وقت آگیا ہے کہ جرگہ سسٹم…………………
دشمنوں کی بدخواہی کے باوجود پاکستان ترقی کر رہا ہے۔ ہر سال‘ ہر مہینے‘ ہر ہفتے‘ ہر روز ہم آگے بڑھ رہے ہیں! یہاں میں وہ شعر ضرور پڑھوں گا جو بسوں میں دوائیں بیچنے والے ''بزنس مین‘‘ پڑھتے ہیں:
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
اس میں کوئی شک نہیں کہ جرگہ اور پنچایت سسٹم دنیا کا بہترین سسٹم ہے۔ میں جب یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ جرگہ اور پنچایت سسٹم دنیا کا بہترین سسٹم ہے تو میرے پاس اس دعوے کا ثبوت موجود ہے۔ سالہا سال سے ملک کے اطراف و اکناف میں جرگہ سسٹم فعال ہے۔ پنچایتیں فیصلے صادر کر رہی ہیں۔ سزائے موت دی جا رہی ہے۔ دس دس سال کی بچیوں کے ''نکاح‘‘ ساٹھ ساٹھ‘ ستر ستر سال کے بڈھوں کے ساتھ کیے جا رہے ہیں۔ کبھی جرگہ فیصلہ کرتا ہے کہ ''مجرم‘‘ کا چہرا کالا کر کے گدھے پر بٹھا کر پورے گاؤں میں پھرایا جائے۔ کبھی پنچایت فیصلہ صادر کرتی ہے کہ عورت کو برہنہ کرکے گلیوں میں گھمایا جائے۔ اسلام آباد میں تشریف فرما پارلیمنٹ اور صوبوں کی اسمبلیاں یہ سب کچھ سنتی ہیں۔ خبریں پڑھتی ہیں۔ ٹیلی ویژن پر دیکھتی ہیں مگر جرگہ سسٹم اور پنچایت سسٹم کے خلاف آواز نہیں اٹھاتیں۔ اس کے خاتمے کیلئے کوئی قانون سازی نہیں کرتیں۔ جرگہ سسٹم اور پنچایت سسٹم کے حوالے سے کبھی کوئی تقریر تک کسی اسمبلی میں نہیں ہوئی۔ حالانکہ ہماری منتخب اسمبلیوں میں بڑے بڑے دانشور‘ پروفیسر‘ علما اور تجربہ کار اہلِ سیاست بیٹھے ہیں۔ کابینہ کی طرف آ جائیے۔ وفاقی کابینہ ہے۔ ہر صوبے کی اپنی کابینہ ہے۔ کبھی کسی کابینہ نے‘ کسی وزیر نے‘ جرگہ سسٹم اور پنچایت سسٹم کے خلاف ایک لفظ نہیں بولا۔ حالانکہ ہر کابینہ میں اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات اہم قلمدان سنبھالے بیٹھے ہیں۔ عدلیہ نے کبھی ازخود نوٹس نہیں لیا۔ حالانکہ جرگہ اور پنچایت سسٹم ایک متوازی عدالتی نظام ہے جو ملک کی عدلیہ کے خلاف بغاوت کے برابر ہے۔ ملک میں ایک سے ایک بڑھ کر خدائی خدمت گار ہے۔ یہ سب عدالتوں میں جا کر ان معاملات کے حوالے سے مقدمے دائر کرتے ہیں جو معاملات براہِ راست انہیں متاثر ہی نہیں کرتے مگر جرگہ اور پنچایت سسٹم کے خلاف کبھی کوئی مقدمہ دائر نہیں ہوا۔ تو جناب!! اگر پارلیمنٹ‘ کابینہ‘ عدلیہ‘ سب اس سسٹم کو زبانی نہ سہی‘ عملاً قبول کر رہے ہیں تو پھر نتیجہ تو یہی نکلتا ہے نا کہ جرگہ اور پنچایت سسٹم نہ صرف قابلِ قبول ہیں بلکہ بہترین سسٹم ہیں۔ خیر سے اس سسٹم میں فوری ''انصاف‘‘ ملتاہے۔ مجرم کیفر کردار کو پہنچتے ہیں۔ حقداروں کو ان کا حق ملتا ہے۔
