اشاعتیں

2025 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

ثمرین حسین اور تابندہ بتول

زمین ظلم سے بھر گئی ہے۔ آسمان سے پتھر کیوں نہیں برس رہے؟ قانون کے یہ کیسے رکھوالے ہیں جو خود قانون کی دھجیاں اڑا رہے ہیں! جن کے اپنے گھروں میں قانون کی حیثیت اُس چیتھڑے سے زیادہ نہیں جس سے جوتے صاف کیے جاتے ہیں‘ وہ خلق خدا کو کیا انصاف دیں گے۔ ایسے واقعات کی تعداد ہولناک رفتار سے بڑھ رہی ہے جن میں طاقتور افراد عام شہریوں کو ہلاک کر رہے ہیں اور قانون ان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ یہ ملک ایسی چراگاہ بن چکا ہے جہاں بھیڑوں کے رکھوالے بھیڑوں کو چیر پھاڑ رہے ہیں۔ ریاست ان کے سامنے بے بس ہے۔ قانون ان کے بوٹوں کا تسمہ ہے۔ پولیس چاہے بھی تو اس کے ہاتھ بندھے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہ انصاف کی مسندوں پر براجمان ہیں۔ کچھ بھی نہیں ہو گا! کچھ بھی نہیں! پیر کی رات‘ وفاقی دارالحکومت کی شاہراہ دستور پر‘ اندھا دھند رفتار سے کروڑوں کی شاہانہ گاڑی چلانے والے سولہ سالہ چھوکرے نے جن دو بہنوں کو گاڑی کے نیچے دے کر ہلاک کیا ہے‘ ان دو بہنوں کو انصاف نہیں ملے گا۔ لکھ لیجیے کہ نہیں ملے گا۔ اس لیے کہ آج تک یہاں کسی طاقتور کو سزا نہیں دی گئی۔ کیا مجرم کے والد محترم‘ جو خود بڑے عہدے ...

سی ڈی اے کا مزید شکریہ

اگر عزیزِ گرامی رؤف کلاسرا جیسے مشہور‘ کہنہ مشق صحافی اور نبیل گبول صاحب جیسے معروف سیاستدان کا فون بھی چیئرمین سی ڈی اے نہیں سنتے تو ہما و شما کس زعم میں ہیں! صرف چیئرمین ہی نہیں‘ پورا سی ڈی اے وہ معشوق ہے جو فریاد سنتا ہے نہ جواب دیتا ہے۔ بس اپنے حسن پر فریفتہ ہے اور خود ہی فریفتہ ہے۔ چند ہفتے پہلے سی ڈی اے کے ممبر Environments (ماحولیات) سے رابطہ کرنے کی اذیت سے گزرنا پڑا۔ ان کے سٹاف سے کہا کہ بات کرائیں۔ بتایا گیا کہ میٹنگ میں ہیں۔ اب یہ میٹنگ والا سدا بہار نسخہ ہر موقع پر استعمال ہوتا ہے۔ گھر میں بیٹھے ہیں تو جواب ہوتا ہے کہ میٹنگ کے لیے گئے ہیں‘ دفتر میں بیٹھے چائے پی رہے ہیں تو جواب ہوتا ہے کہ اندر میٹنگ چل رہی ہے۔ خیر! سٹاف سے کہا کہ میٹنگ سے واپس آجائیں تو بات کرا دیں۔ سٹاف نے پوچھا کہ ''آپ کیا ہیں؟‘‘۔ اس کا درست جواب تو یہ تھا کہ میں ایک شہری ہوں جس کے ادا کردہ ٹیکس سے ممبر صاحب کو تنخواہ اور مراعات مل رہی ہیں۔ مگر پاکستان میں ایسا کہنا نہ صرف یہ کہ کوئی وزن نہیں رکھتا بلکہ وزن کو گھٹا دیتا ہے‘ اور اتنا گھٹاتا ہے کہ وزن صفر سے بھ...

