کالم

سیلاب‘ جاپان اور جمہوریت

کیا ستم ظریفی ہے کہ سیلاب کی تباہیوں کے عین درمیان ہنسی کے مواقع میسر آ رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ اربن فلڈنگ کی ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے تمام ضروری اقدامات فوری طور پر کئے جائیں اور یہ کہ عوامی نمائندے اور حکومتی ادارے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بروقت انخلا اور امدادی کاروائیوں کی مؤثر نگرانی کریں!
ہمارے جاننے والوں میں ایک صاحب اپنی بیمار بیگم کو علاج کیلئے امریکہ لے جا رہے تھے۔ دوستوں کا خیال یہ تھا کہ علاج کیسے ہوگا جبکہ بیماری‘ میاں کی صورت میں‘ ساتھ ہی جا رہی ہے۔ بالکل یہی صورتحال وزیراعظم کے بیان پر منطبق ہو رہی ہے۔ جن ''عوامی نمائندوں اور حکومتی اداروں‘‘ کو وزیراعظم ضروری ہدایات دے رہے ہیں‘ وہی تو سیلاب کے حوالے سے‘ بہت سے مسائل کے ذمہ دار ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب آبی گزر گاہوں پر بستیاں بسائی جا رہی تھیں اور مکان تعمیر کیے جا رہے تھے تو یہ حکومتی ادارے کہاں تھے؟ کیا اس وقت ان اداروں کی آنکھوں میں موتیا اُتر آیا تھا؟ سب کچھ ان کے سامنے ہو رہا تھا اور وہ خاموش تھے! جیسے ان کا وجود ہی نہ تھا۔ وزیراعظم ایک کمیشن کیوں نہیں بناتے جو مختصر ترین مدت میں ان تعمیرات کی فہرست بنائے جو دریاؤں‘ ندیوں اور نالوں کے راستوں میں اٹھائی گئیں۔ یہ کمیشن ان افسروں اور اہلکاروں کے نام پیش کرے جو ان آبادیوں کو روکنے کے ذمہ دار تھے۔ ان عقل کے اندھوں کو عبرتناک سزائیں دی جائیں! نااہلی‘ نالائقی‘ مجرمانہ غفلت اور ملی بھگت کی بدترین مثالیں ہم نے وفاقی دارالحکومت میں دیکھیں۔ کچھ سال پہلے اعلان کیا گیا کہ نئے ایئرپورٹ کے قرب وجوار میں تین چار سو غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیاں موجود ہیں۔ تو کیا یہ سوسائٹیاں یکایک آسمان سے گری تھیں یا زمین سے اُگ آئی تھیں؟ اتنے بڑے بڑے‘ لمبے چوڑے‘ عظیم الجثہ ادارے اس وقت کیا کر رہے تھے؟ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اسلام آباد کے ایک امیر سیکٹر ای الیون میں تین چار برس پیشتر سیلاب آیا تھا۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ نالے کے راستے میں پلازے اور مکان بنے ہوئے تھے۔ کس نے یہ پلاننگ کی؟ کس نے اجازت دی؟ اس ملک میں بیورو کریسی کو شاید ہی کسی جرم کی سزا دی جاتی ہو! قوانین موجود ہیں۔ ان کا نفاذ صفر سے بھی کم ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ افسرانہ شان وشوکت ہے۔ سات پردوں میں رہنے والے چیف کمشنر یا ترقیاتی اداروں کے سربراہ بازاروں‘ گلی کوچوں میں کبھی نظر نہیں آتے۔ شہر کے بارے میں ان کی براہِ راست واقفیت صفر ہوتی ہے۔ منتخب میئر ہو تو اسے علاقے کی‘ یا شہر کی ایک ایک گلی کا پتا ہوتا ہے۔ وہ عوام میں سے ہوتا ہے۔ انہی میں رہنا ہوتا ہے۔ کرسی سے اترنے کے بعد بھی وہیں زندگی گزارنی ہوتی ہے۔ حساب کتاب اور سزاؤں کی عدم موجودگی میں تباہی کا یہ سلسلہ کبھی نہیں رکے گا۔ طاقتور افراد آبی گزرگاہوں پر ہاؤسنگ سو سائٹیاں بناتے رہیں گے۔ لوگ زندگی بھر کی کمائی سے پلاٹ خریدتے رہیں گے۔ یہ پلاٹ اور ان پر بنائے گھر سیلابوں کی نذر ہوتے رہیں گے۔ ہر پاکستانی جانتا ہے کہ یہ طاقتور لوگ کون ہیں۔ یہ عمران خان کے عہدِ حکومت میں بھی طاقتور تھے۔ آج بھی طاقتور ہیں۔ ان کا احتساب کبھی ہوا ہے نہ آئندہ ہونے کا امکان ہے۔ درختوں کا قتلِ عام ہو رہا ہے۔ پہاڑ‘ پہاڑیاں‘ ٹیلے کاٹے جا رہے ہیں۔ جوعُ الارض (Land hunger) کی کوئی انتہا نہیں رہی۔ اکلِ حرام کا ارتکاب چند افراد کرتے ہیں‘ خمیازہ ہزاروں لاکھوں لوگ بھگتتے ہیں! نجانے یہ سلسلہ کب تک چلے گا! ہر حکومت چشم پوشی سے کام لیتی ہے۔ بااثر افراد ہر بار بچ نکلتے ہیں! ستم ظریفیوں کی کوئی حد نہیں!
مری میں جو اہم ''اجلاس‘‘ منعقد ہوا وہ سرکاری اجلاس تھا یا ایک فیملی گیٹ ٹو گیدر؟ دو بھائی! ایک کی دختر! دوسرے کی برادر زادی! پچیس کروڑ افراد کی قسمت کے فیصلے ایک کنبے کے ہاتھ میں ہیں! کون کہتا ہے کہ خاندانی حکومتوں کا کردار ختم ہو چکا ہے۔ تینوں بڑی سیاسی پارٹیوں پر آمریت غالب ہے‘ ویسے ہمارے ہاں جمہوریت ہے۔ ویسے یہ ''ویسے‘‘ کا لفظ بھی یوں سمجھیے کہ امرت دھارا ہے۔ ہر موقع پر ہمیں بچا لیتا ہے۔ سیاسی پارٹیاں مخصوص خاندانوں کی گرفت میں ہیں‘ ویسے ہمارے ہاں جمہوریت ہے۔ ''ویسے‘‘ کا استعمال قمر جمیل صاحب نے بھی خوب کیا ہے۔
اس کے قدم سے پھول کھلے ہیں میں نے سنا ہے چار طرف
ویسے اس ویران سرا میں پھول کھلانا مشکل ہے
شیشہ گروں کے گھر میں سنا ہے ایک پری کل آئی تھی
ویسے خیال و خواب ہیں پریاں‘ ان کا آنا مشکل ہے
شیشہ گروں اور پریوں کے ذکر سے جاپان کا سرکاری دورہ یاد آ گیا۔ طاقت اور اختیار ہو تو صحرا میں بھی پرستان بسایا جا سکتا ہے۔ چیف منسٹر صاحبہ کس کس کو ساتھ لے کر گئیں ؟ اخراجات حکومت نے ادا کیے یا ذاتی تھے؟ جہاز خصوصی تھا یا عام کمرشل فلائٹ تھی؟ ہوٹلوں کے کرائے سرکاری تھے یا اپنے؟ خادمائیں ساتھ کتنی گئیں؟ صاحبزادے کس کس کے تھے جو ہمرکاب تھے؟ سرکاری وفد کی سنجیدگی اس تفریحی رنگ سے کتنی متاثر ہوئی؟ جاپان کا دورہ کتنے دن کا تھا اور واپسی کتنے دنوں بعد ہوئی؟ زائد دن کہاں گزارے گئے اور کس کھاتے میں پڑے؟ خدا کے بندو! ایسے سوالات پارلیمنٹ اور اسمبلیاں پوچھتی ہیں! کابینہ میں اٹھائے جاتے ہیں! یہ جمہوری ملکوں کا خاصہ ہے۔ ہم پاکستانی تو رعایا ہیں۔ ہمارے بادشاہ تو لندن اور دبئی میں رہتے ہیں۔ رعایا کو کیا حق پہنچتا ہے کہ شہزادوں شہزادیوں سے حساب کتاب مانگیں اور محاسبہ کرنے کا سوچیں! ایسے سوالات تو وہ سیاسی پارٹیاں اٹھاتی ہیں جن کے اندر جمہوریت ہو اور ہر چند برسوں کے بعد پارٹی کی سربراہی نئے ہاتھوں میں آ جائے۔ یوں بھی جمہوریت یہ نہیں کہ آپ مخالف پارٹیوں کے لیڈروں سے سوالات پوچھیں یا ان کا حساب کتاب کریں۔ جمہوریت یہ ہے کہ آپ اپنے لیڈر سے ‘ اپنی پارٹی کے سربراہ سے سوالات پوچھیں اور اُس سے حساب مانگیں! جہاں شاہی خاندانوں کا منظورِ نظر بننے کیلئے خوشامد اور جی حضوری کی صفات لازم ہیں وہاں پاکستانی یہ پوچھنے چل پڑے ہیں کہ دورے میں پرائیویٹ افراد کتنے تھے اور کیوں تھے!! بے وقوف کہیں کے! ایسے سولات پوچھنے پر یہاں کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ فرق پڑنا بھی نہیں چاہیے۔ کیا تغلقوں‘ خلجیوں‘ لودھیوں اور مغلوں کے زمانے میں ایسے نامعقول سوالات پوچھے جاتے تھے؟ اگر لندن اور سوئٹزر لینڈ کے نجی دورے میں ماتحت افسر ساتھ جا سکتے ہیں تو جاپان کے سرکاری دورے میں پرائیویٹ افراد اور خواتین وزیروں کے صاحبزادے کیوں نہیں جا سکتے؟ علامہ اقبال کہہ گئے تھے:
تیرے امیر مال مست تیرے فقیر حال مست
بندہ ہے کوچہ گرد ابھی خواجہ بلند بام ابھی
نئی صدی کے بھی دیکھتے ہی دیکھتے پچیس سال ہوا ہو گئے۔ ہم وہیں ہیں جہاں تھے! اصل جمہوری ملکوں کے ایک ایک گاؤں کا انتظام منتخب نمائندوں کے ہاتھ میں ہے۔ ہماری جمہوریت کا برانڈ ذرا مختلف ہے۔ اس میں مقامی حکومتوں کا وجود عنقا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے اندر انتخابات ہوتے ہیں مگر ان کا نتیجہ سب کو پہلے سے معلوم ہوتا ہے۔ کبھی داماد پارٹی کا سربراہ بنتا ہے کبھی نواسہ۔ کبھی بھائی‘ کبھی بیٹی! پارلیمنٹ میں جانے کیلئے کروڑ پتی اور ارب پتی ہونا ضروری ہے۔ شکوہ یہ ہے کہ جمہوریت آزاد نہیں‘ ماتحت ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا جمہوریت‘ واقعی جمہوریت ہے؟ جمہوریت تب آزاد ہو گی اور ماتحتی کا لیبل اس کے ماتھے سے تب ہٹے گا جب جمہوریت خالص ہو گی‘ جینوین ہو گی اور خاندانی آمریت سے آزاد ہو گی!!

مقبول کالم

کراچی کے گڈریے

خضاب کے رنگ دھنک پر

فرانس سے ایک خط