Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, September 07, 2010

بڑا بھائی

یوں لگتا ہے کہ امریکہ نے افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ کر لیا ہے، ایک ماہ بعد یا ایک سال بعد دو ماہ بعد یا دو سال بعد بقول میر…ع
جی کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا
رواں ماہ ستمبر کی یکم کو صدر اوباما نے عراق سے اپنے فوجی دستے نکال لینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ کارِ خیر امریکہ نے خرابی بسیار کے بعد کیا ہے۔ عراق میں ساڑھے چار ہزار امریکی فوجی ہلاک ہوئے ہیں اور زخمیوں کی تعداد تیس ہزار سے زیادہ ہے۔ امریکہ نے جو عراق اپنے پیچھے چھوڑا ہے وہ اندھیروں میں ڈوبا ہوا عراق ہے۔ نسلی گروہوں میں بٹا ہوا۔ فرقہ واریت کا شکار۔ کربلا سے لیکر بغداد تک دھماکوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔ یہ ہے وہ ’’آزادی‘‘ اور یہ ہے وہ ’’جمہوریت‘‘ جو امریکہ نے عراق کو دی ہے۔
کیا امریکہ نے عراق سے کوئی سبق سیکھا ہے؟ یا افغانستان میں اپنے مزید فوجیوں کو جہنم رسید کرا کر رخصت ہو گا؟ اس وقت تک افغانستان سے بارہ سو تابوت امریکہ جا چکے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد اسکے علاوہ ہے۔ امریکہ نے جو اہداف اپنے لئے طے کئے تھے ان میں سے کوئی بھی پورا نہیں ہوا۔ افغانستان میں ’’جمہوریت‘‘ آئی نہ اسامہ بن لادن کو پکڑنے کی امریکی خواہش پوری ہوئی۔ امریکہ آج رخصت ہوتا ہے یا ایک سال بعد یا دو سال بعد صورت حال یہی رہے گی۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ امریکہ کے نکلنے کے بعد افغانستان میں کیا ہو گا؟ یہ ہے وہ سوال جس پر کوئی بھی توجہ نہیں دے رہا۔ اس کیلئے تجزیہ بھی چاہیے اور ٹھنڈے دل و دماغ سے افغانستان کے اندر کی سیاسی اور گروہی صورتحال اور حرکیات
(Dynamics)
 سے پوری واقفیت بھی!لیکن ہم ایک جذباتی قوم ہیں اور علم اور تجزیہ ہمارے مزاج سے مناسبت نہیں رکھتا۔ ""  افغان باقی  کہسار  باقی ""  قسم کے مضامین[ روزنامہ جنگ          15    اگست   2010 ]  لکھنے سے اور بار بار یہ کہنے سے کہ امریکہ کو شکست ہو رہی ہے  سوائے ایک رومانویت کے کچھ حاصل نہیں ہو رہا۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ کے نکلنے کے بعد افغانستان میں کون سی اور کس کی حکومت ہو گی؟ شمالی افغانستان (یا سابقہ شمالی اتحاد) اور جنوبی افغانستان کے پختونوں کے درمیان معاملات کس طرح طے ہونگے؟ امریکہ کے نکلنے کے بعد والا افغانستان پاکستان نواز ہو گا یا بھارت نواز؟ کاش جذباتی مضامین لکھنے  کے بجائے  پاکستان کو لاحق مستقبل کے ان خدشات کو موضوع بنایا جائے۔
ایک اور المیہ یہ ہے کہ نعرے مارنے والے اکثر حضرات کو افغانستان کی تاریخ کا علم ہے نہ یہ معلوم ہے کہ اسکے اندر کون کون سی قومیتیں آباد ہیں اور ان کے باہمی روابط کیا ہیں؟ کتنے لوگوں کو معلوم ہے کہ شمالی افغانستان کو ترکستان صغیر کہا جاتا ہے جہاں ازبک آباد ہیں ۔ دوسری بڑی آبادی تاجکوں کی ہے جب کہ جنوب اور مشرقی حصے میں پختون رہتے ہیں جن کی ملک میں غالب اکثریت ہے۔
