسا تیر مار رکھا ہے؟۔ چونکہ ایسے طبقے نے پاکستان کے وسائل پہ قادر ہونے کے باوجود کچھ نہیں کیا بلکہ یہ طبقہ یہ حالات پیدا کرنے کا زمہ دار ہے کہ آج ملک پاکستان میں انسان محض روٹی روزی کی خاطر اشرف المخلوقات کے درجے سے گر ذلت کی پستی میں زندگی گزارنے پہ مجبور ہے۔ تو بی بی! ایسے میں آپکے پاس کہنے کو ، کچھ ثابت کرنے کونسا کارنامہ ہے جسے بنیاد بنا کر آپ اور آپ جیسے روشن خیال یہ دعواہ کر سکیں کہ انہوں نے پاکستان میں سسکتی تڑپتی انسانیت کے لئیے یہ کر دکھایا ہے۔ جب آپ کے پاس آپ کے روشن خیالوں کے پاس اپنی کسی قربانی کا کوئی حوالہ، کوئی ثبوت نہیں تو ایسے میں آپ کو فریقِ مخلاف یعنی اسلام پسندوں ، مولویوں، پاکستان کے مسلمانوں ، یا آپ ان کو کوئی سا بھی اپنا من پسند نام دیں لیں ، اُن پہ آپ کو تنقید کرنا اور بات کو جائز ناجائز طریقے سے گھما پھرا کر اسلام پسند طبقے کو رگڑا دینے کا کوئی حق نہیں پہنچتا ۔ کیونکہ کہ تنقید برائے تنقید کرنے سے پہلے کم از کام اپنی چارپائی کے نیچے ڈانگ ضرور پھیر لینی چاہئے جس ضمن میں آپ ناکام رہی ہیں۔

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

۔ لہٰذاہ مملکتِ خداد پاکستان میں اسلام کی بات کرنے والوں پہ لعن طعن کرنا چھوڑ دیں کہ یہ احسن کام نہیں ۔ جبکہ مملکت خداد پاکستان میں اسلام کا نام لینے والوں نے پاکستان کی سب نام نہاد مغرب نواز او این جی اوز سے بڑھ کر فلاحی کام کر رکھے ہیں اور جبکہ اس بارے میں پاکستانی حکومتیں اور پاکستان کا نام نہار اسیکولر طبقہ بری طرح ناکام رہا ہے۔

بی بی! جہاں تک آپ کے دوسرے نکتے کا تعلق کہ سعد صاحب! کے نزدیک فکر پاکستان نامی صاحب کو یہ نصحیت ہے کہ انکا مولانا موصوف کو کُتا کہہ کر دی گئی گالی نہ صرف اخلاق سے گری ہوئی ہے بلکہ اس بات کی طرف تاکیداََ اشارہ ہے کہ کچھ بھی ہو مولوی یا علماء کا پاکستانی معاشرے میں ایک کردار ہے جس کا تعلق اسلام سے بنتا ہے جو آپ جیسی روشن خیال خاتون کو تو شاید ناگوار گذرتا ہوا مگر پاکستان کی اکثریت کو ناگوار نہیں گزرتا کہ وہ اکثریت بجائے خود مسلمان ہے اور مسلمان ہونے کے ناطے مولانا یا مولوی کا کردار عام فہم لیتی ہے۔ جہاں تک آپکی اس نکتہ آفرینی کا تعلق ہے کہ اسلام میں جنازہ اور نکاح کوئی بھی پڑھوا سکتا ہے تو اس بارے عرض ہے کہ آپ کی یہ بات درست ہے کہ چند ایک بنیادی شرائط کے ساتھ نماز جنازہ وغیرہ کوئی بھی پڑھوا سکتا ہے یعنی کہ امام کو کم از کم نماز جنازہ آتی ہو وغیرہ تو ایسی صورت میں دوسروں کی نسبت زیادہ سمجھ رکھنے والا کوئی بھی فرد یہ فرض ادا کر سکتا ہے۔ مگر بی بی ! اس کا اسلام میں یہ مطلب بھی نہیں بنتا کہ فکر پاکستان نامی صاحب اٹھ کر علماء یا دیگر اسطرح کے مذھبی فرائض انجام دینے والوں کو کتا کہہ کر گالی دیں اور ثواب دارین حاصل کریں یعنی مفت میں اپنے سر گناہ منڈھیں۔ اور آپ اپنی ساری توانائی اس میں خرچ کر دیں کہ فکر پاکستان نے درست کہا ہے۔

