اشاعتیں

جولائی, 2025 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

چھوئی موئی خواتین کا زمانہ لد چکا

 پاکستان اور بھارت کے مسافروں کو جاپان‘ کوریا‘ ہانگ کانگ‘ ملائیشیا‘ ویتنام‘ سنگاپور‘ برونائی‘ آسٹریلیا یا نیوزی لینڈ جانا ہو تو راستے میں اکثر و بیشتر بنکاک پڑتا ہے جہاں سے جہاز تبدیل کرنا ہوتا ہے۔ اگرچہ بہت سے ملکوں کو بھارتی ایئر لائن کے جہاز ڈائریکٹ جاتے ہیں تاہم بہت سے بھارتی خاندان دوسری ایئر لائنوں سے بھی سفر کرتے ہیں۔ رہے ہم اور ہماری قومی ایئر لائن‘ تو کیا ہم اور کیا ہمارا شوربہ۔ میرے مستقل پڑھنے والوں کو یاد ہو گا کہ دو ماہ پہلے رونا رویا تھا کہ بھارت‘ سری لنکا‘ بنگلہ دیش‘ سب کی ایئر لائنیں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جاتی ہیں‘ صرف ہماری پی آئی اے نہیں جاتی۔ آسٹریلیا میں تعینات پاکستانی سفیر جناب زاہد حفیظ چودھری نے اس کالم کا نوٹس لے کر باقاعدہ جواب دیا اور بتایا کہ سارا قصو ر پی آئی اے کا ہے‘ ہماری قومی ایئر لائن آسٹریلیا کی شرائط پوری نہیں کر رہی جبکہ انڈیا‘ سری لنکا اور بنگلہ دیش کی ایئر لائنوں نے یہ شرائط پوری کر دی ہیں۔ جیسا کہ توقع تھی‘ قومی ایئر لائن نے جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔ انہی ''پھرتیوں‘‘ اور ''کار کردگیوں‘‘ کی وجہ سے ہی تو آج ہماری ایئر لائ...

…ایک خط‘ اسسٹنٹ کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں کے لیے

میرے گاؤں کے ایک پڑھے لکھے صاحب ، انتصار صاحب ، نے اپنے ایریا کی اسسٹنٹ کمشنر کے نام ایک خط لکھا ہے۔ اس خط میں اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ کی خدمت میں جو گزارشات انہوں نے پیش کی ہیں‘ وہ گزارشات صوبائی حکومت کی طرف سے ہدایات کی شکل میں جاری ہونی چاہیے تھیں! مگر المیہ یہ ہے کہ حکومت اس بات پر غور نہیں کرتی کہ انتظامیہ کے افسر وں کے تعلقات عوام کے ساتھ کیسے ہونے چاہئیں۔ حکومت کا سارا زور اس پہلو پر ہوتا ہے کہ انتظامیہ کے افسر حکومت کے کتنے فرمانبردار ہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جو ہماری صوبائی حکومتوں کو ضلع اور تحصیل کی سطح پر مقامی حکومتیں قائم کرنے سے روکتا ہے۔ یس سر‘ یس سر کی جو رَٹ اے سی یا ڈی سی یا کمشنر لگاتا ہے‘ وہ رَٹ منتخب نمائندہ کبھی نہیں لگائے گا۔ ہمارے ملک میں جو جمہوریت رائج ہے وہ جمہوریت کے ساتھ مذاق کے علاوہ کچھ نہیں۔ صوبوں کو چیف منسٹروں نے اپنی اپنی مٹھی میں جکڑ کر رکھا ہوا ہے۔ جکڑنے کے اس عمل میں چیف سیکرٹری‘ کمشنر‘ ڈی سی اور اے سی چیف منسٹر کی مدد کرتے ہیں۔ اس سارے عمل میں عوام کا کوئی عمل دخل‘ کوئی Say نہیں! یہاں ایک بار پھر یہ سچ دہرانا پڑتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ عہد سے جو...

