تھوڑا سا گلہ
عزیز گرامی سید عمران شفقت میرے ان پسندیدہ وی لاگرز میں سے ہیں جنہیں سننا میں بطورِ خاص پسند کرتا ہوں! گفتگو کرنے کا ڈھنگ جانتے ہیں۔ بے خوف بھی ہیں۔ بے خوفی کا خمیازہ بھی بھگتا ہے۔ ساتھ پنجابی کا تڑکا لگاتے ہیں جس سے بقول یگانہ چنگیزی ''اثر دُونا‘‘ ہو جاتا ہے۔ ان کے وی لاگ کا ایک دلچسپ فیچر ''بیٹھک‘‘ ہے۔ اس میں چند معروف اور مخصوص وی لاگرز اور لکھاری شریک ہوتے ہیں۔ تمام شرکا کا مسکن کم و بیش ایک ہی شہر ہے۔ بیٹھک کے ہر سیشن میں مستقلاً یہی اصحاب ہوتے ہیں!
اس ہفتے بیٹھک کا جو سیشن ہوا اس میں کچھ باتیں سخن گسترانہ ہوئیں۔ نئے صوبوں کی تجویز پر گفتگو ہوئی اور ایسی زور دار کہ بس چاند ماری یاد آگئی۔ سب ایک دوسرے سے متفق تھے اس لیے کہ سب ایک ہی شہر کے مکین تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ قطعِ نظر اس بات سے کہ اس مسئلے کو کس نے اٹھایا ہے‘ دیکھنا یہ چاہیے کہ مسئلہ کیا ہے؟ عربی کا مقولہ ہے: انظر الیٰ ما قال ولا تنظر الیٰ من قال۔ یہ نہ دیکھو کہ کس نے کہا ہے‘ یہ دیکھو کہ کہا کیا ہے؟ یہ کالم نگار ایک مدت سے صوبوں کی تعداد بڑھانے کے لیے لکھ رہا ہے۔ اس لیے کہ تعلق ایک ایسے ضلع سے ہے جو لاہور سے دور ہے۔ یہ حقیقت تو بالکل متنازع نہیں کہ دوسرے اضلاع کے فنڈ بھی ایک ہی شہر پر خرچ ہوتے ہیں۔ ضلعی حکومت کے دور میں میرے گاؤں کے لیے ڈسپنسری منظور ہوئی۔ گاؤں والوں نے زمین دی۔ اس کے فوراً بعد ضلعی حکومتوں کا گلا ان شاہی خاندانوں نے گھونٹ دیا جنہیں نئے صوبوں سے خطرہ ہے۔ اٹھارہ برس گزر گئے‘ ڈسپنسری کے لیے لاہور سے فنڈز نہیں مل رہے۔ بیروزگار بچوں اور بچیوں کی نوکریوں کے لیے صوبائی پبلک سروس کمیشن میں کسی سے بات ہی نہیں ہو سکتی۔ بیٹھک کے معزز ارکان کم از کم یہ ریسرچ کر لیں کہ گزشتہ تیس‘ چالیس برسوں میں صوبائی پبلک سروس کمیشن میں کتنے ممبر لاہور اور نواحِ لاہور سے لیے گئے اور کتنے صوبے کے مغربی اور جنوبی اضلاع سے بنائے گئے؟
نئے صوبوں کی مخالفت میں عجیب دلائل دیے گئے‘ مثلاً یہ کہ صوبے وفاق میں ایک اکائی کے طور پر شامل ہوئے تھے۔ صوبے تو بھارت میں بھی مرکز کے ساتھ ایک اکائی کے طور پر شامل ہوئے تھے مگر کئی نئے صوبے بنے۔ ایک صاحب نے امریکہ‘ سپین اور فرانس کی مثالیں دیں۔ جس خطے میں رہ رہے ہیں‘ اس کے ملکوں کو تو دیکھ لیتے۔ بھارتی پنجاب کا رقبہ 1966ء میں ڈیڑھ لاکھ مربع کلو میٹر تھا۔ اس کے تین صوبے بن گئے جبکہ ہمارے پنجاب کا رقبہ دو لاکھ مربع کلو میٹر سے بھی زیادہ ہے۔ پاکستان کا کل رقبہ نو لاکھ مربع کلو میٹر سے زیادہ ہے۔ آبادی 24کروڑ سے بھی زیادہ ہے۔ صوبے چار ہیں۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سمیت چھ سمجھ لیجیے۔ اب ذرا دیکھتے جائیے اور انصاف کرتے جائیے۔ افغانستان کا رقبہ ساڑھے چھ لاکھ مربع کلو میٹر ہے۔ آبادی پانچ کروڑ ہے۔ اور صوبے 34ہیں! ترکیہ کا رقبہ بھی پاکستان سے کم ہے۔ آٹھ لاکھ مربع کلو میٹر۔ آبادی نو کروڑ سے کم‘ اور صوبے 81۔ ایران کا رقبہ پاکستان سے زیادہ ہے مگر آبادی صرف دس کروڑ ہے جبکہ صوبے 31ہیں۔ ازبکستان کا رقبہ پاکستان کے نصف سے بھی کم ہے۔ آبادی چار کروڑ سے کم اور صوبے بارہ!! صرف پاکستان ہی ایسا ملک ہے جس کا رقبہ اور آبادی سب سے زیادہ ہے مگر چار صوبے پتھر پر کھدی لکیر بن گئے ہیں۔ تاہم ایک رجلِ رشید جناب عمران شفقت کی بیٹھک میں ایسا تھا جس نے برملا کہا کہ ''صوبے بڑے رہیں گے تو زرداری کی حکومت رہے گی‘ اور نواز شریف کی حکومت رہے گی‘‘۔ ان کا اسمِ گرامی مجھے نہیں معلوم۔ بھارت نے 1953ء ہی میں States Reorganisation Commission بنا دیا تھا۔کمیشن نے دو سال کے غور کے بعد اپنی رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ کی روشنی میں پارلیمنٹ نے States Reorganisation Act 1956پاس کیا۔ اس ایکٹ کی رو سے بھارتی پارلیمنٹ نئے صوبے ( ریاستیں) بنا سکتی ہے۔ تقسیم کے بعد اب تک بھارت میں پندرہ نئی ریاستیں وجود میں آئی ہیں۔ نو علاقے جومرکز کی تحویل میں ہیں‘ ان کے علاوہ ہیں۔
نئے صوبوں کی تجویز سامنے آئی ہے تو ہمارے دوستوں کو ضلعی حکومتیں یاد آگئی ہیں۔ جب ضلعی حکومتیں ختم کی گئی تھیں تو کس نے اور کتنوں نے احتجاج کیا تھا؟ اور اس ''قتلِ عمد‘‘ کے بعد کتنی بار مقتول ضلعی حکومتوں کو زندہ کرنے کا مطالبہ کیا؟ ہم افتادگانِ خاک تو کتنے ہی کالموں میں اور ٹی وی چینلوں پر ضلعی نظام حکومت کے خاتمے کا ماتم کرتے رہے ہیں اور اس کے احیا کا مطالبہ کرتے رہے ہیں‘ اس لیے کہ ماتم اور مطالبہ ہمیشہ متاثرین ہی کرتے ہیں! صوبے کے صدر مقام میں رہنے والے ان تکالیف اور محرومیوں کا تصور ہی نہیں کر سکتے جن کا سامنا دور افتادہ‘ پسِ پشت ڈالے گئے علاقوں کے لوگ کر رہے ہیں۔ حافظ شیرازی کے بقول سب کسارانِ ساحل کیا جانیں کہ اندھیری رات اور ہیبت ناک موجیں کیا ہوتی ہیں۔ صوبے کے صدر مقام میں متمکن حضرات میں سے کیا کبھی کسی نے بہاولپور کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کا تذکرہ کیا ہے؟ تقسیم کے وقت بہاولپور نیم خود مختار ریاست تھی۔ پاکستان بنا تو نواب بہاولپور نے ریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق کر دیا۔ 1951ء میں بہاولپور کا ریاستی سٹیٹس ختم کر کے اسے صوبہ بنا دیا گیا۔ بہاولپور کی اپنی (صوبائی) اسمبلی بھی بن گئی۔ ون یونٹ کے قیام کے وقت وعدہ کیا گیا تھا کہ ون یونٹ ختم ہونے کی صورت میں بہاولپور کا صوبائی سٹیٹس بحال کر دیا جائے گا مگر اس وعدے کی صریح خلاف ورزی کی گئی اور ون یونٹ ختم ہوا تو بہاولپور کے سابق صوبے کو پنجاب میں ضم کر دیا گیا۔ بہاولپور میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ دو افراد شہید بھی ہو گئے۔ 