ہم اور اسلام کا اصل چہرہ

''ہم پوری دنیا کو اسلام کا اصل چہرہ دکھانا چاہتے ہیں۔ ہمیں قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگیوں کو اس طرح ڈھالنا ہے کہ ہم دنیا کو اسلام کا صحیح چہرہ دکھانے کیلئے خود کو اس قابل بنا سکیں کہ ہم زبان سے دعوت دینے کے بجائے انہیں اپنے کردار سے دعوت دے سکیں‘‘۔ یہ قابلِ تحسین بیان ہمارے مذہبی امور کے وفاقی وزیر صاحب کا ہے۔ ماشاء اللہ! بہت خوش آئند عزم ہے۔ ہر اچھے مسلمان کی یہی خواہش ہے۔ ہم بھر پور تائید کرتے ہیں۔ تائید سے ایک قدم آگے بڑھ کر ہم اس نیک کام میں ان کی معاونت کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری تجویز ہے کہ جب دنیا کو اسلام کا اصل چہرہ دکھائیں تو رائیونڈ کے محلات ضرور دکھائیے گا اور مختلف شہروں میں بنے ہوئے زرداری ہاؤس بھی! ایک جھلک لندن کے فلیٹوں کی بھی! اور ابھی آپ نے بڑی شخصیات کو جو عدالتی استثنا دیا ہے‘ اس سے بھی ضرور دنیا کو آگاہ کیجیے گا۔ اور اگر دنیا کہے کہ خلفائے راشدین حکمران ہوتے ہوئے بھی عدالتوں میں پیش ہوتے رہے‘ تو بحث میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں! دنیا کو کیا معلوم کہ آج کیا درست ہے اور کیا نادرست! ان بابوں کو بھی ضرور دکھائیے گا جو ملک ک...

افغانستان کے بگاڑ میں ہمارا حصہ

کہسار مارکیٹ وفاقی دارالحکومت کا ایک معروف لینڈ مارک ہے۔ (یہیں پر ایک قتل بھی ہوا تھا)۔ تین چار ہفتے پہلے کسی کام سے وہاں جانا ہوا۔ پارکنگ میں ایک مشکوک سا شخص گھوم پھر رہا تھا۔ بلاشک و شبہ وہ افغان تھا۔ پارکنگ کے گارڈ سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ وہ مسکرایا مگر خاموش رہا۔ میں نے افغان سے پوچھا کہ افغان ہو؟ کہنے لگا: نہیں! پنجابی ہوں۔ میں نے کہا کہ شناختی کارڈ تو دکھاؤ۔ اس نے فوراً جیب سے شناختی کارڈ نکالا اور میری آنکھوں کے سامنے کر دیا۔ شناختی کارڈ کے اعتبار سے وہ خوشاب ضلع کے ایک گاؤں سے تھا۔ اب میں نے اس سے خوشاب کی ٹھیٹھ پنجابی میں بات کی مگر وہ مسلسل افغان زدہ اردو میں بات کرتا رہا اور بالکل نہ مانا کہ وہ افغان ہے۔ میں نے اسے اس کے حال پر چھوڑا‘ اپنا کام نبیڑا اور گھر واپس آگیا۔ دوسرے دن ایک اور واقعہ پیش آیا جو اس سے بھی زیادہ حیران کن تھا! میں اپنی ایک قریبی عزیزہ کے گھر گیا ہوا تھا۔ اس وقت اس کے ہاں اس کی ملازمہ بھی تھی۔ عزیزہ نے بتایا کہ اس پنجابی عورت کا داماد افغان ہے۔ یہ رو دھو رہی ہے کہ وہ رُوپوش ہے‘ سامنے آیا تو افغانستان بھیج دیا جائے گا۔ رو دھو اس لیے رہی ت...