قبائلی سرداروں کا خفیہ اجلاس

یہ خفیہ اجلاس ایسے دور افتادہ اور دشوار گزار مقام پر منعقد ہو رہا تھا جہاں کوئی سرکاری چڑیا یا میڈیا کا کبوتر خواب میں بھی نہیں پہنچ سکتا تھا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ بحیرۂ عرب کا ایک غیر آباد جزیرہ تھا۔ کچھ کہتے ہیں یہ بلوچستان کے اونچے پہاڑوں کے درمیان ایک ایسی جگہ تھی جس کا علم ان قبائلی سرداروں کے علاوہ کسی کو بھی نہ تھا۔ ایک ذریعہ یہ بتاتا ہے کہ یہ اجلاس پاکستان کی سمندری حدود سے پرے‘ بحر ہند میں ایک عظیم الجثہ بحری جہاز میں برپا ہوا۔ یہ جہاز بحری قزاقوں کا تھا جن سے ان سرداروں کا گہرا اور پرانا پیشہ ورانہ (پروفیشنل) تعلق تھا۔ اجلاس کے مقام کے ارد گرد دور دور تک اتنا کڑا پہرا تھا کہ چڑیا پر نہیں مار سکتی تھی۔ سرداروں نے بڑی بڑی پگڑیاں باندھی ہوئی تھیں۔ انہوں نے خوفناک‘ لمبی‘ بڑی بڑی مونچھیں رکھی ہوئی تھیں! ایک ایک سردار کے پچاس پچاس‘ سو سو محافظ تھے۔ ان کے پاس بندوقیں‘ ریوالور‘ کلاشنکوفیں‘ دستی گرنیڈ اور نجانے کیا کیا تھا۔ کھانے کے لیے بیسیوں دنبے‘ درجنوں بکرے اور بڑی تعداد میں مرغ‘ تیتر اور بٹیر لائے گئے تھے۔ اتنی سکیورٹی‘ اتنا پروٹوکول‘ اتنی خدمت اور اتنی حفاظت ملکوں کے سرب...

میں‘ گھڑ سوار اور کوڑے

آپ اس گھڑ سوار کو دیکھ رہے ہیں؟ اس کا گھوڑا بہترین ہے۔ اس گھوڑے کی خوراک میں مربّے‘ بادام اور سیب شامل ہیں۔ اس کی لگام اور رکابیں سونے کی ہیں۔ زین چاندی کی ہے۔ وہ تو گھڑ سوار کا بس نہیں چلتا ورنہ اس گھوڑے کی آنکھ ستارہ ہوتی اور نعل ہلال ہوتا! جو ملازم اس گھوڑے کی دیکھ بھال پر مامور ہے‘ اس کی تنخواہ وزیر کی تنخواہ سے زیادہ ہے اور مرتبہ بلند تر! اور گھڑ سوار کی تو کیا ہی شان و شوکت ہے! اس کا لباس مخمل کا ہے۔ اس کے جوتوں پر نگینے جڑے ہیں۔ تاج ہیروں اور جواہر سے مزیّن ہے۔ اس کا ترکش اور نیام از حد قیمتی ہے۔ اس عیش و عشرت کے‘ اس طمطراق‘ اس آن بان‘ اس شان و شکوہ‘ اس کرو فر کے اور اس شاہانہ ٹھاٹ باٹ کے اخراجات کہاں سے آتے ہیں؟ بھائی! اس کے اخراجات میری جیب سے جاتے ہیں۔ میری حالت پر‘ میری ہیئت کذائی پر اور میرے میلے‘ پھٹے پرانے ملبوس پر نہ جاؤ‘ یہ نہ دیکھو کہ میرے جوتوں میں چھید ہیں‘ میری ٹوپی بوسیدہ ہے‘ میرے پاس سواری کے لیے ایک مریل گدھے کے سوا کچھ نہیں‘ میرا گھر مٹی اور بھوسہ ملے گارے سے اور بانس کی تیلیوں اور درختوں کی شاخوں سے بنا ہے۔ یقین کرو کہ اس سب کچھ کے باوجود یہ میں ہوں جو اس گھڑ س...