1970ء کے الیکشن کے وقت بہاولپور میں ''متحدہ محاذ‘‘ بن گیا جس کا مقصد صوبے کا احیا تھا۔ اس محاذ نے الیکشن میں اسّی فیصد ووٹ حاصل کیے۔ یعنی پانچ میں سے چار نشستیں!! مگر مشرقی پاکستان کے حالات خراب ہو گئے جو علیحدگی پر منتج ہوئے۔ یوں بہاولپور کا ایشو پس منظر میں چلا گیا۔ لیکن مراعات یافتہ پٹی کے اہلِ صحافت اور اہلِ دانش نے بہاولپور کے ساتھ ہونے والی اس ناانصافی کا کبھی ذکر نہیں کیا۔ 2018ء میں تحریک انصاف نے جنوبی صوبے کا وعدہ کیا مگر یہ وعدہ ایفا نہ ہوا۔ ہاں جنوبی پنجاب سے ایک جوہرِ قابل کو پنجاب کا حکمران ضرور بنا دیا گیا۔
ایک ستم یہ کیا جا رہا ہے کہ نئے صوبوں کی تجویز کو صدارتی نظام کے خدشے کے ساتھ خلط ملط کیا جا رہا ہے۔ یہ خلط ملط‘ خلطِ مبحث کے سوا کچھ نہیں! صدارتی نظام ایک فریب آموز شوخی ہے جبکہ نئے صوبوں کی تجویز ضرورت ہے۔ یہ ضرورت وقت کی آواز ہے۔ چند خاندانوں کا اقتدار قائم رکھنے کے لیے وقت کے پہیے کو الٹا چلانے کی سعی کی جا رہی ہے۔ نئے صوبوں کے قیام میں تاخیر تو ہو سکتی ہے مگر ان کے قیام کو روکا نہیں جا سکتا۔ یہ 2025ء ہے۔ سرحد پار جس چھوٹے سے پنجاب کو ساٹھ سال پہلے تین صوبوں میں تقسیم کر دیا گیا‘ اس سے کہیں بڑے پنجاب کو ایک اتھارٹی کے ساتھ کب تک باندھ کر رکھیں گے؟
دست بستہ گزارش ہے کہ نئے صوبوں پر بحث کرنی ہے تو ازراہِ کرم بہاولپور‘ ملتان‘ اٹک‘ میانوالی‘ ایبٹ آباد‘ مانسہرہ اور دیگر دور افتادہ علاقوں سے بھی صحافیوں اور دانشوروں کو بلائیے۔ آخر ان علاقوں کے لوگ بھی زیادہ نہیں تو دو چار جماعتیں تو ضرور پڑھے ہوئے ہیں اور کم سہی مگر کچھ نہ کچھ عقل تو رکھتے ہی ہیں!! گستاخی پر معذرت۔ مگر جنہیں سنتے ہیں گلہ بھی انہی سے ہوتا ہے! تھوڑا سا گلہ!!
اس ہفتے بیٹھک کا جو سیشن ہوا اس میں کچھ باتیں سخن گسترانہ ہوئیں۔ نئے صوبوں کی تجویز پر گفتگو ہوئی اور ایسی زور دار کہ بس چاند ماری یاد آگئی۔ سب ایک دوسرے سے متفق تھے اس لیے کہ سب ایک ہی شہر کے مکین تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ قطعِ نظر اس بات سے کہ اس مسئلے کو کس نے اٹھایا ہے‘ دیکھنا یہ چاہیے کہ مسئلہ کیا ہے؟ عربی کا مقولہ ہے: انظر الیٰ ما قال ولا تنظر الیٰ من قال۔ یہ نہ دیکھو کہ کس نے کہا ہے‘ یہ دیکھو کہ کہا کیا ہے؟ یہ کالم نگار ایک مدت سے صوبوں کی تعداد بڑھانے کے لیے لکھ رہا ہے۔ اس لیے کہ تعلق ایک ایسے ضلع سے ہے جو لاہور سے دور ہے۔ یہ حقیقت تو بالکل متنازع نہیں کہ دوسرے اضلاع کے فنڈ بھی ایک ہی شہر پر خرچ ہوتے ہیں۔ ضلعی حکومت کے دور میں میرے گاؤں کے لیے ڈسپنسری منظور ہوئی۔ گاؤں والوں نے زمین دی۔ اس کے فوراً بعد ضلعی حکومتوں کا گلا ان شاہی خاندانوں نے گھونٹ دیا جنہیں نئے صوبوں سے خطرہ ہے۔ اٹھارہ برس گزر گئے‘ ڈسپنسری کے لیے لاہور سے فنڈز نہیں مل رہے۔ بیروزگار بچوں اور بچیوں کی نوکریوں کے لیے صوبائی پبلک سروس کمیشن میں کسی سے بات ہی نہیں ہو سکتی۔ بیٹھک کے معزز ارکان کم از کم یہ ریسرچ کر لیں کہ گزشتہ تیس‘ چالیس برسوں میں صوبائی پبلک سروس کمیشن میں کتنے ممبر لاہور اور نواحِ لاہور سے لیے گئے اور کتنے صوبے کے مغربی اور جنوبی اضلاع سے بنائے گئے؟