ہم پاکستانی ایک ناشکرگزار قوم ہیں

اس زمین کے اوپر اور اس آسمان کے نیچے پاکستانی قوم سے زیادہ ناشکر گزار قوم کوئی نہیں! مارشل لاء کے نام پر جمہوریت کا پہلا پودا لگایا تو اسکندر مرزا نے تھا مگر اسے تناور درخت ایوب خان نے بنایا۔ اس قوم کو آج تک یہی بات سمجھ میں نہ آئی کہ اصل جمہوریت ایوب خانی عہد ہی میں تھی۔ سیاستدانوں کی کردار کشی اور تذلیل کر کے اس نے قوم پر احسان کیا اور قوم ہے کہ اسے آمر کے طور پر یاد کرتی ہے۔ جنرل ضیاالحق ہی کو لے لیجیے۔ اتنا عظیم الشان شخص تھا کہ اس نے ہماری تاریخ بدل ڈالی۔ افغانوں کو پاکستان میں لاکر ہماری آبادی بڑھائی۔دنیا میں اسلحہ اور منشیات کے حوالے سے ہمارا نام مشہور ہوا۔ ملک کو نئی شناخت ملی۔ آپ خود انصاف کیجیے کیا دہشت گردی کے ذکر سے دنیا والوں کے ذہن میں کسی اور ملک کا نام آتا ہے؟ ہماری اہمیت بڑھی! یہ جو آج ملک کے اطراف واکناف میں افغان بھائی پھیلے ہوئے ہیں اور حکومت کی کوششوں کے باوجود ہمیں چھوڑ کر جانا نہیں چاہتے اور ہمارے ہجر کا سوچ کر تڑپنے لگتے ہیں‘ یہ سب جنرل ضیاالحق ہی کی وجہ سے ہے۔ مگر ہم اتنے ناسپاس ہیں کہ کبھی اسے 'ضیاع الحق‘ کہتے ہیں اور کبھی ڈکٹیٹر! ہم ایس...

پاکستانی سیاست اور مڈل کلاس

سیاست میں داخل ہونے والی مڈل کلاس کا بھانڈا سب سے پہلے ایم کیو ایم نے پھوڑا! ہم جیسے مڈل کلاسیوں نے جب ہوش سنبھالا تو تجربہ بھی محدود تھا اور خیالات بھی ناپختہ۔ ہم جیسے لاکھوں طالب علموں نے نوٹ کیا کہ سیاست پر وہ لوگ حاوی ہیں جو امرا کے طبقے سے ہیں۔ ان امیر سیاستدانوں کی اکثریت عوام کے ساتھ مخلص نہیں! کبھی پارٹیاں بدلتے ہیں اور کبھی پارٹیاں بناتے ہیں۔ ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ مسائل کا حل ایک ہی ہے۔ وہ یہ کہ مڈل کلاس سیاست میں آئے۔ اس رائے یا اس آرزو کی تہہ میں یہ مفروضہ کارفرما تھا کہ مڈل کلاس سیاست میں آئے گی تو سیاست شخصیات کے بجائے نظریات کو اہمیت دے گی۔ شخصی اور ذاتی وفاداری سے سیاست پاک رہے گی اور مڈل کلاس مڈل کلاس رہ کر ہی عوام کی خدمت کرے گی! مگر یہ سب سراب تھا۔ خام خیالی تھی! خوش فہمی تھی! غلط فہمی تھی! مڈل کلاس کا پرچم سیاست میں سب سے پہلے ایم کیو ایم نے لہرایا۔ یاد رہے کہ ایم کیو ایم ردعمل میں بنی تھی۔ جب الطاف حسین اور اس کے ساتھیوں نے کراچی یونیورسٹی میں All Pakistan Muhajir Students Organization (APMSO) کا ڈول ڈالا تو اس وقت یونیورسٹی میں طلبہ کی کم وبیش پندرہ طلبہ تنظی...

