Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, July 13, 2010

کشف المحجوب

میں بھاگتا پھر رہا ہوں اور مجھ سے کوئی نہیں پوچھتا کہ کیا ہوا ہے؟

اس لئے کہ ہر کوئی بھاگتا پھر رہا ہے۔ میں انارکلی کی طرف دوڑتا ہوں کہ سعود عثمانی کا وہاں دفتر ہے لیکن ایک ہنگامہ ہے اور راستہ نہیں ملتا۔

ٹولنٹن مارکیٹ کے سامنے سے ہو کر میں یونیورسٹی میں داخل ہو جاتا ہوں، میرا رُخ اورینٹل کالج کی سمت ہے۔ فارسی کے شعبے میں معین نظامی کا کمرہ مجھے پناہ گاہ لگتا ہے، لیکن یہاں تو سب کمرے بند ہیں۔ اب میں نابھا روڈ کی طرف چل پڑتا ہوں، جمیل بھٹی ان دنوں اکاؤنٹنٹ جنرل لگا ہوا ہے اسکے پاس بیٹھوں گا لیکن قدم اٹھ ہی نہیں رہے۔ اس لئے کہ میرے اندر بھی عذر برپا ہے پھر ایک زوردار دھماکہ ہوتا ہے کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی یہ دھماکہ میرے اندر ہوا ہے۔ باہر بھی خون ہے، گوشت کے لوتھڑے ہیں، دست و بازو ہوا میں اُڑ رہے ہیں، سب دوڑ رہے ہیں سب چیخ رہے ہیں۔ میرے اندر بھی خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں، گوشت کے ٹکڑے اُڑ رہے ہیں، ہاتھ اور بازو کٹ کٹ کر گر رہے ہیں جسم ہوا میں اُچھل رہے ہیں۔ میرے اندر بھی چیخیں ہیں، بھاگنے کی آوازیں ہیں۔میں جس کے پاس بھی جاتا ہوں، میری بات کوئی نہیں سنتا۔ میں پیاسا ہوں لیکن مجھے دودھ دیتے ہیں تو اس میں مینگنیاں ڈال دیتے ہیں، پانی دیتے ہیں تو صرف تنکا نہیں، کیڑے مکوڑے نظر آتے ہیں۔ میں بھوک سے نڈھال ہو کر گر پڑتا ہوں، لوگ آتے ہیں عبائیں اوڑھے، عمامے باندھے، عصا دردست، مجھے بخشش میں کھانا عنایت کرتے ہیں لیکن میں دستر خوان کھولتا ہوں تو روٹیوں کی جگہ ہڈیاں ہیں اور پنیر کے بجائے جما ہوا خون نظر آتا ہے۔

شور، ہنگامہ، چیخیں، خون، گوشت، ہڈیاں، لاشے، ماتم، نوحے باہر بھی اور میرے اندر بھی۔ داتا دربار سے انارکلی تک ٹولنٹن مارکیٹ سے نابھا روڈ تک، اورینٹل کالج سے چیف منسٹر ہاؤس تک، ہاں چیف منسٹر ہاؤس تک کہ وہاں بھی دودھ ہے لیکن مینگنیاں ہیں، پانی ہے لیکن اس میں کیڑے ہیں، روٹی ہے لیکن ہڈیوں سے پکائی ہوئی، پنیر ہے لیکن منجمد انسانی خون کی شکل میں۔ اندر بھی یہی کچھ ہے، دل سے لے کر رُوح تک، رُوح سے لے کر جان تک، دماغ سے لے کر کلیجے تک، ہر طرف ہُوک ہے اور کسک، کرب ہے اور شکست و ریخت۔ میں آنکھ بند کرتا ہوں تو مجھے اپنا کلیجہ اور دل اور دماغ اور جان اور سب کچھ ہوا میں اڑتا نظر آتا ہے! میں پبلک لائبریری میں داخل ہو جاتا ہوں اور فارسی شاعری کے گوشے میں دبک کر بیٹھ جاتا ہوں۔ سفید پوشاک میں ملبوس ایک سایہ نمودار ہوتا ہے۔ میرے کاندھے پر ہاتھ دھرتا ہے سبک، نرم ہاتھ، لمس اندر تک سرایت کر جاتا ہے پھر وہ میری گود میں کوئی شے رکھتا ہے اور ہوا میں اُسی نرماہٹ سے تحلیل ہو جاتا ہے جس طرح نمودار ہوا تھا۔ دیکھتا ہوں تو یہ دیوانِ حافظ ہے میں سمجھ جاتا ہوں کہ فال نکالنے کا حکم ہے۔ فال نکالتا ہوں تو سامنے یہ اشعار آ جاتے ہیں…؎

