کالم

قائد اعظم بطور وکیل

منیر احمد منیر معروف صحافی اور مصنف ہیں۔ انہوں نے قائداعظم کی زندگی پر بہت کام کیا ہے۔ معترضین کو دلائل کے ساتھ جواب دیا ہے۔ چار جلدوں میں ''دی گریٹ لیڈر‘‘ تالیف کی ہے جو اُن 81شخصیات کے انٹرویوز پر مشتمل ہے جو قائداعظم کے قریب رہے۔ میں اگر انہیں قائداعظم کا سپاہی کہوں تو غلط نہ ہو گا۔ پاکستان کے بارے میں مولانا ابوالکلام آزاد کی پیش گوئیاں بہت اچھالی جاتی ہیں۔ منیر صاحب نے ان کا تجزیہ کر کے انہیں غلط ثابت کیا ہے اور اس پر پوری کتاب لکھی ہے۔ منیر صاحب طویل انٹرویوز کرنے کے لیے بھی مشہور ہیں۔ انہوں نے بہت سے مشاہیر کے تفصیلی انٹرویو لیے ہیں جو تاریخ کا حصہ ہیں۔ منیر صاحب کچھ عرصہ روزنامہ دنیا میں کالم بھی لکھتے رہے ہیں۔ ایک عرصہ سے رسالہ ''آتش فشاں‘‘ نکال رہے ہیں۔
چند دن پہلے ان کا ایک وی لاگ سنا۔ یہ سابق اٹارنی جنرل ملک محمد قیوم کے اُس بیان کے متعلق تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ''میں (یعنی ملک قیوم) اصولوں اور اخلاقی تقاضوں کی پروا کیے بغیر صرف فیس کے لیے کیس لڑتا ہوں اور یہی کچھ بانیٔ پاکستان قائداعظم کیا کرتے تھے‘‘۔ یہ بیان سترہ دسمبر 2008ء کو پاکستان کے ایک مشہور اخبار میں شائع ہوا۔ اس کے ردّ میں منیر احمد منیر صاحب نے دلائل اور حوالوں کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ قائداعظم نے وکالت بھی دوسرے کاموں کی طرح‘ اخلاقی ضابطوں اور اصولوں کے مطابق کی۔ منیر صاحب نے جن واقعات کا ذکر کیا‘ وہ یہاں بیان کیے جا رہے ہیں تاکہ قائداعظم کی روشن زندگی کا یہ پہلو بھی موجودہ نسل کے سامنے آ جائے۔
پہلا واقعہ مشہور کشمیری لیڈر شیخ عبداللہ نے اپنی خود نوشت ''آتشِ چنار‘‘ میں لکھا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ شیخ عبداللہ قیام پاکستان کے مخالف تھے اور یوں قائداعظم کے بھی حامی نہ تھے۔ وہ لکھتے ہیں ''1936ء میں قائداعظم سیر وتفریح کے لیے کشمیر آئے۔ اس وقت تک وہ ایک ہندوستان گیر شخصیت کے مالک بن چکے تھے اور ان کے سیاسی امتیاز کے ساتھ ساتھ ان کی قانون دانی کا لوہا بھی مانا جا چکا تھا۔ انہی دنوں چیف جسٹس کشمیر سر برجورد لال کی عدالت میں ایک مقدمہ حنیفہ بیگم اور مہر علی تھانیدار کے متنازع نکاح کا زیر سماعت تھا۔ مہر علی کشمیر پولیس میں تھانیدار تھا‘ حنیفہ بیگم کا ایک اور دعویدار بھی تھا۔ مہر علی کے ساتھ ہماری جان پہچان تھی۔ مقدمہ بہت مشکل تھا اور اس نے کافی توجہ مبذول کر لی تھی۔ میں اور مرزا محمد افضل بیگ جناح صاحب سے ان کے ہاؤس بوٹ میں ملے تاکہ انہیں اس مقدمے کا وکالت نامہ لینے پر مائل کر سکیں۔ یہ میری جناح صاحب کے ساتھ پہلی ملاقات تھی۔ جناح صاحب نہایت صاف ستھرے انگریزی سوٹ میں ملبوس تھے۔ اگرچہ وہ دبلے پتلے تھے لیکن ان کی آنکھوں میں ذہانت اور چہرے پر ایک قدرتی تمکنت موجود تھی۔ وہ ایک خاص آن بان سے بات کرتے اور بہت کم مسکراتے۔ بیگ صاحب سے مقدمے کی نوعیت سن کر ایک ہزار روپے فی پیشی فیس طلب کی‘ ہم اتنی بڑی فیس ادا کرنے کے لیے آمادہ نہیں تھے اور جناح صاحب کو فیس گھٹانے پر راضی کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ بات میری پیشہ ورانہ اخلاقیات کے منافی ہو گی آپ کو ایک ہزار فی پیشی کے حساب سے فیس دینا ہو گی جبھی میں وکالت نامہ قبول کر سکوں گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں خیراتی کاموں کے لیے چندہ دے سکتا ہوں لیکن پیشہ ورانہ اصولوں کو قربان نہیں کر سکتا۔ معاملہ طے کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ وہ پیشی کے دن سر برجورد کی عدالت میں وکالت کے جوہر دکھانے کے لیے آگئے۔ ان کی فاضلانہ بحث سننے کے لیے کمرۂ عدالت لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ میں بھی تماشائیوں میں تھا۔ جناح صاحب کی وکیلانہ مو شگافیاں رنگ لائیں‘‘۔ یہ موشگافی اسلامی کیلنڈر کے متعلق ایک نکتے سے متعلق تھی۔ انگریزی کیلنڈر کی رُو سے عدت کی مدت پوری نہیں ہو رہی تھی۔ قائداعظم نے اسلامی (ہجری) کیلنڈر پیش کیا جس کے مطابق مدت پوری ہو رہی تھی۔ پہلی پیشی ہی پر قائداعظم نے مقدمہ جیت لیا۔ وہ چاہتے تو کئی پیشیاں بھگتاتے اور ہر پیشی پر ایک ہزار روپے لیتے مگر ان کے اخلاقی اصول بلند اور سخت تھے۔ وہ ایک ہزار روپے بھی انہوں نے مسلمانوں کے ایک مقامی سکول کو عطیہ کر دیے۔
1936ء میں ایک ہزار روپے کی قدر کیا تھی؟ ملکہ پکھراج بھی اُس زمانے میں کشمیر میں تھیں۔ وہ اپنی خود نوشت ''بے زبانی زباں نہ ہو جائے‘‘ میں بتاتی ہیں کہ اُس وقت کشمیر میں سونا اٹھارہ روپے فی تولہ تھا اور چاندی دو آنے تولہ تھی۔
مشہور ومعروف نو مسلم کے ایل گابا تحریک پاکستان کا اس قدر مخالف تھا کہ پاکستان بنا تو وہ بھارت چلا گیا۔ منیر احمد منیر صاحب نے اس کا انٹر ویو کیا۔ کے ایل گابا کہتے ہیں کہ 1930ء کی دہائی ہی میں راجستھان میں ایک مندر کے حوالے سے ہندوؤں کے دو گروہوں میں جھگڑا تھا۔ ایک گروہ نے قائداعظم سے رابطہ کیا اور دو لاکھ فیس کی پیشکش کی مگر قائداعظم نے کیس لینے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے وجہ یہ بتائی کہ جس دن کیس کی سماعت ہے اُس دن انہوں نے لیجسلیٹو اسمبلی میں تقریر کرنی ہے۔ جب وہ کوئی وعدہ کر لیتے تھے تو اس وعدے کو پورا کرنے کے لیے لاکھوں روپے بھی ٹھکرا دیتے تھے۔
منیر احمد منیر صاحب نے پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کی بیگم رعنا لیاقت علی خان کا بھی انٹر ویو لیا۔ بیگم صاحبہ نے بتایا کہ ایک بار ایک مقدمہ لیتے وقت قائداعظم نے اپنے مؤکل پر واضح کیا کہ اس مقدمے پر ان کا کافی وقت لگ سکتا ہے اس لیے فیس اسی حساب سے ادا کرنا ہو گی۔ مؤکل بہت سی رقم اٹھا لایا۔ قائداعظم نے رقم واپس کر دی اور کہا کہ میں وقت کے حساب سے فیس لوں گا خواہ ایک گھنٹہ ہوا یا تیس دن۔ اندازے کے برعکس‘ پہلی پیشی ہی پر قائداعظم نے چند گھنٹوں میں مقدمہ جیت لیا۔ اور فیس اسی حساب سے لی جو مؤکل کے اندازے سے بہت کم تھی۔ مؤکل نے خوشی سے کچھ رقم قائداعظم کے منشی کو پیش کی کیونکہ اس کی بچت بہت زیادہ ہو گئی تھی مگر قائد کے منشی نے بھی پیسے لینے سے انکار کر دیا۔
ریاست بھوپال میں قائداعظم ایک مقدمے کی پیروی کر رہے تھے۔ جس دن پیشی تھی‘ قائداعظم کسی ناگزیر وجہ سے وقت پر نہ پہنچ سکے۔ ان کے جونیئر سید محمد حسین بیرسٹر نے کیس ملتوی کرنے کی درخواست کی جو عدالت نے منظور نہ کی۔ جونیئر وکیل نے اس پر دلائل دینے شروع کر دیے۔ اتنے میں قائداعظم پہنچ گئے۔ ان کے جونیئر وکیل نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ آکر دلائل دیجیے۔ قائد نے انکار کر دیا اور کہا کہ ایسا کرنا پیشہ ورانہ اخلاقیات کے خلاف ہو گا۔ قائداعظم نے کہا کہ تم دلائل دینا جاری رکھو میں تمہاری مدد کروں گا؛ چنانچہ وہ اپنے اسسٹنٹ کے اسسٹنٹ ہو گئے۔ فیس انہوں نے واپس کر دی۔
ایک بار وہ ایک مقدمے میں پیش ہونے کے لیے آگرہ تشریف لے گئے۔ وہاں کی مسلم لیگ برانچ کو معلوم ہوا تو انہوں نے درخواست کی کہ وہ جلسہ رکھنا چاہتے ہیں مگر آپ نے معذرت کر دی اور کہا کہ یہ وقت ان کے مؤکل نے خرید رکھا ہے۔ اس میں کوئی اور کام کرنا خیانت کے مترادف ہو گا۔ انہوں نے مسلم لیگیوں کو بتایا کہ وہ ان کے واپس جانے کے بعد انہیں بلائیں۔ وہ اپنے خرچ پر آئیں گے۔ (جاری)

مقبول کالم

کراچی کے گڈریے

خضاب کے رنگ دھنک پر

فرانس سے ایک خط