مہمان دیہاتی‘ مرزا فرحت اللہ بیگ اور ڈاکٹر

''چینی کی تیس کروڑ ڈالر کی درآمد عوامی مفاد میں نہیں! اس کا فوراً جائزہ لیا جائے۔ عام آدمی چینی کا بڑا صارف نہیں! بلکہ اصل فائدہ خوراک ومشروبات کی صنعت کو ہو گا۔ پہلے چینی کی برآمد کی اجازت دی اور اب صنعتکاروں کو فائدہ پہنچانے کیلئے درآمد؟ اصل مسئلہ مافیا کا کردار ہے۔ چینی انسانی صحت کیلئے خطرناک ہے۔ قیمتی زرمبادلہ اس پر کیوں خرچ کیا جا رہا ہے؟ عام آدمی نہ مشروبات خرید سکتا ہے اور نہ مٹھائیاں! پھر ان کے نام پر درآمد کیوں؟ برآمد کی اجازت دینے پر کیا کوئی جواب دہ ہو گا؟ چینی مافیا‘ بروکرز اور ذخیرہ اندوزی کی تحقیقات کب ہوں گی؟ کیا ایف بی آر نے پچھلے پانچ سال میں چینی کی صنعت کے منافع پر ٹیکس لیا؟‘‘ یہ بیان تحریک انصاف کا ہے نہ مولانا فضل الرحمان کا نہ اپوزیشن کی کسی اور جماعت کا! یہ نوکیلا اور تیز دھار بیان فواد حسن فواد صاحب کا ہے جو مقتدر سیٹ اَپ کے دست راست رہے ہیں! صرف وہی نہیں‘ ہر شخص چینی کے مسئلے پر پریشان ہے۔ یہ کھیل ہر سال کھیلا جاتا ہے۔ چینی برآمد کی جاتی ہے‘ پھر در آمد کی جاتی ہے۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ متعلقہ حلقوں کے پاس کام کوئی نہیں۔ وہ جو کہتے ہیں کہ فارغ ب...

شیر کی سواری اور نانا کا دُکھ

ہم چار پرانے دوست ہیں۔ سکول کے زمانے کے! کوشش کرتے ہیں کہ مہینے میں کم از کم ایک بار مل بیٹھیں۔ ہم ایک دوسرے سے ہر بات شیئر کرتے ہیں۔ پرانی یادیں تازہ کرتے ہیں۔ گزرے وقتوں کے تذکرے کرتے ہیں۔ اس عمر میں مسائل بھی یکساں ہوتے ہیں۔ اولاد کی شادیاں‘ پوتے پوتیاں‘ نواسے نواسیاں‘ پیچھے گاؤں میں چھوڑے ہوئے کھیت اور حویلیاں‘ بیگمات کی صحت کے مسائل‘ عارضے جن میں ہم خود لاحق ہیں۔ آنکھوں میں اترتا موتیا اور اس کی سرجری۔ پروسٹیٹ کے مسائل! فلاں دوست بیمار ہے‘ فلاں یورپ یا امریکہ سدھار گیا! فلاں رخصت ہو گیا۔ ع کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں! ہم میں سے کوئی جب ملک سے باہر ہوتا ہے تو دو یا تین ملک کے اندر رہ جانے والے دوست تب بھی مل بیٹھنے کا معمول باقاعدگی سے جاری رکھتے ہیں! جو ملک سے باہر ہوتا ہے یا ہوتے ہیں‘ کوشش کرتے ہیں کہ فون کے ذریعے یا وڈیو کے ذریعے ساتھ دیں! پرانے دوستوں کا کوئی نعم البدل نہیں! ان کے ساتھ مل بیٹھنا کئی بیماریوں کا علاج بھی ہے۔ میرے مستقل قارئین کو وہ تحریر یاد ہو گی جس میں حکیم غلام رسول بھٹہ صاحب کا ذکر کیا تھا۔ (دسمبر 2024ء میں یہ کالم روزنامہ دنیا ہی میں شائع...

