Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, March 27, 2012

عمران خان اور یحی برمکی

یحییٰ برمکی نے اپنے بیٹوں کو نصیحت کی تھی کہ تم افسروں سے کبھی بھی بے نیاز نہیں رہ سکتے اس لئے اس خدمت کےلئے شریفوں کا انتخاب کرو۔ لیکن عمران خان اقتدار میں آنے سے پہلے ہی اس گروہ کے نرغے میں آ رہا ہے جو اُسے شریف افسروں سے مکمل طور پر محروم کر دےگا۔ ایسا نہیں ہے کہ افسر شاہی کے اس بدنام گروہ کا ہر فرد بدنیت ہے۔ ایسا ہوتا تو شورش کاشمیری کے اس شعر پر معاملہ ہی ختم ہو جاتا



میں نہیں کہتا فلاں ابنِ فلاں گستاخ ہے


اس قبیلے کا ہر اک پیر و جواں گستاخ ہے


لیکن یہ لوگ بطور گروہ اس ملک کے مجرموں میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ عمران خان کےساتھ یہ کون لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ کیا پارٹی کے سولہ اندھیرے برسوں میں ساتھ دینے والوں کے ساتھ ان ”تازہ واردان بساطِ ہوائے دل“ کا کوئی نسبت تناسب ہے؟ کوئی موازنہ کیا جا سکتا ہے؟ یا حسرتا! عمران خان جس راستے پر بگٹٹ دوڑے چلا جا رہا ہے، اُس راستے کے اختتام پر اُس کی پارٹی کے وہ جاں نثار نہیں کھڑے ہونگے جنہوں نے ان سارے برسوں میں اُسکے صحرا نوردی کا ساتھ دیا۔ اگر لیل و نہار یہی رہے تو اس راستے کے اختتام پر موقع پرستوں کا ایک طائفہ کھڑا ہو گا جن کے چہروں پر ماسک چڑھے ہونگے۔


بیورو کریسی کے اس خوفناک گروہ کو پروفیسر اشفاق علی خان لگان جمع کرنے والوں کے نام سے پکارتے تھے۔ پروفیسر اشفاق علی خان کوئی معمولی شخص نہیں تھا۔ اشفاق علی خان نے قیام پاکستان سے چھ سال پہلے وہ مشہور کتاب لکھی تھی جس کا نام ”پاکستان : اے نیشن“ تھا۔ یہ انہوں نے ”الحمزہ“ کے قلمی نام سے لکھی تھی۔ تقسیم کے فوراً بعد بھارت میں پروفیسر راما رائو نے جواہر لال نہرو کو سمجھایا کہ لوہے کی صنعت ساری صنعتوں کی ماں ہے، نہرو نے اسکی نصیحت پر عمل کیا اور اُسی وقت لوہے کے کارخانے لگانے شروع کئے۔ یہی بات پروفیسر اشفاق علی خان پاکستان میں کہتے رہے لیکن اُنکی پکار کسی نے نہ سُنی۔ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے کسی خوف کے بغیر برملا کہا کہ حکومت کرنا بیوروکریسی کا کام نہیں ہے۔ انہوں نے ”حکومت اور حکمت“ کا نظریہ پیش کیا۔ اس نظریے کا لبِّ لباب یہ تھا کہ حکومت اُنکے ہاتھ میں ہونی چاہئے جو علم اور حکمت سے مالا مال ہوں۔ افسر شاہی کا آخر علم اور حکمت سے تعلق ہی کیا ہے؟


بیورو کریسی کے ایک مخصوص گروہ کو وہ لگان جمع کرنےوالے کہتے تھے اور دوسرے گروپ کو حساب کتاب کرنےوالے کہتے تھے۔ لگان جمع کرنےوالا گروہ افسر شاہی کا سرخیل ہے۔ آپ اس گروہ کی 63 سالہ ”کارکردگی“ کا اندازہ اس سے لگائیے کہ ”قومی کرپشن سروے“ کی 2011ءکی رپورٹ کےمطابق لگان جمع کرنےوالا محکمہ (لینڈ ریونیو ڈیپارٹمنٹ) ملک کا سب سے زیادہ بدعنوان محکمہ ہے۔ اس کرپشن کی ذمہ داری پٹواری اور تحصیلدار پر ڈالنا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔


اس گروہ کے ایک ممتاز رکن الطاف گوہر، ایوب خان کے زمانے میں سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ جب ایوبی آمریت کے دس سال مکمل ہوئے تو الطاف گوہر نے ”عشرِہ ترقی“ منانے کا بیڑہ اٹھایا۔ مشرقی پاکستان کے بپھرے ہوئے دریائوں میں ڈولتی ڈگمگاتی کشتیوں پر ”عشرہ ترقی“ کے بینر لگائے گئے لیکن ع


مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمالِ بے نوازی!


قدرت اللہ شہاب بھی بیورو کریسی کے اسی گروہ کے سردار تھے۔ اس کالم نگار نے اخبار میں وہ تصویر اپنی آنکھوں سے دیکھی جس میں شہاب صاحب سینے پر ہاتھ باندھے تھے اور تصویر کے نیچے لکھا تھا ”ایوب خان کے سامنے اس طرح کھڑے ہوتے تھے۔ کاش جمیل الدین عالی شہاب صاحب کے بارے میں وہ سب کچھ لکھ دیں جو وہ کبھی کبھی سُناتے ہیں!


