اشاعتیں

اگست, 2025 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

تھوڑا سا گلہ

عزیز گرامی سید عمران شفقت میرے ان پسندیدہ وی لاگرز میں سے ہیں جنہیں سننا میں بطورِ خاص پسند کرتا ہوں! گفتگو کرنے کا ڈھنگ جانتے ہیں۔ بے خوف بھی ہیں۔ بے خوفی کا خمیازہ بھی بھگتا ہے۔ ساتھ پنجابی کا تڑکا لگاتے ہیں جس سے بقول یگانہ چنگیزی ''اثر دُونا‘‘ ہو جاتا ہے۔ ان کے وی لاگ کا ایک دلچسپ فیچر ''بیٹھک‘‘ ہے۔ اس میں چند معروف اور مخصوص وی لاگرز اور لکھاری شریک ہوتے ہیں۔ تمام شرکا کا مسکن کم و بیش ایک ہی شہر ہے۔ بیٹھک کے ہر سیشن میں مستقلاً یہی اصحاب ہوتے ہیں! اس ہفتے بیٹھک کا جو سیشن ہوا اس میں کچھ باتیں سخن گسترانہ ہوئیں۔ نئے صوبوں کی تجویز پر گفتگو ہوئی اور ایسی زور دار کہ بس چاند ماری یاد آگئی۔ سب ایک دوسرے سے متفق تھے اس لیے کہ سب ایک ہی شہر کے مکین تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ قطعِ نظر اس بات سے کہ اس مسئلے کو کس نے اٹھایا ہے‘ دیکھنا یہ چاہیے کہ مسئلہ کیا ہے؟ عربی کا مقولہ ہے: انظر الیٰ ما قال ولا تنظر الیٰ من قال۔ یہ نہ دیکھو کہ کس نے کہا ہے‘ یہ دیکھو کہ کہا کیا ہے؟ یہ کالم نگار ایک مدت سے صوبوں کی تعداد بڑھانے کے لیے لکھ رہا ہے۔ اس لیے کہ تعلق ایک ایسے ضلع سے ہے ج...

صوبے‘ نئے صوبے اور دو خاص اجلاس

پہلا خفیہ اجلاس ایک محل میں ہو رہا تھا۔ بہت بڑے محل میں! اس محل میں کمرے لاتعداد تھے۔ ہر کمرے میں بیش بہا فرنیچر تھا۔ بیسیوں تو گیراج تھے۔ لان اتنے بڑے تھے کہ ہزاروں کا مجمع سما جائے۔ رہداریوں میں قیمتی قالین بچھے تھے۔ جھاڑ اور فانوس ایسے ایسے کہ دیکھنے والے دم بخود رہ جائیں۔ سنہری وردیوں میں ملبوس خدام اور خوش شکل خادمائیں ہر طرف چل پھر رہی تھیں۔ مہمانوں کے استقبال کے لیے بینڈ‘ ڈھول‘ شہنائیاں بجائی جا رہی تھیں۔ مسلح پہریدار چاروں طرف گھوم رہے تھے۔ چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی تھی۔ ظہرانوں اور عشائیوں کے لیے درجنوں ماہر باورچی مامور کیے گئے تھے۔ انواع و اقسام کے کھانے تیار کیے جا رہے تھے۔ صرف شربت ہی ایک سو سے زیادہ اقسام کے تھے۔ پنیر فرانس سے اور شہد آسٹریلیا سے منگوایا گیا تھا۔ پِزا تیار کرنے والے اٹلی سے آئے تھے۔ دنیا بھر کے پھل حاضر کیے گئے تھے۔ صدارتی مسند پر لاہور متمکن تھا۔ سٹیج پر کراچی‘ کوئٹہ اور پشاور تشریف فرما تھے۔ سامنے حاضرین میں ان چاروں کے افسر‘ امرا‘ عمائدین اور قریبی حواری بیٹھے تھے۔ درباری مسخرے اور پیشہ ور نسلی خوشامدی صفیں باندھے‘ دست بستہ کھڑے تھے۔ ایک ط...

نئے صوبے۔ ۔۔۔ میاں عامر محمود کی تجاویز

''بالائی طبقے سے تعلق رکھنے والے موجودہ سیاستدانوں کی موجودگی میں پاکستان دنیا میں اپنا جائز مقام کبھی حاصل نہیں کر سکتا۔ یہ ایک مختصر ''خصوصی'' کلب ہے جس کے ارکان اوسط درجے کی ذہانت رکھتے ہیں' ان کا ویژن محدود ہے' نااہل ہیں' دانش کے اعتبار سے کمزور اور اخلاقی لحاظ سے دیوالیہ! یہ صرف ایک فن کے ماہر ہیں۔ اور وہ فن ہے اپنے مفادات کی حفاظت! پاکستان کے اَپر کلاس سیاستدان دو طبقوں میں منقسم ہیں۔ پہلا طبقہ حکمران خاندانوں پر مشتمل ہے۔ دوسرا طبقہ ان کے قریبی حواریوں پر۔ حکمران خاندانوں کے افراد اقتدار اور مراعات کے اولین دعویدار اور حقدار ہیں۔ دوسرے نمبر پر ان کے حواری ہیں جو ان ٹکڑوں پر پلتے ہیں جو حکمران خاندان ان کی طرف پھینک دیتے ہیں۔ لیڈر شپ مہیا کرنے والے اس سرچشمے کو بڑا کرنا پڑے گا۔ اس سرچشمے کو بڑا کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ وہ یہ کہ صوبوں کی تعداد بڑھائی جائے۔ ایسا کرنے سے مقامی لیڈرشپ کو ابھرنے کے اتنے مواقع ملیں گے جن کا آج تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ وہی لیڈر شپ ہے جس کا راستہ موجودہ ''شاہی'' خاندانوں نے روکا ہوا ہے''۔ ...