ساتویں صدی عیسوی کی ایک خاتون سے ملاقات

میں جس شہر میں رہتا ہوں اس کے قبرستان میں تین قبریں ہیں جن کے لیے میں قبرستان جاتا ہوں۔ پہلی والد گرامی مرحوم کی۔ دوسرے میرے بیٹے محمد مظہر الحق کی‘ جو تین ماہ کی عمر میں چل بسا تھا اور جس کی یاد میں مَیں نے ایک دردناک نظم کہی تھی۔ تیسری میری بڑی بہن کی خوشدامن صاحبہ کی‘ جو رشتے میں ہماری نانی بھی ہوتی تھیں۔ میرے لڑکپن میں ان کی صحت اچھی تھی‘ حقہ پیا کرتی تھیں۔ ہمارے علاقے میں حقے کو چلم کہتے ہیں۔ خیبر پختونخوا کی طرح‘ چلم بالکل الف کی طرح سیدھی ہوتی ہے۔ اس کے نچلے حصے میں پانی ہوتا ہے۔ میں نے ان کی چلم میں مٹی کا تیل ڈال دیا تھا۔ انہوں نے تمباکو پر جلتی ہوئی دیا سلائی رکھی تو چلم میں آگ بھڑک اٹھی۔ گاؤں کے قبرستان کے برعکس یہ ایک منظم قبرستان ہے‘ پلاٹوں کے نمبر ہیں‘ پھر ہر پلاٹ میں قبروں کے نمبر الگ ہیں‘ پلاٹ نمبر اور قبر نمبر کی مدد سے کسی بھی قبر کو تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اس قبرستان میں میرے ساتھ عجیب و غریب واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ ان واقعات کے حوالے سے وقتاً فوقتاً کالم بھی لکھتا رہا۔ یہیں ایک مردے سے ملاقات ہوئی تھی‘ جو شاہجہان کے زما...

وہم اور وسوسے برائے فروخت

خاتون نے شادی کی! کچھ عرصہ بعد میاں بیمار پڑ گئے۔ ہسپتال والوں نے خاتون سے میاں کی میڈیکل ہسٹری پوچھی۔ خاتون کو کچھ علم نہ تھا۔ خاتون کے اپنے الفاظ میں: ''وہ ہسپتال والے مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ ان کے دل میں پیس میکر پڑا ہوا ہے یا سٹنٹ؟ مجھے پتا ہی کچھ نہیں کہ ان کے دل میں پہلے کیا پڑا ہوا ہے یا کتنی سرجریز ہو چکی ہیں؟ کیو نکہ یہ ان کے دل کا تیسرا شدید دورہ تھا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ تو مجھے پتا ہی نہیں تھا کہ پہلے دو شدید دورے پڑ چکے ہیں‘‘۔ لطیفہ کہیے یا مذاق کہ یہ خاتون‘ جنہیں اپنے رفیقِ زندگی کے دل کے متعلق‘ جن کے ساتھ زندگی گزار رہی تھیں‘ کچھ معلوم نہ تھا‘ ساری دنیا کو مستقبل کے حالات بتاتی پھرتی ہیں! اپنے مستقبل کے بارے میں تجسس خلقِ خدا کی بہت بڑی کمزوری ہے! اس کمزوری سے صرف وہی لوگ بچے ہوئے ہیں جنہیں خدا پر پختہ ایمان ہے یا اپنے آپ پر یقین ہے! اس کمزوری سے نجومی‘ پامسٹ اور علم الاعداد کا دعویٰ کرنے والے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ضعیف الاعتقاد لوگ ان کے پاس جاتے ہیں۔ کوئی پوچھتا ہے کارو بار میں کامیابی کب ملے گی! کوئی پوچھتا ہے شادی کب ہ...

نوے سالہ لیجنڈ … (2)