یحیٰی خان، پھر ضیاالحق اور پھر مشرف کے تاریک ادوار اسی گروہ کے بل بوتے پر چلتے رہے۔ آخر اس گروہ کے ممتاز رکن غلام اسحاق خان کو ضیاالحق نے کیوں اتنا نوازا تھا؟ اُس نے وزیراعظم بھٹو کے حوالے سے کونسی خدمت ضیا ءالحق کےلئے انجام دی تھی؟ ان آمروں کے زمانے میں پالیسیاں بنانے والے، سیاست دانوں کو بدنام کرنےوالے، داخلہ اور اطلاعات کی وزارتیں چلانے والے افسر شاہی کے اسی گروہ سے تعلق رکھتے تھے، اب یہ حضرات اخبارات میں مضامین کے ذریعے جمہوریت کا درس دیتے ہیں، آج ملک کے سب سے بڑے صوبے میں عملی طور پر جو شخص مالک و مختار ہے وہ اسی گروہ کا سابق رکن ہے اور طاقت کا یہ عالم ہے کہ عباسیوں کے زمانے میں برامکہ کی طاقت بھی ہیچ لگتی ہے۔


اس گروہ کا طریقِ واردات بہت سادہ ہے، ہر حال میں اپنے گروہ کے ارکان کی پشت پناہی اور ہرممکن منصب پر انکی تعیناتی! اس گروہ کے جو رکن یا ارکان عمران خان کی جماعت میں داخل ہو رہے ہیں، اُنکی وفاداریاں سب سے پہلے اپنے گروہ کے ارکان کے ساتھ ہوں گی۔ آپ اس دلچسپ صورتحال کا اندازہ لگائیے کہ تحریک انصاف، مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی، سب ایک دوسرے کی مخالف ہوں لیکن اس گروہ کے سابق ارکان ان جماعتوں کے لیڈروں کو اپنی مٹھی میں کر لیں اور آپس میں شیر و شکر ہوں! سبحان اللہ! سیاسی خاندانوں کو بدنام کیا جاتا ہے کہ ایک بھائی برسر اقتدار جماعت میں ہوتا ہے اور دوسرا حزب اختلاف میں، لیکن لگان جمع کرنےوالے سیاسی خاندانوں کو اپنے سامنے طفلِ مکتب سمجھتے ہیں جس انداز میں یہ حضرات سیاسی پارٹیوں میں نقب لگا رہے ہیں، اُس کا مقابلہ سیاست دان کبھی بھی نہیں کر سکتے!


عمران خان پر جب اعتراض کیا گیا کہ مشرف کی باقیات اُسکی پارٹی میں کیوں جوق در جوق داخل ہو رہی ہیں تو جواب یہ دیا گیا کہ آخر فلاں پارٹی میں بھی تو یہ باقیات گئی ہیں؟ گویا آپ نے فلاں پارٹی کی تقلید کرنی ہے! اب اگر یہ نصیحت کی جائے کہ بیورو کریسی کے طاقتور گروپ کے ارکان کیوں لئے جا رہے ہیں تو تعجب نہیں اگر یہ جواب ملے کہ آخر حریف پارٹی میں بھی تو طاقت کا منبع یہی گروہ ہے! ع


