یہ 1985ء یا 1986ءتھا میں دارالحکومت کے سیکٹر آئی ایٹ میں رہائش پذیر تھا ۔ شمال کی طرف ویرانہ تھا جس میں جنگلی جھاڑیاں اور ببول کے درخت تھے۔ میں اپنے بچوں کو ساتھ لئے سیر کو نکلتا۔ تھوڑی دیر چلنے کے بعد ہم رُک جاتے اور اس ویرانے میں دور تعمیر کا کام ہوتا دیکھتے۔ دھول اڑ رہی ہوتی۔ کسی نے بتایا کہ یہاں ہسپتال بن رہا ہے آج وہاں شفا انٹرنیشنل ہسپتال کی عظیم الشان عمارت کھڑی ہے۔ اسکے بانی ڈاکٹر ظہیر احمد ستمبر 2011ءمیں انتقال کر گئے اور ایک ایسی داستان چھوڑ گئے جسے تفصیل سے لکھا جائے تو اس قوم کی بدبختی اور خوش بختی دونوں کا راز کھل جائے!
میں ڈاکٹر ظہیر احمد مرحوم کی جدوجہد پر غور کرتا ہوں تو سرسید احمد خان یاد آتے ہیں تعلیمی ادارہ بنانے کیلئے سرسید احمد خان نے کیا کچھ نہیں کیا۔ ہندو آگے کی طرف دوڑے جا رہے تھے اور مسلمان ماضی کو سینے سے لگائے حال اور مستقبل کا سامنا کرنے سے خوف زدہ تھے۔ آج اگر پاکستان ایٹمی طاقت ہے اور آئی ٹی میں آگے بڑھ رہا ہے تو اس میں سرسید احمد خان کا بہت بڑا حصہ ہے ڈاکٹر ظہیر بھی اس زمانے میں سرسید کے راستے پر چلنے والے چھوٹے سرسید تھے۔
آج پاکستان میں تین بڑے ہسپتال ہیں کراچی میں آغا خا ن ہسپتال ،لاہور میں شوکت خانم ہسپتال اور اسلام آباد میں شفا انٹرنیشنل ہسپتال۔ لیکن آغا خان اور شوکت خانم ہسپتال ٹرسٹ ہیں جبکہ شفا انٹرنیشنل ہسپتال، پبلک لمیٹڈ آرگنائزیشن ہے ٹرسٹ اور پبلک لمیٹڈ ادارے کے قیام کی لاگت پر دس اور نوّے کا فرق ہے یعنی پبلک لمیٹڈ پر نوّے فیصد زیادہ اخراجات آتے ہیں۔ پھر آغا خان کی کمیونٹی دنیا کے امیر ترین گروہوں میں شمار ہوتی ہے۔ شوکت خانم ہسپتال کے بانی عمران خان بھی شہرت کے آسمان پر تھے لیکن ڈاکٹر ظہیر احمد تو ایک گمنام شخص تھے! جذبہ اور ارادہ بس یہی انکے رفقائے سفر تھے!
آپ تصور کیجئے ایک شخص امریکہ میں رہتا ہے۔ اس کی زندگی آرام و عشرت سے گزر رہی ہے۔ وہ فارمیسی کا کامیاب کاروبار کر رہا ہے۔ اسکے سامنے وسیع امکانات ہیں وہ اپنے بزنس کو اربوں ڈالر تک بڑھا سکتا ہے۔ اس کے اہل خانہ امن و امان سے معمور زندگی گزار رہے ہیں اور جس معیار زندگی کے عادی ہیں پاکستان میں اس کا تصور ہی کیا جا سکتا ہے یہ شخص اپنے ملک میں صحت کے میدان میں انقلاب برپا کرنے کا سوچتا ہے ۔ سب سے پہلے چار سال لگا کر‘ اپنے کاروبار کو داﺅ پر لگاتے ہوئے، خود ڈاکٹری کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرتا ہے اور فزیشن بنتا ہے‘ معیار زندگی، امن و امان، پُرسکون گھریلو زندگی، کاروبار.... سب کچھ چھوڑ کر پاکستان واپس آتا ہے۔ اسے یہاں کوئی نہیں جانتا۔ جب وہ اپنے منصوبے کا ذکر کرتا ہے تو سب حیران ہوتے ہیں کہ یہ شخص کس دنیا میں رہ رہا ہے۔ امریکی دوستوں میں ہمت نہیں کہ سب کچھ چھوڑ کر، بیوی بچوں کو اکھاڑ کر یہاں لے آئیں۔ پاکستانی دوستوں کو پاکستان کی نوکر شاہی اور سرخ فیتے کا پورا پورا اندازہ ہے!