پاکستان میں اکثر لوگ مولوی کے کردار سے شاکی ہیں ۔ ممکن ہے مجھ ناچیز کو بھی بعض اوقات کبھی کبھار مولوی کی کردار سے اختلاف ہو مگر اسکا یہ مطلب ہر گز نہیں بنتا کہ میں اپنے دین اسلام سے نسبت رکھنے والوں کو خود ہی رگڑا لگانا شروع کر دوں ۔ باقی لوگ بھی اعتراضات کرتے ہیں ۔ ہر گلی محلے میں مختلف قسم کے موضوعات مولوی حضرات کے متعلق اٹھتے رہتے ہیں مگر وہاں مولوی پہ تنقید میں خود احتسابی اور خیر کا پہلو نمایاں ہوتا ہے ۔ جس سے دین اسلام عبادات اور معاشرے میں اپنے فرائض کے حوالے سے بہتری مراد ہوتی ہے مگر یہ صرف آپ پہ ہی بس نہیں بلکہ پاکستان کی بدقسمتی سے پاکستان میں ایک ایسا مخصوص طبقہ ہے جو بظاہر اپنے آپ کو اسیکولر کہلواتا ہے مگر جو کوئی بھی ایسا موقع خالی نہیں جانے دیتا جس پہ یہ طبقہ اسلام لیواؤں پہ اوچھا وار کرنے کی کوشش نہ کرے اور اس نام نہاد اسیکولر طبقے کے نزدیک مولوی ، مولانا یا علماء دین پہ تنقید کرنا دراصل اسلام لیواؤں کو رگڑا دینے کی بے سُود کوشش ہوتی ہے۔ جس سے دراصل اسلام کو برا بھلا کہنا مقصود ہوتا ہے۔ اور کچھ لوگ اچھا خاصا مسلمان ذہن رکھتے ہوئے ایسے طبقے کے جھانسے میں آجاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ اسطرح کر کے شاید اسلام ہی کی خدمت کر رہے ہیں ۔ جبکہ ایسے مسلم ذہن رکھنے والے نوجوانوں اور اپنے تئیں دانشوروں کو دیر یا بدیر یہ بات سمجھ میں آجا تی ہے کہ وہ کن لوگوں کے ہاتھوں استعمال ہورہے ہیں اور یہ انکے جال سے نکل آتے ہیں ۔ پاکستان میں یہ مخصوص طبقہ جو ہر اخلاقی پابندی سے اپنے آپ کو ماورا سمجھتا ہے اور اسلام کی رُو سے منع کئیے گئے اور حرام کو اپنے لئیے کسی نہ کسی طور جائز ثابت کرنا چاہتا ہے۔ اس طبقے میں اتنی جراءت نہیں کہ وہ تادیبی کاروائی کے خوف اور ڈر کی وجہ سے اسلام کو گالی دے مگر اسکا بندوبست وہ اسلام لیواؤں اور مولوی مولوی کی گردان کر کے اپنے دل کے پھپھولے پھوڑنے کی لاحاصل کوشش کرتا ہے ۔ جس سے پاکستان میں اسلام کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا مگر یہ لوگ ناحق اپنی توانائیاں ایسے عمل پہ خرچ کرتے ہیں جس سے خالق ناراض اور مخلوق نالاں ہوجاتی ہے۔
مجھے افسوس ہے کہ آپ کو چائلڈ لیبر کا حوالہ دیا جس کا محض اتنا سا مقصد ہے کہ آپ مسلمانوں پہ ہر وقت کی تنقید کے علاوہ کچھ روش خیالوں کی بابت بھی ارشاد فرما دیا کریں۔
نیز بے جا طور پہ کسی کو میرے دین کا ٹھیکدار مقرر کئیے جانے کے بارے میں نادر ارشادات فرمانے سے پہلے میری سابقہ رائے دوبارہ سے پڑھ لیں۔
وما علینا الاالبلاغ۔

Abdullah said...

سعد کیا آپ جانتے ہیں کہ نکاح اور جنازہ پڑھانے کے لیئے کسی مولوی کی ہرگز ضرورت نہیں ہوتی،
دو گواہوں کی موجودگی میں ولی کی اجازت سے لڑکا اور لڑکی کا ایجاب و قبول نکاح ہے اور نماز جنازہ کسی قریبی رشتہ دار کو پڑھانا مستحسن ہے کہ جو جزبہ مرنے والے کے لیئے اس کے دل مین ہوگا وہ ایک ذاتی منعفت کے لیئے پڑھانے والے مولوی کے دل میں نہیں ہوسکتا!
محدمد اظہار الحق صاحب آپنے بالکل بجا فرمایا حکمرانون پر اثر ہو یا نہ ہو مگر ان اسلام کے سپاہیوں کی زمہ داری ہے کہ ان اخلاقی جرائم پر واشگاف الفاظ مین اس وقت تک بولتے رہیں جب تک یہ برائیاں ہمارے معاشرے سے ختم نہ ہوجائیں،جو بنیادی مسائل ہین انکو طاق پر رکھ کر معاشرے کے سدھار کے خواب دیکھنا انتہاء درجے کی کم عقلی اور جہالت ہے

Abdullah said...

عنیقہ آپکو صرف ایک مشورہ ہے کہ گوندل صاحب کی باتوں کو پڑھ کر ان کو مخاطب کیئے بغیر جو سچائی ہو بیان کردیا کیجیئے ورنہ حاصل جمع ضرب تقسیم ہوجاتا ہے سارا معاملہ!!!!!

Abdullah said...

مشکل یہ ہے کہ دین کے ٹھیکیدار خود ان تمام جرائم میں ملوث ہوتے ہیں یا انکو کروانے مین حصہ دار تو پھر بھلا کیسے بولیں!!!!!!

عنیقہ ناز said...