قربان تیرے! پھر ذرا کہہ دے اسی طرح

Tuesday, March 20, 2012

صفر × صفر = صفر

دس ہزار انسان موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے ہیں اور بشار الاسد کی غیر سرکاری مشیر حدیل علی اسے ای میل میں لکھتی ہے کہ تقریر کرتے ہوئے تمہارا رنگ اچھا لگ رہا تھا۔ تمہارے سوٹ کا انتخاب زبردست تھا اور ”مجھے تمہاری طاقت‘ دانش مندی اور کرشماتی گرفت پر فخر ہے۔“
کل آبادی کا بارہ فیصد .... صرف بارہ فیصد۔ نُصیری .... چالیس سال سے شام کے عوام پر حکومت کر رہے ہیں۔ کبھی حافظ الاسد کی شکل میں اور کبھی بشار الاسد کے روپ میں۔ اس حکومت کو بچانے کیلئے اب تک دس ہزار شامی قتل کئے جا چکے ہیں اور ابھی یہ قصہ ختم نہیں ہوا۔ بغاوت جاری ہے۔ لیکن شاہی خاندان کو .... (ہاں شاہی خاندان .... اسلئے کہ اگر بشارالاسد اپنے آپ کو بادشاہ نہیں کہتا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بادشاہ نہیں! کیا اس شہزادے نے تخت اپنے باپ سے نہیں حاصل کیا؟) شاید خاندان کو دس ہزار انسانوں کی ہلاکت کا اتنا افسوس بھی نہیں جتنا کسی کو کتے یا بلی کے مرنے پر افسوس ہوتا ہے!
عوام سے مکمل لاتعلقی! .... یہ ہے وہ مرض جو اس طبقے کو لاحق ہے جو آج مسلمان ملکوں پر حکومت کر رہا ہے۔ آپ دور نہ جایئے۔ پاکستان کو دیکھ لیجئے۔ ہر شخص نے وہ تصویر دیکھی ہے جس میں صدر مملکت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے آ رہے ہیں۔ آپ وہ تصویر دوبارہ دیکھئے۔ تصویر میں نظر آنےوالے عمائدین کے لباس دیکھئے۔ ایک خاتون جو تصویر میں نظر آ رہی ہے‘ اسکے ماہانہ اخراجات کا حساب کیجئے اور اب تک اسکے غیر ملکی دوروں پر مفلوک الحال قوم کی جو رقم خرچ ہوئی ہے‘ اسکے اعداد و شمار دیکھئے‘ ان لوگوں کا.... جو تصویر میں نظر آ رہے ہیں۔ انداز ملاحظہ کیجئے۔ یوں لگتا ہے جیسے ان کی قیادت میں یہ قوم امریکہ اور جاپان سے آگے نکل چکی ہے! کیا ان لوگوں کے لباس اور ”خوداعتمادی“ سے معلوم ہوتا ہے کہ عوام کے پاس بجلی ہے نہ گیس‘ امن ہے نہ عزت؟
ناانصافی ہو گی اگر اس ”لاتعلقی“ کا الزام صرف پیپلز پارٹی کو دیا جائے! اس کالم نگار نے کچھ ہفتے پیشتر اے این پی کے عوامی نمائندوں کو ٹیلیویژن پر حکومت کا اتحادی ہونے کے حوالے سے سنا۔ ان حضرات کے جوتے کو بھی پرواہ نہیں تھی کہ عوام کس حالت میں ہیں۔
دعوے سے کہا جا سکتا ہے کہ ان ”رہنمائوں“ کو خیبر پختونخواہ کے مردوں اور عورتوں کا خواندگی کا تناسب تک نہیں معلوم! انہیں کچھ غرض نہیں کہ عوام بجلی اور گیس سے.... خوراک اور دوائوں سے۔ ریل اور جہاز سے.... امن اور عافیت سے محروم ہیں! انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ تریسٹھ سال میں قبائلی علاقوں میں کوئی کالج‘ کوئی یونیورسٹی اور کوئی کارخانہ نہیں کھلا۔
کیا آپ نے کبھی وزیرستان یونیورسٹی‘ سوات یونیورسٹی‘ طورخم یونیورسٹی‘ مہمند یونیورسٹی‘ آفریدی یونیورسٹی یا باجوڑ یونیورسٹی کا نام سنا ہے؟ کیا ان علاقوں میں چینی کا یا کھاد کا یا لوہے کا یا جوتوں کا یا کپڑے کا کوئی کارخانہ دیکھا یا سنا گیا ہے؟ لیکن عوامی نمائندوں کو صرف اس بات سے غرض ہے کہ وہ حکومت کے اتحادی رہیں۔
سینٹ میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے الیکشن میں " فرینڈلی" اپوزیشن نے فیصلہ کیا کہ ماحول کو ”دوستانہ“ کرنے کیلئے مقابلے میں کوئی بھی کھڑا نہ ہو.... اور پھر سٹیٹس کو کے سب سے بڑے چیمپین کو فوراً لیڈر آپ اپوزیشن قرار دے دیاگیا
 .... حقیقت واضح ہو چکی ہے‘ بساط بچھا دی گئی ہے‘ تبدیلی کی دشمن قوتیں ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر متحد ہو چکی ہیں۔ مذہب اور عوام کے نام پر استحصال کرنےوالے اکٹھے ہو گئے ہیں۔ عمران خان کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے۔ ہمیشہ اقتدار میں رہنے والے کھرب پتی اسے بے وقوف بنا چکے ہیں۔ جس قوم کے لیڈروں کے نزدیک کامیابی کا معیار یہ ہو کہ وہ کسی سیٹھ کے جہاز میں بیٹھ کر یورپ تک مفت جا سکیں‘ اس قوم کے بخت کا کیا ہی کہنا!!
شام ہو یا پاکستان .... یا کوئی اور مسلمان ملک‘ عوام غربت اور جہالت میں گلے گلے تک ڈوبے ہوئے ہیں اور حکمران طبقے دولت اور طاقت کی بدمستی میں ہر حد سے آگے نکل چکے ہیں۔ ایسے میں کچھ حاطب اللیل.... جو رات کے اندھیرے میں گیلی اور خشک لکڑیوں میں تمیز نہیں کر سکتے.... جب کہتے ہیں کہ مسلمان ممالک کا اتحاد ہونا چاہئے اور کنفیڈریشن بننی چاہئے اور ہم جیسے طالب علم جب کہتے ہیں کہ حضور! پہلے ان ملکوں کی حالت تو سنواریے.... تو جواب میں دشنام طرازی ہوتی ہے! اور زبان کے نہیں‘ بد زبانی کے جوہر کھلتے ہیں!
کیا صفر کو صفر سے ضرب دینے سے جواب صفر نہیں آتا؟ اور پھر کون سا اتحاد! کیا عراق کو تباہ و برباد کرنے کیلئے امریکہ کی اسی علاقے کے ملکوں نے مدد نہیں کی؟ کیا عرب ملکوں میں بغاوت کی آبیاری کرنے میں ایران سرگرم نہیں؟ اور جب اسرائیل ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کی دھمکیاں دیتا ہے تو کیا عرب ملکوں کو اس سے اطمینان نہیں ہوتا؟ کیا شمالی اور جنوبی یمن دس سال تک برسرپیکار نہیں رہے؟ کیا مشرقی اور مغربی پاکستان الگ نہیں ہو گئے؟ کیا عرب ممالک ایک ایک کر کے اسرائیل کے قریب نہیں ہو رہے؟ اس صورتحال میں اسلامی ملکوں کی کنفیڈریشن کا کوئی منصوبہ کیسے کامیاب ہو سکتا ہے؟
اس کرہء ارض پر کوئی ایک مسلمان بھی ایسا نہیں جو مسلمان ملکوں کا اتحاد نہیں چاہتا! گنہگار سے گنہگار مسلمان بھی اس اتحاد‘ اس کنفیڈریشن کے خواب دیکھتا ہے! لیکن اس سے پہلے زیادہ سنگین مسئلے حل کرنا ہوں گے۔ تاریخ کا بدترین جاگیرداری نظام.... ناخواندگی‘ کرپشن‘ ضعیف الاعتقادی توہم پرستی‘ مقتدر طبقات کی قانون شکنی کا رویہ‘ سائنس اور ٹیکنالوجی میں صدیوں کا جمود .... یہ ہیں وہ مسائل جو توجہ کے محتاج ہیں۔ کیا گالیاں دینے سے یہ مسائل ختم ہو جائیں گے؟ ہمت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کا سامنا کرو! تم کہتے ہو کہ 1600ءتک سائنس میں ہمارا جواب نہیں تھا۔ ہم کہتے ہیں کہ بالکل درست! لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ مسلمانوں کو ایک بار پھر سائنس میں قیادت کرنی چاہئے‘ تم کہتے ہو کہ یورپ کے شائقین علم قرطبہ اور بغداد کا رخ کرتے تھے۔ ہم کہتے ہیں بالکل درست! لیکن آج بھی انہیں مسلمان ملکوں کا رخ کرنا چاہئے اور اس کیلئے ہمیں ماضی کے خواب سے باہر نکلنا ہو گا! تم کہتے ہو کہ خلافت کا تحفہ دنیا کو مسلمانوں نے دیا۔
ہم کہتے ہیں بالکل درست! لیکن آج بدترین حکومتیں مسلمان ملکوں پر قابض ہیں اور تعلیم صرف تعلیم ان سے نجات دلوا سکتی ہے۔ غضب خدا کا! جو لوگ اپنی ننھی منی تنظیموں کی سربراہی اپنی زندگیوں میں اپنی اولادوں کو سونپ دیتے ہیں اور صرف اپنے خاندانوں کی خواتین کو عوامی اداروں میں بھیجتے ہیں وہ دوسروں کو خلافت کا سبق دینے بیٹھ جاتے ہیں!
خلافت کا اصل جوہر کیا ہے؟ بیت المال کی پائی پائی کا حساب رکھنا .... اور اپنے اوپر اور اپنے خاندان پر بیت المال کے دروازے بند رکھنا! یہی کچھ حضرات ابوبکر عمر عثمان علی اور عمر بن عبدالعزیز نے کیا.... اور آج بھی خلافت کا معیار یہی ہو گا!

