کالم

سی ڈی اے کا مزید شکریہ

اگر عزیزِ گرامی رؤف کلاسرا جیسے مشہور‘ کہنہ مشق صحافی اور نبیل گبول صاحب جیسے معروف سیاستدان کا فون بھی چیئرمین سی ڈی اے نہیں سنتے تو ہما و شما کس زعم میں ہیں! صرف چیئرمین ہی نہیں‘ پورا سی ڈی اے وہ معشوق ہے جو فریاد سنتا ہے نہ جواب دیتا ہے۔ بس اپنے حسن پر فریفتہ ہے اور خود ہی فریفتہ ہے۔ چند ہفتے پہلے سی ڈی اے کے ممبر Environments (ماحولیات) سے رابطہ کرنے کی اذیت سے گزرنا پڑا۔ ان کے سٹاف سے کہا کہ بات کرائیں۔ بتایا گیا کہ میٹنگ میں ہیں۔ اب یہ میٹنگ والا سدا بہار نسخہ ہر موقع پر استعمال ہوتا ہے۔ گھر میں بیٹھے ہیں تو جواب ہوتا ہے کہ میٹنگ کے لیے گئے ہیں‘ دفتر میں بیٹھے چائے پی رہے ہیں تو جواب ہوتا ہے کہ اندر میٹنگ چل رہی ہے۔ خیر! سٹاف سے کہا کہ میٹنگ سے واپس آجائیں تو بات کرا دیں۔ سٹاف نے پوچھا کہ ''آپ کیا ہیں؟‘‘۔ اس کا درست جواب تو یہ تھا کہ میں ایک شہری ہوں جس کے ادا کردہ ٹیکس سے ممبر صاحب کو تنخواہ اور مراعات مل رہی ہیں۔ مگر پاکستان میں ایسا کہنا نہ صرف یہ کہ کوئی وزن نہیں رکھتا بلکہ وزن کو گھٹا دیتا ہے‘ اور اتنا گھٹاتا ہے کہ وزن صفر سے بھی کم ہو جاتا ہے۔ اپنا منصب بتانا کبھی اچھا نہیں لگا۔ ایسا کرنا ہمیشہ عامیانہ حرکت لگی! جس زمانے میں جی ایچ کیو میں چیف کنٹرولر ملٹری اکاؤنٹس (سی سی ایم اے) تھا‘ ایک سفر کے دوران ایک صاحب سے گپ شپ ہوئی۔ پوچھنے لگے کہ کیا کرتے ہیں؟ میں نے کہا کہ سی سی ایم اے کے دفتر میں ملازمت کرتا ہوں۔ کچھ عرصہ بعد ان کا جی ایچ کیو میں آنا ہوا تو میرے دفتر بھی تشریف لائے۔ پوچھا یہاں کوئی صاحب ہیں اس نام کے‘ ان سے ملنا ہے۔ انہیں بتایا گیا کہ وہی تو سی سی ایم اے ہیں۔ کہنے لگے کہ وہ سی سی ایم اے نہیں ہو سکتا۔ وہ تو عام‘ دیہاتی سا بندہ تھا۔ انہیں بتایا گیا کہ اس نام کا اور کوئی شخص اس دفتر میں نہیں۔ بہر طور ملے تو شکوہ کناں تھے کہ آپ نے تو کہا تھا کہ سی سی ایم اے کے دفتر میں کام کرتے ہیں‘ مگر آپ خود ہی تو سی سی ایم اے ہیں۔ میں ہنسا اور کہا کہ یہ سی سی ایم اے کا دفتر ہی تو ہے جہاں میں کام کر رہا ہوں۔ واپس سی ڈی اے کی طرف پلٹتے ہیں! ممبر کے سٹاف نے پوچھا کہ آپ کیا ہیں تو بتایا کہ بھئی ریٹائرمنٹ سے پہلے یہ تھا اور مزید یہ کہ کام ذاتی نہیں‘ کمیونٹی کا ہے۔ دو دن کال کا انتظار کیا۔ تیسرے دن پوچھا تو سٹاف نے وہی جواب دیا کہ میٹنگ کے لیے گئے ہیں اور یہ کہ وقت ہی نہیں ملا کہ بات کرائی جائے۔ سٹاف افسر سے ذرا ''مختلف‘‘ لہجے میں بات کی تو اس نے ممبر صاحب کا موبائل نمبر عنایت کر دیا۔ اس نمبر پر پیغام دیا جس کا آج تک جواب نہیں آیا۔