جاوید صاحب، میرے گھر میں چائلڈ لیبر۔ میں کوئ عاصمہ جہانگیر نہیں، نہ کسی فیوڈل گھرانے سے تعلق ہے میرے جیسا شخص جو ہر مہینے اپنے گھر کا بجٹ بناتا ہو اگر میں اپنے گھر میں کسی شخص کو اپنی مدد کے لئے رکھوں تو یہ میری ضرورت سے زیادہ اسکی ضرورت کا خیال ہوتا ہے۔
ایک لڑکی جس کی عمر اس وقت سترہسال کے لگ بھگ ہے اسلامی روایات کے مظابق بچی نہیں کہلاتی۔ اسلامی روایات کے مطابق بچپن، بلوغت کی علامت کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے۔ اس بچی کی عصمت کی حفاظت آپ کے اسلامی نظام میں والدین اور حکومت دونوں کی ذمہ داری ہے۔ کیا آپ لے رہے ہیں اسکی یہ ذمہ داری۔ نہیں آپ جیسے لوگ آس بچی کی طرح کی دیگر لڑکیوں کے مذاق میں اپنا حصہ ڈالنے کے علاوہ کچھ نہیں کریں گے۔ اگر آپ آکر میرے گھر میں اس بچی کو سات گھنٹے رہتے دیکھیں تو شاید شرمندگی ہو۔ لیکن شرمندہ ہونا آپ میں سے کسی کو نہیں آتا۔ آج تک میں نے آپ میں سے شرمندہ ہوتے کسی کو نہیں دیکھا۔
تو چند مہینوں بعد آپ میرے اوپر سے یہ الزام واپس لے لیں گے۔ کیونکہ چند مہینوں بعد وہ ٹھیک اٹھارہ سال کی ہو جائے گی
آپ سے پہلے جعفر صاحب کو بھی فرط جوش میں، میری دھجیاں اڑانے کے لئے یہی الزام یاد آیا تھا۔ حالانکہ آپ سب جب پاکستان میں ہونگے تو ہر جگہ آپکو یہ چھوٹے چھوٹے بچے ٹکرائیں گے۔ جنکی عمریں چند مہینوں سے لیکر دس بارہ سال تک ہونگیں۔ آپ سب انتہائ ڈھٹائ سے ان سے اپنا کام کروائیں گے جو جوتے پالش کرنے سے لیکر ہوٹل میں میز صاف کرنا تک ہوگا، انہیں بھیک دیں گے، ان سے ہنسی مذاق کریں گے اور بہت ہمدردی ہوئ تو حالات زندگی جان لیں گے۔ اس وقت آپکی بے حسی اپنے عالم عروج پہ ہوگی۔ اس وقت اتنے کم عمر لوگوں سے کام کروانا آپ کے لئے غیر قانونی بات نہیں ہوگی۔ آپ تو اس وقت بھی کچھ نہیں بولیں گے جب لاہور میں ایک دس گیارہ سالہ لڑکی کو اسکے مالکان نے تشدد کر کے مار دالا۔ وہ گھریلو ملازمائیں جو گھروں کے اندر اپنے مالکان کے جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں ان کے لئے بھی آپکے لب خاموش رہیں گے۔ لیکن آپکا تمام جوش جذبہ اس وقت باہر نکل کر بہنے لگتا ہے جب عنیقہ ناز یہ لکھ دیں کہ انے گھر میں ایک پندرہ سالہ لڑکی انکی آلو پیاز کاٹنے میںمدد کرتی ہے گھر کی ڈسٹنگ کرتی اور دروازے پہ معلوم کرتی ہے کہ کون ہے۔ کیونکہ اسکے والدین اتنی استطاعت نہیں رکھتے کہ وہ اسے دن میں دو وقت کھانا دے سکیں یا دن بھر اسکے ساتھ رہ سکیں۔ مگر محض اس لئے کہ آپ کے غلط مذہب پرست ہونے کے دعوے کی قلعی نہ کھل جاءے آپ اسے میرے خلاف ایک عظیم گواہی کے طور پہ لے آتے ہیں۔
تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ ابتدائے اسلام میں لوگ جو غلام اور لونڈیاں رکھتے تھے وہ بھی چائلڈ لیبر کے خلاف ہوگا۔ اس وقت تو بڑی بڑی عمر کے لوگ چھوٹی چھوٹی بچیوں سے شاددی کر لیتے تھے یہ بھی خلاف قانون ہوگا۔ اس طرح تو یہ مغرب نکل آتا ہے جو دراصل بچوں کے حقوق کی بات کر رہا ہے۔
میں چائلڈ لیبر کے خلاف ہوں قانون ہونا چاہئیے مگر قانون کے نفاذ سے پہلے اس بات کا اہتمام ہونا چاہئیے کہ اسکی وجوہات کو ختم کیا جائے۔
میں جسم فروشی کے بھی خلاف ہوں۔ اس سے بد ترین پیشہ اور کوئ نہیں ہو سکتا۔ مگر اس پہ کسی بھی قسم کی پابندی سے پہلے اسکی وجوہات کو ختم ہونا چاہئیے۔
لیکن اسکے باجود نہ صرف یہ لڑکی میرے گھر میں موجود ہے۔ بلکہ سبزی بازار میں ، میں اس سے کہیں چھوٹے بچوں سے سامان اٹھواتی ہوں۔ کیا کروں میرا دل اتنا سخت ہے کہ جب وہ بچے کہتے ہیں کہ صبح سے کسی نے سامان نہیں اٹھوایا پیسے ہی پورے نہیں بنے تو میں انہیں خیرات دینے کے بجائے اپنے ہاتھوں میں موجود سامان کو ان کے ساتھ شیئر کر لیتی ہوں۔
یہی نہیں میں پیشہ کرنے والی عورتوں کی بڑی تعداد کو بھی مظلوم سمجھتی ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ میری روشن خیالی ہو۔ جبکہ میں یہ کہتی پھرتی ہوں کہ انکے گاہکوں کے اخلاق درست کرریں انہیں کوئ با عزت روزگار مہیا کریں۔ ملک سے بے روزگاری ختم کرنے کے منصوبے بنائیں۔
میں یہ بھی کہتی ہوں کہ لڑکیوں کو تعلیم کے مواقع دئیے جانے چاہیئیں اور انکی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے مواقع پیدا کرنا چاہئیں۔ لیکن درپردہ میری خواہش یہ ہو گی کہ لڑکوں کو گرل فرینڈز ڈھونڈھنے میں آسانی ہو۔ اور لڑکیاں اپنے بوائے فرینڈز لے کر اپنے ماں باپ کے گھر پہنچیں۔
میں یہ بھی چاہتی ہوں کہ پاکستانی مرد خواتین کو محض اپنی دل پشوری کا ذریعہ نہ سمجھیں بلکہ انہیں اتنا ہی انسان سمجھیں جتنا وہ خود کو سمجھتے ہیں۔۔ لیکن درحقیقت یہ میرا خفیہ مغربی تحریک حقوق نسواں کا ایجینڈا ہے۔ اور میں یہ چاہتی ہوں کہ خواتین بچے پیدا نہ کریں بلکہ مرد بچے پیدا کریں۔ میں در اصل ان غیر حقیقی ذہین عورتوں میں سے ہوں جو ہر وقت مردوں جیسی اعلی و ارفع جنس سے برابری کرنا چاہتی ہے۔
تو آج میں نے اپنے خفیہ ارادوں سے آپکو با خبر کر دیا امید ہے اس افاقہ ہوگا۔