Thursday, March 15, 2012

Quixotic Concepts

The aircraft was in extreme turbulence. There was something terribly wrong. The jerks were horrendous. Passengers were in panic. All of a sudden a voice broke in, “Dear Passengers! Nothing to worry about. Everything will be alright. The weather is pleasant. If you look out of your windows, you will see a beautiful boat down in the sea. I am addressing you from the same boat.”

I am quoting this amusing anecdote to explain a tragic paradox. A growing number of religious luminaries who exhort Muslim masses to shun everything Western, are settling in the same West. Allama Tahir ul Qadri is headquartered in Canada. Al-Huda fame Dr. Farhat Hashmi has been fighting with Canadian judiciary to make that “non-Muslim” country her new home. My friend Dr. Muzaffar Iqbal too has preferred Canada over 57 Muslim countries. He talks of “ten long years filled with those stark realities and the eventual painful squeeze” which resulted in his departure from Pakistan. Well, barring less than 5 cent of them, Pakistanis as a whole are even more squeezed in but they are not as lucky as Dr. Muzaffar Iqbal who now addresses his countrymen who are trapped in the ill-fated airliner.

When Muzaffar Iqbal wants us to ‘imagine’ a union of Muslim states, it is nothing more than a mere imagination. He claims that ‘its rationale is built upon solid logic and clearly delineated arguments’ but unfortunately he puts forward no logic and no argument. A union of Muslim states is a utopia, a fantasy. First, there has never been any such union in any phase of Muslim history. That Ottoman Empire covered the largest belt of Muslim population or Middle East was part of a single administrative unit under the Ottomans, is nothing more than a self defeating nostalgia. Ottoman and other such “Caliphates” were in fact dynasties sustaining themselves on the basis of conspiracies, tyrannies and exploitation of masses. Muzaffar uses the terms of empire and caliphate alternatively for Ottomans and bewails that the Caliphate was ended by “that terrible drunkard” in 1924. Interestingly, Maulana Maudoodi, the arch architect of “political Islam,” a term used very fondly by Muzaffar, wrote a book (Khilafat – o – Mulookiyat) elaborating as to how the Caliphate, after death of Hazrat Ali, was converted into monarchy.

Secondly, the idea of such a union, in all probability, will remain a myth and the ground realities indicate that. Close of the century has witnessed establishment of diplomatic relations between Israel and Arab countries such as Egypt, Jordan, Morocco and Tunisia. On the other hand, Syria attacked Jordan in 1970 and occupied Lebanon in 1976. Iraq invaded Iran in 1980 and occupied Kuwait in 1990. Both the parts of Yemen fought with each other for a decade. Pakistan broke into two halves. Rich Arab states of Middle East look askance at Iran’s nuclear capability and Israel’s threat to destroy this capability provides them a cozy feeling.

Quixotic concepts like Muslim unity are taking the spotlight awayfrom crucial issues like backwardness of Muslim world in education, science and technology. It is this ignominious sub-normality which is “the greatest tragedy that has fallen upon the Muslim community.” Literacy in Christian world stands at nearly 90 percent and average literary rate in a Muslim majority state is not more than 40 percent. Muslim countries have 230 scientists per one million Muslims. The U.S. has 4000 and Japan has 5000 scientists per million. Look at this from another angle. Muslims have not come up with a single discovery or invention during last 500 years. Railway, electricity, automobile, aero plane, life saving drugs, vaccines, dialysis machine, telephone, television, refrigerator, internet, even hanger and ambulance have been gifted to humanity by Jews and Christians.

Out of 57 Muslim states, there is not a single state to which Muslims can emigrate. On the contrary, millions of Muslims have adopted USA, Canada, France, UK, Spain, Australia and other developed countries as their new home in search of rule of law, better education prospects for their next generations and a respectable living. The primitive land ownership pattern, illiteracy, corruption, political instability, moral decline, lack of equal opportunities, and many other social ills in Muslim world are pushing more and more Muslims to non Muslim “Kaafir” countries! In this backdrop, proposing a union or confederation of Muslim states is meaningless.

Muazaffar Iqbal taunts “others” for having ‘no grounding in Arabic’. With his grounding in Arabic Dr.Iqbal should know that his favorite term, “political Islam” is not valid vis-a-vis Quran, hadith and fiqh (jurisprudence). Islam cannot be divided into political and non political Islam. What an irony that scholars like Javed Ghamdi who do have “grounding in Arabic” have to leave the country because of threat to their lives by protagonists of political Islam!