ممبر صاحب کا مقفل دروازہ کیوں کھٹکھٹانا پڑا؟ یہ المناک داستان‘ بے تصویر بھی سن لیجیے۔ دارالحکومت کے وسط میں‘ سیکٹر جی سِکس فور‘ میں واقع ایک مسجد کی بغل میں سڑک کے کنارے ایک چھکڑا پڑا ہوا تھا جس میں علاقے بھر کا کوڑا کرکٹ‘ بشمول فضلہ ڈالا جاتا تھا اور ہفتوں بلکہ مہینوں پڑا رہتا تھا۔ بدبو کے بھبکے اُٹھتے تھے اور ہر طرف پھیل پھیل جاتے تھے۔ عام راہ گیر بھی اور مسجد جانے والے نمازی بھی اس حد درجہ ''معطّر‘‘ فضا سے ''لطف اندوز‘‘ ہوتے تھے۔ جن بدقسمتوں کے گھر ساتھ تھے‘ ان کے کرب کا تو کیا ہی کہنا! کالم نگار کا اس محلے میں خاصا آنا جانا تھا اور ہے۔ احباب نے یہ سمجھ کر کہ کالم لکھتا ہے‘ کہا کہ یار اس کا کچھ کرو۔ کالم لکھا۔ جوں تک نہ رینگی۔ ایک اور لکھا۔ کچھ نہ ہوا۔ کالم کی نقل چیئرمین سی ڈی اے کو‘ ایڈریس میں ان کا نام لکھ کر‘ بھیجی۔ پتا تک نہ ہلا۔ مکھی تک نہ بھنبھنائی۔ پھر چیئرمین کے باس‘ وفاقی سیکرٹری داخلہ کو فون کیا۔ ان دنوں اکبر درانی صاحب اس عہدے پر فائز تھے۔ انہوں نے فون کا جواب بھی دیا اور خدا انہیں خوش رکھے چھکڑا بھی ہٹوا دیا۔ سوچیے‘ انسان اوپر سے سب ایک جیسے ہوتے ہیں مگر اندر کے جہان یکسر مختلف ہوتے ہیں! اتنے مختلف جیسے بُعد المشرقین ہو! ماتحت فون کا‘ خط کا جواب ہی نہیں دیتا۔ اس کا افسر جواب بھی دیتا ہے اور کام بھی کر دیتا ہے۔ چھکڑا ہٹا مگر مصیبت نہ ختم ہوئی۔ پہلے صرف چھکڑا تھا جو غلاظت کا گڑھ تھا۔ چھکڑا ہٹا تو ساری جگہ ہی ڈمپنگ گراؤنڈ بن گئی۔ سی ڈی اے کا جیسے وجود ہی نہیں۔ اگر سی ڈی اے کا وجود ہوتا تو اس جگہ پر چند ہزار روپے کی اینٹیں لگا کر‘ سبزہ لگا دیا جاتا اور بچوں کے لیے ایک جھولا! یہ تھا وہ کام جس کے لیے ممبر ماحولیات سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی جو ناکام رہی!!
اصل سوال یہ ہے کہ کیا سی ڈی اے کا سربراہ دفتر کی قلعہ بندی سے باہر نکل کر کبھی شہر کی حالتِ زار دیکھتا ہے؟ ہفتے میں یا مہینے میں کتنی بار؟ بلیو ایریا میں‘ جہاں نادرا کا دفتر ہے اور پبلک آتی ہے‘ ٹریفک کی بدنظمی شہریوں کے لیے جہنم بنی ہوئی ہے۔ ایک اوسط سے کم درجے کے دماغ کو بھی اس کا حل معلوم ہے! ون وے!! اس کی پشت پر فضل الحق روڈ ہے۔ اسے جانے کے لیے مخصوص کر لو اور نادرا کے سامنے والی سڑک کو آنے کے لیے۔ مگر ایسی تبدیلیاں تب وجود میں آتی ہیں جب شہر کا والی ان سڑکوں سے گزرے اور عام شہری کی طرح گزرے!