ڈاکٹر ظہیر پاکستان آئے تو کوئی ادارہ انہیں گھاس ڈالنے کیلئے تیار نہ تھا لیکن وہ تیشے سے پہاڑ کاٹتے رہے۔ دس ماہ کی جدوجہد کے بعد پہلی کامیابی انہیں اس وقت ملی جب نومبر1986ءمیں حکومت نے انکے منصوبے کو منظور کر لیا اب دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے سے زمین لینا تھی۔ وہ کوشش کرتے کرتے صدر پاکستان ضیاءالحق تک پہنچ گئے اپریل 1987ءمیں نقد رقم کے عوض انہیں پلاٹ الاٹ کر دیا گیا۔ ڈاکٹر ظہیر نے بلیو ایریا کے ایک پلازہ میں ایک دفتر کرائے پر لیا اور اپنے ساتھیوں کو لے کر بیٹھ گئے۔ آٹھ ماہ نقشوں پر کام ہوتا رہا پھر سائٹ آفس بنوایا اس وقت وہاں بجلی پانی ‘گیس ٹیلی فون کچھ بھی نہ تھا۔ انکے ر فیق کار ڈاکٹر نسیم انصاری بتاتے ہیں کہ وہ اور ڈاکٹر ظہیر صبح و شام واپڈا اور ٹیلی فون کے محکموں کے چکر لگاتے اور سہولیات کے حصول کی کوشش کرتے۔ ان لوگوں نے کئی راتیں اور کئی دن اس دھن میں کام کرتے گزار دیئے۔ آپ اس شخص کی بے لوث جدوجہد کا اندازہ لگائیے کہ 1985ءمیں سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آئے تو فیملی وہاں رہ گئی۔ پھر اہل خانہ پاکستان منتقل ہوئے تو ڈاکٹر ظہیر ہر سال کئی مہینے امریکہ میں فیملی کے بغیر.... اور وہ بھی مسلسل سفر میں رہتے!
صحت کا میدان ظہیر مرحوم کے وژن کا صرف ایک حصہ تھا۔ تعلیم کے میدان میں ان کا کارنامہ اس سے بھی بڑا ہے۔ پاکستان منتقل ہونے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے تعمیر ملت فاﺅنڈیشن بنائی اور ملک کے اطراف و اکناف میں سکولوں کا جال بچھا ڈالا۔ فتح جنگ میں ایجوکیشن سٹی بنایا۔ اپنے آبائی علاقے کھیوڑہ میں درجنوں تعلیمی ادارے قائم کئے۔ شہروں اور قصبوں میں تو کام کیا ہی، دور افتادہ علاقوں میں طلسم برپا کر دیا۔ گلگت بلتستان میں تاجکستان کی سرحد کے پاس تشنلوٹ، شہرہ آفاق چوٹی مشہ بروم کے دامن میں ہوشے، بلوچستان کے ضلع نوشکی میں سندھ کے ضلع خیر پور کے سوعبو ڈھیرو میں.... اور کئی دوسرے دشوار گزار گوشوں میں علم کی قندیلیں جلا دیں اور یہ سب کچھ اس شخص نے کیا جو کروڑوں پاکستانیوں کے خوابوں کی سرزمین امریکہ کو چھوڑ کر پاکستان واپس آیا۔ اس ساری جدوجہد میں اس نے کسی کو رشوت دی نہ خود کسی کو ناجائز فائدہ پہنچایا نہ کوئی غیر قانونی کام کیا۔
آج وہ منوں مٹی کے نیچے سو رہا ہے اور اس کے قائم کردہ ہسپتالوں میں زندگی بیماریوں سے بزد آزما ہے اور فتح مند ہے۔ اسکے قائم کردہ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہزاروں بچے ایک روشن پاکستان کا مستقبل تعمیر کر رہے ہیں۔ شفا انٹرنیشنل کے او پی ڈی میں ہر روز بارہ سو مریض آتے ہیں۔ ہر روز چار ہزار کاریں ہسپتال میں آتی ہیں پانچ سو بیڈ کے اس ہسپتال میں پانچ سو سے زیادہ ڈاکٹر کام کر رہے ہیں جن میں سے دو سو سپیشلسٹ ہیں۔ لیبارٹری میں آٹھ سو سے زیادہ مریض مختلف قسم کے ٹیسٹ کراتے ہیں شفا فاﺅنڈیشن میں ہر روز چار سو سے زیادہ غریب مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔ ہر ماہ تیس لاکھ روپے نادار مریضوں کی ادویات پر خرچ کئے جاتے ہیں چار سو سے زیادہ سکول تعمیر ملت فاﺅنڈیشن چلا رہی ہے۔ ان سکولوں میں بتیس ہزار طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور بارہ سو سے زائد اساتذہ پڑھا رہے ہیں۔ ڈاکٹر ظہیر احمد کے بچپن کے دوست سید منیر حسین بخاری جب مجھے مرحوم کے آخری لمحات کی روداد سنا رہے تھے تو مجھےاپنا وہ شعر یاد آرہا تھا جو مدّتوں پہلے مجید امجد کی وفات پر کہا تھا:
بندے یہاں کچھ اس کے خدائی بھی کر گئے
کچھ نقش پا ہیں جن پہ فرشتے چلا کریں
2 comments:
بہت عمدہ
اللہ ان کو غریق رحمت کرے
بس ان جیسے ہی کچھ لوگوں کے طفیل خدا نے ہمکو ڈھیل دی ہوئی ہے وگرنہ ۔۔۔۔۔
بات دروست ہے لیکن ڈاکتر ظہیر احمد صاحب کی وفات کے بات ہسپتال کی نظامت ناقابلِ سمجھ ہو چکی ہے ۔ اُن کا کوئی بیٹا شاید پاکستان آ نے کو تیار نہیں ۔ آؤٹ ڈور میں مریضوں کو سرکاری ہسپتالوں کی طرح گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے ۔ بعض مریض فیس ادا کر کے بھی ڈاکٹر کا مشورہ لینے سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ اللہ کرے ڈاکتر ظہیر احمد صاحب کا کوئی بیٹا اسے ان کے نقشِ قدم پر چلائے
Post a Comment