موٹر وے اسلام آباد ٹول پلازا اور ’’انصاف‘‘
یہ کہانی ہم نے سنی ہے‘ بارہا سنی ہے اور یہ ایسی کہانی ہے جو ہر بار ہم پر یوں منطبق ہوتی ہے جیسے نئی ہو!!
ایک وزیر نے بادشاہ کو یقین دلایا تھا کہ رعایا کے ساتھ جو سلوک چاہیں کر لیجیے‘ رعایا حکم عدولی کرے گی نہ احتجاج! سب کچھ برداشت کر لے گی۔ بادشاہ نے ثبوت مانگا۔ دارالحکومت کے پاس ایک دریا تھا۔ شہر میں داخل ہونے کیلئے دریا کو پار کرنا پڑتا تھا۔ وزیر نے تجویز پیش کی کہ فرمان جاری کیجیے جو بھی شہر میں داخل ہونے کیلئے دریا پار کرے گا اسے دو کوڑے مارے جائیں گے۔ شاہی حکم کی تعمیل شروع ہو گئی۔ دریا پار کرنے والے ہر شخص کو دو کوڑے لگنے لگے۔ سب پتھر کی مورتیوں کی طرح‘ خاموش‘ بے حس و حرکت کوڑے کھاتے اور اپنا راستہ لیتے۔ یہ سلسلہ چلتا رہا۔ کچھ عرصہ بعد آبادی کا دباؤ بڑھا تو دریا پار کرنے والے عوام کی تعداد میں اضافہ ہو گیا۔ کوڑے مارنے والا داروغہ ایک ہی تھا؛ چنانچہ لوگوں کو اپنے حصے کے کوڑے کھانے کیلئے لمبی لمبی لائنوں میں لگنا پڑتا اور طویل انتظار کرنا پڑتا۔ آخر کار ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا؟ کیا تھا یہ مطالبہ؟ کہ کوڑے مارنے کا سلسلہ ختم کیا جائے؟ نہیں! ہر گز نہیں! مطالبہ عوام کا یہ تھا کہ کوڑے مارنے کیلئے ایک داروغہ کافی نہیں ہے۔ پبلک کو کوڑے کھانے کیلئے طویل انتظار کی کوفت سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس لیے کوڑے مارنے کیلئے کم از کم دو داروغوں کو تعینات کیا جائے۔
ہم لاہور سے چلے۔ رُخ کشورِ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی طرف تھا۔ کوچوان ہماری گاڑی چلا رہا تھا۔ موٹروے پر سفر کرتے ہوئے ہم اسلام آباد ٹول پلازا پر پہنچے۔ آٹھ دس Lanesخالی تھیں‘ ان کے کاؤنٹر بند تھے۔ صرف دو کھلی تھیں۔ ہو سکتا ہے تین کھلی ہوں۔ مگر ساری کی ساری ٹریفک انہی دو یا تین کاؤنٹرز کا انتظار کر رہی تھی۔ معلوم ہوا باقی تمام Lanesان گاڑیوں کیلئے ہیں جو کمپیوٹر کے ذریعے ''ایم ٹیگ‘‘ حاصل کر لیتی ہیں۔ کیش یعنی نقد ٹول ادا کرنے والوں کیلئے یہی دو تین کھلی تھیں۔ کیش ادا کرنے والوں کی بے تحاشا لمبی قطاریں تھیں۔ ایم ٹیگ والی اکا دکا کوئی گاڑی گزر رہی تھی۔ بچہ بھی دیکھ کر اندازہ لگا سکتا تھا کہ کیش میں موٹر وے کا محصول ادا کرنے والوں کی تعداد پچاسی‘ نوّے فیصد سے کم نہیں۔ ایم ٹیگ والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ بلامبالغہ کاؤنٹر تک پہنچنے میں ہمیں آدھا گھنٹہ‘ جی ہاں! پورا آدھا گھنٹہ لگا۔ لیکن ٹھہریے! ''انصاف‘‘ کی یہ طلسمِ ہوشربا (بے تصویر) ابھی ختم نہیں ہوئی۔ کاؤنٹر پر پہنچے۔ سامنے خودکار رکاوٹ تھی! ہمارے کوچوان نے کاؤنٹر والے بابو صاحب سے پوچھا ''کتنے پیسے؟‘‘ اس نے جواب دیا ''ایک ہزار نو سو‘ یعنی 1900 روپے!‘‘۔ کوچوان نے بھونچکا ہو کر کہا ''مگر پہلے تو بارہ سو روپے تھے!‘‘ کاؤنٹر والے بابو نے بتایا کہ ایم ٹیگ والوں سے بارہ سو روپے مگر کیش دینے والوں سے 1900 روپے لیے جاتے ہیں۔ یا وحشت! یالِلعجب! صرف اس لیے سات سو روپے زیادہ لیے جا رہے تھے کہ محصول کیش میں کیوں ادا کر رہے ہیں! ایک ہی ملک کے باشندے! ایک ہی موٹر وے! ایک ہی ٹول پلازا! ایک ہی کرنسی! ایک ہی فاصلہ! مگر جو ایم ٹیگ لگوائے اس سے 1200 روپے! جو کیش دے‘ اس سے 1900 روپے!! چلیے اگر آپ لوگوں کو ترغیب دلانا چاہتے ہیں کہ وہ ایم ٹیگ خریدیں تو ایک آدھ سو کا فرق رکھ لیجیے! مگر سات سو روپے!! یہ سات سو روپے کا جگا ٹیکس نہ تھا! وہی کوڑے تھے جو دریا عبور کرنے والوں کو مارے جاتے تھے۔ منظر کو دوبارہ دیکھیے۔ سات آٹھ Lanesبند! سات آٹھ کاؤنٹر بند۔ صرف دو یا تین کھلی ہیں۔ سینکڑوں گاڑیاں ان دو تین Lanesمیں کھڑی ہیں۔ آہستہ آہستہ‘ بہت آہستہ‘ ایک ایک انچ سرک رہی ہیں۔ اس انتظار اور تاخیر کے بعد جب یہ مظلوم‘ معتوب اور مقہور گاڑیاں کاؤنٹر پر پہنچتی ہیں تو ان تیرہ بختوں سے‘ ان ''مجرموں‘‘ سے 1200 کے بجائے 1900روپے لیے جاتے ہیں! سینکڑوں افراد ہر روز اس عظیم الشان ''انصاف‘‘ کا شکار ہوتے ہیں مگر کوئی اُف تک نہیں کرتا! کوئی چُوں تک نہیں کرتا! سب چپ کر کے پہروں انتظار کرتے ہیں۔ پھر 1900 روپے دے کر آگے چلے جاتے ہیں۔ وہی دریا! وہی کوڑے! وہی ''صبر‘‘! سوال یہ ہے کہ کیا کیش میں محصول ادا کرنا جرم ہے؟ یا گناہ؟ کیا کیش دینے والے بد بخت اسی ملک کے شہری نہیں؟ کیا یہ کیش جو وہ ادا کر رہے ہیں ہمارے ملک کا جائز‘ سکہ رائج الوقت نہیں؟ کیا موٹر وے والے سات سو روپے کے اس فرق کا کوئی جواز بتائیں گے؟ کیا عدلیہ اس ظلم پر ازخود نوٹس لے گی؟ کیا 1900 روپے کے کوڑے کھانے والے کبھی جاگیں گے؟ کبھی پوچھیں گے کہ اتنا خاردار فرق کیوں ہے؟ کس اصول کی بنیاد پر ہے؟