مسافروں سے بھری بس کسی سٹاپ پر یا ریلوے پھاٹک پر یا پُل پر رکتی تھی تو اس میں کوئی نہ کوئی پھیری والا آ جاتا تھا۔ کوئی دانتوں کی دوا بیچنے والا یا سرمہ فروخت کرنے والا! یہ ہمارے قصباتی کلچر کا حصہ تھا۔ وہ اپنی شے بیچنے کیلئے فصیح و بلیغ تقریر کرتا تھا۔ مسافر سنتے تھے۔ کچھ سادہ لوح اس کی شے خرید لیتے تھے۔ باقی اس کی تقریر سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ انور مسعود صاحب نے اپنی مشہور نظم ''جہلم دا پُل‘‘ میں اس مٹتے ہوئے کلچر کو محفوظ کر لیا ہے۔ ان کا مشاہدہ غضب کا ہے۔ اس میں ایک جنتری بیچنے والا بھی ہے۔ آج کی نسل کو نہیں معلوم جنتری کس چڑیا کا نام تھا۔ نئے سال کی جنتری تقریباً ہر گھر میں ہوتی تھی۔ میرے دادا جان بھی باقاعدگی سے منگواتے تھے اور میں اسے دلچسپی سے پڑھا اور دیکھا کرتا تھا۔ جنتری میں کیا کیا معلومات ہوتی تھیں؟ انور صاحب کی زبانی سنیے: ایہدے وچ لکھیا اے جس ویلے لگنا اے چن نو گرہن کدوں کس ویلے لگنا اے روزیاں دے وچ گھگھو کہیڑے ویلے بولنا اے کنے وَجے رکھنا اے تے کہیڑے ویلے کھولنا اے ڈیوڑھا کنا لگدا‘ سوایا کنا لگدا اے لاہور تو کراچی دا کرایہ کنا لگدا اے تے مومنو ق...

نوے سالہ لیجنڈ

برج نرائن چکبست کا مشہور شعر ہے: اس کو ناقدریٔ عالم کا صلہ کہتے ہیں؍ مر گئے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا مگر انور مسعود کے بچوں نے ایسا نہیں ہونے دیا! انور مسعود صاحب نوّے برس کے ہوئے تو ان کے بچوں اور بچوں کے بچوں نے ایک یادگار تقریب منعقد کی۔ اس میں اسلام آباد کی ادبی اور سماجی شخصیات تو مدعو تھیں ہی‘ لاہور سے سہیل احمد (عزیزی) بطورِ خاص تشریف لائے۔ انور صاحب کے فرزند‘ کالم نگار اور میڈیا پرسن‘ عمار مسعود نے شگفتہ انداز میں نظامت کی۔ شنیلہ عمار مسعود نے اپنے بابا کے فن پر ڈاکیومنٹری پیش کی۔ دوسری بہو‘ روشین عاقب‘ جو امجد اسلام امجد کی صاحبزادی ہیں‘ اس تقریب کے انتظام وانصرام میں پیش پیش تھیں! انور صاحب کی زبان ذکرِ الٰہی سے تر رہتی ہے۔ ان پر خدا کا خصوصی کرم ہے۔ دنیا بھر میں مقبولیت تو ہے ہی‘ ان کے بچے‘ بہوئیں اور داماد ان پر جان چھڑکتے ہیں! میرا اعزاز کہ اس تاریخی فنکشن میں مَیں بھی شریک تھا اور جن چند افراد نے انور مسعود کے حوالے سے گفتگو کی ان میں بھی شامل تھا!! والد گرامی مرحوم‘ حافظ محمد ظہور الحق ظہور فارسی کے شاعر استاد اور س...

اسلام آباد … بدقسمت دارالحکومت!

ہمارے دوست اور معروف کالم نگار جناب جاوید چودھری نے وفاقی دار الحکومت کی حالتِ زار پر ایک اور کالم لکھ ڈالا ہے۔ کالم پڑھنے کے بعد مسلسل یہ شعر گنگنا رہا ہوں: بہروں کی انجمن میں نہ گا درد کی غزل اندھوں کو مت دکھا یہ گریباں پھٹا ہوا اس حوالے سے انہی صفحات پر میں نے بھی بہت گریہ و ماتم کیا ہے! دہائیاں دی ہیں! مگر بیورو کریسی وہ معشوق ہے جس پر کسی آہ و زاری کا اثر نہیں ہوتا! بقول ذوق: یاں لب پہ لاکھ لاکھ سخن اضطراب میں واں ایک خامشی تری سب کے جواب میں سوال یہ ہے کہ وفاقی دارالحکومت کا حال خستہ‘ شکستہ اور قابلِ رحم کیوں ہے؟ یہ شہر شہرِ نا پرساں کیوں ہے؟ آئیے اس کی وجہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سوویت یونین کے زمانے میں ایک اصطلاح رائج تھی: Behind the iron curtain‘ یعنی آہنی پردے کے پیچھے! دوسری عالمی جنگ کے بعد سوویت یونین نے مشرقی یورپ کے ملکوں کو اپنے حصار میں لے لیا۔ ان ملکوں میں مشرقی جرمنی‘ چیکو سلواکیہ‘ یوگو سلاویہ‘ پولینڈ‘ ہنگری اور رومانیہ وغیرہ شامل تھے۔ یہ ممالک آمریت کے مضبوط پنجے میں جکڑے ہوئے تھے۔ کوئی خبر باہر سے آ سکتی ت...

