کالم

محمد شاہ اور نادر شاہ (نیا ایڈیشن)

کیا نہیں تھا محمد شاہ کے پاس!
محلات تھے اور ایسی مسہریاں جو سلطنت میں شاید ہی کسی کے پاس ہوں! پالکیاں ایسی کہ پردے اُن پر زربفت کے اور نشستیں کمخواب کی! لباس اطلس کے تھے اور خالص ریشم اور پرنیاں کے! ہاتھیوں کے ہودے زرتار پارچوں کے! خدام کی فو ج نہیں‘ افواج تھیں! بس ایک کسر تھی کہ محمد شاہ جب قدم زمین پر رکھتا تو خدام ہر قدم کے نیچے ہتھیلیاں نہ رکھ سکتے! حرم قطار اندر قطار اور سب کنیزوں سے چھلکتے ہوئے! اور کنیزیں بھی کہاں کہاں کی اور کیسی کیسی! دلبر! سیم تن! ماہ رُخ! زہرہ وش! جیسے کوہ قاف کی پریاں! کوئی آرمینیا کی‘ کوئی جارجیا کی! کوئی ترکی سے! کوئی چین کی! کچھ ایرانی! کچھ قازق اور تاجک! زلفِ بنگال بھی اور جنوبی ہند سے بڑی بڑی آنکھوں والی بھی! محمد حسین آزاد لکھتے ہیں کہ مغل چار بیویاں رکھتے تھے۔ ہندوستانی بیوی افزائشِ نسل کے لیے‘ ایرانی پروٹوکول کی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے‘ افغان گھر کا کام کرنے کے لیے اور ترک ان سب کو کنٹرول کرنے کے لیے! مگر بات بیویوں کی نہیں‘ کنیزوں کی ہو رہی تھی! اور کنیزیں سینکڑوں میں تھیں۔ رہے کھانے‘ تو محمد شاہ اور اس کے اہلِ خانہ اور حواریوں کے لیے ہر وہ غذا حاضر تھی جو زمین کے اس خطے میں ممکن تھی۔ خوش خوراکی اور بسیار خوری اس طائفے پر ختم تھی۔ یہ لوگ محاورے کے ضمن میں نہیں حقیقت میں پیٹ پوجا کرتے تھے۔ گوشت ہرن‘ چکور‘ تیتر‘ بٹیر‘ کبوتر اور مرغابی کا کھاتے تھے۔ حلیم‘ شیر مال‘ نہاری اور شامی کباب ایجاد ہی ان کے لیے ہوئے تھے۔ کئی اقسام کے نان اور روٹیاں تھیں۔ آٹا دودھ اور الائچی کے عرق میں گوندھا جاتا تھا۔ چاولوں کی پوری دنیا تھی اور انوکھی۔ سفیدہ‘ قبولی‘ طاہری‘ چلاؤ‘ پلاؤ‘ زردہ‘ بریانی‘ مزعفر‘ متنجن اور بہت اقسام اور بھی! موسیقی اوڑھنا بچھونا تھی۔ جنوبی ہند کے بہترین مغنّی دربار میں ہمہ وقت موجو رہتے تھے۔ رقاصائیں ایسی ایسی کہ پاؤں کی تھرک زمین پر پڑے تو آواز آسمان سے آئے۔ سازندے سب کے سب صاحبانِ کمال کہ جن کی عمریں ساری ساری سیکھنے سکھانے میں گزر جاتیں! قدر افزائی میں کسی قسم کی کمی نہ تھی۔ فنکاروں کو سونے چاندی میں تولا جاتا تھا۔ گویّوں کے منہ موتیوں سے بھر دیے جاتے تھے۔
سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا‘ مگر شومیٔ قسمت کہ نابکار‘ کمبخت‘ نادر شاہ درانی آ دھمکا۔ تہذیب اور فنونِ لطیفہ سے بے بہرہ! حسب نسب پوچھو تو شمشیر ابنِ شمشیر ابنِ شمشیر! غذا دیکھو تو سوکھی روٹی پانی میں بھگوئی ہوئی۔ لشکری اس کے گھوڑوں کی ننگی پیٹھوں پر یوں بیٹھیں جیسے پھولوں کی سیج پر متمکن ہوں! اجڈ‘ گنوار! پالکیوں سے واقف نہ اطلس و کمخواب سے! ناشائستگی اور کھردرا پن رگ رگ میں بھرا ہوا! تین دن قتل عام کیا۔ گیا تو کوہِ نور بھی لے گیا۔ تختِ طاؤس بھی۔ صدیوں کی جمع شدہ دولت لوٹ کر لے گیا۔ یہ مال و اسباب سینکڑوں ہاتھیوں اور ہزاروں گھوڑوں اور اونٹوں پر لاد کر لے جایا گیا۔ اپنے ملک ایران کے باشندوں پر اس نے تین برس کے لیے ٹیکس معاف کر دیا۔ فوجیوں کو ایک سال کی تنخواہیں پیشگی دیں اور چھ ماہ کی تنخواہ انعام میں الگ! دلّی بیوہ ہو گئی۔ ہندوستان لٹ گیا! مارا گیا! برباد ہو گیا۔ زخم زخم ہو گیا۔ پالکیاں کام آئیں نہ گویّے‘ کنیزیں نہ خواجہ سرا!
تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ سونے کی کاریں ہیں۔ محلات جیسے ہوائی جہاز ہیں۔ خواب گاہوں والے‘ اٹیچڈ باتھ روموں والے‘ ڈرائنگ روموں والے ہوائی جہاز! ان جہازوں پر چڑھنے اترنے کے لیے سونے کی سیڑھیاں ہیں۔ ایسے ایسے قصر ہیں کہ اگلے زمانے کے بادشاہوں‘ راجوں‘ مہاراجوں‘ قیصر و کسریٰ نے خواب میں بھی نہ دیکھے ہوں گے۔ ان محلات میں کُنڈیاں‘ چٹخنیاں‘ ٹُوٹیاں‘ تالے‘ کُنجیاں سب سونے کی ہیں۔ جزیروں کے جزیرے ملکیت میں ہیں۔ تفریحی بجروں (Yachts) کے بیڑوں کے بیڑے ہیں۔ اتوار کو لندن کا سب سے بڑا سپر سٹور نہ کھلے تو دوسرے دن خرید لیا جاتا ہے۔ کرۂ ارض کی بلند ترین عمارت ان کے پاس ہے۔ دنیا بھر کے ملکوں سے خادمائیں‘ آیائیں‘ نوکرانیاں خدمت کے لیے جمع ہیں۔ دولت ہے اور اتنی کہ کمپیوٹر گننے سے عاجز ہیں۔ ملکانیاں اور بیگمات سونا گراموں کے حساب سے نہیں‘ کلو گراموں کے حساب سے خریدتی ہیں۔ شام لندن میں ہے تو دوپہر نیویارک میں اور صبح پیرس میں! دنیا کے طاقتور ترین ملکوں کے سربراہ اس دولت کو‘ اس معیارِ زندگی کو‘ اس عیش و عشرت کو‘ سونے کے ان پہاڑوں کو رشک سے اور حسرت سے اور ارمان سے دیکھتے ہیں۔
ہائے! افسوس! صد افسوس! اس عیش و عشرت کو کس کی نظر لگ گئی۔ مُوا نادر شاہ درانی یہاں بھی آدھمکا! بدتہذیب! ذرا سا ملک! اسے کیا خبر بادشاہی اور شہنشاہی کیا ہے اور امیر ابنِ امیر ابنِ امیر کی کیا قدرو منزلت ہے۔ کم بخت جمہوریت لیے پھرتا ہے۔ مکڑی کے جالے جتنا ملک! محلات ہیں نہ خدام‘ سونا ہے نہ تفریحی بجرے! خوابگاہوں والے ہوائی جہاز ہیں نہ سمندر کے سینے پر اٹھکیلیاں کرتی مچلتی یاچیں! مگر گھوڑوں اور تلواروں سے مسلح! کمپیوٹر کے علم میں ٹاپ پر! چوکس! چوکنا! سائز میں چھوٹا مگر زہر کا ٹوٹا! بد بخت‘ بد نہاد‘ مرنے جوگے نے محلات بنائے نہ سونے کی کاریں خریدیں۔ بس سائنس میں ترقی کرتا رہا۔ اس قدر کہ سینکڑوں میل دور لوگوں کی جیبوں میں پڑے موبائل فون پھاڑ دیے۔ چالاک اور مستعد اتنا کہ دشمن ملک کے اندر اپنی ڈرون فیکٹریاں قائم کر دیں۔ جاسوسوں کے جال اتنے پھیلائے کہ ہوا تک ان جالوں میں پھنس کر رہ گئی!فاعتبروا یا اولی الابصار! توبہ میرے اللہ! توبہ!
جو جانتا ہے وہ جانتا ہے‘ جو نہیں جانتا وہ جان لے‘ جو نہیں جاننا چاہتا وہ اپنا انجام سوچ لے! خدا کسی کا رشتہ دار نہیں! وہ بے نیاز ہے‘ مکمل بے نیاز! اسے کسی کی پر کاہ پروا نہیں! اس کی کوئی اولاد نہیں‘ نہ وہ کسی کی اولاد ہے‘ نہ وہ کسی کی طرفداری کرتا ہے۔ جو محنت کرتا ہے‘ اسے محنت کا پھل دیتا ہے۔ جو کوشش کرتا ہے‘ اسے کامیابی عطا کرتا ہے۔ جو اسلحہ بناتا ہے‘ اسے فتح دیتا ہے۔ جو عیش و عشرت کرتا ہے اور سونا چاندی جمع کرتا ہے‘ اسے ناکام کرتا ہے۔ اپنے بازو میں قوت نہ ہو تو تحفے میں قیمتی جہاز بھی دے دو کوئی فائدہ نہیں! اپنے اسلحہ خانے میں دن رات تلواریں اور نیزے اور ڈھالیں اور زرہیں نہ بنیں تو نوجوان لڑکیوں کے بال ہوا میں لہراؤ یا طاقتور کے قدموں کے نیچے بچھا دو‘ حاصل کچھ نہ ہو گا! سونے کی گھڑیاں‘ سونے کے زیورات‘ ہیروں کے ہار دینے سے برتری نہیں حاصل ہوتی! فتح بازار میں بکاؤ نہیں! قوتِ بازو سے حاصل کرنا پڑتی ہے۔ حفاظت ٹھیکوں پر نہیں ملتی! خود کرنا پڑتی ہے۔ زندگی ان کے قدم چومتی ہے جو موت سے ٹکر لیتے ہیں۔ چونڈہ کے میدانوں میں ٹینکوں کے نیچے لیٹنا پڑتا ہے تب فتح نصیب ہوتی ہے! سونا! سونا! سونا! کوئی بتاؤ! کوئی سمجھاؤ! سونا ہر مسئلے کا حل نہیں! کیا ہم اس سے پہلے یہاں سے نہیں گزر چکے؟ کیا کل کی بات نہیں جب ہلاکو خان نے سونے کے برتنوں میں ہیرے جواہرات رکھ کر خلیفہ کو کہا تھا کہ کھاؤ! خلیفہ ممیایا کہ کیسے کھاؤں! ہلاکو نے جو جواب دیا اسے دہرانا لاحاصل ہے۔ بچے بچے کو معلوم ہے اس نے کیا جواب دیا تھا۔ خیبر کا دروازہ زرو سیم سے نہیں‘ جَو کی روٹی کھانے سے اکھاڑا گیا تھا!
تری خاک میں ہے اگر شرر تو خیالِ فقرو غنا نہ کر
کہ جہاں میں نانِ شعیر پر ہے مدارِ قوّتِ حیدری

مقبول کالم

کراچی کے گڈریے

خضاب کے رنگ دھنک پر

فرانس سے ایک خط