کوئی مانے یا نہ مانے! ہم پاکستانی بھیڑ بکریاں ہیں! ہماری کوئی Sayنہیں! جہاں باندھ دیں‘ باندھ دیں! جس چراگاہ میں ہانک کر لے جائیں‘ لے جائیں! بھیڑ بکریوں پر ظلم کیا جائے تو وہ ممیاتی ہیں۔ شور مچاتی ہیں! ہم تو بھیڑ بکریوں سے بھی دس قدم آگے ہیں! ممیاتے ہیں نہ تکلیف کا اظہار کرتے ہیں! کوئی عدالت ہی میں چلا جاتا! کوئی کاؤنٹر پر شور ہی برپا کر دیتا! کوئی اپنی گاڑی پر بینر ہی لگا دیتا جس پر سوال ہوتا کہ اتنا زیادہ تفاوت کیوں؟ کوئی کسی اخبار میں خط ہی چھپوا دیتا! مگر آہ!! مطالبہ ہوا بھی تو یہی ہو گا کہ کوڑے مارنے والوں کی تعداد زیادہ کی جائے! ہمارا شہری شعور‘ ہمارا سِوک سینس‘ گھٹ رہا ہے یا بڑھ رہا ہے؟ آج سے ستاون اٹھاون سال پیشتر‘ جنرل ایوب خان کے زمانے میں چینی چند آنے مہنگی ہوئی تھی تو احتجاج طوفان کی شکل اختیار کر گیا تھا! اقتدار کی بنیادیں لرز اٹھی تھیں۔ حکومت کانپنے لگ گئی تھی۔ آج سینکڑوں روپے کسی وجہ‘ کسی جواز کے بغیر زیادہ لیے جا رہے ہیں تو کوئی آواز نہیں اٹھتی! شاید لوگ ناامیدیوں کے سمندروں میں غوطے کھا کھا کر بے حس ہو چکے ہیں۔ ان کے حواس سن ہو چکے ہیں! وہ راضی برضا ہو چکے ہیں۔
پس نوشت: سیلاب کی تباہ کاریاں بدستور جاری ہیں۔ حکومتیں جو کچھ کر رہی ہیں‘ لائقِ تحسین ہے۔ ان کے اقدامات پر جو تنقید ہو رہی ہے اسے بھی یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ بہت کچھ‘ جو کیا جا سکتا ہے‘ نہیں کیا جا رہا۔ دو پہلو شدید توجہ طلب ہیں۔ اب اس میں قطعاً دو آرا نہیں کہ دریاؤں‘ ندیوں‘ نالوں کے راستوں میں تعمیرات کی گئی ہیں‘ اور بہت زیادہ کی گئی ہیں۔ اس میں لالچی بلڈرز اور ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے مالکان تو شامل ہیں ہی‘ متعلقہ اداروں کے افسر اور اہلکار بھی پورے پورے شریک ہیں۔ کچھ روپے کی حرص میں چشم پوشی کرتے رہے ہیں اور کچھ نالائقی اور نا اہلی کے سبب یہ دھاندلی جان ہی نہیں سکے۔ سوال یہ ہے کہ ان مالکان اور بلڈرز کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا ہے؟ اور متعلقہ اداروں میں جو افسر اور اہلکار ذمہ دار ہیں ان کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا ہے؟ کیونکہ اگر کتے کی لاش کنویں کے اندر ہی ہے تو ہزار ڈول نکالنے سے بھی کنواں پاک نہیں ہو گا۔ پانی رشوت لیتا ہے نہ چشم پوشی کرتا ہے۔ جس پانی نے نوح علیہ السلام کے فرزند کو نہیں چھوڑا وہ ہماشما کو کہاں خاطر میں لائے گا۔ آج کل سعود عثمانی کا شعر گردش کر رہا ہے اور کیا اچھا کہا ہے:
کہا نہیں تھا کہ دریا کے راستے مت روک
کہ سیلِ آب کو قبضے چھڑانے آتے ہیں
دوسرا پہلو یہ ہے کہ ڈیم اور تالاب کب بنائے جائیں گے؟ کرکٹ کی ہمیں بہت فکر ہے۔ یہ بھی سوچیے کہ انڈیا میں ڈیم کتنے ہیں؟ صرف مہاراشٹر میں تین ہزار سے زیادہ ڈیم ہیں!!