وہ جو اقبال نے کہا تھا:
وہی دیرینہ بیماری‘ وہی نا محکمی دل کی
علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی
تو مسئلے کا حل وہی ہے جو سب کو معلوم ہے اور سب دَڑ وَٹ کے بیٹھے ہیں! لارڈ کرزن کے زمانے کے سسٹم کا خاتمہ! پچیس کروڑ انسانوں کے دارالحکومت کو نوکر شاہی کے پنجے سے رہا کر کے منتخب میئر کے حوالے کرنا!! سرکاری افسر کی ترجیحات کیا ہوتی ہیں؟ صرف دو۔ اگلی پوسٹنگ اور اگلے گریڈ میں ترقی! اس کا عوام سے کوئی تعلق نہیں! ایک ذرّے کے برابر بھی نہیں! اس نے ووٹ لینے ہیں نہ اس کے سامنے کوئی حزبِ اختلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کسی سے ملتا ہے نہ کسی کا فون سنتا ہے‘ نہ چل پھر کر شہر کا جائزہ لیتا ہے۔ یہ بات کئی بار کہی ہے۔ اور مجھ جیسے شہری‘ جن کا اپنا مفاد صفر ہے‘ یہ بات کہتے رہیں گے۔ ہزار مرتبہ کہیں گے کہ دارالحکومت کی ترقی اور ایڈمنسٹریشن کا موجودہ نظام ایک فرسودہ نظام ہے! تھرڈ کلاس نظام! اس نظام کا خاتمہ ضروری ہے! انتخابات کرائے جائیں۔ منتخب میئر ہو۔ کونسل ہو۔ کونسل کے ممبر ہوں! حزبِ اختلاف ہو! جواب دہی کا احساس ہو۔ جواب دہی عوام کو ہو۔ سیکرٹری اور وزیر کو نہ ہو۔ تکیہ عوام پر ہو! حکمرانوں پر نہ ہو!
سوچیے دنیا کہاں جا پہنچی ہے۔ لندن کا میئر کون ہے؟ نیو یارک کا میئر کون ہے؟ اور یہاں انگریزوں کا لایا ہوا صدیوں پرانا ڈپٹی کمشنر اور کمشنر سسٹم چل رہا ہے۔ عوام کو مٹی کے گھگھو گھوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ شہر گندگی کے ڈھیروں سے اَٹا پڑا ہے۔ فٹ پاتھ اول تو ہیں ہی نہیں‘ جو ہیں وہ ٹوٹے ہوئے ہیں۔ بازاروں میں تجاوزات اتنی زیادہ ہیں کہ فٹ پاتھ اور برآمدے ہی نہیں‘ آدھی آدھی سڑکیں تک دکانداروں کے قبضے میں ہیں! یہ آذربائیجان کی حکومت ہے جو مبینہ طور پر میلوڈی مارکیٹ کی بدصورتی دور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ آئیے آواز لگائیں! ہیں کچھ اور ممالک جو اسلام آباد کے باقی حصوں کی شکل بھی سنوار دیں؟ جو دے اس کا بھلا! جو نہ دے اس کا بھی بھلا!

مقبول کالم

کراچی کے گڈریے

خضاب کے رنگ دھنک پر

فرانس سے ایک خط