قائداعظم بطور وکیل …(2)
1944ء میں سندھ کے سابق چیف منسٹر اللہ بخش سومرو قتل ہو گئے۔ اُس وقت مسلم لیگ کے سر غلام حسین ہدایت اللہ چیف منسٹر تھے۔ ان کی کابینہ کے ایک رکن کھوڑو صاحب اس قتل کے الزام میں دھر لیے گئے۔ وہ قائداعظم کے ساتھیوں میں سے تھے۔ انہوں نے قائداعظم کی خدمت میں اپیل کی۔ تار بھی دیے کہ ان کا مقدمہ لڑیں۔ قائداعظم کا جواب تھا ''میں وکالت چھوڑ چکا ہوں۔ عوامی مصروفیات‘ آل انڈیا مسلم لیگ کی مصروفیات اور کام کے دباؤ کے باعث ایسی پیشہ ورانہ ذمہ داری قبول کرنا ممکن نہیں۔ لیکن مجھے امید واثق ہے کہ آپ باعزت بری ہوں گے‘‘۔ یہ ایک جیتا ہوا کیس تھا پھر بھی قائداعظم نے نہیں لیا اس لیے کہ فیس ان کے لیے اہم نہیں تھی۔ جیسا کہ ان کی ماہرانہ پیش گوئی تھی‘ کھوڑو صاحب باعزت بری ہو گئے۔ قائداعظم اور مادرِ ملت نے انہیں مبارکباد کے تار بھیجے۔ نواب سعید راشد حکیم اجمل خان کے نواسے تھے۔ انہوں نے منیر احمد منیر صاحب کو بتایا کہ ان کی جائداد کا کوئی معاملہ تھا۔ وہ کیس کی فائل لے کر قائداعظم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ قائداعظم نے فائل کا مطالعہ کیا اور مشورہ دیا کہ اس کیس میں جان نہیں ہے۔ نواب صاحب نے (اُس زمانے کے) چھ ہزار روپے پیش کیے۔ قائداعظم نے پوچھا کس لیے؟ انہوں نے جواب دیا: آپ نے اپنا وقت خرچ کر کے فائل کامطالعہ کیا ہے۔ قائداعظم نے رقم لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ جس کیس میں جان نہ ہو وہ اس کی فیس نہیں لیتے۔
اب کٹر ہندو لیڈر پنڈت مدن موہن مالویہ کا ذکر بھی سن لیجئے۔ وہ بنارس کی ہندو یونیورسٹی کا بانی تھا اور شدھی تحریک کا سرگرم رکن! ہم سب جانتے ہیں کہ شدھی تحریک کا مقصد مسلمانوں کو ہندو بنانا تھا۔ ایک تقریر کے دوران اس نے مسٹر جناح کا ذکر کیا تو ہندو ہجوم نے شیم شیم کے نعرے لگائے۔ اس نے ہجوم کو ٹوکا اور کہا: تم کس شخص کے خلاف نعرے لگا رہے ہو! تمہیں اس کی عظمت کا اندازہ بھی ہے؟ یہ وہ شخص ہے جس نے رولیٹ (Rowlatt) ایکٹ کے خلاف کام کرنے کے لیے تین لاکھ روپے فیس والا مقدمہ چھوڑ دیا جو کسی ریاست کا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ رولیٹ ایکٹ کی منسوخی کے لیے انہیں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ پھر جب برطانوی سامراج نے رولیٹ ایکٹ منظور کر لیا تو قائداعظم نے قانون ساز اسمبلی سے یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا کہ باضابطہ قانونی کارروائی کے بغیر کسی شخص کو ایک منٹ کے لیے بھی آزادی سے محروم نہیں کرنا چاہیے۔