مشکلِ خویش برِ پیرِمغاں بردم دوش

کو بتائیدِ نظر حلِ معما می کرد

میں اپنی مشکل کل پیرِ مغاں کے پاس لے گیا اس لئے کہ وہ بصیرت کے ساتھ مشکلات حل کرتا تھا۔

دید مش خرم وخنداںِ، قدحِ بادہ بہ دست

واندر آن آئنہ صد گو نہ تماشا می کرد

میں نے دیکھا کہ وہ خوش و خرم، ہاتھ میں جاِم شراب لئے تھا اور اس آئینے میں سو طرح کے مناظر دیکھ رہا تھا…؎

گفتم این جامِ جہان بین بہ تو کی داد حکیم

گفت آن روز کہ این گنبدِ مینا می کرد

میں نے پوچھا کہ اے مردِ دانا! قسّامِ ازل نے یہ پیالہ جس میں دنیا نظر آتی ہے، تجھے کب عطا کیا؟ کہنے لگا اس روز جب وہ اس لاجوردی رنگ کے آسمانی گنبد کو بنا رہا تھا!

میں اشارہ سمجھ گیا، لائبریری سے نکلا اور پیر مغاں کا پتہ پوچھا جس سے بھی پوچھتا تھا ایک ہی بات بتاتا تھا کہ اس شہر میں ایک ہی پیرِ مغاں ہے، سید علی ہجویریؒ جسے داتا گنج بخشؒ کا عوامی لقب ملا ہوا ہے اور وہ استراحت میں ہے۔ گلیوں میں بہتے خون سے گزرتا اور لاشوں میں راستہ بناتا میں وہاں پہنچا جہاں پیرِ مغاں محوِ استراحت تھا۔ ایک سایہ پھر نمودار ہوا اور ایک اور کتاب میری گود میں رکھ کر غائب ہو گیا۔ دیکھا تو کشف المحجوب تھی۔ سید علی ہجویریؒ کی تصنیف کھولی تو اس میں سے سوال نکلے۔ سایہ پھر نمودار ہوا، وہی نرم ہاتھ، وہی خون میں اتر جانے والا لمس، ان سوالوں کا جواب حاصل کرو یہی کلید ہے۔

میں اب ان سوالوں کی پوٹلی سر پر اٹھائے پھر رہا ہوں، دھکے کھا رہا ہوں، جن لوگوں کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ ان سوالوں کے جواب جانتے ہیں، انکے پاس جاتا ہوں تو وہ منہ دوسری طرف کر لیتے ہیں۔ میں گلی گلی پھر رہا ہوں، دروازے کھٹکھٹا رہا ہوں آوازے لگا رہا ہوں۔ کوئی ہے جو ان سوالوں کے جواب دے۔

1۔ جو حضرات دھماکہ ہونے کے بعد ایک گھنٹے کے اندر اندر اعلان کرتے ہیں کہ یہ دھماکے بلیک واٹر نے یا ’’را‘‘ نے کرائے ہیں انہیں پکڑا کیوں نہیں جاتا؟ آخر انہیں اطلاع کیسے ہو گئی؟ ان حضرات کا ان تنظیموں سے کیا تعلق ہے؟ اور کب سے ہے؟

2۔ پوری دنیا کو معلوم ہے کہ دھماکوں کے بعد بہت سے مظلوم پکڑے جاتے رہے ہیں۔ ان کا تعلق کن تنظیموں سے ہے؟