شدید سردی اور آم کا فراق

میلبورن میں سردی ہے! کڑاکے کی سردی! ٹمپریچر دن کے وقت چھ یا سات تک اور رات کو دو ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔ مگر اصل مسئلہ سردی نہیں! تیز طوفانی ہوا ہے جو جھکڑ کی طرح چلتی ہے۔ کم ہی ایسے دن ہوتے ہیں کہ دھوپ میں بیٹھا جا سکے۔ اسلام آباد کی جاڑوں کی دھوپ یاد آتی ہے۔ سنہری اور خواب آور دھوپ! میلبورن میں جب تیز وحشت ناک ہوا شور مچاتی ہے اور درخت جھکڑ کے زور سے کُبڑے ہونے لگتے ہیں تو سوچتا ہوں کہ برطانوی بھی کیا لوگ ہیں! دنیا کے اس آخری کنارے میں آکر آباد ہونے کی ضرورت ہی کیا تھی بھلا! لندن اور میلبورن کا درمیانی فاصلہ سترہ ہزار کلو میٹر ہے۔ اس کے باوجود انگریز یہاں نہ صرف پہنچے بلکہ آباد ہوئے۔ یہاں کے تیز جھکڑوں کو تسخیر کیا۔ میلبورن شہر کی کُل عمر 190 سال ہے! 190 برسوں میں اس شہر کو انگریزوں نے اور ان کی ذریت نے اس درجۂ کمال تک پہنچایا کہ اسے اکثر و بیشتر رہنے کیلئے دنیا کا بہترین شہر قرار دیا جاتا ہے۔ اس تعمیر و ترقی میں چینی بھی شامل رہے‘ بر صغیر سے لائے گئے شتربان بھی اور کچھ دیگر اقوام بھی‘ مگر منصوبہ بندی اور آئیڈیاز انگریز بہادر ہی کے تھے۔ پھر یہ لوگ یہاں سے بھی آگے گئے...

واہ! ہائر ایجوکیشن کمیشن ! واہ!

خدا کسی کو بُرا پڑوسی نہ دے۔ میرے پڑوسی کے گھر سے میرے گھر میں پتھر آتے ہیں‘ اینٹیں پھینکی جاتی ہیں‘ کوڑا کرکٹ گرایا جاتا ہے۔ میں اس کی منت کرتا ہوں‘ بھائی چارے کا واسطہ دیتا ہوں‘ مگر بے سود! میں نے کیا نہیں کیا اپنے پڑوسی کے لیے۔ جب بھی اسے ضرورت پڑی‘ میں فوراً حاضر تھا۔ تھانے کچہری میں ہمیشہ اس کے ساتھ گیا۔ جب کھانے کے لیے اس کے گھر میں کچھ نہ تھا‘ میں نے خوراک بھیجی۔ بیمار ہوا تو اسے ہسپتال لے کر گیا۔ ادویات پہنچائیں۔ اس کے گھر پر دشمنوں نے قبضہ کیا تو اس کی خاطر اُن سے لڑا۔ اس کی چھت گر گئی تو اسے اپنے ہاں پناہ دی۔ لیکن اس کے رویے میں کبھی تبدیلی نہیں آئی۔ وہ مجھ سے مسلسل فائدہ اٹھاتا ہے اور مجھے مسلسل نقصان پہنچاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس نے سانپ پالے ہوئے ہیں اور یہ زہریلے سانپ میرے گھر بھیجتا ہے۔ بدترین پڑوسی کسی نے دیکھنا ہو تو اسے دیکھے۔ امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہ کا یہ فرمان کہ جس پر احسان کرو‘ اس کے شر سے بچو‘ اس پڑوسی پر ایک سو ایک فیصد صادق آتا ہے۔ میں اس پر احسان کیے جا رہا ہوں۔ وہ میرے رخسار پر تھپڑ مارتا ہے تو میں اسے دوسرا رخسار پیش کرتا ہوں۔ اب تو نوبت یہاں تک ا...

