دو حوصلہ افزا فیصلے
یہ ایک درسگاہ تھی۔ بہت بلند اور اعلیٰ درجے کی درسگاہ! اتنی اعلیٰ کہ اس میں تعلیم حاصل کرنے والے یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہو کر آئے تھے۔ شرکا کی تعداد چالیس کے لگ بھگ تھی۔ ان میں خاتون صرف ایک تھی۔ خاتون کی غیر حاضری میں اس کے بارے میں جو گفتگو ہوتی تھی ناقابلِ بیان تھی اور ناقابلِ تصور! یہ گفتگو اسی سطح کی تھی جس سطح کی گفتگو ٹانگے والے یا نوجوان ریڑھی بان کرتے ہوں گے!
خواتین کے حوالے سے ہراسانی کی متعدد اقسام ہیں۔ اتنی کہ شمار سے باہر! روزگار کی جگہ پر' گھروں میں' سفر کے دوران' گلی کوچوں میں' درسگاہوں میں' بازاروں میں' سیرگاہوں' پارکوں اور میلوں ٹھیلوں میں! کھیتوں کھلیانوں میں! گھروں میں ہراسانی کی آگے کئی قسمیں ہیں! گھروں میں کام کرنے والی خواتین کو گھروں کے مرد ہراساں کرتے ہیں۔ جوائنٹ فیملیوں میں اور طرح کی ہراسانی ہے۔ بازاروں میں دکاندار بھی ہراساں کرتے ہیں اور آوارہ گردی کرنے والے مرد بھی۔ جنوبی ایشیا میں گُھورنے کا مرض اس کے علاوہ ہے۔
میں ایک بار سنگاپور سے اسلام آباد آ رہا تھا۔ سنگاپور ایئر لائن کے جہاز کو دہلی میں رکنا تھا۔ میرے دائیں طرف والی نشستوں پر تین چار بھارتی براجمان تھے۔ آگے کی نشست پر ایک خاتون بیٹھی تھی۔ ایک بھارتی نے پورے سفر میں اس سے نظریں شاید ہی ہٹائی ہوں' یہاں تک کہ دہلی آگئی اور وہ بدبخت اتر گیا۔ کل پرسوں ایک لطیفہ نظر سے گزرا۔ ٹرین میں ایک صاحب کے سامنے والی نشست پر ایک خاتون بیٹھی تھی۔ موصوف اس پر پوری ''توجہ'' دے رہے تھے۔ مسکرا بھی رہے تھے۔ پھر زبردستی باتیں بھی شروع کر دیں۔ تھوڑی دیر بعد خاتون نے مسکرا کر کہا کہ ملاقات ضروری ہے۔ اس پر ان صاحب کا دل بلّیوں اچھلنے لگا۔ بے تاب ہو کر پوچھا: کہاں؟ خاتون نے جواب دیا ''میرے کلینک میں! میں دانتوں کی ڈاکٹر ہوں! آپ کے دانت بہت خراب ہیں۔ سامنے والے اوپر کے دانت میں کیڑا لگا ہے' صفائی بھی ہونے والی ہے کیونکہ میل کی تہیں جمی ہوئی ہیں! ایک ملاقات کافی نہیں ہو گی! آپ کو کئی بار آنا ہوگا!''۔
میں ملازمت کے دوران جس زمانے میں اسلام آباد کے معروف سیکٹر آئی ایٹ میں قیام پذیر تھا' شام کو باقاعدگی کے ساتھ پارک میں ایک گھنٹہ سیر کرتا تھا۔ سیر کے دوران کئی دوست احباب اور رفقائے کار سے بھی سلام کلام ہو جاتا تھا۔ (اب اس پارک کا کچھ حصہ نئی شاہراہ نے کھا لیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کچنار پارک بھی ہے) خواتین بھی کثیر تعداد میں سیر کرتی تھیں۔ میں نے نوٹ کیا کہ ایک مجہول سا شخص پارک کے کنارے' ٹریک کے بالکل ساتھ' کسی نہ کسی جگہ کھڑا رہتا تھا اور خواتین کو گھورتا صاف نظر آتا تھا۔ وہ پارک میں سیر نہیں کرتا تھا' بس کبھی کسی کونے میں تو کبھی کسی اور جگہ کھڑا رہتا۔ ایک شام' جب جھٹپٹا چھا رہا تھا' سیر کے دوران میرے آگے' چند فٹ کے فاصلے پر دو خواتین سیر کر رہی تھیں۔ جب وہ اس مجہول شخص کے قریب سے گزریں تو اس نے آوازہ کسا اور اتنی ماہرانہ ماپ تول کے ساتھ کہ بس وہ خواتین ہی سن سکیں! میں نے اس لیے سن لیا کہ ان کے بالکل پیچھے تھا۔ مشکوک تو وہ پہلے سے ہی تھا' میں فوراً گاڑی میں بیٹھا' گھر سے ایک چھڑی لے کر واپس آیا۔ خوش قسمتی سے' اور اس کی بدقسمتی سے' وہ ابھی تک وہیں کھڑا تھا اور اب اپنے موٹر سائیکل پر ہاتھ رکھے تھا۔ اس سے پوچھا کہ تم ہر روز یہاں کیوں کھڑے رہتے ہو۔ معلوم نہیں اس نے کیا آئیں بائیں شائیں کی۔ بہرطور میں نے ابتدا تھپڑ سے کی اور پھر چھڑی سے پیٹنا شروع کیا۔ ایسے افراد ہمیشہ بزدل ہوتے ہیں۔ پھر میں ''مسلح'' بھی تھا۔ اندھیرے کا یہ فائدہ ہوا کہ لوگ جمع نہیں ہوئے ورنہ ہر طرف سے ایک ہی آواز آتی کہ ''چھوڑو جی! مٹی پاؤ''۔ خدا کا شکر ہے میں گاؤں میں پلا بڑھا ہوں اور محض شہری بابو نہیں ہوں۔ اس پر مستزاد یہ کہ ایسے مواقع پر اعوان ہونے کا فائدہ (یا نقصان؟) بھی ہوتا ہے۔ اس کے موٹر سائیکل کا نمبر نوٹ کیا۔ گھر کا پتا بھی لے لیا۔ اُن دنوں میں راولپنڈی میں ملٹری اکاؤنٹنٹ جنرل کے طور پر تعینات تھا۔ اس دفتر کے ساتھ ایک فوجی پلاٹون بھی اٹیچ ہوتی ہے۔ دوسرے دن دو فوجی جوانوں کو مجہول شخص کے گھر بھیجا کہ اسے لے کر آئیں۔ انہوں نے آکر بتایا کہ ایڈریس جعلی ہے۔ اس نمبر کا کوئی مکان موجود ہی نہیں۔ بہت غصہ آیا۔ کینٹ کے ایس پی صاحب پنڈی کچہری کے احاطے میں بیٹھتے ہیں۔ انہیں فون کیا اور درخواست کی کہ اس نمبر کے موٹر سائیکل والے کو تلاش کرنے کا حکم دیں۔ ایک ہفتے کے بعد ان کا فون آیا کہ بندہ آ گیا ہے' کیا آپ کے دفتر بھیجوں؟ میں نے کہا: نہیں! میں ایس پی کے دفتر پہنچا تو یہ شخص وہاں حاضر تھا۔ ساتھ اس کا باپ اور بڑا بھائی بھی تھا۔ انہیں اس کا کرتوت بتایا تو ایک تو انہوں نے اس کے آوارہ ہونے کی تصدیق کی' دوسرا معافی مانگی۔ انہیں تنبیہ کی کہ یہ اب ہمارے پارک میں نظر نہ آئے کیونکہ پورے سیکٹر کی خواتین وہاں سیر کرتی ہیں۔ اس کے بعد وہ وہاں تو نظر نہ آیا مگر یہ بیماری ختم نہیں ہوتی۔ کسی اور ''شکار گاہ'' کا رخ کر لیا ہو گا!
