پانچ سال صرف پانچ سال۔ جو شیرشاہ سوری کو وقت کے بے کنار خلا سے میسر آئے۔ آخر کیا حیثیت رکھتے ہیں۔ مجید امجد کے بقول…؎
زمانے کی پھیلی ہوئی بیکراں وسعتوں میں یہ دوچار لمحوں کی میعاد
طلوع و غروب مہ و مہر کے جاودانی تسلسل کی دوچار کڑیاں
یہ لمحۂ مختصر جو مری زندگی میرا زادِ سفر ہے
یہی کچھ ہے لے دے کے میرے لئے اس خراباتِ شام و سحر میں یہی کچھ
لیکن ان پانچ سالوں میں جو کچھ شیرشاہ سوری نے کر دکھایا‘ وہ اکبر اور اورنگ زیب کے پچاس‘ پچاس سالوں‘ شاہ جہان کے اکتیس اور جہانگیر کے بائیس سالوں پر بھاری ہے۔ شاید ہی تاریخ کا کوئی ایسا طالب علم ہو جس کے ذہن میں‘ شیرشاہ سوری کے عہد کا جائزہ لیتے ہوئے یہ خیال نہ آیا ہو کہ اگر اس افغان کو بھی پچاس سال مل جاتے تو کیا عجیب آج کا برصغیر مختلف ہوتا۔ میرے ناقص علم کیمطابق افغانوں کے پلے سوائے ان پانچ سال کے اور کچھ ہے بھی نہیں جس پر وہ فخر کرسکیں۔
اُسکے بہت سے کارناموں سے قطع نظر (جن کے بیان کا یہ موقع نہیں) ایک کارنامہ ایسا ہے جو آج بہت یاد آ رہا ہے اور بری طرح یاد آ رہا ہے۔ شیرشاہ سوری اس معاملے میں حد درجہ حساس تھا کہ اسکے لشکروں کی نقل و حرکت کے دوران کھڑی فصلیں تباہ نہ ہوں۔ وہ فصلوں کا خود معائنہ کرتا اور گھوڑ سوار نگرانی کرتے کہ کوئی ایک شخص بھی نقصان کا باعث نہ بنے۔ اگر کوئی ایک سٹہ‘ ایک خوشہ بھی توڑتا یا خراب کرتا تو شیرشاہ اس کے کان کاٹ ڈالتا۔ خوشہ اسکے گلے میں لٹکاتا اور پوری لشکر گاہ میں پھراتا نتیجہ یہ نکلا کہ لشکری خود پہرہ دیتے کہ مبادا‘ کسی دوسرے کے کرتوت اُنکے کھاتے میں پڑ جائیں۔ شیرشاہ نے دشمن کے علاقے میں بھی کھیتوں کی حفاظت کی۔ اس نے کسانوں کو کبھی بھی قیدی نہیں بنایا۔
اب یہ خبر دیکھئے کہ ملتان میں مسلم لیگ (ق) کا جلسہ تھا جو جنرل مشرف کے عہد میں زراعت کے وزیر جناب سکندر بوسن نے منعقد کیا۔ اس مبارک عہد کا ذکر کرتے ہوئے اپنا شعر یاد آ گیا ہے…؎
میں تمہارے عہد کی برکتوں کا نشان ہوں
مرے سر پہ بُوم ہے زاغ ہے مرے ہاتھ میں
جلسہ ختم ہوا تو جلسہ گاہ کے قریب واقع دو ایکڑ پر محیط گنے کے کھیت پر اقتدار سے محروم مسلم لیگ نے حملہ کر دیا۔ سولہ کنال پر کھڑی گنے کی ہری بھری فصل دیکھتے ہی دیکھتے اُجڑ گئی۔ خبرنگار کا کہنا ہے کہ نہر کے کنارے بیٹھ کر قاف لیگ کے ارکان گروہوں کی صورت میں گنے چوستے رہے۔ کھیت کے سیاہ بخت مالک نے ’’نامعلوم‘‘ لیگیوں کے خلاف رپورٹ درج کرا دی۔
یہ ہے وہ عمومی ذہنیت جو بامشرف مسلم لیگ سے وابستہ ہے۔ ہو سکتا ہے اسکے جواب میں مسلم لیگی کہیں کہ پیپلزپارٹی والے بھی تو یہی کچھ کرتے ہیں لیکن پیپلزپارٹی والے یہ دعویٰ بھی تو نہیں کرتے وہ قائداعظم کی مسلم لیگ کے وارث ہیں !