امریکیوں کے شکست خوردہ انخلاء کے بعد افغانستان میں کیا ہو گا؟ اس کا اندازہ لگانے کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ موجودہ افغانستان کب وجود میں آیا؟ اکثر مورخین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ موجودہ افغانستان کا بانی احمد شاہ ابدالی ہے جس نے 1747ء میں تاریخ میں پہلی بار پختونوں کو مجتمع کیا۔ نادر شاہ درانی کا یہ افسر غیر معمولی ذہانت کا مالک تھا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ دلی کو تاراج کرتے وقت نادرشاہ نے احمد شاہ ابدالی کو بتا دیا تھا کہ اسکے بعد وہ بادشاہ بنے گا۔ اس وقت موجودہ افغانستان، خراساں کا حصہ تھا اور افغانستان کا نام وجود  ہی میں نہیں آیا تھا۔ بہر طور نادرشاہ کے قتل کے بعد 1747ء میں قندھار کے مقام پر احمد شاہ بادشاہ بنا اس نے پختونوں کو اکٹھا کیا۔ درانی، قزلباش اور یوسف زئی سارے اسکے ساتھ تھے جلد ہی اس نے غزنی پر قبضہ کر لیا۔ پھر کابل چھینا تین سال بعد ہرات بھی اس کا تھا۔
اگرچہ احمد شاہ ابدالی کے ساتھ ازبک ، تاجک اور ہزارہ بھی تھے لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔احمد شاہ ابدالی کی حکومت سر سے لے کر پائوں تک ایک پختون حکومت تھی۔ابدالی کے بعد جو صورت ِ حال بھی افغانستان کو پیش آئی،خواہ ابدالی کے کمزور جانشینوں کے زمانے میں،یا بعد میں سکھوں اور انگریزوں کے ساتھ لڑائیوں میں، ان میں فیصلے ہمیشہ پختونوں نے کیے۔یہ صورت حال 1747 کے بعد دو سو بتیس سال تک برقرار رہی۔لیکن1979
میں منظر بدل گیا۔ سوویت یونین شمال کے راستےافغانستان میں داخل ہوا اور پہلی مزاحمت شمالی افغانستان کے ازبکوں اور تاجکوں نے کی۔ گویا دو سو بتیس سال بعد پہلی مرتبہ ازبک اور تاجک اقلیتیں پس منظر سے نکل کر پیش منظر پر آ گئیں۔ انہیں رشید دوستم اور احمد شاہ مسعود جیسے لیڈر میسر آ گئے۔ روسیوں کے انخلاء کے بعد برہان الدین ربانی صدر بنے جو احمد شاہ ابدالی کے بعد پہلے غیر پختون، سربراہ ریاست تھے۔ برہان الدین ربانی کا تعلق فارسی بولنے والے تاجکوں کے ساتھ تھا دیگر اہم مناصب بھی پہلی بار شمالی افغانستان کے حصے میں آئے۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ اڑھائی سو سال تک غالب رہنے والے پختون یہ صورت حال قبول کر سکتے تھے؟ انکے بابا احمد شاہ ابدالی نے یہ سلطنت پختونوں کیلئے بنائی تھی۔ پھر یہ کس طرح ممکن تھا کہ وہ اقتدار پلیٹ میں رکھ کر برہان الدین ربانی کی پارٹی ’’جمعیت اسلامی‘‘ کو دے دیتے۔’’جمعیت اسلامی‘‘ میں تو ازبکوں اور تاجکوں کی اکثریت تھی۔
جب ہم تاریخ کا اور بین الاقوامی سیاست کا تجزیہ کرتے ہیں تو اس میں ہماری ذاتی وفاداریاں اور جذباتی وابستگیاں دراندازی نہیں کرسکتیں۔ کچھ حضرات طالبان کے بارے میں تجزیہ برداشت نہیں کر سکتے۔ طالبان میں بہت سی خوبیاں تھیں لیکن وہ گوشت پوست کے بنے ہوئے انسان تھے اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ انکے ساتھ عرب، چیچن اور ازبکستان کے ازبک تو تھے اور ہیں لیکن افغانستان کے ہزارہ، ازبک اور تاجک انکے ساتھ نہیں۔ چنانچہ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ طالبان نسلی لحاظ سے پختونوں کی ایک جماعت ہے۔