(A truncated version of this article appeared in daily TheNews of 15 March 2012 which can be seen here)

Tuesday, March 13, 2012

تیشہ اور پہاڑ

یہ 1985ء یا 1986ءتھا میں دارالحکومت کے سیکٹر آئی ایٹ میں رہائش پذیر تھا ۔ شمال کی طرف ویرانہ تھا جس میں جنگلی جھاڑیاں اور ببول کے درخت تھے۔ میں اپنے بچوں کو ساتھ لئے سیر کو نکلتا۔ تھوڑی دیر چلنے کے بعد ہم رُک جاتے اور اس ویرانے میں دور تعمیر کا کام ہوتا دیکھتے۔ دھول اڑ رہی ہوتی۔ کسی نے بتایا کہ یہاں ہسپتال بن رہا ہے آج وہاں شفا انٹرنیشنل ہسپتال کی عظیم الشان عمارت کھڑی ہے۔ اسکے بانی ڈاکٹر ظہیر احمد ستمبر 2011ءمیں انتقال کر گئے اور ایک ایسی داستان چھوڑ گئے جسے تفصیل سے لکھا جائے تو اس قوم کی بدبختی اور خوش بختی دونوں کا راز کھل جائے!
میں ڈاکٹر ظہیر احمد مرحوم کی جدوجہد پر غور کرتا ہوں تو سرسید احمد خان یاد آتے ہیں تعلیمی ادارہ بنانے کیلئے سرسید احمد خان نے کیا کچھ نہیں کیا۔ ہندو آگے کی طرف دوڑے جا رہے تھے اور مسلمان ماضی کو سینے سے لگائے حال اور مستقبل کا سامنا کرنے سے خوف زدہ تھے۔ آج اگر پاکستان ایٹمی طاقت ہے اور آئی ٹی میں آگے بڑھ رہا ہے تو اس میں سرسید احمد خان کا بہت بڑا حصہ ہے ڈاکٹر ظہیر بھی اس زمانے میں سرسید کے راستے پر چلنے والے چھوٹے سرسید تھے۔
 آج پاکستان میں تین بڑے ہسپتال ہیں کراچی میں آغا خا ن ہسپتال ،لاہور میں شوکت خانم ہسپتال اور اسلام آباد میں شفا انٹرنیشنل ہسپتال۔  لیکن آغا خان اور شوکت خانم ہسپتال ٹرسٹ ہیں جبکہ شفا انٹرنیشنل ہسپتال، پبلک لمیٹڈ آرگنائزیشن ہے ٹرسٹ اور پبلک لمیٹڈ ادارے کے قیام کی لاگت پر دس اور نوّے کا فرق ہے یعنی پبلک لمیٹڈ پر نوّے فیصد زیادہ اخراجات آتے ہیں۔ پھر آغا خان کی کمیونٹی دنیا کے امیر ترین گروہوں میں شمار ہوتی ہے۔ شوکت خانم ہسپتال کے بانی عمران خان بھی شہرت کے آسمان پر تھے لیکن ڈاکٹر ظہیر احمد تو ایک گمنام شخص تھے! جذبہ اور ارادہ بس یہی انکے رفقائے سفر تھے!



آپ تصور کیجئے ایک شخص امریکہ میں رہتا ہے۔ اس کی زندگی آرام و عشرت سے گزر رہی ہے۔ وہ فارمیسی کا کامیاب کاروبار کر رہا ہے۔ اسکے سامنے وسیع امکانات ہیں وہ اپنے بزنس کو اربوں ڈالر تک بڑھا سکتا ہے۔ اس کے اہل خانہ امن و امان سے معمور زندگی گزار رہے ہیں اور جس معیار زندگی کے عادی ہیں پاکستان میں اس کا تصور ہی کیا جا سکتا ہے یہ شخص اپنے ملک میں صحت کے میدان میں انقلاب برپا کرنے کا سوچتا ہے ۔ سب سے پہلے چار سال لگا کر‘ اپنے کاروبار کو داﺅ پر لگاتے ہوئے، خود ڈاکٹری کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرتا ہے اور فزیشن بنتا ہے‘ معیار زندگی، امن و امان، پُرسکون گھریلو زندگی، کاروبار.... سب کچھ چھوڑ کر پاکستان واپس آتا ہے۔ اسے یہاں کوئی نہیں جانتا۔ جب وہ اپنے منصوبے کا ذکر کرتا ہے تو سب حیران ہوتے ہیں کہ یہ شخص کس دنیا میں رہ رہا ہے۔ امریکی دوستوں میں ہمت نہیں کہ سب کچھ چھوڑ کر، بیوی بچوں کو اکھاڑ کر یہاں لے آئیں۔ پاکستانی دوستوں کو پاکستان کی نوکر شاہی اور سرخ فیتے کا پورا پورا اندازہ ہے!


ڈاکٹر ظہیر پاکستان آئے تو کوئی ادارہ انہیں گھاس ڈالنے کیلئے تیار نہ تھا لیکن وہ تیشے سے پہاڑ کاٹتے رہے۔ دس ماہ کی جدوجہد کے بعد پہلی کامیابی انہیں اس وقت ملی جب نومبر1986ءمیں حکومت نے انکے منصوبے کو منظور کر لیا اب دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے سے زمین لینا تھی۔ وہ کوشش کرتے کرتے صدر پاکستان ضیاءالحق تک پہنچ گئے اپریل 1987ءمیں نقد رقم کے عوض انہیں پلاٹ الاٹ کر دیا گیا۔ ڈاکٹر ظہیر نے بلیو ایریا کے ایک پلازہ میں ایک دفتر کرائے پر لیا اور اپنے ساتھیوں کو لے کر بیٹھ گئے۔ آٹھ ماہ نقشوں پر کام ہوتا رہا پھر سائٹ آفس بنوایا اس وقت وہاں بجلی پانی ‘گیس ٹیلی فون کچھ بھی نہ تھا۔ انکے ر فیق کار ڈاکٹر نسیم انصاری بتاتے ہیں کہ وہ اور ڈاکٹر ظہیر صبح و شام واپڈا اور ٹیلی فون کے محکموں کے چکر لگاتے اور سہولیات کے حصول کی کوشش کرتے۔ ان لوگوں نے کئی راتیں اور کئی دن اس دھن میں کام کرتے گزار دیئے۔ آپ اس شخص کی بے لوث جدوجہد کا اندازہ لگائیے کہ 1985ءمیں سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آئے تو فیملی وہاں رہ گئی۔ پھر اہل خانہ پاکستان منتقل ہوئے تو ڈاکٹر ظہیر ہر سال کئی مہینے امریکہ میں فیملی کے بغیر.... اور وہ بھی مسلسل سفر میں رہتے!