یہ درست ہے کہ مسلم لیگ نون نے آٹھ سالہ آمریت کے دوران استقامت دکھائی اور اب بھی خاصی حد تک عوامی امنگوں کی ترجمانی کر رہی ہے لیکن یہ بھی تو قابل تردید حقیقت ہے کہ نون اور قاف کے دھارے ایک ہی دریا سے نکلے ہوئے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ … آملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک … چند دنوں ہی کی بات ہے !
خبر میں ’’نامعلوم‘‘ لیگیوں والی بات معنی خیز ہے۔ اگر لیگی نامعلوم ہیں تو کیا لیگ خود ’’معلوم‘‘ ہے؟
اندازہ کیجئے … ایک ایسی جماعت جس کے سربراہ قائداعظم تھے جو فصل تو کیا … ایک چھلکا بھی ناجائز کھانا اپنے اوپر حرام سمجھتے تھے جن کی دیانت کا بدترین دشمن بھی انکار نہیں کر سکتے۔ اُس جماعت کے ارکان دن دہاڑے ڈاکہ ڈالتے ہیں اور اُسکے قائدین کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ۔ چشم تصور دیکھ رہی ہے مسلم لیگ قاف کے لیڈروں کو اس ڈاکے کی اطلاع دی گئی تو انکی باچھیں ایک کان سے دوسرے کان تک پھیلیں اور انہوں نے کہا … تو پھر کیا ہوا‘ جلسوں میں اور سیاست میں یہ تو ہوتا ہی رہتا ہے۔‘‘ یہی وہ فیوڈل ذہنیت ہے جو عورتوں کی آبرو ریزی پر کہتی ہے کہ کیا ہوا‘ آخر نوجوان لڑکے اس طرح کرتے ہی رہتے ہیں۔
خبر میں ایک اور نکتہ ہے اور وہ یہ کہ جناب سکندر بوسن زراعت کے وزیر تھے۔ ثابت ہوا کہ وہ اب بھی زراعت کے انچارج ہیں اور اپنے کارکنوں کو تازہ اور خالص خوراک فراہم کر رہے ہیں۔ یہ ہے وہ مسلم لیگ جو نوازشر یف کی مسلم لیگ میں شامل ہونے کیلئے بے تاب ہے۔
دیکھئے دس بار وردی کو منتخب کروانیوالے اور وردی کیخلاف خم ٹھونک کر کھڑے ہونیوالے ایک دوسرے میں کب ضم ہوتے ہیں۔ زیرو … ہیرو کی طرف بڑھ رہا ہے تاکہ ہیرو … زیرو ہو جائے۔ صفر سے جو رقم ضرب کھاتی ہے جتنی بھی خطیر کیوں نہ ہو … صفر ہی ہو جاتی ہے۔
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
مانو نہ مانو جان جہاں! اختیار ہے
جناب سکندر بوسن کے ماموں جناب غلام حسین بوسن سول سروس کے نیک نام افسر تھے۔ انتہائی دیانت دار‘ عجز و انکسار کے پیکر اور نیک نام۔ عین شباب میں انتقال کر گئے۔ نہ جانے کیا بات ہے‘ جناب سکندر بوسن کے عہد اقتدار میں جناب غلام حسین بوسن مسلسل یاد آتے رہے اور یاد کیساتھ حیرت اور پریشانی بھی رہی!
جس معاشرے میں دن دہاڑے کھڑی فصلیں اُجڑ جائیں‘ وہاں ماہین غوری کو کون پوچھے گا‘ جو آئی بی اے کراچی میں پروفیسر ہیں۔ ماہین غوری کا قصہ یہ ہے کہ وہ 14 جنوری کو شام کے آٹھ بجے کراچی یونیورسٹی روڈ پر جا رہی تھیں۔ گاڑی کی پچھلی نشست پر انکی بیٹی اور والدہ بیٹھی تھیں۔
اردو کالج کے سامنے دو موٹرسائیکل سوار نوجوانوں نے گاڑی کو روکا ان میں سے ایک نے ریوالور کھڑکی کے شیشے پر مارا اور شیشہ نیچے کرنے کو کہا۔ شیشہ نیچے ہونے پر پہلے تو اس نے گاڑی کی چابیاں نکالنے کی کوشش کی اس میں ناکامی ہوئی تو ریوالور کا نالی ماہین غوری کی ٹھوڑی پر رکھی اور ساتھ پڑا ہوا بیگ اٹھا لیا۔ پھر وہ دونوں غلط سائیڈ پر موٹرسائیکل چلاتے‘ نیپا چورنگی کی طرف چلے گئے۔
اتنے میں ٹیلی فون کی گھنٹی بجنے لگی اس وقت ماہین غوری کو معلوم ہوا کہ ڈاکو جب بیگ اٹھانے جھکا تو اُس کا موبائل فون گاڑی میں گر گیا۔ عزیز بھٹی پولیس سٹیشن پہنچنے تک بارہ کالیں آ چکی تھیں۔
یہ ساری کالیں 0344 - 2412 - 480 سے آئی تھیں۔ موبائل فون اے ایس آئی فریدالدین کے حوالے کیا گیا جس نے بار بار فون کرنیوالے سے بات بھی کی۔ پروفیسر صاحبہ نے اے ایس آئی سے کہا کہ وہ فون کرنیوالے کو بلائے اور بیگ واپس دلائے لیکن ایسا نہ کیا گیا۔
تادم تحریر ڈاکو نہیں پکڑے گئے حالانکہ موبائل فون پر بار بار فون کرنیوالے سے پولیس کی بات بھی ہوئی اور نمبر تک بھی آسانی سے پہنچا جا سکتا تھا !