تو کیا افغانستان کے ازبک اور تاجک اتنے اچھے مسلمان نہیں جتنے پختون طالبان ہیں؟ کیا افغانستان میں اسلام پر کسی ایک گروہ کی اجارہ داری ہے؟ اس کا جواب منطق اور دانش کی صورت میں جو ہو سکتا ہے وہ واضح ہے۔ ازہر یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تاجک برہان الدین ربانی  نے سید قطب شہید کی کتابوں کا پہلی بار فارسی میں ترجمہ کیا۔ اسلام پر اگر عربوں کی اجارہ داری ممکن نہیں تو اور کسی نسلی گروہ کی اجارہ داری کس طرح ممکن ہے؟
بہرحال پختون طالبان نے غیر پختونوں کی حکومت ختم کر دی۔شمالی افغانستان کے ازبکوں اور تاجکوں نےطالبان پرقتل و غارت کے الزامات لگائے۔جواب میں طالبان نے شمالی اتحاد کے مظالم سے دنیا کو آگاہ کیا۔مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان یہ تصادم تاریخ کا بدقسمت باب ہے۔ شمالی اتحاد نے طالبان کو کنٹینروں
containers
میں بند کر کے گرمی کی شدّت سے ہلاک کیا۔دوسری طرف شمالی اتحاد کا دعوا ہے کہ یہ انوکھا آلہء قتل طالبان کی ایجاد تھا۔
یہ ہے وہ نسلی جھگڑا جو افغانستان میں برپا ہے۔ سوویت یونین کے جانے کے بعد ازبکوں اور تاجکوں نے اقتدار کا مزہ پہلی بار چکھا۔ تو کیا اب امریکیوں کے جانے کے بعد وہ پھر پس منظر میں چلے جانا گوارا کرینگے؟ یا اقتدار میں برابر کا حصہ چاہیں گے؟ اور کیا طالبان جو نو سال کی جدوجہد کے بعد آج پھر ایک اہم طاقت ہیں شمال والوں کے ساتھ کوئی قابل عمل سمجھوتہ کر لیں گے؟ گزشتہ تاریخ بتاتی ہے کہ ایسا بہت مشکل ہے اسکی تائید جماعت اسلامی کے سابق امیر اور طالبان کے حامی قاضی حسین احمد نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں کی ہے۔ قاضی صاحب لکھتے ہیں 
""
ملا عمر نے جنگ شروع ہونے سے پہلے بھی القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو امریکیوں کے سپرد کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ جس مزاج کا آدمی ہے اس سے اگر مذاکرات کئے جائینگے تو وہ آج بھی کسی درمیانی راستے کی طرف آنے کی بجائے اپنے اس موقف پر اصرار کریگا کہ افغانستان کے تمام دوسرے فریق اسے بلا شرکت غیرے امیر المومنین تسلیم کر کے اس کی بیعت کر لیں۔
ہمارا خیال ہے کہ یہ طرزِ فکر صرف ملا عمر کا نہیں، کوئی بھی پختون ہو، وہ یہی سمجھتا ہے کہ احمد شاہ ابدالی نے یہ سلطنت پختونوں کیلئے بنائی تھی۔ ایسا نہیں ہے کہ ملا عمر کا مزاج ایسا ہے۔ ہو سکتا ہے ملا عمر دوسرے کئی پختونوں کی نسبت نرم دل ہوں اور اسلامی اخوت اور مساوات پر زیادہ یقین رکھتے ہوں۔
 کاش قاضی حسین احمد اور دوسرے حضرات  صرف امریکہ کے انخلاء پر بات کرنے کے بجائے کوئی ایسا فارمولا پیش  کریں جو مستقبل کے افغانستان کو پرامن بنانے میں ممد ثابت ہو سکے۔ گزشتہ نو سالوں میں ازبکوں اور تاجکوں کے بچے پرامن شہروں میں رہ کر تعلیمی لحاظ سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ آخر پختون بچوں کی قسمت میں قتل وغارت کیوں ہو؟ طالبان عددی لحاظ سے بڑے بھائی ہیں انہیں چاہیے کہ ایک بار وہ آگے بڑھ کر ازبکوں تاجکوں اور ہزارہ کو گلے سے لگائیں اور ساتھ بٹھا کر اقتدار کا کوئی قابل عمل حل تجویز کریں تاکہ افغانستان کو خانہ جنگی سے نجات ملے۔ اگر طالبان کی اس محبت کا جواب محبت سے نہ دیا گیا تو پھر طالبان پر کوئی الزام نہیں لگایا جا سکے گا اور دنیا کو تسلیم کرنا پڑیگا کہ طالبان امن کے خواہاں ہیں۔