گلاس آدھا بھرا ہوا بھی تو ہے!!

گاڑی دو رویہ شاہراہ پر چلے جا رہی تھی کہ سامنے ایک خوبصورت چوک آ گیا۔ ہریالی سے بھرا ہوا۔ اس پر بڑا سا بورڈ نصب تھا ''چاول اور نہروں کا شہر‘‘!! ستم ظریفی یہ تھی کہ یہ خوش کن بورڈ فرنگی زبان میں تھا! اس کالم نگار کی پھپھو تو کوئی تھی ہی نہیں! خالہ تھیں مگر میری پیدائش سے پہلے ہی چل بسیں! ننھیالی گاؤں کی ایک ہندو خاتون امی جان کی قریبی دوست تھیں اور ان کی شادی پر شہ بالی بنی تھیں۔ اگر وہ یہاں رہتیں تو میں یقینا انہیں خالہ کہتا اور سمجھتا! مگر میری پیدائش سے تقریباً ایک برس پہلے ہندوستان تقسیم ہوا اور وہ بھارت سدھار گئیں! یوں میں خالہ اور پھپھی دونوں کے پیار سے محروم رہا۔ جب دیکھتا ہوں کہ میرے بچوں کی خالائیں انہیں کتنا پیار کرتی ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ یہ رشتہ کتنا شیریں ہے! ان کی خالائیں ان کے لیے سویٹر بُنتی تھیں‘ تحائف لاتی تھیں۔ بڑی بہن جب میرے بچوں پر شفقت نچھاور کرتی ہیں تو سوچتا ہوں کہ کوئی پھپھو ہوتیں تو مجھ سے ایسا ہی پیار کرتیں! میرے اس پس منظر کے ساتھ جب بیگم نے بتایا کہ ان کے خالہ زاد بھائی کا انتقال ہو گیا ہے تو انہیں کہا کہ ہمیں تعزیت کیلئے وہاں ...

کچھوا‘ بچھو اور طالبان

افغانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لڑائی کرنے کے علاوہ انہیں اور کچھ آتا نہیں۔ غلام محمد قاصر مرحوم کا یہ شعر زبان زدِ خاص و عام ہے: کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا افغان ہمیشہ کسی نہ کسی سے برسرِ پیکار رہتے ہیں۔ کوئی اور میسر نہ ہو تو آپس میں جنگ شروع کر دیتے ہیں۔ یہ ان کی فطرت ہے۔ بچپن میں ایک فارسی حکایت پڑھی تھی۔ بچھو نے دریا پار کرنا تھا۔ تیرنا اسے آتا نہیں تھا۔ سوچنے لگا کیا کروں؟ اتنے میں دیکھا کہ کچھوا آ رہا ہے۔ پوچھا: بھائی کچھوے! دریا کے پار جا رہے ہو تو مجھے پیٹھ پر بٹھا لو۔ کچھوا کہنے لگا: تم نے مجھے ڈنک مارا تو میں مر جاؤں گا۔ بچھو نے بڑی مضبوط دلیل پیش کی۔ کہنے لگا: ڈنک مارنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اس لیے کہ تم مر گئے تو میں بھی تو ڈوب جاؤں گا۔ کچھوا مطمئن ہو گیا۔ اس نے بچھو کو پیٹھ پر بٹھایا اور دوسرے کنارے کی طرف چل پڑا۔ دریا کے عین درمیان میں بچھو نے اپنے محسن‘ کچھوے کی پیٹھ پر ڈنک مارا۔ کچھوا درد سے بلبلا اٹھا اور چلایا: ظالم یہ تُو نے کیا کیا۔ بچھو عاجزی سے کہنے لگا کہ کچھوے بھائی! میں نے اپنے آپ کو اس کام سے بہ...