ہم بجھے دل کیساتھ پروفیسر صاحبہ کی خدمت میں گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ کیا انہیں پاکستان پولیس کی شہرت نہیں معلوم ؟ آخر وہ کس برتے پر پولیس سٹیشن گئیں اور کیا انہیں نہیں معلوم کہ پروفیسر‘ ڈاکٹر‘ انجینئر اور سائنس دان اس ملک میں نہیں ٹھہرتے؟
وہ وقت قریب آ رہا ہے جب اس ملک میں صرف جاگیردار اور اسمبلیوں میں بیٹھنے والے ’’اشرافیہ‘‘ کے ارکان باقی رہ جائیں گے۔ ماہین غوریوں کیساتھ جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ تو یہاں کا معمول ہے !
یہ ملک سیاست دانوں‘ جرنیلوں اور افسر شاہی کے اُن ارکان کی لونڈی بنا دیا گیا ہے جو ہر سیاست دان کو خوش رکھنے کا ہنر جانتے ہیں۔ جسے اپنا چھینا گیا بیگ چاہئے وہ کسی مہذب ملک کا ویزا لگوائے…؎
بھاگ مسافر میرے وطن سے‘ میرے چمن سے بھاگ
اُوپر اُوپر پھول کھلے ہیں بھیتر بھیتر آگ
زمانے کی پھیلی ہوئی بیکراں وسعتوں میں یہ دوچار لمحوں کی میعاد
طلوع و غروب مہ و مہر کے جاودانی تسلسل کی دوچار کڑیاں
یہ لمحۂ مختصر جو مری زندگی میرا زادِ سفر ہے
یہی کچھ ہے لے دے کے میرے لئے اس خراباتِ شام و سحر میں یہی کچھ
لیکن ان پانچ سالوں میں جو کچھ شیرشاہ سوری نے کر دکھایا‘ وہ اکبر اور اورنگ زیب کے پچاس‘ پچاس سالوں‘ شاہ جہان کے اکتیس اور جہانگیر کے بائیس سالوں پر بھاری ہے۔ شاید ہی تاریخ کا کوئی ایسا طالب علم ہو جس کے ذہن میں‘ شیرشاہ سوری کے عہد کا جائزہ لیتے ہوئے یہ خیال نہ آیا ہو کہ اگر اس افغان کو بھی پچاس سال مل جاتے تو کیا عجیب آج کا برصغیر مختلف ہوتا۔ میرے ناقص علم کیمطابق افغانوں کے پلے سوائے ان پانچ سال کے اور کچھ ہے بھی نہیں جس پر وہ فخر کرسکیں۔
اُسکے بہت سے کارناموں سے قطع نظر (جن کے بیان کا یہ موقع نہیں) ایک کارنامہ ایسا ہے جو آج بہت یاد آ رہا ہے اور بری طرح یاد آ رہا ہے۔ شیرشاہ سوری اس معاملے میں حد درجہ حساس تھا کہ اسکے لشکروں کی نقل و حرکت کے دوران کھڑی فصلیں تباہ نہ ہوں۔ وہ فصلوں کا خود معائنہ کرتا اور گھوڑ سوار نگرانی کرتے کہ کوئی ایک شخص بھی نقصان کا باعث نہ بنے۔ اگر کوئی ایک سٹہ‘ ایک خوشہ بھی توڑتا یا خراب کرتا تو شیرشاہ اس کے کان کاٹ ڈالتا۔ خوشہ اسکے گلے میں لٹکاتا اور پوری لشکر گاہ میں پھراتا نتیجہ یہ نکلا کہ لشکری خود پہرہ دیتے کہ مبادا‘ کسی دوسرے کے کرتوت اُنکے کھاتے میں پڑ جائیں۔ شیرشاہ نے دشمن کے علاقے میں بھی کھیتوں کی حفاظت کی۔ اس نے کسانوں کو کبھی بھی قیدی نہیں بنایا۔
اب یہ خبر دیکھئے کہ ملتان میں مسلم لیگ (ق) کا جلسہ تھا جو جنرل مشرف کے عہد میں زراعت کے وزیر جناب سکندر بوسن نے منعقد کیا۔ اس مبارک عہد کا ذکر کرتے ہوئے اپنا شعر یاد آ گیا ہے…؎
میں تمہارے عہد کی برکتوں کا نشان ہوں
مرے سر پہ بُوم ہے زاغ ہے مرے ہاتھ میں