3۔ یہ تنظیمیں ایک خاص مکتبِ فکر سے وابستگی کا دعویٰ بھی کرتی ہیں اور اعلان بھی۔ اس مکتب فکر کے سرکردہ اصحاب ان ہلاکت آفریں تنظیموں سے لاتعلقی کا اعلان کیوں نہیں کرتے؟

4۔ دسمبر 2009ء میں کراچی کی ہلاکتوں کی ذمہ داری ایک تنظیم نے قبول کی اگر کچھ لوگوں کے بقول یہ کارروائی اس تنظیم کی نہیں تھی، تو تنظیم نے یہ اعلان کیوں نہیں کیا کہ ذمہ داری قبول کرنے والے کا ہم سے کوئی تعلق نہیں؟

5۔ کیا دھماکوں میں شہید ہونے والے لوگ ڈرون حملوں کے ذمہ دار ہیں؟ اگر نہیں تو ایک سیاسی مذہبی جماعت کے رہنما ان دھماکوں کو ڈرون حملوں سے کیوں جوڑتے ہیں؟

6۔ ٹیلی ویژن پر وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے ایک مذہبی سیاسی جماعت کے (بظاہر) ریٹائرڈ لیڈر سے بار بار پوچھا کہ دھماکوں میں پکڑے جانے والے ملزمان کون ہیں؟ اور ان کا کن تنظیموں سے تعلق ہے؟ ریٹائرڈ لیڈر ہر بار ایک ہی جواب دیتے تھے کہ یہ جنگ ہماری نہیں۔ کیا یہ بزرگ اونچا سنتے ہیں؟

7۔ خودکش حملوں میں مارے جانیوالے پاکستانیوں سے امریکہ کو کیا نقصان پہنچ رہا ہے؟

8۔ اگر غیر مسلم، مسلمانوں کے بچوں اور عورتوں کو قتل کر رہے ہوں تو کیا مسلمانوں کیلئے غیر مسلم بچوں اور عورتوں کا قتل جائز ہو جاتا ہے؟

9۔ اگر مسلمانوں کیلئے غیر مسلموں کے بچوں اور عورتوں کا قتل بھی جائز نہیں تو مسلمان عورتوں اور بچوں کا قتل کس طرح جائز ہو جاتا ہے؟

10۔ اور سب سے بڑا سوال امریکہ کے یہ ’’دشمن‘‘ نہتے پاکستانی شہریوں کو قتل کرنے کے بجائے امریکیوں پر کیوں نہیں حملے کرتے؟

میں ان سوالات کی پوٹلی سر پر اٹھائے پھر رہا ہوں کوئی ہے جو جواب دے؟

2 comments:

Anonymous said...

A clear evidence will never be made available as to how the Americans benefit by keeping Pakistan unstable and chaotic, but can any one think of any other beneficiary for the terrorism in Pakistan? Those who have the proofs, will never divulge in the interest of their personal security and also to enjoy the financial compensation that they receive.

Regarding the suicidal foot soldiers who lay their lives on the line, they do it as they have been programmed by the seasoned criminals to consider the misdemeanor as a service to God in the hope to earn reward to enter jannat and live happily for ever in the company of 72 hoors with an additional financial package for their families.

Because of its poverty and poor governance decade after decade, Pakistan has the right socio-economic, cultural and political environment that has become a breeding ground for illiterate, poverty stricken individuals to be prepared and made ready to serve God by blowing themselves up.

The bottom line is: In order to establish whether the US derives any benefit from the instability of Pakistan, it is essential to first answer the following questions.

• Why is America present in AfPak region?
• What are its goals?
• How can those goals be achieved?
• Can a strong, independent, affluent Pakistan be of any service to the US to achieve those goals?

Once these questions are answered, we will have the answers to the terrorism as well.

Surely, the Americans are no longer interested in bin Laden and Al-Qaida is nothing but a term invented by CIA right after 9/11. This term was then circulated by the paid media for political mileage. For all I care, Laden could be leading a peaceful life on a ranch in Texas.

Javed

Anonymous said...

sawaloon main jawab bhee hain...lekin taliban kay haami ziada hain urdu blogshphere main isleeay kisee dhang kay jawab kee umeed naheen...

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com