عنیقہ ناز said...

میں کسی پرائے دیس میں بیٹھ کر ڈالر کما کر پاکستانیوں کی مجبوریوں کو نہیں خرید رہی ہوں۔ آپ سے زیادہ مجھے اس چیز کا احساس ہے۔، کیونکہ میں پہلی دنیا کی سہولیات سے آراستہ زندگی میں سے اپنے دل کو مصروف رکھنے کے لئے غریبوں کی ہمدردی کے نعرے کو استعمال نہیں کرتی۔ میں انہیں اپنی زکوات نہیں وہ دیتی ہوں جو اپنے اوپر خرچ کر سکتی تھی ۔
آپ اپنے اس بیان کو جو آپ نے تمام ایسے لوگوں کے لئے یاد کیا ہوا ہے کہ آپ مغرب کے دلدادہ۔ میری اس مغرب کے دلدادہ ہونے کی خوبی کو آپ کبھی بھی اور کہیں بھی ثابت نہیں کر سکتے۔ لیکن میں اس پہ حیران نہیں ہوتی۔ مولوی کی محبت نے آپکو یہی ڈائلاگز یاد کرائے ہیں۔ آپ اور آپ جیسے لوگ ان پرانے ڈائیلاگز کے علاوہ کچھ نیا آزمائیں۔
میں ایک ہی طرح کی باتیں پڑھ پڑھ کر بور ہو گئ ہوں۔ اگر مرکزی خیال نیا نہیں تو کم از کم پرانی بات کو نئے انداز اور نئ مثالوں سے بیان کریں۔

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

بی بی!
دیکھ لیں آپ کس آسانی سے ٹرانس میں آگئیں ۔سارا باطن باہر انڈیل دیا ہے۔ آپ نے جہاں حسب عادت موضوع سے ہٹ کر اور دوسروں کو بھی اپنی من پسند بحث میں گھسیٹنے کی کوشش کی ہے اور جوش خطابت میں مجھ پہ اور مجھ جیسے اندیکھے لوگوں پہ اپنے روائتی انداز میں گھٹیا الزامات کی بوچھاڑ کر دی ہے وہیں جو پروپگنڈا اسلام دشمن لوگ انٹرنیٹ پہ اسلام کے خلاف بے تُکے طور پہ کرتے ہیں بعین وہی الفاظ آپ نےشروع اسلام کے بارے میں استعمال کئیے ہیں ۔