صحت کا میدان ظہیر مرحوم کے وژن کا صرف ایک حصہ تھا۔ تعلیم کے میدان میں ان کا کارنامہ اس سے بھی بڑا ہے۔ پاکستان منتقل ہونے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے تعمیر ملت فاﺅنڈیشن بنائی اور ملک کے اطراف و اکناف میں سکولوں کا جال بچھا ڈالا۔ فتح جنگ میں ایجوکیشن سٹی بنایا۔ اپنے آبائی علاقے کھیوڑہ میں درجنوں تعلیمی ادارے قائم کئے۔ شہروں اور قصبوں میں تو کام کیا ہی، دور افتادہ علاقوں میں طلسم برپا کر دیا۔ گلگت بلتستان میں تاجکستان کی سرحد کے پاس تشنلوٹ، شہرہ آفاق چوٹی مشہ بروم کے دامن میں ہوشے، بلوچستان کے ضلع نوشکی میں سندھ کے ضلع خیر پور کے سوعبو ڈھیرو میں.... اور کئی دوسرے دشوار گزار گوشوں میں علم کی قندیلیں جلا دیں اور یہ سب کچھ اس شخص نے کیا جو کروڑوں پاکستانیوں کے خوابوں کی سرزمین امریکہ کو چھوڑ کر پاکستان واپس آیا۔ اس ساری جدوجہد میں اس نے کسی کو رشوت دی نہ خود کسی کو ناجائز فائدہ پہنچایا نہ کوئی غیر قانونی کام کیا۔


آج وہ منوں مٹی کے نیچے سو رہا ہے اور اس کے قائم کردہ ہسپتالوں میں زندگی بیماریوں سے بزد آزما ہے اور فتح مند ہے۔ اسکے قائم کردہ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہزاروں بچے ایک روشن پاکستان کا مستقبل تعمیر کر رہے ہیں۔ شفا انٹرنیشنل کے او پی ڈی میں ہر روز بارہ سو مریض آتے ہیں۔ ہر روز چار ہزار کاریں ہسپتال میں آتی ہیں پانچ سو بیڈ کے اس ہسپتال میں پانچ سو سے زیادہ ڈاکٹر کام کر رہے ہیں جن میں سے دو سو سپیشلسٹ ہیں۔ لیبارٹری میں آٹھ سو سے زیادہ مریض مختلف قسم کے ٹیسٹ کراتے ہیں شفا فاﺅنڈیشن میں ہر روز چار سو سے زیادہ غریب مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔ ہر ماہ تیس لاکھ روپے نادار مریضوں کی ادویات پر خرچ کئے جاتے ہیں چار سو سے زیادہ سکول تعمیر ملت فاﺅنڈیشن چلا رہی ہے۔ ان سکولوں میں بتیس ہزار طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور بارہ سو سے زائد اساتذہ پڑھا رہے ہیں۔ ڈاکٹر ظہیر احمد کے بچپن کے دوست سید منیر حسین بخاری جب مجھے مرحوم کے آخری لمحات کی روداد سنا رہے تھے تو مجھےاپنا وہ شعر یاد آرہا تھا  جو  مدّتوں پہلے مجید امجد کی وفات پر کہا تھا:


بندے یہاں کچھ اس کے خدائی بھی کر گئے


کچھ نقش پا ہیں جن پہ فرشتے چلا کریں

Sunday, March 11, 2012

Jalaluddin — the Other Side of the Coin



Tragic parado­x is that Salman Rashid’s own articl­e is genero­usly punctu­ated with insult­ing jibes, scornf­ul reproa­ches.
Published: March 10, 2012



(The writer is a poet and freelance journalist and was awarded the Pride of Performance in literature in 2009. He retired from the civil service in 2008 as additional auditor-general)

_____________________________________

“Whenever I refer to Jalaluddin, the fugitive king of Khwarazm, as a coward, I draw flak”, bewails Salman Rashid on these pages in his article titled “Jalaluddin Khwarazm” of January 27, 2012. The tragic paradox is that Salman Rashid’s own article is generously punctuated with insulting jibes and scornful reproaches. He may be a prolific travel writer but history demands sensibilities of a different kind. Here, a graceful impartiality and a controlled fairness is the basic prerequisite for credibility. Getting carried away, while narrating a piece of history, by a normative attitude may be condoned but heaping abuses on characters of history does deprive a writer of trustworthiness. Conferring titles like ‘fugitive’, ‘coward’ and ‘shameless’ on Jalaluddin gives an impression that perhaps Salman Rashid has a personal vendetta against the poor man. The background of this intriguing vendetta, however, remains unknown to readers.

A strategic retreat is the key to survival for a warrior. Salman Rashid calls Jalaluddin a fugitive and hence a coward. Babar, Humayun and Dara Shikoh, all were fugitives. Some, like Babar and Humayun were lucky as their flights into wilderness led to their fortunate rehabilitations. Some like Jalaluddin and Dara came to naught. Salman Rashid calls Naseem Hijazi a fraudster and ridicules his “spurious history”. The fact of the matter is that Naseem Hijazi is not a historian and nor did he ever claim to be one — he was a novelist.