آج یہ موضوع کیوں چھیڑا ہے؟ اور اس سے وابستہ واقعات کیوں یاد آ رہے ہیں؟ اس لیے کہ حال ہی میں دو خوشگوار واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں خواتین کو ہراساں کرنے پر سخت سزائیں دی گئی ہیں! پہلا معاملہ سٹیٹ لائف انشورنس کا ہے۔ ایک خاتون ملازم کو ایک افسر پریشان کر رہا تھا' ناشائستہ اور غیر مناسب پیغامات بھیجتا تھا۔ تنگ آمد بجنگ آمد۔ خاتون نے بہادری دکھائی اور وفاقی محتسب ''برائے انسدادِ ہراسمنٹ'' کے پاس مقدمہ دائر کر دیا۔ یہ نہیں معلوم' مقدمہ کتنی دیر چلا مگر فیصلہ حوصلہ افزا برآمد ہوا۔ وفاقی محتسب برائے خواتین نے فیصلہ سنایا کہ الزام ثابت ہو گیا ہے اور یہ کہ مجرم کو ملازمت سے برطرف کیا جائے۔ اس کے علاوہ' خاتون کو جو ذہنی اذیت اٹھانا پڑی' اس کی تلافی کے طور پر مجرم اس خاتون کو تین لاکھ روپے بطور جرمانہ ادا کرے۔ وفاقی محتسب کے فیصلے کے خلاف اپیل صدرِ پاکستان کو کی جاتی ہے۔ مجرم نے اپیل کی۔ صدرِ مملکت نے قانون کے مطابق اسے ذاتی طور پر وضاحت کا بھی موقع دیا۔ مجرم کی سابقہ بے داغ ملازمت کی بنا پر صدر نے بر طرفی کو جبری ریٹائرمنٹ میں بدل دیا مگر ساتھ ہی جرمانے کی رقم تین لاکھ سے بڑھا کر دس لاکھ کر دی۔ دوسری خبر کراچی کی کے الیکٹرک کمپنی کی ہے۔ روزنامہ دنیا کے مطابق' اس کمپنی کا چیف ایگزیکٹو آفیسر ایک خاتون کو ہراساں کر رہا تھا۔ خاتون نے صوبائی محتسب کی عدالت میں شکایت کر دی کہ سی ای او کی جانب سے بارہا نازیبا اور غیر اخلاقی جملے سننے پڑے۔ تنہائی میں ملاقات کی دعوتیں بھی دی گئیں۔ خاتون نے ایچ آر ڈپارٹمنٹ اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کو شکایت کی تو اسے نہ صرف خاموش رہنے کا مشورہ دیا گیا بلکہ ملزم کے ساتھ روزانہ ملاقات کی تلقین کی گئی۔ صوبائی محتسب نے شواہد پر غور کرنے کے بعد فیصلہ صادر کیا کہ سی ای او کو اس کے منصب سے ہٹایا جائے اور یہ کہ مجرم' شکایت کنندہ کو پچیس لاکھ جرمانہ ادا کرے۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ الزامات کارپوریٹ سیکٹر کے سیاہ پہلو کو ظاہر کرتے ہیں۔ تیس دن کے اندر جرمانہ ادا نہ کیا گیا تو ملزم کی جائداد اور بینک اکاؤنٹ ضبط کر لیا جائے گا اور شناختی کارڈ اور پاسپورٹ منسوخ کرنے کے علاوہ توہین عدالت کی کارروائی بھی شروع کی جائے گی۔
یہ دونوں فیصلے حوصلہ افزا ہیں۔ ان فیصلوں کی الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر بہت زیادہ تشہیر ہونی چاہیے تا کہ شیطان صفت مرد عبرت پکڑیں!