نئے صوبوں کی مخالفت میں عجیب دلائل دیے گئے‘ مثلاً یہ کہ صوبے وفاق میں ایک اکائی کے طور پر شامل ہوئے تھے۔ صوبے تو بھارت میں بھی مرکز کے ساتھ ایک اکائی کے طور پر شامل ہوئے تھے مگر کئی نئے صوبے بنے۔ ایک صاحب نے امریکہ‘ سپین اور فرانس کی مثالیں دیں۔ جس خطے میں رہ رہے ہیں‘ اس کے ملکوں کو تو دیکھ لیتے۔ بھارتی پنجاب کا رقبہ 1966ء میں ڈیڑھ لاکھ مربع کلو میٹر تھا۔ اس کے تین صوبے بن گئے جبکہ ہمارے پنجاب کا رقبہ دو لاکھ مربع کلو میٹر سے بھی زیادہ ہے۔ پاکستان کا کل رقبہ نو لاکھ مربع کلو میٹر سے زیادہ ہے۔ آبادی 24کروڑ سے بھی زیادہ ہے۔ صوبے چار ہیں۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سمیت چھ سمجھ لیجیے۔ اب ذرا دیکھتے جائیے اور انصاف کرتے جائیے۔ افغانستان کا رقبہ ساڑھے چھ لاکھ مربع کلو میٹر ہے۔ آبادی پانچ کروڑ ہے۔ اور صوبے 34ہیں! ترکیہ کا رقبہ بھی پاکستان سے کم ہے۔ آٹھ لاکھ مربع کلو میٹر۔ آبادی نو کروڑ سے کم‘ اور صوبے 81۔ ایران کا رقبہ پاکستان سے زیادہ ہے مگر آبادی صرف دس کروڑ ہے جبکہ صوبے 31ہیں۔ ازبکستان کا رقبہ پاکستان کے نصف سے بھی کم ہے۔ آبادی چار کروڑ سے کم اور صوبے بارہ!! صرف پاکستان ہی ایسا ملک ہے جس کا رقبہ اور آبادی سب سے زیادہ ہے مگر چار صوبے پتھر پر کھدی لکیر بن گئے ہیں۔ تاہم ایک رجلِ رشید جناب عمران شفقت کی بیٹھک میں ایسا تھا جس نے برملا کہا کہ ''صوبے بڑے رہیں گے تو زرداری کی حکومت رہے گی‘ اور نواز شریف کی حکومت رہے گی‘‘۔ ان کا اسمِ گرامی مجھے نہیں معلوم۔ بھارت نے 1953ء ہی میں States Reorganisation Commission بنا دیا تھا۔کمیشن نے دو سال کے غور کے بعد اپنی رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ کی روشنی میں پارلیمنٹ نے States Reorganisation Act 1956پاس کیا۔ اس ایکٹ کی رو سے بھارتی پارلیمنٹ نئے صوبے ( ریاستیں) بنا سکتی ہے۔ تقسیم کے بعد اب تک بھارت میں پندرہ نئی ریاستیں وجود میں آئی ہیں۔ نو علاقے جومرکز کی تحویل میں ہیں‘ ان کے علاوہ ہیں۔
نئے صوبوں کی تجویز سامنے آئی ہے تو ہمارے دوستوں کو ضلعی حکومتیں یاد آگئی ہیں۔ جب ضلعی حکومتیں ختم کی گئی تھیں تو کس نے اور کتنوں نے احتجاج کیا تھا؟ اور اس ''قتلِ عمد‘‘ کے بعد کتنی بار مقتول ضلعی حکومتوں کو زندہ کرنے کا مطالبہ کیا؟ ہم افتادگانِ خاک تو کتنے ہی کالموں میں اور ٹی وی چینلوں پر ضلعی نظام حکومت کے خاتمے کا ماتم کرتے رہے ہیں اور اس کے احیا کا مطالبہ کرتے رہے ہیں‘ اس لیے کہ ماتم اور مطالبہ ہمیشہ متاثرین ہی کرتے ہیں! صوبے کے صدر مقام میں رہنے والے ان تکالیف اور محرومیوں کا تصور ہی نہیں کر سکتے جن کا سامنا دور افتادہ‘ پسِ پشت ڈالے گئے علاقوں کے لوگ کر رہے ہیں۔ حافظ شیرازی کے بقول سب کسارانِ ساحل کیا جانیں کہ اندھیری رات اور ہیبت ناک موجیں کیا ہوتی ہیں۔ صوبے کے صدر مقام میں متمکن حضرات میں سے کیا کبھی کسی نے بہاولپور کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کا تذکرہ کیا ہے؟ تقسیم کے وقت بہاولپور نیم خود مختار ریاست تھی۔ پاکستان بنا تو نواب بہاولپور نے ریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق کر دیا۔ 1951ء میں بہاولپور کا ریاستی سٹیٹس ختم کر کے اسے صوبہ بنا دیا گیا۔ بہاولپور کی اپنی (صوبائی) اسمبلی بھی بن گئی۔ ون یونٹ کے قیام کے وقت وعدہ کیا گیا تھا کہ ون یونٹ ختم ہونے کی صورت میں بہاولپور کا صوبائی سٹیٹس بحال کر دیا جائے گا مگر اس وعدے کی صریح خلاف ورزی کی گئی اور ون یونٹ ختم ہوا تو بہاولپور کے سابق صوبے کو پنجاب میں ضم کر دیا گیا۔ بہاولپور میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ دو افراد شہید بھی ہو گئے۔ 1970ء کے الیکشن کے وقت بہاولپور میں ''متحدہ محاذ‘‘ بن گیا جس کا مقصد صوبے کا احیا تھا۔ اس محاذ نے الیکشن میں اسّی فیصد ووٹ حاصل کیے۔ یعنی پانچ میں سے چار نشستیں!! مگر مشرقی پاکستان کے حالات خراب ہو گئے جو علیحدگی پر منتج ہوئے۔ یوں بہاولپور کا ایشو پس منظر میں چلا گیا۔ لیکن مراعات یافتہ پٹی کے اہلِ صحافت اور اہلِ دانش نے بہاولپور کے ساتھ ہونے والی اس ناانصافی کا کبھی ذکر نہیں کیا۔ 2018ء میں تحریک انصاف نے جنوبی صوبے کا وعدہ کیا مگر یہ وعدہ ایفا نہ ہوا۔ ہاں جنوبی پنجاب سے ایک جوہرِ قابل کو پنجاب کا حکمران ضرور بنا دیا گیا۔
ایک ستم یہ کیا جا رہا ہے کہ نئے صوبوں کی تجویز کو صدارتی نظام کے خدشے کے ساتھ خلط ملط کیا جا رہا ہے۔ یہ خلط ملط‘ خلطِ مبحث کے سوا کچھ نہیں! صدارتی نظام ایک فریب آموز شوخی ہے جبکہ نئے صوبوں کی تجویز ضرورت ہے۔ یہ ضرورت وقت کی آواز ہے۔ چند خاندانوں کا اقتدار قائم رکھنے کے لیے وقت کے پہیے کو الٹا چلانے کی سعی کی جا رہی ہے۔ نئے صوبوں کے قیام میں تاخیر تو ہو سکتی ہے مگر ان کے قیام کو روکا نہیں جا سکتا۔ یہ 2025ء ہے۔ سرحد پار جس چھوٹے سے پنجاب کو ساٹھ سال پہلے تین صوبوں میں تقسیم کر دیا گیا‘ اس سے کہیں بڑے پنجاب کو ایک اتھارٹی کے ساتھ کب تک باندھ کر رکھیں گے؟
دست بستہ گزارش ہے کہ نئے صوبوں پر بحث کرنی ہے تو ازراہِ کرم بہاولپور‘ ملتان‘ اٹک‘ میانوالی‘ ایبٹ آباد‘ مانسہرہ اور دیگر دور افتادہ علاقوں سے بھی صحافیوں اور دانشوروں کو بلائیے۔ آخر ان علاقوں کے لوگ بھی زیادہ نہیں تو دو چار جماعتیں تو ضرور پڑھے ہوئے ہیں اور کم سہی مگر کچھ نہ کچھ عقل تو رکھتے ہی ہیں!! گستاخی پر معذرت۔ مگر جنہیں سنتے ہیں گلہ بھی انہی سے ہوتا ہے! تھوڑا سا گلہ!!