The most unfortunate is the writer’s reliance on Tareekh-e-Jahan Kusha. The author of this “real” history of Jalaluddin, Ata Malik Juvaini, was an important functionary of the Mongol Empire and was with Hulagu Khan when the latter conquered the famous fortress of Almout. From Almout, Juvaini accompanied Hulagu to the sack of Baghdad in 1258 after which he was appointed governor of Baghdad. His jurisdiction included part of Mesopotamia and Khuzistan. His real brother, Shams al Din was Hulagu’s minister of finance. So much for the impartiality of the writer’s mentioning of this “real” history. His only other source to describe the “loot and plunder” by Jalaluddin on this side of the Indus is Tabqat-e-Nasiri. The author of this book, Minhaj-e-Siraj, was also a king’s man. Nasiruddin Qabach had appointed him qazi in his court at Uch. Later on, he moved to Delhi where Sultan Nasiruddin Mahmood made him qazi. It was this Nasiruddin to whom he dedicated his book the Tabqat-e-Nasiri. As well-known historian Dr Mubarak Ali keeps on emphasising, pro-establishment historians give only subjective and distorted versions of history.

Mr Rashid then tells his readers that a “great battle” was fought at the western bank of the Indus between Jalaluddin and Changez Khan in February 1221. Here a question arises: do ‘cowards’ fight great battles? But there is something more intriguing: all the historians, old and contemporary, say unequivocally that the only battle in which Changez Khan was defeated in his life time, after he rose as Khaqan, was the battle of Parwan fought in 1221 by Jalaluddin. It took place in the vicinity of Ghazni. With the help of Pakhtuns of present-day south Afghanistan, Jalaluddin inflicted a crushing defeat on the Mongols who were fighting under the command of Shegi Tutu, Changez Khan’s son-in-law. It was a day-long war and Tutu was killed at the end. Unfortunately, the victory was followed by a row between the Pakhtuns and Jalaluddin’s relations over the distribution of booty after which the former deserted. Thus, Jalaluddin lost more than half of his fighting strength. The disastrous battle at the western bank of Indus soon followed. So, it can be fairly said that the writer quite conveniently omitted to mention the battle of Parwan.

Tuesday, March 06, 2012

تجویز

مجھے سنٹرل میلبورن کے ریلوے اسٹیشن پر اترنا تھا جہاں شہر کی مرکزی لائبریری ہے۔ میرے سامنے کی سیٹ پر دو مسافر محو گفتگو تھے۔ ایک بھارتی تھا اور دوسرا سفید فام۔ بھارتی اسے بتا رہا تھا کہ دہلی کا زیر زمین ریلوے سسٹم دنیا کے بہترین نظاموں میں شمار ہوتا ہے۔ دھچکا مجھے اس وقت لگا جب اس نے ایک خندئہ استہزا کے ساتھ گوری چمڑی والے کو کہا کہ تمہارا سڈنی اور میلبورن کا زیر زمین ریلوے نظام دہلی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں! اسکے بعد کے پانچ گھنٹے میں نے میلبورن کی مرکزی لائبریری میں بھارت کے زیر زمین ریلوے نظام پر معلومات حاصل کرنے میں بسر کر دیئے لیکن احساس شکست کایہ عالم تھا کہ میں تصور میں اس بھارتی کے سامنے سر جھکائے بیٹھا تھا۔ 