یہ تھا قائداعظم کا رویہ بطور وکیل! گورنر جنرل بننے کے بعد مالی معاملات میں ان کی حد درجہ دیانت اور احتیاط سے پوری دنیا بخوبی آگاہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آج ہم عوام‘ اور ہمارے حکمران ایسی ہی دیانت رکھتے ہیں؟ اب تو ہمارے سربراہان یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ وعدہ کو ئی قرآن و حدیث نہیں۔ جتنے ''دیانتدار‘‘ حکمران ہیں اتنے ہی عوام بھی ہیں۔ آج پوری دنیا میں ہم پاکستانی دروغ گوئی اور عہد شکنی کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ہماری زندگیوں میں وقت کی پابندی کا تصور تک عنقا ہے۔ تجارت ملک کے اندر ہو یا بین الاقوامی ہو‘ ہم قابلِ اعتبار نہیں! آج ہم بالائی طبقے سے لے کر نیچے تک ان تمام خصوصیات سے محر وم ہیں جن کے لیے قائداعظم مشہور تھے۔ آپ غور کیجیے۔ کتنی دہائیاں گزر چکی ہیں۔ اس سارے عرصے میں قائداعظم کے بدترین دشمن بھی ان کا کوئی جھوٹ‘ کوئی بدعہدی‘ کوئی خیانت‘ کوئی لالچ تلاش نہیں کر سکے۔ افسوس! ہم آج قائد کا نام تو لیتے ہیں مگر ہمارا رویہ بالکل مختلف ہے۔ کون سی معاشرتی اور اخلاقی برائی ہے جو ہم میں موجود نہیں۔ ہم اپنے بچوں کو ایک منظم طریقے سے جھوٹ سکھاتے ہیں۔ ہم انہیں کہتے ہیں کہ باہر جو کوئی بھی آیا ہے‘ اسے کہو کہ ابا یا اماں گھر پر نہیں ہے۔ ہم کم تولتے ہیں۔ ہم عہد شکن ہیں۔ ہمارا وزیر ہے یا امیر‘ بڑھئی ہے یا صوفہ ساز‘ مزدور ہے یا معمار‘ وکیل ہے یا ڈاکٹر‘ استاد ہے یا شاگرد‘ تاجر ہے یا رئیس‘ سب نہ صرف وعدہ خلافی کا ارتکاب کرتے ہیں بلکہ اسے برا بھی نہیں سمجھتے! وہ قوم کیسے ترقی کر سکتی ہے جو وقت کی پابند نہ ہو۔ ہماری تقاریب ہوں یا جلسے‘ شادی بیاہ ہو یا جنازے‘ سب تاخیر سے انجام پاتے ہیں‘ ہم وہ لوگ ہیں جو گھنٹوں تاخیر سے آئیں تو معذرت تک نہیں کرتے اس لیے کہ ہم اسے برائی سمجھتے ہی نہیں۔ شاید پورے ملک میں کوئی سرکاری یا نجی ادارہ ایسا نہ ہو گا جہاں لوگ وقت پر آتے ہوں۔ ہمارے ڈاکٹر تاخیر کا ارتکاب کرکے مریضوں کی جان لے لیتے ہیں۔ میرے ایک دوست اپنی کسی علالت کا علاج سنگاپور کے ایک ڈاکٹر سے کراتے رہے۔ وہ ڈاکٹر انہیں پورے سال کے حساب سے مطلع کرتا تھا کہ کس دن چھٹی پر ہو گا۔ آپ اپنے ملک کے ڈاکٹر وں کا اخلاق دیکھیے۔ سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ میرے ایک دوست نے‘ جو پروفیسر ہیں اور ماہرِ تعلیم‘ ایک آپریشن کرانا تھا۔ انہوں نے پہلے تحقیق کی کہ اس آپریشن کیلئے کون سا ڈاکٹر پیشہ ورانہ اعتبار سے شہر میں بہترین شہرت کا مالک ہے۔ پھر اس کے پاس گئے۔ آپریشن کا دن اور وقت طے ہو گیا۔ پروفیسر صاحب مقررہ وقت پر ہسپتال پہنچ گئے۔ انہیں آپریشن تھیٹر میں لٹا دیا گیا اور بتایا گیا کہ سرجن صاحب آرہے ہیں۔ آپریشن تھیٹر میں پروفیسر صاحب کئی گھنٹے‘ بلکہ کئی پہر انتظار کرتے رہے‘ سرجن نہیں آیا۔ پھر ایک اور سرجن آیا۔ اس نے بتایا کہ آپ کے پسندیدہ سرجن تو آہی نہیں رہے‘ میں آپ کا آپریشن کر دیتا ہوں۔ پروفیسر صاحب نے کہا کہ میں خوب چھان بین کر کے اس سرجن کے پاس گیا تھا‘ آپ سے آپریشن نہیں کراؤں گا۔ کئی گھنٹے گزر چکے تھے۔ وہ اٹھ کر جانے لگے تھے کہ سرجن صاحب تشریف لائے۔ پروفیسر صاحب نے شکوہ کیا تو سرجن نے بس اتنا کہا کہ ایک کام پڑ گیا تھا! ہم سب کا‘ کم و بیش یہی رویہ ہے۔ یہاں فون پر اطلاع دینے کا تصور ہی نہیں کہ میں تاخیر سے آؤں گا۔ سرکاری اور نجی دفتروں میں جائیے۔ معلوم ہو گا کہ کھانے کا یا نماز کا وقفہ ہے‘ مگر کوئی نہیں جانتا کہ یہ وقفہ ختم کس وقت ہو گا؟ ہمارے رویے کتنے سنجیدہ ہیں‘ اس کی بدترین مثال شادی بیاہ کی تقاریب ہیں۔ بہترین ملبوسات پہنے‘ بڑے بڑے لوگ‘ دو چپاتیوں اور ایک پلیٹ بریانی کے لیے پہروں انتظار کرتے ہیں! ہوّنقوں کی طرح منہ کھول کر گھنٹوں بیٹھتے ہیں۔ پھر جب کھانا کھلتا ہے تو گویا کھانا نہیں‘ یہ شرفا کھلتے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ کئی ہفتوں کے بھوکے تھے اور شاید یہ ان کی زندگی کا آخری کھانا ہے۔
جس ملک کے بانی وعدہ پورا کرنے کے لیے لاکھوں روپے چھوڑ دیتے تھے‘ اس ملک میں آج ہر ایک کی زندگی کا ایک ہی مقصد ہے۔ پیسہ کمانا! جس طرح بھی ممکن ہے‘ صرف پیسہ کمانا! اس مقصد کے لیے جھوٹ بھی جائز ہے۔ ملاوٹ بھی جائز ہے۔ ماپ تول میں خیانت بھی جائز ہے۔ اساتذہ جو طلبہ اور طالبات کے آئیڈیل ہوتے ہیں‘ وقت پر کلاس روم میں نہیں آتے۔ یونیورسٹیوں میں کرپشن اس قدر عام ہے جیسے سکہ رائج الوقت ہے۔
آج کے نوجوان کو معلوم بھی تو نہیں کہ قائداعظم کس قدر اصول پسند تھے۔ اسے بتایا جا رہا ہے نہ پڑھایا جا رہا ہے کہ ان کی زندگی کس طرح گزری۔ نصاب کی کتابوں میں ان کی زندگی پر ایک مختصر سے رسمی مضمون کے علاوہ کچھ بھی نہیں! تقسیمِ ہند کے مخالف اور پاکستان کے دشمن آج بھی خورد بین لگا کر ڈھونڈ رہے ہیں لیکن قائداعظم کے خلاف کچھ نہیں ملا! قائداعظم کے اسلوبِ زندگی کو عام کرنے کی ضرورت پہلے بھی تھی اور آج بھی ہے۔
اب کٹر ہندو لیڈر پنڈت مدن موہن مالویہ کا ذکر بھی سن لیجئے۔ وہ بنارس کی ہندو یونیورسٹی کا بانی تھا اور شدھی تحریک کا سرگرم رکن! ہم سب جانتے ہیں کہ شدھی تحریک کا مقصد مسلمانوں کو ہندو بنانا تھا۔ ایک تقریر کے دوران اس نے مسٹر جناح کا ذکر کیا تو ہندو ہجوم نے شیم شیم کے نعرے لگائے۔ اس نے ہجوم کو ٹوکا اور کہا: تم کس شخص کے خلاف نعرے لگا رہے ہو! تمہیں اس کی عظمت کا اندازہ بھی ہے؟ یہ وہ شخص ہے جس نے رولیٹ (Rowlatt) ایکٹ کے خلاف کام کرنے کے لیے تین لاکھ روپے فیس والا مقدمہ چھوڑ دیا جو کسی ریاست کا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ رولیٹ ایکٹ کی منسوخی کے لیے انہیں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ پھر جب برطانوی سامراج نے رولیٹ ایکٹ منظور کر لیا تو قائداعظم نے قانون ساز اسمبلی سے یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا کہ باضابطہ قانونی کارروائی کے بغیر کسی شخص کو ایک منٹ کے لیے بھی آزادی سے محروم نہیں کرنا چاہیے۔
یہ تھا قائداعظم کا رویہ بطور وکیل! گورنر جنرل بننے کے بعد مالی معاملات میں ان کی حد درجہ دیانت اور احتیاط سے پوری دنیا بخوبی آگاہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آج ہم عوام‘ اور ہمارے حکمران ایسی ہی دیانت رکھتے ہیں؟ اب تو ہمارے سربراہان یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ وعدہ کو ئی قرآن و حدیث نہیں۔ جتنے ''دیانتدار‘‘ حکمران ہیں اتنے ہی عوام بھی ہیں۔ آج پوری دنیا میں ہم پاکستانی دروغ گوئی اور عہد شکنی کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ہماری زندگیوں میں وقت کی پابندی کا تصور تک عنقا ہے۔ تجارت ملک کے اندر ہو یا بین الاقوامی ہو‘ ہم قابلِ اعتبار نہیں! آج ہم بالائی طبقے سے لے کر نیچے تک ان تمام خصوصیات سے محر وم ہیں جن کے لیے قائداعظم مشہور تھے۔ آپ غور کیجیے۔ کتنی دہائیاں گزر چکی ہیں۔ اس سارے عرصے میں قائداعظم کے بدترین دشمن بھی ان کا کوئی جھوٹ‘ کوئی بدعہدی‘ کوئی خیانت‘ کوئی لالچ تلاش نہیں کر سکے۔ افسوس! ہم آج قائد کا نام تو لیتے ہیں مگر ہمارا رویہ بالکل مختلف ہے۔ کون سی معاشرتی اور اخلاقی برائی ہے جو ہم میں موجود نہیں۔ ہم اپنے بچوں کو ایک منظم طریقے سے جھوٹ سکھاتے ہیں۔ ہم انہیں کہتے ہیں کہ باہر جو کوئی بھی آیا ہے‘ اسے کہو کہ ابا یا اماں گھر پر نہیں ہے۔ ہم کم تولتے ہیں۔ ہم عہد شکن ہیں۔ ہمارا وزیر ہے یا امیر‘ بڑھئی ہے یا صوفہ ساز‘ مزدور ہے یا معمار‘ وکیل ہے یا ڈاکٹر‘ استاد ہے یا شاگرد‘ تاجر ہے یا رئیس‘ سب نہ صرف وعدہ خلافی کا ارتکاب کرتے ہیں بلکہ اسے برا بھی نہیں سمجھتے! وہ قوم کیسے ترقی کر سکتی ہے جو وقت کی پابند نہ ہو۔ ہماری تقاریب ہوں یا جلسے‘ شادی بیاہ ہو یا جنازے‘ سب تاخیر سے انجام پاتے ہیں‘ ہم وہ لوگ ہیں جو گھنٹوں تاخیر سے آئیں تو معذرت تک نہیں کرتے اس لیے کہ ہم اسے برائی سمجھتے ہی نہیں۔ شاید پورے ملک میں کوئی سرکاری یا نجی ادارہ ایسا نہ ہو گا جہاں لوگ وقت پر آتے ہوں۔ ہمارے ڈاکٹر تاخیر کا ارتکاب کرکے مریضوں کی جان لے لیتے ہیں۔ میرے ایک دوست اپنی کسی علالت کا علاج سنگاپور کے ایک ڈاکٹر سے کراتے رہے۔ وہ ڈاکٹر انہیں پورے سال کے حساب سے مطلع کرتا تھا کہ کس دن چھٹی پر ہو گا۔ آپ اپنے ملک کے ڈاکٹر وں کا اخلاق دیکھیے۔ سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ میرے ایک دوست نے‘ جو پروفیسر ہیں اور ماہرِ تعلیم‘ ایک آپریشن کرانا تھا۔ انہوں نے پہلے تحقیق کی کہ اس آپریشن کیلئے کون سا ڈاکٹر پیشہ ورانہ اعتبار سے شہر میں بہترین شہرت کا مالک ہے۔ پھر اس کے پاس گئے۔ آپریشن کا دن اور وقت طے ہو گیا۔ پروفیسر صاحب مقررہ وقت پر ہسپتال پہنچ گئے۔ انہیں آپریشن تھیٹر میں لٹا دیا گیا اور بتایا گیا کہ سرجن صاحب آرہے ہیں۔ آپریشن تھیٹر میں پروفیسر صاحب کئی گھنٹے‘ بلکہ کئی پہر انتظار کرتے رہے‘ سرجن نہیں آیا۔ پھر ایک اور سرجن آیا۔ اس نے بتایا کہ آپ کے پسندیدہ سرجن تو آہی نہیں رہے‘ میں آپ کا آپریشن کر دیتا ہوں۔ پروفیسر صاحب نے کہا کہ میں خوب چھان بین کر کے اس سرجن کے پاس گیا تھا‘ آپ سے آپریشن نہیں کراؤں گا۔ کئی گھنٹے گزر چکے تھے۔ وہ اٹھ کر جانے لگے تھے کہ سرجن صاحب تشریف لائے۔ پروفیسر صاحب نے شکوہ کیا تو سرجن نے بس اتنا کہا کہ ایک کام پڑ گیا تھا! ہم سب کا‘ کم و بیش یہی رویہ ہے۔ یہاں فون پر اطلاع دینے کا تصور ہی نہیں کہ میں تاخیر سے آؤں گا۔ سرکاری اور نجی دفتروں میں جائیے۔ معلوم ہو گا کہ کھانے کا یا نماز کا وقفہ ہے‘ مگر کوئی نہیں جانتا کہ یہ وقفہ ختم کس وقت ہو گا؟ ہمارے رویے کتنے سنجیدہ ہیں‘ اس کی بدترین مثال شادی بیاہ کی تقاریب ہیں۔ بہترین ملبوسات پہنے‘ بڑے بڑے لوگ‘ دو چپاتیوں اور ایک پلیٹ بریانی کے لیے پہروں انتظار کرتے ہیں! ہوّنقوں کی طرح منہ کھول کر گھنٹوں بیٹھتے ہیں۔ پھر جب کھانا کھلتا ہے تو گویا کھانا نہیں‘ یہ شرفا کھلتے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ کئی ہفتوں کے بھوکے تھے اور شاید یہ ان کی زندگی کا آخری کھانا ہے۔
جس ملک کے بانی وعدہ پورا کرنے کے لیے لاکھوں روپے چھوڑ دیتے تھے‘ اس ملک میں آج ہر ایک کی زندگی کا ایک ہی مقصد ہے۔ پیسہ کمانا! جس طرح بھی ممکن ہے‘ صرف پیسہ کمانا! اس مقصد کے لیے جھوٹ بھی جائز ہے۔ ملاوٹ بھی جائز ہے۔ ماپ تول میں خیانت بھی جائز ہے۔ اساتذہ جو طلبہ اور طالبات کے آئیڈیل ہوتے ہیں‘ وقت پر کلاس روم میں نہیں آتے۔ یونیورسٹیوں میں کرپشن اس قدر عام ہے جیسے سکہ رائج الوقت ہے۔
آج کے نوجوان کو معلوم بھی تو نہیں کہ قائداعظم کس قدر اصول پسند تھے۔ اسے بتایا جا رہا ہے نہ پڑھایا جا رہا ہے کہ ان کی زندگی کس طرح گزری۔ نصاب کی کتابوں میں ان کی زندگی پر ایک مختصر سے رسمی مضمون کے علاوہ کچھ بھی نہیں! تقسیمِ ہند کے مخالف اور پاکستان کے دشمن آج بھی خورد بین لگا کر ڈھونڈ رہے ہیں لیکن قائداعظم کے خلاف کچھ نہیں ملا! قائداعظم کے اسلوبِ زندگی کو عام کرنے کی ضرورت پہلے بھی تھی اور آج بھی ہے۔