پاکستان میں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ وہ لوگ اور انجمنیں جو انسانوں کے لئیے بغیر کسی ذاتی یا اجتماعی ایثار کے محض اپنی ذاتی مفادات اور رسوخ کے لئیے صبح شام نام نہاد انسانی حقوق کا ڈھول پیٹتے ہیں ۔ اور اپنے آپ کو دنیا بھر کے اسیکولرز کے امام ثابت کرنے میں تھکتے نہیں لیکن درحقیقت وہ اندر سے اس سے بھی زیادہ تنگ نظر ، مفاد پرست، عدم تحمل ، عدم اخلاق اور انتہاء پسند ہوتے ہیں جس کا الزام وہ صبح شام مسلمانوں کو دیتے ہیں ۔ انک نزدیک سب بہتر اصول یہ ہی کہ مفادات کے لئیے کسی بھی اصول کو کسی بھی آدرش کو ضرورت پڑنے پہ کبھی بھی طاق پہ رکھ دیا جائے یہ الگ بات ہے کہ وہ دوسروں کو دہوکہ دینے کے لئیے صبح شام سنہرے اصولوں کا درس دیتے نظر آئیں۔انکا واحد مقصد کسی شارٹ کٹ کے ذرئیعیے اپنے مادی مٖفادات کا حصول ہوتا ہے ۔ جبکہ اسلام عام اور اجتماعی زندگی کسی طور پہ ایسے شارٹ کٹس کی حمایت نہیں کرتا جس سے محض کسی خاص فرد یا طبقے کے مفاد کے حصول کی کوشش ہو جب ایسے مٖفاد کے حصول کی بنیاد اکثریت کے مفاد عامہ کو قربان کر کے رکھی جائے۔ اور یہ وہ نکتہ ہے جو پاکستان کے نام نہاد اسیکولرز سے برداشت نہیں ہو پاتا ۔ جس وجہ سے وہ نام نہاد اسیکولرزم کے پردے میں درحقیقت صرف ایک ہی نکتے پہ کام کرتے ہیں اور وہ نکہ ہے کہ کسی طور اسلام کو ایک ناکام دین اور ناکام نظام ثابت کیا جاسکے۔ بہت ممکن ہے ان میں کچھ ایسے لوگ بھی اپنی سادہ دلی کی وجہ سے شامل ہوجاتے ہوں جنہیں ایسے نام نہاد اسیکولرز کے اصل محرکات اور اہداف کے بارے میں علم نہ ہو اور وہ دین احیائے نو کی وجہ سے اسلام بیزار طبقے کے ہاتھوں استعمال ہوجاتے ہیں ۔ مگر جس آسانی سے وہ اسلام بیزار طبقے کے لئیے ٹریپ ہوتے ہیں ۔ شعور کی پختگی آنے پہ اسی آسانی سے اسلام بیزار طبقے کے جھانسے سے باہر نکل آتے ہیں۔اسلئیے یہ طبقہ اور دوسرے اسطرح کے لوگ پاکستان جیسے ملک میں دیواروں کے ساتھ اپنا سر پھوڑتے رہیں گے کیونکہ یہ جس کاز یا اسیکولرزم کا ڈھول بجاتے ہیں یہ لوگ اس کے ساتھ بھی جھوٹے ہیں ۔ اور دنیا جانتی ہے کہ جھوٹوں کو کبھی بھی اپنے مقاصد میں حتمی کامیابی نصیب نہیں ہوتی ۔

بی بی!اگر آپ ایک ہی مرکزی خیال پڑھ پڑھ کر تنگ آگئیں ہیں تو یہ آپ کا مسئلہ ہے۔ یہ دوسروں کی پریشانی نہیں۔ جمہوریت کا ایک سنہرا اصول یہ بھی ہے کہ جمہور کی رائے کا احترام کیا جائے۔ اب اگر الحمداللہ پاکستان میں مسلمانوں کی اکثریت ہے یعنی اکثریت کسی نہ کسی قاعدے سے مسلمان کہلوانے اور کبھی نہ کبھی اسلامی طرز زندگی اپنانے پہ اصرار کرتی ہے تو یہ تو آپ کو اور کچھ دوسرے ہم نشینوں کو یہ تو برداشت کرنا پڑے گا۔

عثمان said...

جاوید گوندل صاحب ،
پاکستان جیسے پرمصائب ، مشکل اور غیر منصف سرزمین پر اگر کوئی سفید پوش رزق حلال کما کر اپنی اور اپنے خاندان کی پرورش کرتا ہے۔ لاقانونیت سے بچتا ہے اور اپنی مشکلات پر صبر اور قناعت کرتا ہے تو یہ وہ شخص ہے جو اسلام اور حق کا صحیح دعویدار ہے۔ اس شخص اور سفید پوش طبقے کا اُس مولوی اور اہل مدرسہ سے کوئی تعلق نہیں جس کا دم آپ اور آپ کے رفقاء اٹھتے بیٹھتے بھرتے ہیں۔ یہ مولوی مذہب پرست طبقہ بلاشبہ معاشرے کا ذلیل ترین طبقہ ہے جو اپنی محرومیوں کا بدلہ مذہب کو بطور "پیشہ" اختیار کرکے لینا چاہتے ہیں۔ عیسائیت اور ہندومت ایک مذہبی طبقے کے ہاتھ میں ہے کہ ان غیر فطری مذاہب کی کیمسڑی ہی ایسی ہے۔ لیکن اسلام ، دین فطرت ایک عام سفید پوش طبقے کے قریب ہے بنسبت اس مذہب پرست جنونی طبقے کے جس کا کام سوائے سماجی اور نفسیاتی انتشار پھیلانے سوا کچھ نہیں۔اسلام میں مذہبی اسٹیبلسمنٹ کہاں سے آگئی؟ اس کا حقدار ایک مخصوص طبقہ کیسے ہوگیا؟؟
یہ جو آپ بار بار دھراتے ہیں کہ پاکستان کے وسائل پر سیکولر "لادین" طبقہ قابض ہے۔۔۔یہ بھی خوب رہی۔ صاحب پاکستان میں لبرل طبقہ کا برائے نام وجود رکھتا ہے۔ ذرا بتائیے کہ اس وقت قبروں کے جو مجاور وزرارت عظمیٰ کی مسند پر بیٹھے ہیں ان کا تعلق کس طبقے سے ہے؟ گیارہ سال اس ملک کو بھنبھوڑنے والے "مرد حق" کا تعلق کس طبقے سے تھا؟ پاکستان کے وسائل پر قابض غاصب اتنے ہی " لبرل " ہیں جنتا کہ پاکستان کا اسلامی طبقہ " اسلامی" ہے۔ ہروہ طبقہ جو آپ کے من پسند مذہبی سانچے میں فٹ نہیں بیٹھتا خود بخود لبرل یا سیکولر طبقہ نہیں بن جاتا۔ پاکستان میں سیکولر اور لبرل نام کی کوئی چیز نہیں۔ بس غاصب ہیں مختلف قسم کے۔ کچھ مذہب سے دکانداری چمکا رہے ہیں تو کچھ خاندانی جاگیری قومی اور لسانی طریقوں سے۔
آپ کا حال یہ ہے کہ آپ معصوم جانوں کے پرخچے اڑانے والے مذہبی جنونی طبقے کے خلاف ایک لفظ نہیں بولنا چاہتے لیکن سپین میں بیٹھ کر ہر اس شخص کو مذہبی سرٹیفیکٹ تھماتے ہیں جو آپ کے من پسند مذہبی تصورات کی پوجا نہیں کرتا۔ بہت خوب!