10 comments:

یاسر خوامخواہ جاپانی said...

نہایت ہی معلوماتی تحریر ھے۔ کیامستقبل کیلئے کسی بہتر صورتحال کا سوچا جا سکتا ھے؟یا افغانستان میں نہ ختم ہونے والی خون کی ہولی ایسے ہی چلتی رہے گی؟

Zafar Iqbal said...

آپ کے گراں قدر خیالات سے استفادہ کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔مستقبل کے افغانستان کے انتظام میں مختلف اکائیوں کی شرکت کا موضوع اہم ہے۔روسیوں کے جانے کے بعد ایک "خصوصی" انتظام کے تحت اکثریت کو اقلیت کے ماتحت ایک جبری فارمولے کے ذریعہ کیا گیا تھا اور یہ فارمقلا ٹھونسنے میں کئی کردار ہیں۔البتہ مستقبل میں اکثریت الیت کے ساتھ کیا برتاؤ کرتی ہے یہ ان کے ظرف اور شعور کا امتحان ہے۔ ظاہر ہے کوئی حل ٹھونسا تو نہیں جا سکتا لیکن میری معلومات کے مطابق اس پر گفتگو جاری ہے۔ اللہ آپ کے قلم سے بہتری کا کام لے اور امت کی بہتری کی ہر کاوش کو کامیاب فرمائے

Anonymous said...

اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان افغانستان کے دوسرے گروہوں کے ساتھ مل بیٹھنا گوارا نہیں کرتےاور امن،تعلیم اور ترقّی کا کوئی تصوّر ان کے ہاں موجود نہیں۔

پختون کب سے بربادی اور تباہی کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہیں امن کی ضرورت ہے۔ جنرل اسلم بیگ اور حمید گل جیسے لوگ پختونوں کو ہمیشہ جنگ پر اُکساتے ہیں لیکن ان کی ترقّی کے لیے کبھی نہیں سوچتے۔یہ لوگ خود محلات میں بیٹھے عیش کر رہے ہیں۔
افغانستان میں امن کی ایک ہی صورت ہے کہ پاکستان افغانستان کے معاملات میں مداخلت بند کردے

Anonymous said...

The American retreat is certainly in the air. It is only a matter of time for the Americans to declare in some sort of dramatic way that the war has been won and its time to leave. The invasion took place under the guise to arrest Bin Laden and to destroy Al-Qaida. But of course that was only an excuse for the consumption of the American taxpayers; the real reason for the invasion was the control of the country to ensure future oil/gas pipeline to run from the Caspian region to the Arabian Sea. Has America accomplished any of the goals set at the time of the invasion? There is no sign of Bin Laden, no one knows he is dead or alive. The realization of the pipeline is not ahead of where it was prior to 9/11. As far as Al-Qaida is concerned, it is hard to destroy some thing that does not physically exist.

From the Pakistani perspective, it is indeed an important question whether Afghanistan is going to be pro-Pakistan or pro-India after the Americans leave. It is my hope that it will be pro-Pakistan. However, it will be fair to say that Musharraf certainly did not display courage, maturity and intelligence in his policies towards Afghanistan. He acted like scared little helpless sparrow wedged in the talon of an eagle. He could have done better than that.

The ancient tribal society of Afghanistan cannot be forced to change using carpet bombing and cruise missiles. The tribal warlords cannot be expected to fall in line to accept the western style democracy at gun point. Education is the only vehicle that can bring about the desired results. In order to educate the masses, socio-economic and political stability are essential ingredients which have not existed during the last several decades because of the interference from external powers driven by their self-serving geo-political motives. The Afghans cannot be blamed for what they are while the invading forces never let them have an opportunity for a lasting peace.

The Loya Jirga assembly of Anti-Taliban Afghan war-lords in Pakistan after the Taliban government fell, was the American way of a quick fix. Out of their arrogance, the Americans had ignored history and were therefore condemned to relive it. The quick success using quislings like Hamid Karzai can never turn it into a permanent success and a long term reliable setup. The Soviets had tried those tricks but the Americans had to learn their own lessons their own way. Consequently, very soon, there will be another grave in the grave yard of empires.

Javed

Abdullah said...

