محترم آپنے بہت اچھا لکھا ھے - آپ نے جو مثال دی ھے اس سے میرے ذھن میں ایک سوال ابھرا ھے - کیا سویڈن ، ڈنمارک،سوئزرلینڈ،اور سنگاپور کے لوگوں نے یہی نسخہ استعمال کیا تھا یعنی اجتماعی گناہوں سے توبہ کی تھی جس کے نتیجہ میں انکو اچھے رہنما ملے ؟ بہت شکریہ
اجتماعی توبہ سے مراد ہے اپنے عمل سے غلطیوں کی تلافی کرنا۔ان ملکوں نے یہ ساری برائیاں عملی طور پر ختم کی ہیں۔فیوڈلزم، موروثی سیاست، پارٹیوں پر خاندانوں کی اجارہ داری اور سفارش کا قلعہ قمع کر دیا۔اورحکمرانوں کا احتساب،ناداروں کی سرکاری امداد یعنی سوشل سیکیورٹی،حکمرانوں کا عام گھروں میں رہنا اور بسوں اور سائیکلوں پر سفر کرنا، قانون سے کسی کو مستثنا نہ کرنا،وقت کی اور وعدے کی پابندی، یہ ساری صفات ان قوموں نے اپنے اپنے اندر پیدا کی ہیں۔ یہی توبہ ہے۔ توبہ عمل سے ہوتی ہے۔لفظوں سے نہیں ہوتی۔یہ وہ احکام ہیں جن کا اسلام نے حکم دیا ہے۔ ہم ساری دنیا کو کافر بنانے پر تُلے رہتے ہیںلیکن اپنا احتساب کرتے ہیں نہ برائیوں سے عملی توبہ
وضاحت کا شکریہ لیکن یہ وضاحت محمد اظہار الحق کرتے تو زیادہ مناسب ہوتا کیونکہ مضمون انہوں نے لکھا ھے - ھوسکتا ھے ان کے ذھن میں کسی اور طرح کی وضاحت ھو - بہت شکریہ
اسلام ہمیں مساوات اور اخوت کا درس دیتا ہے۔ عدل اور انصاف کا پابند کرتا ہے۔ مگر عملی زندگی میں ہم اسکے برعکس عمل کرتے ہیں۔ اور ملک میں مساوات و اخوت اور عدل و انصاف نام کی شئے دور دور تک نظر نہیں آتی۔ ایسے میں اجتماعی توبہ کرنے کے لئیے ایسا میکنزم ہونا ضروری ہے جس سے اوپر آپ کی بیان کردہ تمام مندرجہ بالا برائیوں سے پاکستان اور پاکستانیوں کی جان چھڑوائی جاسکے۔ ایسا میکنزم کیا ہو؟ کیسے ہو؟ اس کے بغیر اجتماعی توبہ کی قبولیت کی کیا ضمانت ہے اگر برائیاں وہی ہم سے سرزد ہوں جن سے ہم تائب ہونے کا اعلان کریں؟
ایم ڈی کے سوال کے جواب میں انانی مس نے جو وضاحت کی ہے مجھے اس سے پورا اتفاق ہے۔ توبہ انفرادی ہو یا اجتماعی،عمل سے ہوتی ہے۔زبانی جمع خرچ سے نہیں۔
گوندل صاحب نے میکانزم کی بات کی ہے جو اہم ہے۔ میری رائے میں یہ میکانزم رُول آف لا کے ذریعے آ سکتا ہے۔ اور رُول آف لا اُس وقت نافذ ہو گا جب سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت آئے گی اور خاندانی اور موروثی سیاست سے جان چھوٹے گی۔ جب سیاست دان کو معلوم ہو گا کہ ٹکٹ پارٹی کے ""مالک "" نے نہیں دینا بلکہ پارٹی کے ارکان کے ووٹوں نے دینا ہے تو وہ خود قانون توڑے گا نہ دوسرے قانون شکن لوگوں کی مدد کرے گا۔
5 comments:
محترم آپنے بہت اچھا لکھا ھے - آپ نے جو مثال دی ھے اس سے میرے ذھن میں ایک سوال ابھرا ھے - کیا سویڈن ، ڈنمارک،سوئزرلینڈ،اور سنگاپور کے لوگوں نے یہی نسخہ استعمال کیا تھا یعنی اجتماعی گناہوں سے توبہ کی تھی جس کے نتیجہ میں انکو اچھے رہنما ملے ؟ بہت شکریہ
اجتماعی توبہ سے مراد ہے اپنے عمل سے غلطیوں کی تلافی کرنا۔ان ملکوں نے یہ ساری برائیاں عملی طور پر ختم کی ہیں۔فیوڈلزم، موروثی سیاست، پارٹیوں پر خاندانوں کی اجارہ داری اور سفارش کا قلعہ قمع کر دیا۔اورحکمرانوں کا احتساب،ناداروں کی سرکاری امداد یعنی سوشل سیکیورٹی،حکمرانوں کا عام گھروں میں رہنا اور بسوں اور سائیکلوں پر سفر کرنا، قانون سے کسی کو مستثنا نہ کرنا،وقت کی اور وعدے کی پابندی، یہ ساری صفات ان قوموں نے اپنے اپنے اندر پیدا کی ہیں۔ یہی توبہ ہے۔ توبہ عمل سے ہوتی ہے۔لفظوں سے نہیں ہوتی۔یہ وہ احکام ہیں جن کا اسلام نے حکم دیا ہے۔ ہم ساری دنیا کو کافر بنانے پر تُلے رہتے ہیںلیکن اپنا احتساب کرتے ہیں نہ برائیوں سے عملی توبہ
وضاحت کا شکریہ لیکن یہ وضاحت محمد اظہار الحق کرتے تو زیادہ مناسب ہوتا کیونکہ مضمون انہوں نے لکھا ھے - ھوسکتا ھے ان کے ذھن میں کسی اور طرح کی وضاحت ھو - بہت شکریہ
اسلام ہمیں مساوات اور اخوت کا درس دیتا ہے۔ عدل اور انصاف کا پابند کرتا ہے۔ مگر عملی زندگی میں ہم اسکے برعکس عمل کرتے ہیں۔ اور ملک میں مساوات و اخوت اور عدل و انصاف نام کی شئے دور دور تک نظر نہیں آتی۔ ایسے میں اجتماعی توبہ کرنے کے لئیے ایسا میکنزم ہونا ضروری ہے جس سے اوپر آپ کی بیان کردہ تمام مندرجہ بالا برائیوں سے پاکستان اور پاکستانیوں کی جان چھڑوائی جاسکے۔ ایسا میکنزم کیا ہو؟ کیسے ہو؟ اس کے بغیر اجتماعی توبہ کی قبولیت کی کیا ضمانت ہے اگر برائیاں وہی ہم سے سرزد ہوں جن سے ہم تائب ہونے کا اعلان کریں؟
ایم ڈی کے سوال کے جواب میں انانی مس نے جو وضاحت کی ہے مجھے اس سے پورا اتفاق ہے۔ توبہ انفرادی ہو یا اجتماعی،عمل سے ہوتی ہے۔زبانی جمع خرچ سے نہیں۔
گوندل صاحب نے میکانزم کی بات کی ہے جو اہم ہے۔ میری رائے میں یہ میکانزم رُول آف لا کے ذریعے آ سکتا ہے۔ اور رُول آف لا اُس وقت نافذ ہو گا جب سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت آئے گی اور خاندانی اور موروثی سیاست سے جان چھوٹے گی۔ جب سیاست دان کو معلوم ہو گا کہ ٹکٹ پارٹی کے ""مالک "" نے نہیں دینا بلکہ پارٹی کے ارکان کے ووٹوں نے دینا ہے تو وہ خود قانون توڑے گا نہ دوسرے قانون شکن لوگوں کی مدد کرے گا۔
Post a Comment