ہم حدِّ فاصل ہیں!

نانیاں دادیاں گیت گاتی رہیں: وڈے دی موٹر‘ نِکّے دی کار ضرور ہووے اور جب پوتے اور نواسے موٹریں اور کاریں لائے تو وہ منوں مٹی کے نیچے جا چکی تھیں۔ کیسے مشکل وقت تھے جو ہمارے بزرگوں نے بسر کیے۔ دمکتی گاڑیوں میں بیٹھ کر سکول جانے والی‘ گھروں میں برگر ڈلیور کروانے والی نسل کو کیا معلوم کہ زندگی کیا تھی اور کیسی تھی۔ آج اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ سردیوں میں ہیٹر تھے نہ گرمیوں میں پنکھے! پنکھیاں جھلتی بانہیں پتلی تھیں مگر شیر خوار پوتوں اور نواسوں کو گھنٹوں نہیں‘ پہروں دستی پنکھی کی ہوا دیتے یہ پتلی باہیں تھکتی نہ تھیں۔ جاڑوں میں بچی کھچی آگ کے انگارے انگیٹھی میں ڈال کر اندر لے آتیں۔ بچوں کو کبھی کھیس میں لپیٹتیں کبھی لحاف میں۔ اُس وقت کوکنگ رینج کے نخرے ناپید تھے۔ مٹی کے چولہوں میں لکڑیاں جلاتیں یا اُپلے۔ آگ جلانے کیلئے منہ سے پھونکیں دیتیں! آنکھیں دھویں سے اَٹ جاتیں۔ مگر اپنے بچوں کے لیے پراٹھے‘ انڈے‘ حلوے‘ زردے‘ پلاؤ‘ مرغ‘ مرنڈے اور کیا کیا پکوان پکاتی رہتیں! کیا انتھک تھیں ہماری دادیاں نانیاں! دیواروں کے ساتھ چارپائیاں رکھ ک...

نمک حلال

افغانوں کی ایک بات مجھے بہت پسند ہے۔ وہ یہ کہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے ہیں۔ اب پاکستان ہی کو دیکھ لیجیے۔ کون سی برائی ہے جو پاکستان نے افغانوں کے ساتھ نہیں کی۔ سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان نے اپنی سرحدیں افغانوں کیلئے کھول دیں۔ انہیں پناہ دی۔ سوچئے! کتنی بڑی برائی تھی جو پاکستان نے کی۔ ایران نے افغانوں کو خاردار کیمپوں میں رکھا مگر پاکستان میں پورا ملک ان کیلئے کیمپ کی طرح تھا۔ گلگت سے لے کر کراچی تک اور لاہور سے لے کر کوئٹہ تک‘ ہر جگہ افغان ٹڈی دَل کی طرح پھیل گئے۔ پاکستان نے ایک اور برائی یہ کی کہ افغانوں کو ہر طرح کے کاروبار کی اجازت دے دی۔ ٹرانسپورٹ کا کام‘ کپڑے کی خرید و فروخت‘ رئیل اسٹیٹ‘ امپورٹ ایکسپورٹ‘ تعمیرات‘ ٹھیکے۔ کون سا کاروبار ہے جو افغانوں نے پاکستان میں رہ کر پاکستانیوں سے نہیں چھینا۔ احسان شناسی اور وفاداری ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ پنجاب کے ایک بڑے شہر کا واقعہ ہے۔ پوری مارکیٹ افغان دکانداروں کی تھی‘ صرف ایک دکاندار مقامی تھا۔ اسے انہوں نے قتل کر دیا۔ ہے نا احسان شناسی!! موجودہ افغان حکمران سالہا سال بلک...