Abdullah said...

جی عنیقہ گوندل صاحب صحیح فرما رہے ہیں اس ملک میں اکثریت اگر جاہلوں کی ہے تو آپکو اکثریت کا حترام کرتے ہوئے ان کی جاہلانہ گفتگو اور تجزیات کو برداشت کرنا چاہیئے آخر یہی تو جمہوریت ہے!!!!

Abdullah said...

اور ہاں جاہلانہ سوچ میں تبدیلی جرم ہے!!!

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

عثمان صاحب!
آپ نے جو رزق حلال کمانے والے سفید پوشوں کا ذکر کیا کہ جو لوگ حلال رزق کماتے ہیں ۔حق بات کرتے ہیں اور نامساعد حالات یعنی جھوٹ اور افتراپردازی کے دور میں صبر کرتے ہیں انھی کے بارے میں سورۃ العصر میں اللہ تعالٰی نے عصر یعنی تمام زمانوں کی قسم کھائی ہے یعنی وقت یا زمانہ جب سے ہے تب سے اللہ تعالٰی کے مشاہدے میں یوں ہے کہ انسان تب سے گھاٹے میں ہے ۔ خسارے میں ہے۔ جو لوگ خسارے میں نہیں اللہ سبحان تعالٰی نے اُن کی نیکی اور اچھے اعمال۔ حق بات اور صبر کرنے کی۔ وہ شرائط بیان کی ہیں جو انھیں گھاٹے کے سودے کرنے والوں سے ممتاز کرتی ہیں ۔ انکے بارے میں ارشاد کیا ہے کہ وہ مخالف تریں حالات میں غنیم یعنی حق کی مخالفت کرنے والوں کے ساتھ شامل نہیں ہوجاتے کہ یہ زمانے کا چلن ہے بلکہ وہ حق بات کرنے کے ساتھ ساتھ مصائب پہ صبر کرتے ہیں ۔ تاوقتیکہ نیکی اور اچھے اعمال کرنے والوں کی محنتیں رنگ لے آئیں۔

آپ نے بجا ارشاد فرمایا ہے کہ جنرل ضیاءالحق اور موجودہ حکومت کے سیٹ اپ میں مخدوموں اور جاگیر داروں کا عمل دخل ہے۔ مگر اسکا مطلب یہ نہیں بنتا کہ یہ تمام لوگ اسلام یا دین اسلام کی خاطر عمل کرنے والے لوگ ہیں یا ان حکومتوں نے اسلامی اخلاقی بنیادوں پہ حکومت چلانے کی کوشش کی ہے۔ لہٰذا اس بناء پہ آپ جنرل ضیاء الحق اور موجودہ حکومت کی کارستانیوں کو پاکستان کے مسلمان عوام کی کرپشن سے پاک اور انصاف پہ مبنی حکومت کی خواہش کے کھاتے میں نہیں ڈال سکتے۔

کم ازکم آپ اس بات سے تو اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستان میں لبرل یا اسیکولر طبقے کا کوئی وجود نہیں اور جو اپنے آپ کو زبردستی اسیکولر بنا کر پیش کرتے ہیں۔ جبکہ پس پردہ انکے مفادات کچھ اور ہیں جو پہلے بیان کئیے جاچکے ہیں ۔

عام طور پہ ایک بہت اہم نکتہ جو دیدہ دانستہ وہ لوگ بیان نہیں کرتے اور پاکستانی معاشرتی ڈھانچے کی تمام خرابیوں کو مولوی اور علماء کے سر منڈھتے ہوئے اسلام اور اسلام کو ایک دین کی حیثیت سے ماننے والوں کو رگڑا دینے سے باز نہیں آتے ۔ نکتہ بہت سادہ ہے کہ معاشرے کو سدھارنے کا کام پاکستان کا مسلم طبقہ اپنی مقدور بھر کوشش سے کرتا آیا ہے جبکہ یہ انکی سرکاری ذمہ داری نہیں بنتی اور نہ ہی سرکار پاکستان ان سے اس کار خیر کے لئیے تعاون کرتی ہے ۔ بلکہ ان کے رستے میں روڑے اتکانے کی اپنی سی ہر کوشش کرتی ہے۔تو ایسے میں ہر صورت مولوی کو ذمہ داران ٹہرانا اور حکومتی اداروں ، اور نام نہاد این جی اوز کو تنقید سے درگزر کر دینا ۔ انکی غلط نیت کی طرف اشارہ ہے۔

پاکستان ،اسپین یا کنیڈا میں "بیٹھنے؟" سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ۔ آپ کا یہ ارشاد سمجھ سے بالا ہے۔ آپکی اطلاع کے لئیے عرض ہے کہ میں یا میرے رفقاء (جن کے وجود کے بارے میں خود مجھے علم نہیں مگر آپ انھیں جانتے ہیں؟ واہ) کسی کا دم نہیں بھرتے ۔


مولوی کے بارے میں، میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ بہت ممکن ہے مجھے بھی بہت سے لوگوں کی طرح ان سے اختلاف ہو سکتا ہے ۔ مگر مجھے مولوی پہ تنقید کے بہانے اسلام اور اسلام کے ماننے والوں کو رگڑا دینے کا کوئی حق نہیں پہنچتا جبکہ مزکورہ طبقہ مولوی کی لغرش یا کم علمی کو بنیاد بنا کر پاکستانی معاشرے کے سارے ڈھانچے کی تمام برائیاں اسلام پسندوں اور اسلام کے سر تھونپنے سے نہیں چُوکتا۔

Abdullah said...