دو حوصلہ افزا فیصلے

یہ ایک درسگاہ تھی۔ بہت بلند اور اعلیٰ درجے کی درسگاہ! اتنی اعلیٰ کہ اس میں تعلیم حاصل کرنے والے یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہو کر آئے تھے۔ شرکا کی تعداد چالیس کے لگ بھگ تھی۔ ان میں خاتون صرف ایک تھی۔ خاتون کی غیر حاضری میں اس کے بارے میں جو گفتگو ہوتی تھی ناقابلِ بیان تھی اور ناقابلِ تصور! یہ گفتگو اسی سطح کی تھی جس سطح کی گفتگو ٹانگے والے یا نوجوان ریڑھی بان کرتے ہوں گے! خواتین کے حوالے سے ہراسانی کی متعدد اقسام ہیں۔ اتنی کہ شمار سے باہر! روزگار کی جگہ پر' گھروں میں' سفر کے دوران' گلی کوچوں میں' درسگاہوں میں' بازاروں میں' سیرگاہوں' پارکوں اور میلوں ٹھیلوں میں! کھیتوں کھلیانوں میں! گھروں میں ہراسانی کی آگے کئی قسمیں ہیں! گھروں میں کام کرنے والی خواتین کو گھروں کے مرد ہراساں کرتے ہیں۔ جوائنٹ فیملیوں میں اور طرح کی ہراسانی ہے۔ بازاروں میں دکاندار بھی ہراساں کرتے ہیں اور آوارہ گردی کرنے والے مرد بھی۔ جنوبی ایشیا میں گُھورنے کا مرض اس کے علاوہ ہے۔ میں ایک بار سنگاپور سے اسلام آباد آ رہا تھا۔ سنگاپور ایئر لائن کے جہاز کو دہلی میں رکنا تھا۔ میرے دائیں طرف وال...

چودہ اگست

بادشاہ کشتی کی سیر سے لطف اندوز ہونا چاہتا تھا مگر اس کے ایک غلام نے سارا مزہ کرکرا کر دیا۔ غلام اس سے پہلے کشتی میں کبھی سوار نہیں ہوا تھا۔ چاروں طرف پانی دیکھ کر خوف اس کے رگ و پے میں سما گیا۔ اس نے رونا اور چیخنا شروع کر دیا۔ کبھی کہتا مجھے واپس لے چلو' کبھی چیختا کہ میں پانی میں ڈوب جاؤں گا' میرے بچوں کا کیا ہو گا۔ کشتی ذرا سا ہچکولا کھاتی تو وہ ایک دلدوز چیخ مارتا اور اونچی آواز سے از سر نو رونا شروع کر دیتا۔ سب نے اسے تسلی دی مگر اسے کسی طور سکون نہ آیا۔ بادشاہ کے ساتھ ایک مردِ دانا بھی تھا۔ (ایسے ہی داناؤں کی وجہ سے حکومتیں چلتی تھیں!) اس نے جہاں پناہ سے اجازت چاہی کہ غلام کا مسئلہ حل کر دے۔ بادشاہ نے اجازت دے دی۔ دانا شخص نے حکم دیا کہ غلام کو دریا میں پھینک دیا جائے۔ ایسا ہی کیا گیا۔ غلام چند غوطے کھا چکا اور ہاتھ پاؤں مار چکا تو اسے کھینچ کر کشتی میں واپس لایا گیا۔ اس نے خدا کا شکر ادا کیا اور کشتی کے ایک کونے میں آرام اور سکون سے بیٹھ گیا۔ بادشاہ نے دانا شخص سے اس علاج کی تہہ میں چھپی حکمت پوچھی تو اس نے کہا کہ بے وقوف غلام کو کشتی کی عافیت کی قدر نہیں تھی۔ غوط...