بھیڑیے اور میمنے کے مابین معاہدہ

بالآخر بھیڑیے اور میمنے کے مابین معاہدہ طے پا گیا۔ بھیڑیا میمنے کا پورا خاندان ہڑپ کر چکا تھا۔ میمنے کے ماں باپ‘ بہن بھائی‘ اعزّہ واقربا سب ختم ہو چکے تھے۔ اب میمنا ہی باقی تھا۔ بھیڑیے نے دیکھا کہ کھانے کے لیے صرف میمنا بچا ہے تو اس نے میمنے کے سامنے معاہدہ رکھ دیا۔ بھیڑیے نے اپنی غار میں جا کر آئینہ دیکھا۔ اپنے بڑے بڑے دانتوں کا معائنہ کیا۔ ان مہیب دانتوں کے لیے میمنا اسی طرح تھا جس طرح اونٹ کے منہ میں زیرہ! میمنے کو ہڑپ کرنا گناہِ بے لذت کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ اس سے تو داڑھ بھی گیلی نہیں ہونی تھی۔ اس لیے بھیڑیے کو مناسب یہی لگا کہ میمنے سے معاہدہ کر لیا جائے۔ اس طرح کچھ وقت مل جائے گا۔ بھیڑیے اور میمنے کے درمیان یہ معاہدہ شیر نے کرایا ہے۔ شیر اور بھیڑیا ایک ہی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ گوشت خور برادری! گوشت خور برادری ایک متحد اور منظم برادری ہے۔ بظاہر اونچ نیچ ہو جائے تو بھی گوشت خور اندر سے ایک ہی ہوتے ہیں۔ ہرن ہو یا بکری یا بھیڑ‘ نیل گائے ہو یا زرافے کا بچہ‘ سب گوشت خور برادری کی خوراک ہیں۔ گوشت خور مخلوق سیاست اور چالاکی میں اپنی مثال نہیں رکھتی۔ زرافے کے ب...

ہمارا اوچھا پن …(2)

جب تک مغلوں کے ہاتھ میں تلوار رہی اور جب تک وہ گھوڑے کی پیٹھ پر رہے‘ ان کی خوراک سادہ رہی اور سادہ نہیں بھی تھی تو مختصر ضرور تھی۔ جدوجہد کی زندگی میں تکلفات‘ لوازمات اور نزاکتوں کی گنجائش نہیں ہوتی۔ عباس تابش نے کمال کا شعر کہا ہے: حالتِ جنگ میں آدابِ خور و نوش کہاں اب تو لقمہ بھی اٹھاتا ہوں میں تلوار کے ساتھ بابر‘ اکبر اور ہمایوں کی زندگی سلطنت کو استحکام دیتے گزر گئی۔ جہانگیر نور جہاں کے چنگل میں ایسا پھنسا کہ خود ہی کہہ دیا کہ شراب اور تھوڑے سے گوشت کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے۔ شاہ جہان کو بیماریوں نے گھیرے رکھا۔ آخری آٹھ برس نظربندی میں گزار دیے۔ روایت ہے کہ قید کے ایام میں زیادہ تر مسور کی دال کھاتا تھا کہ اس میں‘ بقول کسے‘ زہر نہیں حل ہوتا۔ دلچسپ حقیقت یہ بھی ذہن میں رہے کہ نیکوکار اور پارسا اورنگزیب باپ کے آخری آٹھ برسوں میں اسے ایک بار بھی نہ ملا۔ رہا خود اورنگزیب تو آخری پچیس سال دکن کے میدانوں میں مسلسل برسر پیکار رہا۔ باجرے کا دلیا‘ سپاہیوں کے ساتھ ہی کھاتا تھا۔ (یہی آخری پچیس سال سلطنت کے زوال کا باعث بنے)۔ اورنگزیب کے بعد کا زمانہ مسل...