شیخ غلام درہم کا جنازہ اور تدفین

اس کا معمول تھا کہ ہر ہفتے‘ نمازِ جمعہ ادا کر نے کے بعد‘ قبرستان جاتا۔ اپنے والد کی قبر کے پاس بیٹھ کر تلاوت اور دعاکرتا۔ پھر باقی اعزہ واقارب کی قبروں پر فاتحہ پڑھتا۔ کچھ قبروں پر سبز ٹہنیاں لگاتا۔ جو مزدور قبرستان میں صفائی کر رہے ہوتے‘ ان کی مالی امداد کرتا۔ قبرستان میں اسے ایک عجیب سا‘ پُراسرار سا‘ سکون حاصل ہوتا۔ دل تو اس کا چاہتا تھا کہ ہر روز اس خاموش بستی میں آئے‘ اس کے تنگ راستوں اور پگڈنڈیوں پر چلے‘ مزدوروں سے بات چیت کرے اور قبروں پر کھڑے ہو کر فاتحہ خوانی کرے مگر زندگی کی مکروہات ہفتے میں صرف ایک بار ہی اس کام کی اجازت دیتیں۔ جس جمعے کی بات میں کر رہا ہوں‘ اُس دن گرمی زوروں پر تھی۔ دھوپ تیز تھی۔درجہ حرارت چالیس سے کافی اوپر تھا۔ گلیاں سنسان تھیں۔ بیوی نے مشورہ دیا کہ قبرستان مغرب کے بعد چلا جائے مگر وہ ان لوگوں میں سے تھا جو اپنے معمولات میں رد وبدل برداشت نہیں کرتے۔ نماز کے بعد وہ حسبِ معمول سیدھا قبرستان پہنچا‘ تلاوت کی‘ فاتحہ خوانیاں کیں‘ مزدوروں کو پیسے دیے‘ پھر قبروں کے درمیان بنے ہوئے راستوں پر چلنے لگا۔ ایک کنارے پر چند نئی قبریں دکھائی دیں۔ نئی قبروں کے درمیان ایک ...

راجواڑے‘ امریکہ اور بھارت

کتے کتیا کی شادی تھی۔ بہت بڑی تقریب ہوئی۔ بہت سے راجے‘ مہاراجے‘ نواب مدعو کیے گئے۔ خصوصی ٹرین چلائی گئی۔ انگریز افسر بھی بلائے گئے۔ لاکھوں کروڑوں روپے خرچ ہوئے۔ یہ کوئی افسانہ نہیں۔ اصل میں ایسا ہی ہوا تھا۔ ہندوستان میں پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی کا اقتدار تھا‘ 1857ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعد ملکہ برطانیہ کی حکمرانی براہِ راست در آئی۔ دونوں ادوار میں کچھ ریاستیں اور راجواڑے زندہ رکھے گئے۔ بڑی چھوٹی ریاستیں کل ملا کر پونے چھ سو کے لگ بھگ تھیں۔ حیدرآباد‘ پٹیالہ‘ کپور تھلہ‘ بہاولپور‘ خیرپور‘ گوالیار‘ میسور‘ ملیر کوٹلہ‘ سوات‘ الوَر‘ بیکانیر‘ جے پور اور کئی سو دوسری!! یہ ''آزادی‘‘ برائے نام تھی۔ ہر ریاست میں ایک انگریز افسر تعینات تھا۔ اسے ریزیڈنٹ کہتے تھے اور اس کی قیامگاہ کو ریزیڈنسی!! ریزیڈنسی عام طور پر ایک عالی شان عمارت ہوتی تھی اس لیے کہ یہ انگریزی اقتدار کی علامت تھی۔ اہم فیصلے یہیں ہوتے تھے۔ اصل اور حقیقی حکمران یہی ریزیڈنٹ تھے۔ جانشینی کا فیصلہ بھی ریزیڈنٹ ہی کرتا تھا۔ ریزیڈنٹ مقامی راجہ یا نواب کی کڑی نگرانی کرتا تھا کہ کوئی کام ایسا نہ ہو جو انگریز سرکار کے مفادات کے خلاف...