سامنے کی بات ہے جس اسلام کے ٹھیکیدار ان حضرت جیسے ہوں گے اسکا تو بس اللہ ہی حافظ و ناصر ہے!!!!!!

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

ویسے بارہ سنگھا بھی کافی دلچسپ شئے ہوتی ہے۔

Abdullah said...

جاہل گدھوں سے جواب نہ بن پڑے تو وہ ایسے ہی گھٹیا پن سے اپنی جان چھڑاتے ہیں!!!!!!
:)

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

بارہ سنگھا کی شان میں
بارہ سنگھے کی فریاد(بچوں کا ڈفرستان)
بھیجا ہے جعفر نے مہمان خانہ میں

ندی پر اک بارہ سنگا
پانی پینے کو جب پہنچا
پانی میں سینگوں کو دیکھا
دیکھ کے ان کو دل میں سوچا
کتنے پیارے سینگ ہیں میرے
کاش کہ ہوتے پیر بھی ایسے
سینگ ہیں میرے جتنے اچھے
پیر ہیں کچھ اتنے ہی بھدے
سوچ رہا تھا سر کو جھکائے
چند شکاری اس دم آئے
دیکھ کے ان کو بارہ سنگا
تیز ہوا کی صورت بھاگا
اس کی اس بھاگا بھاگی میں
اُلجھے سیکنگ گھنی جھاڑی میں
اب تو بے چارہ گھبرایا!
پورا اپنا زور لگایا
پھر بھی اس کے سینگ نہ نکلے
خوف سے چھوٹا سا دل دھڑکے
آ پہنچے اتنے میں شکاری!
پاؤں میں اس کے رسی باندھی
سوچ رہا تھا بارہ سنگا
جن سینگوں پر ناز تھا اتنا
بن گئے آخر کو وہ مصیبت
مجھ پہ انہی سے آئی آفت
بات گرہ میں باندھ لو بچو
اک اک چیز کو اچھا سمجھو
قدرت نے جو چیز بنائی
اس میں نکالو تم نہ برائی
(سلیم فاروقی)
بارہ سنگھے کے بارے مزید جاننے کے لئے وقتا فوقتا اردو بلاگستان پر آتے رہیے، کہیں نہ کہیں سینگ پھنسائے، زور لگاتا ہوا مل جائے گا
از جعفر بشکریہ ڈفرستان ، مزید جانچ کاری کے لئیے لنک ذیل میں ہے۔

http://www.dufferistan.com/?p=1132

Abdullah said...

ایسے ہوتے ہیں جاہل اور گدھے جو دلائل کا جواب دلائل سے نہیں دے پاتے ہیں!!!!!
:hahah

DuFFeR - ڈفر said...

آئے ہائے ہائے دل خوش ہو گیا اتنے علمی بحث مباحثے کو پڑھ کے۔ اور کس کس کا دل خوش ہوا؟
:D

جعفر said...

میرا دل تو گارڈن گارڈن ہوگیا ہے
واہ واہ
ویسے یہ بارہ سنگھنے کی قربانی جائز ہوتی ہے؟
یہ بھی انہی مولانا ساب سے پوچھنا پڑے گا شاید۔۔۔

Abdullah said...

جہان یہ چند نفسیاتی مریض موجود ہوں بارہ سنگھا فوبیا کے شکار، وہاں علمی بحث مباحثے کہاں ہوسکتے ہیں ڈفرمیاں!!!!!
ہر بار لاجواب ہوکر انکا ذہنی مرض بڑھ جاتا ہے اور پھر سارے پاگل ایک ایک کر کے ایک ہی جگہ پہنچ جاتے ہیں بقائے امداد باہمی پاگلاں کے تحت!!!!!
lolz

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

تو ثابت یہ ہوا کہ بارہ سنگا واقعی دلچسپ شئے ہے۔

عنیقہ ناز said...

جاوید صاب یہ جو آپ لوگ اپنی جہالت کے فتووں پہ جمہور کی مہر لگا کر اسے مقبول سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ جمہور ک ا ادب کرنے والی عادت اس وقت کیوں سو جاتی ہے جب جمہور زرداری کو صدر اور رحمان ملک کو وزیر داخلہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ جب جمہور انڈین فلمیں اور انڈین چینلز دیکھنا چاہتا ہے تو آپکو منظور نہیں۔ یہی جمہور پردہ نہیں کرنا چاہتا۔ آپکو منظور نہیں، یہی جمہور مغربی لباس پہننا چاہتا ہے آپکو منظور نہیں۔ جمہور تو اور بحی بحہت کچح کرنا چاہتا ہے لیکن آپ اسے لفٹ نہیں کراتے۔ یہ ایسے تذکروں میں آپ کس جمہور کا قصہ لے آتے ہیں۔ وہ جو آپ پہ یا بلاگستان کے کچھ لوگوں پہ یا پاکستان کے کچھ انتہا پسند لوگوں پہ مشتمل ہے۔ یا میرے جیسے لوگوں پہ۔ کون ہے جمہور۔ وہ جو ہمارے میڈیا سے لطف اندوز ہوتا ہے یا وہ جس کے خواب آپ دیکھتے ہیں۔
جناب جاوید گوندل صاحب، صرف اپنے آپکو مسلمان سمجھنے کے نشے سے باہر نکل آئں۔ اور یہ افیون لینا چھوڑ دیں۔ ورنہ یہی کہتے رہیں گے کہ میں شرابی نہیں، میں شرابی نہیں، مگر در حقیقت باتین مجنونوں والی ہونگیں۔