جلسہ ختم ہوا تو جلسہ گاہ کے قریب واقع دو ایکڑ پر محیط گنے کے کھیت پر اقتدار سے محروم مسلم لیگ نے حملہ کر دیا۔ سولہ کنال پر کھڑی گنے کی ہری بھری فصل دیکھتے ہی دیکھتے اُجڑ گئی۔ خبرنگار کا کہنا ہے کہ نہر کے کنارے بیٹھ کر قاف لیگ کے ارکان گروہوں کی صورت میں گنے چوستے رہے۔ کھیت کے سیاہ بخت مالک نے ’’نامعلوم‘‘ لیگیوں کے خلاف رپورٹ درج کرا دی۔
یہ ہے وہ عمومی ذہنیت جو بامشرف مسلم لیگ سے وابستہ ہے۔ ہو سکتا ہے اسکے جواب میں مسلم لیگی کہیں کہ پیپلزپارٹی والے بھی تو یہی کچھ کرتے ہیں لیکن پیپلزپارٹی والے یہ دعویٰ بھی تو نہیں کرتے وہ قائداعظم کی مسلم لیگ کے وارث ہیں !
یہ درست ہے کہ مسلم لیگ نون نے آٹھ سالہ آمریت کے دوران استقامت دکھائی اور اب بھی خاصی حد تک عوامی امنگوں کی ترجمانی کر رہی ہے لیکن یہ بھی تو قابل تردید حقیقت ہے کہ نون اور قاف کے دھارے ایک ہی دریا سے نکلے ہوئے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ … آملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک … چند دنوں ہی کی بات ہے !
خبر میں ’’نامعلوم‘‘ لیگیوں والی بات معنی خیز ہے۔ اگر لیگی نامعلوم ہیں تو کیا لیگ خود ’’معلوم‘‘ ہے؟
اندازہ کیجئے … ایک ایسی جماعت جس کے سربراہ قائداعظم تھے جو فصل تو کیا … ایک چھلکا بھی ناجائز کھانا اپنے اوپر حرام سمجھتے تھے جن کی دیانت کا بدترین دشمن بھی انکار نہیں کر سکتے۔ اُس جماعت کے ارکان دن دہاڑے ڈاکہ ڈالتے ہیں اور اُسکے قائدین کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ۔ چشم تصور دیکھ رہی ہے مسلم لیگ قاف کے لیڈروں کو اس ڈاکے کی اطلاع دی گئی تو انکی باچھیں ایک کان سے دوسرے کان تک پھیلیں اور انہوں نے کہا … تو پھر کیا ہوا‘ جلسوں میں اور سیاست میں یہ تو ہوتا ہی رہتا ہے۔‘‘ یہی وہ فیوڈل ذہنیت ہے جو عورتوں کی آبرو ریزی پر کہتی ہے کہ کیا ہوا‘ آخر نوجوان لڑکے اس طرح کرتے ہی رہتے ہیں۔
خبر میں ایک اور نکتہ ہے اور وہ یہ کہ جناب سکندر بوسن زراعت کے وزیر تھے۔ ثابت ہوا کہ وہ اب بھی زراعت کے انچارج ہیں اور اپنے کارکنوں کو تازہ اور خالص خوراک فراہم کر رہے ہیں۔ یہ ہے وہ مسلم لیگ جو نوازشر یف کی مسلم لیگ میں شامل ہونے کیلئے بے تاب ہے۔
دیکھئے دس بار وردی کو منتخب کروانیوالے اور وردی کیخلاف خم ٹھونک کر کھڑے ہونیوالے ایک دوسرے میں کب ضم ہوتے ہیں۔ زیرو … ہیرو کی طرف بڑھ رہا ہے تاکہ ہیرو … زیرو ہو جائے۔ صفر سے جو رقم ضرب کھاتی ہے جتنی بھی خطیر کیوں نہ ہو … صفر ہی ہو جاتی ہے۔
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
مانو نہ مانو جان جہاں! اختیار ہے
جناب سکندر بوسن کے ماموں جناب غلام حسین بوسن سول سروس کے نیک نام افسر تھے۔ انتہائی دیانت دار‘ عجز و انکسار کے پیکر اور نیک نام۔ عین شباب میں انتقال کر گئے۔ نہ جانے کیا بات ہے‘ جناب سکندر بوسن کے عہد اقتدار میں جناب غلام حسین بوسن مسلسل یاد آتے رہے اور یاد کیساتھ حیرت اور پریشانی بھی رہی!