اظہار الحق صاحب آپکا ایک اورمبنی بر حقیقت کالم،
ہونا تو یہی چاہیئے کہ جتنی اکائیاں ہیں انہیں انکی آبادی کے حساب سے حق حکومت ملنا چاہیئے ورنہ یہ جھگڑا قیامت تک ختم نہ ہوگا،لیکن جیسا کہ آپ فرماتے ہیں کہ ازبک زیادہ تعلیم یافتہ ہوچکے ہیں بنسبت پختونوں کے تو ملک کی ترقی تو تعلیم یافتہ طبقہ ہی بہترطریقے سے کر سکتا ہے سو اگر دل پر جبر کر کے میرٹ کو اہمیت دی جائے اور اس سے حاصل ہونے والی ترقی پورے ملک کی ترقی کہلائے گی پر اس کے لیئے اتنا بڑا دل کہاں سے لایا جائے اور یہ بڑے بھائی والی مصیبت تو ہم پاکستانیون نے بھی بہت بھگتی ہے اور آج بھی بھگت رہے ہیں جب یہاں ابھی تک اس مسئلے کا کوئی حل نہیں نکل سکا تو پھر افغانستان تو بہت بڑا مسئلہ ہے،
ہمارے ان ہی طریقوں کی وجہ سےغیروں کو ہمیشہ ہم پر غلبہ پانے میں آسانی رہی ہے اور اگر یہی اطوار رہے تو آئندہ بھی رہے گی!!!
امریکہ کوئی آخری دشمن تو نہیں؟؟؟؟
اور وہ ایک بار جاکر دوبارہ نہیں آسکتا اس کی بھی کوئی گارنٹی نہیں؟؟؟؟؟

محمداسد said...

اچھی اور معلوماتی تحریر ہے۔

امریکا ایک طویل عرصہ سے افغانستان میں حامد کرزئی کی حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ لیکن کرزئی حکومتی انتظام چونکہ صرف کابل اور گرد و نواح تک محدود ہے، اس لیے مجبوراَ نیٹو افواج دیگر علاقوں میں موجود قبائل سے مفاہمت پر مجبور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا کا عراق والا فارمولا افغانستان میں چلتا دکھائی نہیں دیتا۔

طالبان کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ ان کے نظریات کا ہے۔ اگر تو طالبان اسلام کو نظریہ مانتے ہیں تو انہیں بلا جھجک دیگر قبائل اور قومیتوں کو نظام حکومت میں شامل کرنے میں ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے۔ اگر سعودی اور چیچن کے ساتھ مل کر افغانستان پر حکمرانی کی جاسکتی ہے تو یہ بات کہیں زیادہ بہتر ہے کہ ازبک اور تاجک کو بھی حق دیا جائے۔ ہاں! اگر تحریک طالبان پختونوں کی تحریک ہے تو پھر مختلف گروہوں میں رسا کشی کو روکنا نا ممکن لگتا ہے۔

ویسے ایک بات ہے، افغانستان کے لیے فکرمند ہونے سے زیادہ پاکستان کے مستقبل کا سوچنا چاہیے۔

کاشف نصیر said...

آپ کا کالم مجموعی طور فکر انگیز ہے لیکن دو تین چیزیں آپ ٹوئسٹ کرگئے۔ ایک یہ کہ نسلی بنیادوں پر مجاہدین میں لڑائی طالبان سے بہت پہلے شروع ہوچکی تھی۔ اس وقت گلبدین حکمت یار پختونوں کے نمائندہ تھے اور وہ مذہبی طور پر برہانی الدین سے زیادہ سخت تھے۔ میرے مطابق برہان الدین اور حکمت یار وغیر غلبہ اسلام اور اقامت دین سے زیادہ اقتدار اور تعصب سے رغبت کا شکار ہوگئے تھے۔

طالبان تو بہت بعد میں آئے اور کیونکہ انکی ابتدا پختونوں میں سے ہوئی جو عام طور پر تقلید اور دیوبندی نظریہ کے حامی ہوتے ہیں اسلئے انکے فہم دین اور شمال کے ازبک و تاجک کے فہم دین جو تقلید کے بجائے تحقیق کے قائل ہیں سے باہم ٹکراگئے۔ دوسری طرف تعصب بھی تھا اور یہ تعصب شمالی اتحاد میں زیادہ تھا۔ ملا عمر برہاالدین اور حکمت یار کی طرح جدید تعلیم یافتہ تھے اور نہ ہی بہت بڑے مذہبی عالم لیکن وہ ایک سچے اور کھرے شخص تھے جنہوں نے حکومت کی تو سادگی اور عاجزی کی مثالیں قائم کیں۔ وہ اپنے فہم دین پر بہت سخت تھے جو میرے خیال سے کوئی بری بات نہیں۔ انکا یہ نظریہ عین اسلامی ہے کہ جب ایک امیر کو غلبہ حاصل ہوجائے اور وہ شریعت نافظ کردے تو باقی لوگوں پر فرض ہوتا ہے وہ اسکی بیعت کریں۔ یہ ایک انتہائی سادہ سا اسلامی اصول ہے اور جو ایسا نہیں کرتا وہ باغی ہے۔ ہمارے محترم ڈاکڑ اسرار احمد صاحب اس ہی لئے طالبان کی شمالی اتحاد سے جنگ کو باغیوں کے خلاف جہاد فی سبیل اللہ قرار دیتے تھے۔