بھارت نے 1984ءمیں کلکتہ میں مانو ریل یعنی ایک لائن کی اندرون شہر ریلوے شروع کی۔ اب یہاں پانچ مزید لائنیں زیر تعمیر ہیں۔ 1997ءمیں مدراس (موجودہ چنائی) میں یہ نظام قائم ہوا لیکن بھارتیوں کا اصل کارنامہ دہلی میں سات لائنوں کے جدید ترین زیرزمین ریلوے سسٹم کا قیام ہے جو 2002ءمیں شروع ہوا اور آج اس کے 142 سٹیشن ہیں جن میں سے 35 زیرزمین ہیں۔ گڑگاﺅں، نویرا اور غازی آباد کی نواحی بستیاں بھی اس سسٹم سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ کل لمبائی ایک سو نوے کلومیٹر ہے۔ ہر تین منٹ کے بعد ٹرین آ تی ہے۔ ہر روز سولہ لاکھ مسافر اس پر چڑھتے اور اترتے ہیں۔ جولائی2011ءتک اس پر سوا ارب مسافر سوار ہو چکے ہیں۔ اس عظیم الشان کام کی منصوبہ بندی 1984ءمیں ہوئی۔1995ءمیں مرکزی حکومت اور دہلی کی مقامی حکومت نے شراکت کا ڈول ڈالا۔ 1998ءمیں تعمیر کا کام شروع ہوا۔2002ءمیں واجپائی نے پہلی لائن کا افتتاح کیا۔ جب 2006ءمیں اس منصوبے کا پہلا حصہ توقع سے تین سال پہلے ختم ہوا تو نیویارک سے شائع ہونے والے مشہور بزنس ویک نے اسے معجزہ قرار دیا۔ پورے سسٹم کو مختلف لائنوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مثلاً سرخ لائن دلشاد باغ اور رٹھالہ کے درمیان قائم ہے۔ اس روٹ پر 23 ٹرینیں چل رہی ہیں۔ جہانگیر پورہ اور ہدیٰ سٹی کے درمیان بچھی ہوئی ریلوے لائن کا نام زرد لائن ہے۔ یہاں 45 ٹرینیں مسافروں کی خدمت پر مامور ہیں۔ نیلی لائن پر 59 ٹرینیں، سبز لائن پر پندرہ ٹرینیں ، کاسنی لائن پر 29 ٹرینیں اور ائر پورٹ روٹ پر آٹھ ٹرینیں رات دن چل رہی ہیں۔ دہلی کی زیر زمین ریلوے کے نظام کی مزید توسیع کی جا رہی ہے۔ سینکڑوں نئے ریلوے اسٹیشن بنانے کی منصوبہ بندی ہے اور کئی سو میل لمبی ریلوے لائن مزید بچھائی جا رہی ہے۔ جن دوسرے شہروں میں زیر زمین ریلوے سسٹم قائم کرنے کی پلاننگ ہو رہی ہے ان میں بھوپال، چندی گڑھ، احمد آباد، اندور ، کوچی ، لکھنئو، لدھیانہ، ناگپور، پٹنہ اور پونا شامل ہیں۔
ہمار ے لئے اس سے زیادہ شرم کی بات کیا ہو گی کہ بھارت کی اس مثالی ترقی کے مقابلے میں  پاکستان ذرائع آمد و رفت کے حوالے سے مسلسل تنزل کا شکار ہے۔ پی آئی اے کی حالت سب کو معلوم ہے۔ اس ادارے کی بدبختی کا اندازہ اس سے لگائیے کہ اس میں ملازمتیں کسی اعلان یا اشتہار کے بغیر ہمیشہ سیاسی یا ”ذاتی“ بنیادوں پر دی جاتی ہیں۔ ریلوے ہمارے دیکھتے دیکھتے تدفین کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ جی ٹی ایس کے ز مانے میں اچھی بھلی بسیں چلتی تھیں۔  پھر یوں ہوا کہ جی ٹی ایس کو چھری کانٹے سے کھا لیا گیا۔ بڑے بڑے ڈپو، پلاٹ خوری کی نذر ہو گئے۔
ہماری کوتاہ اندیشی کی اس سے بڑی مثال کیا ہو گی کہ پرویز مشرف نے بڑے فخر سے اعلان کیا کہ کاروں کی تعداد زیادہ ہو گئی ہے یعنی ہم نے ترقی کی ہے۔ اس ”عقل مند“ آمر کو کون بتاتا کہ ترقی کاروں کی تعداد سے نہیں ماپی جاتی بلکہ پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم سے ماپی جاتی ہے اور پھر ہمارے ہاں کاروں کی تعداد جس قدر بڑھی ہے، اتنی ہی گداگروں کی تعداد بھی بڑھی ہے۔ صرف کراچی، لاہور اور اسلام آباد ہی میں عوام کی حالت زار دیکھیں تو اس ملک پر ترس آتا ہے۔
کراچی میں  شہر کے  شمالی حصے سے صدر اور ڈیفنس آنا ایک عذاب سے کم نہیں۔ یہی حال لاہور کا ہے ویگنیں اور بسیں مسافروں کے ساتھ بھیڑ بکریوں بلکہ کتوں بلیوں کا سلوک کرتی ہیں۔ کرائے آسمان پر پہنچ گئے ہیں۔ شیر خوار بچوں کو گود میں لئے خواتین بس سٹاپوں پر کھڑی حکمرانوں کو زبانِ حال سے بددعائیں دے رہی ہیں ....
میں تمہاے عہد کی برکتوں کا نشان ہوں
مرے سر پہ بوم ہے زاغ ہے مرے ہاتھ میں
اس سارے منظر کو دیکھتے ہوئے بھارت کی مواصلاتی ترقی پر نظر اٹھتی ہے تو دل خون کے آنسو روتا ہے اور ذہن میں ایک ہی لہر بار بار اٹھتی ہے کہ پس چہ باید کرد؟
میں بحریہ ٹاﺅن والے ملک ریاض کو کبھی نہیں ملا نہ ہی کبھی بحریہ کے رہائشی منصوبوں میں رہنے کی ضرورت پڑی لیکن دیکھتے ہی دیکھتے جس طرح اس ملک میں رہائشی منصوبوں کے حوالے سے  ملک ریاض  نے انقلاب برپا کیا، وہ ضرور قابل ذکر ہے۔
انکے نام کے سامنے سوالیہ نشا ن بھی پڑے۔ پاکستان نیوی سے ان کی مقدمہ بازی ہوئی۔ کار ریس میں حادثہ ہوا تو ان کے بیٹے کا نام اس میں آیا۔ انہوں نے مارگلہ کی پہاڑیوں میں سرنگ بنا کر مزید زمین اسلام آباد میں لانے کی مہم چلائی تو ماحولیات کے محافظوں نے ان کی بھرپور مخالفت کی۔ یہ ساری باتیں حقائق پر مشتمل ہیں اور ریکارڈ کا حصہ ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ  ملک ریاض نے اپنا سفر صفر سے شروع کیا اور اب وہ ایک ایمپائر چلا رہے ہیں۔ ان کا یہ بیان بھی ریکارڈ پر ہے کہ ایک زمانے میں ان کی اہلیہ کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ پانچ مرلے کا مکان ہو اور ان کا اپنا ہو،جس شخص نے یہاں سے سفر شروع کیا ہو اور آج وہ پاکستان کے ہر بڑے شہر میں ایک ایمپائر بنا چکا ہو تو سارے سوالیہ نشانات کے باوجود ایک بات واضح ہے کہ وہ کچھ کر سکتا ہے!
لیکن سوال یہ ہے کہ ہم  ملک ریاض کو اس ملک کےلئے کس طرح استعمال کر سکتے ہیں؟  یہ کالم نگار  نوائے وقت کے حوالے سے یہ تجویز پیش کرتا ہے کہ حکومت ملک ریاض کو اسلام آباد لاہور اور کراچی میں زیر زمین ریلوے سسٹم قائم کرنے کی دعوت دے۔ وہ اس کام کےلئے وقت کا تعین کرے۔
ملک ریاض کو سرخ فیتہ، نوکر شاہی، رشوت اور سفارش سے امان دی جائے اور وہ مقررہ وقت پر زیر زمین ریلوے کا سسٹم قوم کے حوالے کریں۔ حکومت انہیں کچھ بھی نہ دے۔ معاہدہ کی رو سے اس سسٹم سے جو آمدنی حاصل ہو وہ ایک یا دو یا چار سال کیلئے ملک ریاض کو دے دی جائے تاکہ وہ اپنی لاگت اور منافع وصول کر لیں اور اسکے بعد  زیر زمین ریلوے  کا چلتا ہوا کامیاب نظام حکومت کے حوالے کر دیں۔
کیا یہ انقلابی تجویز کسی حکمران کی آنکھ میں تھوڑی سی نمی لا سکتی ہے؟ ”الیس منکم رجل الرشید“
 

powered by worldwanders.com