جس معاشرے میں دن دہاڑے کھڑی فصلیں اُجڑ جائیں‘ وہاں ماہین غوری کو کون پوچھے گا‘ جو آئی بی اے کراچی میں پروفیسر ہیں۔ ماہین غوری کا قصہ یہ ہے کہ وہ 14 جنوری کو شام کے آٹھ بجے کراچی یونیورسٹی روڈ پر جا رہی تھیں۔ گاڑی کی پچھلی نشست پر انکی بیٹی اور والدہ بیٹھی تھیں۔
اردو کالج کے سامنے دو موٹرسائیکل سوار نوجوانوں نے گاڑی کو روکا ان میں سے ایک نے ریوالور کھڑکی کے شیشے پر مارا اور شیشہ نیچے کرنے کو کہا۔ شیشہ نیچے ہونے پر پہلے تو اس نے گاڑی کی چابیاں نکالنے کی کوشش کی اس میں ناکامی ہوئی تو ریوالور کا نالی ماہین غوری کی ٹھوڑی پر رکھی اور ساتھ پڑا ہوا بیگ اٹھا لیا۔ پھر وہ دونوں غلط سائیڈ پر موٹرسائیکل چلاتے‘ نیپا چورنگی کی طرف چلے گئے۔
اتنے میں ٹیلی فون کی گھنٹی بجنے لگی اس وقت ماہین غوری کو معلوم ہوا کہ ڈاکو جب بیگ اٹھانے جھکا تو اُس کا موبائل فون گاڑی میں گر گیا۔ عزیز بھٹی پولیس سٹیشن پہنچنے تک بارہ کالیں آ چکی تھیں۔
یہ ساری کالیں 0344 - 2412 - 480 سے آئی تھیں۔ موبائل فون اے ایس آئی فریدالدین کے حوالے کیا گیا جس نے بار بار فون کرنیوالے سے بات بھی کی۔ پروفیسر صاحبہ نے اے ایس آئی سے کہا کہ وہ فون کرنیوالے کو بلائے اور بیگ واپس دلائے لیکن ایسا نہ کیا گیا۔
تادم تحریر ڈاکو نہیں پکڑے گئے حالانکہ موبائل فون پر بار بار فون کرنیوالے سے پولیس کی بات بھی ہوئی اور نمبر تک بھی آسانی سے پہنچا جا سکتا تھا !
ہم بجھے دل کیساتھ پروفیسر صاحبہ کی خدمت میں گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ کیا انہیں پاکستان پولیس کی شہرت نہیں معلوم ؟ آخر وہ کس برتے پر پولیس سٹیشن گئیں اور کیا انہیں نہیں معلوم کہ پروفیسر‘ ڈاکٹر‘ انجینئر اور سائنس دان اس ملک میں نہیں ٹھہرتے؟
وہ وقت قریب آ رہا ہے جب اس ملک میں صرف جاگیردار اور اسمبلیوں میں بیٹھنے والے ’’اشرافیہ‘‘ کے ارکان باقی رہ جائیں گے۔ ماہین غوریوں کیساتھ جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ تو یہاں کا معمول ہے !
یہ ملک سیاست دانوں‘ جرنیلوں اور افسر شاہی کے اُن ارکان کی لونڈی بنا دیا گیا ہے جو ہر سیاست دان کو خوش رکھنے کا ہنر جانتے ہیں۔ جسے اپنا چھینا گیا بیگ چاہئے وہ کسی مہذب ملک کا ویزا لگوائے…؎
بھاگ مسافر میرے وطن سے‘ میرے چمن سے بھاگ
اُوپر اُوپر پھول کھلے ہیں بھیتر بھیتر آگ
No comments:
Post a Comment