یہ سسٹم پہلے ہمارے ملک کے صرف دور دراز علاقوں میں رائج تھا۔ اب ایک ایسا واقعہ پیش آیا ہے جس نے اس سسٹم کو‘ ملک کے درمیان میں لا کھڑا کیا ہے۔ جرگہ سسٹم‘ بلوچستان سے ہوتا‘ اندرون سندھ پڑاؤ ڈالتا‘ کے پی اور پنجاب کے دور افتادہ قریوں میں اپنی برکتیں لٹاتا‘ جڑواں شہروں‘ یعنی وفاقی دارالحکومت کے عین بیچ میں پہنچ گیا ہے۔ جرگے کے حکم سے راولپنڈی میں سدرہ بی بی کو سزائے موت سنائی گئی اور پھر یہ سزا عملاً دے کر سدرہ بی بی کو موت کے گھاٹ اتارا بھی گیا۔ اس واقعہ کو ایک نعمت غیر مترقبہ سمجھنا چاہیے۔ دنیا کا یہ بہترین نظامِ انصاف خود چل کر ہمارے دارالحکومت میں پہنچ گیا ہے۔ اگر یہ سسٹم بلوچستان میں قابلِ قبول ہے‘ اندرون سندھ جاری و ساری ہے‘ ملک کے باقی علاقوں میں رائج ہے اور کسی کو اعتراض نہیں تو آخر وفاق میں یہ سسٹم کیوں نہ رائج کیا جائے۔ اور ہاں! یہ کتنی بے انصافی ہے کہ جرگہ اور پنچایت سسٹم پر کوئی پابندی نہیں‘ یہ ملک میں کھلم کھلا‘ ڈنکے کی چوٹ پر رائج ہے‘ مگر جرگے اور پنچایت میں فیصلہ کرنے والوں کو سزا دی جاتی ہے۔ منطق پوچھتی ہے اور انصاف تقاضا کرتا ہے کہ اگر جرگے پر پابندی نہیں تو جرگے میں شامل ہونے والوں‘ فیصلہ کرنے اورفیصلہ سنانے والوں کو سزا دینے کا کیا جواز ہے؟ منطق یہ بھی کہتی ہے کہ اگر جرگہ سسٹم اندرون بلوچستان‘ اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب میں روا ہے تو پھر لاہور‘ کراچی‘ اسلام آباد میں بھی جائز ہونا چاہیے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک سسٹم ملک کے ایک حصے میں جائز ہو اور ملک کے دوسرے حصے اس سے محروم ہوں؟
اس لیے ہم‘ بقائمی ہوش و حواس مطالبہ کرتے ہیں کہ جس سردار شیر باز نے بلوچستان میں بانو اور احسان اللہ کے قتل کا فیصلہ کیا اور جس عصمت اللہ نے راولپنڈی میں سدرہ کے قتل کا فیصلہ کیا‘ ان دونوں کو رہا کیا جائے۔ انہیں سرکاری پروٹوکول دیا جائے۔ جرگہ سسٹم کو‘ جو راولپنڈی میں پہنچ چکا ہے‘ اسلام آباد تک لایا جائے۔ جس جرگہ سسٹم سے ملک کے دوسرے حصے فائدہ اٹھا رہے ہیں‘ اس کے فیوض و برکات سے وفاقی دارالحکومت کو کیوں بے ثمر رکھا جائے؟ عصمت اللہ کو گرفتار کیا گیا ہے مگر جرگہ سسٹم کو خلافِ قانون نہیں قرار دیا گیا ہے۔ سردار شیرباز خان کو گرفتار کیا گیا ہے مگر جرگہ سسٹم وہیں کھڑا ہے‘ پورے قد کے ساتھ! عصمت اللہ اور شیر باز خان کو باعزت طور پر رہا کرنے کے بعد ان دونوں پر مشتمل ایک ہائی پاور پینل تشکیل دیا جائے۔ اس پینل کو وفاقی جرگے کی سربراہی کے فرائض سونپے جائیں۔ یہ وفاقی جرگہ وفاق کے تمام جھگڑے‘ تمام معاملات‘ تمام بکھیڑے اور تمام قضیے نمٹائے۔ اس وفاقی جرگے کے فیصلے کسی فورم پر چیلنج ہوں گے نہ ان کے خلاف کوئی اپیل ہو سکے گی! یوں مقدمے آن کی آن میں ختم ہو سکیں گے۔ انہی خطوط پر تمام صوبائی دارالحکومتوں میں بھی جرگے تشکیل دیے جائیں۔ یہ جرگے وفاقی جرگے کے ماتحت ہوں گے۔ سردار شیر باز اور عصمت اللہ تمام صوبوں کا دورہ کرکے ان ماتحت جرگوں کی تشکیل‘ کارکردگی اور استعدادِ کار کا معائنہ کیا کریں گے۔
ہمارے سفارت خانوں کو اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرنا ہو گا۔ چونکہ جرگہ سسٹم مہذب دنیا کے لیے ایک اجنبی شے ہو گی‘ اور ان کے خیال و خواب سے بھی باہر! اس لیے ہمارے سفارت خانے دنیا کو اس پاکستانی ایجاد سے آشنا کریں گے۔ ہر سفیر‘ جس ملک میں متعین ہو گا‘ اس ملک کی حکومت اور عوام کو بتائے گا کہ صدیوں پرانے جرگہ سسٹم کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی سطح پر متعارف کرا کے پاکستان نے ایک عظیم الشان کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ ہمارے سفیر کوشش کریں گے کہ دوسری حکومتیں سردار شیرباز اور عصمت اللہ کو اپنے اپنے ملک کا دورہ کرنے کی سرکاری دعوت دیں۔ یوں تاریخ میں پاکستان کا نام‘ ایجادات اور دریافتوں کے حوالے سے امریکہ‘ جرمنی‘ برطانیہ اور فرانس کے ہم پلہ ہو جائے گا۔ ایک دن آئے گا کہ پوری دنیا جرگہ سسٹم سے فائدہ اٹھائے گی۔ اس سسٹم کو ''پاکستانی جرگہ سسٹم‘‘ کے نام سے پکارا جائے گا۔ گمان غالب یہ ہے کہ سردار شیر باز اور عصمت اللہ کو نوبیل انعام سے بھی نوازا جائے گا۔ آکسفورڈ‘ کیمبرج‘ ہارورڈ اور دوسری بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں جرگہ سسٹم کو نصاب کا حصہ بنایا جائے گا‘ پروفیسر اس پر لیکچر دیں گے‘ محققین تحقیق کرکے اس پر مقالے لکھیں گے۔ اس موضوع پر بحثیں‘ ورکشاپیں‘ سیمینار‘ مذاکرے اور تقریری مقابلے ہوں گے۔ ہر طرف پاکستان کا ڈنکا بجے گا! پاکستان کا یہ کارنامہ تاریخ میں ایک سنگ میل ثابت ہو گا۔ جس طرح اب لوگ قبل مسیح اور عیسوی سن کے حوالے سے بات کرتے ہیں اسی طرح مستقبل میں ''پاکستانی جرگہ سسٹم سے پہلے یا بعد‘‘ کے حوالے سے بات کیا کریں گے! بہت جلد وہ دن آئے گا کہ اقوام متحدہ ملکوں کے باہمی جھگڑے ''پاکستانی جرگہ سسٹم‘‘ کے مطابق حل کرے گی! پاکستانی فخر سے کہا کریں گے :
یہ کلی بھی اس گلستانِ خزاں منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی!
x