اب جہاں تک آمریکہ کی روانگی کے بعد کے افغانستان کی منصوبہ بندی کا کام ہے، تو یہ پاکستانیوں کا نہیں افغانوں کا کام ہے۔ اور میرے خیال سے ملا عمر اپنے اصول پر قائم رہیں اور شراکت اقتدار اور سب مل کے کھاو پیو کے کسی فارمولے کو قبول نہیں کریں گے۔ اس لئے یہ یقینی ہے کہ افغانستان میں جلد یا بدیر طالبان واپس آئیں گے اب پاکستانیوں کو چاہئے اپنے ملک کے معاملات کو بدلتے ہوئے حالات اور قرآن و سنت کے احکامات کے مطاق ڈھالیں نہ کہ افغانستان کی فکر کریں۔ افغان اپنے ملک کی فکر خود کر لیں‌ آپ اپنے ملک کی ذرا فکر کریں جس کے بارے میں کوشش یہ ہے کہ آمریکہ کی واپسی سے پہلے ہی اسکو تباہ کرکے ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے تاکہ افغانستان کا انقلاب پاکستان اور ہندوستان کی طرف نہ آئے۔

ایک اور بات یہ ہے وہ لوگ جو آمریکی استعمار کا آلہ کار بنے رہے ان سے شراکت اقتدار ہی مقصود تھا تو مضاہمت ہی کیوں گئی۔ مجھے یقین ہے پوزیشن 2001 سے پہلے ہونی ہے اور انشاء اللہ ہو کہ رہے گی۔

کاشف نصیر said...

ایک اور بات یہ ہے وہ لوگ جو آمریکی استعمار کا آلہ کار بنے رہے ان سے شراکت اقتدار ہی مقصود تھا تو مضاہمت ہی کیوں گئی۔ مجھے یقین ہے پوزیشن 2001 سے پہلے ہونی ہے اور انشاء اللہ ہو کہ رہے گی۔

Abdullah said...

ان حضرت کے تبصروں کے لیئے تو بس اتنا ہی کہا جاسکتا ہے ،
لکھے موساپڑھے خود آ
:)
یا لکھ رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی!
:)

عبداللہ آدم said...

اچھی کوشش ہے حالات کو لسانی تناظر میں دیکھنے کی

کاش ساتھ میں قرآنی تناظر کو بھی شامل کر لیا ہوتا۔

طالبان کسی کو بھی حکومت میں شامل کرنے پر ہمہ وقت تیار تھے اور ہیں ۔

شرط صرف یہ ہے کہ جمہوریت اور فلاں ڈمکان جیسے تماشوں کی بجائے اسلامی قوانین کو تسلیم کر لیا جاے تو کوئی بھی اس حکومت میں شامل ہو سکتا تھا اور ہے۔

خود کئی کمانڈر طالبان میں سے غیر پختون تھے۔

اگر وہ اتنے ہی سخت گیر لسانی سوچ رکھنے والا گروہ ہوتا تو کبھی ایک مسلمان کی حفاظت کے لیے سارا ملک نہ چھوڑ دیتے ۔

پھر شراکت اقتدار کی جائے تو کن کے ساتھ؟؟ ان لوگوں کے ساتھ جن کو اپ تاجک اور ازبک کا نام تو دے رہے ہیں لیکن یہ فراموش فرا چکے ہیں کہ وہ امریکی جارحیت کے پہلے دن سے اس کے ساتھی رہے ہیں ۔

یقینا عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں ہی کے لیے ہے
وللہ العزۃ ولرسولہ وللمومنین

طالبان کو جس طرح اج نصرف ربی حاصل ہے اسی طرح وہ کل بھی اللہ کا دین اللہ کی زمین پر نافذ کریں گے۔ ان شائ اللہ۔

کسی کو تکلیف ہو یا ناگواز گزرے!!!

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com