ایک وزیر نے بادشاہ کو یقین دلایا تھا کہ رعایا کے ساتھ جو سلوک چاہیں کر لیجیے‘ رعایا حکم عدولی کرے گی نہ احتجاج! سب کچھ برداشت کر لے گی۔ بادشاہ نے ثبوت مانگا۔ دارالحکومت کے پاس ایک دریا تھا۔ شہر میں داخل ہونے کیلئے دریا کو پار کرنا پڑتا تھا۔ وزیر نے تجویز پیش کی کہ فرمان جاری کیجیے جو بھی شہر میں داخل ہونے کیلئے دریا پار کرے گا اسے دو کوڑے مارے جائیں گے۔ شاہی حکم کی تعمیل شروع ہو گئی۔ دریا پار کرنے والے ہر شخص کو دو کوڑے لگنے لگے۔ سب پتھر کی مورتیوں کی طرح‘ خاموش‘ بے حس و حرکت کوڑے کھاتے اور اپنا راستہ لیتے۔ یہ سلسلہ چلتا رہا۔ کچھ عرصہ بعد آبادی کا دباؤ بڑھا تو دریا پار کرنے والے عوام کی تعداد میں اضافہ ہو گیا۔ کوڑے مارنے والا داروغہ ایک ہی تھا؛ چنانچہ لوگوں کو اپنے حصے کے کوڑے کھانے کیلئے لمبی لمبی لائنوں میں لگنا پڑتا اور طویل انتظار کرنا پڑتا۔ آخر کار ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا؟ کیا تھا یہ مطالبہ؟ کہ کوڑے مارنے کا سلسلہ ختم کیا جائے؟ نہیں! ہر گز نہیں! مطالبہ عوام کا یہ تھا کہ کوڑے مارنے کیلئے ایک داروغہ کافی نہیں ہے۔ پبلک کو کوڑے کھانے کیلئے طویل انتظار کی کوفت سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس لیے کوڑے مارنے کیلئے کم از کم دو داروغوں کو تعینات کیا جائے۔
ہم لاہور سے چلے۔ رُخ کشورِ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی طرف تھا۔ کوچوان ہماری گاڑی چلا رہا تھا۔ موٹروے پر سفر کرتے ہوئے ہم اسلام آباد ٹول پلازا پر پہنچے۔ آٹھ دس Lanesخالی تھیں‘ ان کے کاؤنٹر بند تھے۔ صرف دو کھلی تھیں۔ ہو سکتا ہے تین کھلی ہوں۔ مگر ساری کی ساری ٹریفک انہی دو یا تین کاؤنٹرز کا انتظار کر رہی تھی۔ معلوم ہوا باقی تمام Lanesان گاڑیوں کیلئے ہیں جو کمپیوٹر کے ذریعے ''ایم ٹیگ‘‘ حاصل کر لیتی ہیں۔ کیش یعنی نقد ٹول ادا کرنے والوں کیلئے یہی دو تین کھلی تھیں۔ کیش ادا کرنے والوں کی بے تحاشا لمبی قطاریں تھیں۔ ایم ٹیگ والی اکا دکا کوئی گاڑی گزر رہی تھی۔ بچہ بھی دیکھ کر اندازہ لگا سکتا تھا کہ کیش میں موٹر وے کا محصول ادا کرنے والوں کی تعداد پچاسی‘ نوّے فیصد سے کم نہیں۔ ایم ٹیگ والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ بلامبالغہ کاؤنٹر تک پہنچنے میں ہمیں آدھا گھنٹہ‘ جی ہاں! پورا آدھا گھنٹہ لگا۔ لیکن ٹھہریے! ''انصاف‘‘ کی یہ طلسمِ ہوشربا (بے تصویر) ابھی ختم نہیں ہوئی۔ کاؤنٹر پر پہنچے۔ سامنے خودکار رکاوٹ تھی! ہمارے کوچوان نے کاؤنٹر والے بابو صاحب سے پوچھا ''کتنے پیسے؟‘‘ اس نے جواب دیا ''ایک ہزار نو سو‘ یعنی 1900 روپے!‘‘۔ کوچوان نے بھونچکا ہو کر کہا ''مگر پہلے تو بارہ سو روپے تھے!‘‘ کاؤنٹر والے بابو نے بتایا کہ ایم ٹیگ والوں سے بارہ سو روپے مگر کیش دینے والوں سے 1900 روپے لیے جاتے ہیں۔ یا وحشت! یالِلعجب! صرف اس لیے سات سو روپے زیادہ لیے جا رہے تھے کہ محصول کیش میں کیوں ادا کر رہے ہیں! ایک ہی ملک کے باشندے! ایک ہی موٹر وے! ایک ہی ٹول پلازا! ایک ہی کرنسی! ایک ہی فاصلہ! مگر جو ایم ٹیگ لگوائے اس سے 1200 روپے! جو کیش دے‘ اس سے 1900 روپے!! چلیے اگر آپ لوگوں کو ترغیب دلانا چاہتے ہیں کہ وہ ایم ٹیگ خریدیں تو ایک آدھ سو کا فرق رکھ لیجیے! مگر سات سو روپے!! یہ سات سو روپے کا جگا ٹیکس نہ تھا! وہی کوڑے تھے جو دریا عبور کرنے والوں کو مارے جاتے تھے۔ منظر کو دوبارہ دیکھیے۔ سات آٹھ Lanesبند! سات آٹھ کاؤنٹر بند۔ صرف دو یا تین کھلی ہیں۔ سینکڑوں گاڑیاں ان دو تین Lanesمیں کھڑی ہیں۔ آہستہ آہستہ‘ بہت آہستہ‘ ایک ایک انچ سرک رہی ہیں۔ اس انتظار اور تاخیر کے بعد جب یہ مظلوم‘ معتوب اور مقہور گاڑیاں کاؤنٹر پر پہنچتی ہیں تو ان تیرہ بختوں سے‘ ان ''مجرموں‘‘ سے 1200 کے بجائے 1900روپے لیے جاتے ہیں! سینکڑوں افراد ہر روز اس عظیم الشان ''انصاف‘‘ کا شکار ہوتے ہیں مگر کوئی اُف تک نہیں کرتا! کوئی چُوں تک نہیں کرتا! سب چپ کر کے پہروں انتظار کرتے ہیں۔ پھر 1900 روپے دے کر آگے چلے جاتے ہیں۔ وہی دریا! وہی کوڑے! وہی ''صبر‘‘! سوال یہ ہے کہ کیا کیش میں محصول ادا کرنا جرم ہے؟ یا گناہ؟ کیا کیش دینے والے بد بخت اسی ملک کے شہری نہیں؟ کیا یہ کیش جو وہ ادا کر رہے ہیں ہمارے ملک کا جائز‘ سکہ رائج الوقت نہیں؟ کیا موٹر وے والے سات سو روپے کے اس فرق کا کوئی جواز بتائیں گے؟ کیا عدلیہ اس ظلم پر ازخود نوٹس لے گی؟ کیا 1900 روپے کے کوڑے کھانے والے کبھی جاگیں گے؟ کبھی پوچھیں گے کہ اتنا خاردار فرق کیوں ہے؟ کس اصول کی بنیاد پر ہے؟
کوئی مانے یا نہ مانے! ہم پاکستانی بھیڑ بکریاں ہیں! ہماری کوئی Sayنہیں! جہاں باندھ دیں‘ باندھ دیں! جس چراگاہ میں ہانک کر لے جائیں‘ لے جائیں! بھیڑ بکریوں پر ظلم کیا جائے تو وہ ممیاتی ہیں۔ شور مچاتی ہیں! ہم تو بھیڑ بکریوں سے بھی دس قدم آگے ہیں! ممیاتے ہیں نہ تکلیف کا اظہار کرتے ہیں! کوئی عدالت ہی میں چلا جاتا! کوئی کاؤنٹر پر شور ہی برپا کر دیتا! کوئی اپنی گاڑی پر بینر ہی لگا دیتا جس پر سوال ہوتا کہ اتنا زیادہ تفاوت کیوں؟ کوئی کسی اخبار میں خط ہی چھپوا دیتا! مگر آہ!! مطالبہ ہوا بھی تو یہی ہو گا کہ کوڑے مارنے والوں کی تعداد زیادہ کی جائے! ہمارا شہری شعور‘ ہمارا سِوک سینس‘ گھٹ رہا ہے یا بڑھ رہا ہے؟ آج سے ستاون اٹھاون سال پیشتر‘ جنرل ایوب خان کے زمانے میں چینی چند آنے مہنگی ہوئی تھی تو احتجاج طوفان کی شکل اختیار کر گیا تھا! اقتدار کی بنیادیں لرز اٹھی تھیں۔ حکومت کانپنے لگ گئی تھی۔ آج سینکڑوں روپے کسی وجہ‘ کسی جواز کے بغیر زیادہ لیے جا رہے ہیں تو کوئی آواز نہیں اٹھتی! شاید لوگ ناامیدیوں کے سمندروں میں غوطے کھا کھا کر بے حس ہو چکے ہیں۔ ان کے حواس سن ہو چکے ہیں! وہ راضی برضا ہو چکے ہیں۔
پس نوشت: سیلاب کی تباہ کاریاں بدستور جاری ہیں۔ حکومتیں جو کچھ کر رہی ہیں‘ لائقِ تحسین ہے۔ ان کے اقدامات پر جو تنقید ہو رہی ہے اسے بھی یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ بہت کچھ‘ جو کیا جا سکتا ہے‘ نہیں کیا جا رہا۔ دو پہلو شدید توجہ طلب ہیں۔ اب اس میں قطعاً دو آرا نہیں کہ دریاؤں‘ ندیوں‘ نالوں کے راستوں میں تعمیرات کی گئی ہیں‘ اور بہت زیادہ کی گئی ہیں۔ اس میں لالچی بلڈرز اور ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے مالکان تو شامل ہیں ہی‘ متعلقہ اداروں کے افسر اور اہلکار بھی پورے پورے شریک ہیں۔ کچھ روپے کی حرص میں چشم پوشی کرتے رہے ہیں اور کچھ نالائقی اور نا اہلی کے سبب یہ دھاندلی جان ہی نہیں سکے۔ سوال یہ ہے کہ ان مالکان اور بلڈرز کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا ہے؟ اور متعلقہ اداروں میں جو افسر اور اہلکار ذمہ دار ہیں ان کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا ہے؟ کیونکہ اگر کتے کی لاش کنویں کے اندر ہی ہے تو ہزار ڈول نکالنے سے بھی کنواں پاک نہیں ہو گا۔ پانی رشوت لیتا ہے نہ چشم پوشی کرتا ہے۔ جس پانی نے نوح علیہ السلام کے فرزند کو نہیں چھوڑا وہ ہماشما کو کہاں خاطر میں لائے گا۔ آج کل سعود عثمانی کا شعر گردش کر رہا ہے اور کیا اچھا کہا ہے:
کہا نہیں تھا کہ دریا کے راستے مت روک
کہ سیلِ آب کو قبضے چھڑانے آتے ہیں
دوسرا پہلو یہ ہے کہ ڈیم اور تالاب کب بنائے جائیں گے؟ کرکٹ کی ہمیں بہت فکر ہے۔ یہ بھی سوچیے کہ انڈیا میں ڈیم کتنے ہیں؟ صرف مہاراشٹر میں تین ہزار سے زیادہ ڈیم ہیں!!