جاوید گوندل ، بآرسیلونا ۔ اسپین said...

بی بی !۔ سچ بڑ ا کڑوا ہوتا ہے۔ کسیلا ہوتا ہے۔ جلا دیتا ہے۔ تپا دیتا ہے۔ویسے ایک بات کی سمجھ نہیں آئی آپ کے مغربی ڈریس پہننے سے باقی لوگ جاہل قرار دئیے جاتے ہیں یا آپ کا انڈین فلمیں دیکھنے سے باقی پاکستان جاہل ہوجاتا ہے؟۔ اگر آپ اپنے کو مغربی ملبوسات کی دلدادہ، انڈین موویز اور انڈین چینلز کی فین بیان کر کے سارے پاکستان کی تصویر کشی کرنا چاہتی ہیں یا یہ ثابت کرنا چاہتی ہیں کہ آپ کے ہاں اسے جمہور کہا جاتا ہے اور ہم اس پہ آپ کو داد دیں توآپ کی اطلاع کے لئیے عرض ہے کہ بی بی! میں نے بہت چھوٹی سی عمر سے مغرب اور مغربی ملبوسات دیکھ رکھے ہیں اور مغربی تعلیمی اداروں سے حصول علم کے دوران اور بزنس میں پرسنل اسٹنٹ یعنی سیکٹرری اور مغربی ملازمات رکھنے کا اتفاق ہے۔ لیکن وہ جمہور کے بارے میں اتنا ہی جانتیں ہیں جتنا آپ کے تبصرہ جات سے پاکستان میں جمہور کی رائے اور مطالبے (ڈیمانڈز) کی واقفیت ملتی ہے۔

بی بی! اگر طبعیت پہ ناگوار خاطر نہ گذرے تو عرض کروں کہ مفروضات اور خوش خیال تصورات کی بنیاد پہ آپ غالبا دسویں مرتبہ میری مسلمانی اور اسلامی فہم کو نشانہ بنا چکی ہیں۔ جبکہ اسلام کے بارے میں آپکا فہم آپ کے تبصروں سے چھلکتا بلکہ اُمڈتا نظر آتا ہے اور سیانے کہتے ہیں جس بارے میں علم نہ ہو اس بارے منہ نہیں کھولنا چاہئیے۔ اسلئیے آپ "اپنی اپنی" گردان کرتی رہا کریں جو آپ کو کرنا خُوب آتا ہے ۔ واللہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں کہ آپ کونسا میڈیا دیکھنا پسند کرتی ہیں یا کونسے ملبوسات آپکو بھاتے ہیں ۔ یہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے۔ مگر یہ کہہ دینا کہ پورا پاکستان آپکی طرح مغربی ملبوسات اور کلچر پہ مرتی ہے ۔ واللہ یہ بہت بڑی دروغ گوئی ہے۔

Abdullah said...

واقعی سچ کڑوا ہوتا ہے اور کسطرح لوگوں کو جلاتا اور تڑپاتا ہے اور پھر وہ اس جلن اور تپن میں کس طرح آپے سے باہر ہوتے ہیں یہ جاوید گوندل کی لغو گفتگو پڑھ کر اچھی طرح سمجھ آجاتا ہے!!!!!

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ۔ اسپین said...

عبداللہ پیارے آپ کس کھاتے میں ہو؟ بڑوں کی باتوں میں اپنی بولتی نہیں کھولتے یارا۔۔ جس طرح آپ پرائی شادی میں دیوانہ بنے ہو اسی طرح میرے کچھ جاننے والے بھی اپنے اندر دلِ بے تڑپ بھی رکھتے ہیں کہ آپ سے دو دو ہاتھ یعنی دو دو الفاظ کر ہی لیں کہ وہ بھی آپ جیسی اخلاقیات کی اچھی طرح سوجھ بۃجھ رکھتے ہیں اور ہیں بھی کچھ دل بے تاب مگر میں انھیں روک دیتا ہیں کہ مجھے آپ کی عزت خوا وہ کیسے بھی بیست کئی گئی پھر بھی عزیز ہے ۔ اسلئیے پیارے سوچ لو۔

Abdullah said...

گوندل بقلم پتا نہیں کون کون!!!!!
تم جیسوں کی اوقات مجھے اچھی طرح معلوم ہے جب دلائل کا جواب دلائل سے نہیں دے پاتے تو ایسے ہی اپنی اصلیت پر اتر کر گالم گلوچ شروع کردیتے ہو،تم اور تمھارے حمایتی اس سے زیادہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں یہ دھمکیاں کسی اور کو دینا، میں تم جیسے بزدلوں کے اوچھے ہتھکنڈوں سے خوب اچھی طرح واقف ہوں!!!!!

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com