ایک ماں جو اعلی ملکی اعزاز کی مستحق ہے

حادثہ خوفناک تھا اور مہلک! 23 سالہ نوجوان شدید زخمی ہوا۔ سر پر متعدد چوٹیں آئی تھیں اور سب گہری! وہ بے ہوش تھا۔ ہسپتال پہنچنے پر فوراً سرجری کی گئی تاکہ دماغ سے منجمد خون کے لوتھڑے نکالے جا سکیں۔ پھر اس' ٹیوبوں اور نلکیوں میں لپٹے ہوئے نوجوان کو آئی سی یو میں منتقل کر دیا گیا۔ رات کو ایک بجے ایک اور آپریشن کیا گیا۔ بہتری کے کچھ آثار نظر آئے تو نوجوان مریض کو وارڈ میں منتقل کر دیا گیا۔ عملے نے نگہداشت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ ڈیڑھ دو دن حوصلہ افزا گزرے۔ دلوں میں آس اُتری۔ مگر تیسرے دن طبیعت بگڑنے لگی۔ نوجوان کو سانس لینے میں دقت ہونے لگی۔ اس سارے عرصہ کے دوران اس کی ماں' اس کے چچا' تایا اور دیگر متعلقین' ایک لمحہ بھی نہ سوئے۔ سب خوفزدہ تھے۔ سب پر ہول طاری تھا اور دہشت! سب کچھ غیر متوقع تھا۔ یہ قیامت ان پر اچانک ٹوٹی تھی۔ بیٹھے بٹھائے' اندھیرا چاروں طرف سے امڈنے لگا تھا۔ اسے آئی سی یو میں واپس لے جایا گیا۔ ڈاکٹروں نے ہر ممکن کوشش کی' مگر تقدیر میں کچھ اور لکھا تھا۔ آسمان پر ستارے اور زمین پر زائچے کچھ اور بتا رہے تھے۔ نوجوان کی آنکھیں زندگی سے دور ہوتی ...

تنے کے درپے ہونے والے

بات صرف اتنی تھی کہ باتھ روم کا نلکا کام نہیں کر رہا تھا۔ دوسر ے بھائی نے کہا بھی کہ دفتر جا کر پلمبر کو بھیجتا ہے مگر چھوٹے بھائی کا غصہ کم ہی نہیں ہو رہا تھا۔ جب بھی مکان میں کوئی چھوٹا موٹا مسئلہ پیدا ہوتا' وہ گھر کو کوسنے لگتا۔ ''یہ گھر ہی منحوس ہے۔ اس گھر کو بیچ ڈالنا چاہیے۔ اس گھر کو چھوڑ دینا چاہیے۔ یہ گھر اچھا نہیں ہے۔ لوگوں کے گھروں میں کوئی چیز کبھی خراب نہیں ہوئی' یہاں آئے دن سیاپا پڑا رہتا ہے۔ کب جان چھوٹے گی اس گھر سے؟''۔ بھائی نے سمجھایا کہ دنیا میں کوئی گھر ایسا نہیں جس میں کوئی خرابی نہ ہو۔ شکست و ریخت' ٹوٹ پھوٹ' مرمت' تعمیرِ نو' یہ ایک مسلسل عمل ہے جو جاری رہتا ہے۔ بڑے بڑے عالی شان محلات میں نقائص پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ محل ہی کی مذمت شروع کر دی جائے۔ گھر ہی کو برا بھلا کہنے لگیں۔ گھر کی چیزیں خراب ہوں تو درست ہو سکتی ہیں' لیکن گھر چلا جائے تو پھر نہیں ملتا۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے گھر کا ایک فرد بیمار رہنے لگے' کبھی اسے بخار ہو جائے' کبھی کھانسی ہونے لگے' کبھی سر درد میں مبتلا ہو' تو کیا ...

وقت آگیا ہے کہ جرگہ سسٹم…………………

دشمنوں کی بدخواہی کے باوجود پاکستان ترقی کر رہا ہے۔ ہر سال‘ ہر مہینے‘ ہر ہفتے‘ ہر روز ہم آگے بڑھ رہے ہیں! یہاں میں وہ شعر ضرور پڑھوں گا جو بسوں میں دوائیں بیچنے والے ''بزنس مین‘‘ پڑھتے ہیں: مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ جرگہ اور پنچایت سسٹم دنیا کا بہترین سسٹم ہے۔ میں جب یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ جرگہ اور پنچایت سسٹم دنیا کا بہترین سسٹم ہے تو میرے پاس اس دعوے کا ثبوت موجود ہے۔ سالہا سال سے ملک کے اطراف و اکناف میں جرگہ سسٹم فعال ہے۔ پنچایتیں فیصلے صادر کر رہی ہیں۔ سزائے موت دی جا رہی ہے۔ دس دس سال کی بچیوں کے ''نکاح‘‘ ساٹھ ساٹھ‘ ستر ستر سال کے بڈھوں کے ساتھ کیے جا رہے ہیں۔ کبھی جرگہ فیصلہ کرتا ہے کہ ''مجرم‘‘ کا چہرا کالا کر کے گدھے پر بٹھا کر پورے گاؤں میں پھرایا جائے۔ کبھی پنچایت فیصلہ صادر کرتی ہے کہ عورت کو برہنہ کرکے گلیوں میں گھمایا جائے۔ اسلام آباد میں تشریف فرما پارلیمنٹ اور صوبوں کی اسمبلیاں یہ سب کچھ سنتی ہیں۔ خبریں پڑھتی ہیں۔ ٹیلی ویژن پر دیکھتی ہیں مگر جرگہ سسٹم اور پنچایت سسٹم کے خلاف آواز ن...