اشاعتیں

نومبر, 2025 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

ہم اور اسلام کا اصل چہرہ

''ہم پوری دنیا کو اسلام کا اصل چہرہ دکھانا چاہتے ہیں۔ ہمیں قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگیوں کو اس طرح ڈھالنا ہے کہ ہم دنیا کو اسلام کا صحیح چہرہ دکھانے کیلئے خود کو اس قابل بنا سکیں کہ ہم زبان سے دعوت دینے کے بجائے انہیں اپنے کردار سے دعوت دے سکیں‘‘۔ یہ قابلِ تحسین بیان ہمارے مذہبی امور کے وفاقی وزیر صاحب کا ہے۔ ماشاء اللہ! بہت خوش آئند عزم ہے۔ ہر اچھے مسلمان کی یہی خواہش ہے۔ ہم بھر پور تائید کرتے ہیں۔ تائید سے ایک قدم آگے بڑھ کر ہم اس نیک کام میں ان کی معاونت کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری تجویز ہے کہ جب دنیا کو اسلام کا اصل چہرہ دکھائیں تو رائیونڈ کے محلات ضرور دکھائیے گا اور مختلف شہروں میں بنے ہوئے زرداری ہاؤس بھی! ایک جھلک لندن کے فلیٹوں کی بھی! اور ابھی آپ نے بڑی شخصیات کو جو عدالتی استثنا دیا ہے‘ اس سے بھی ضرور دنیا کو آگاہ کیجیے گا۔ اور اگر دنیا کہے کہ خلفائے راشدین حکمران ہوتے ہوئے بھی عدالتوں میں پیش ہوتے رہے‘ تو بحث میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں! دنیا کو کیا معلوم کہ آج کیا درست ہے اور کیا نادرست! ان بابوں کو بھی ضرور دکھائیے گا جو ملک ک...

افغانستان کے بگاڑ میں ہمارا حصہ

کہسار مارکیٹ وفاقی دارالحکومت کا ایک معروف لینڈ مارک ہے۔ (یہیں پر ایک قتل بھی ہوا تھا)۔ تین چار ہفتے پہلے کسی کام سے وہاں جانا ہوا۔ پارکنگ میں ایک مشکوک سا شخص گھوم پھر رہا تھا۔ بلاشک و شبہ وہ افغان تھا۔ پارکنگ کے گارڈ سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ وہ مسکرایا مگر خاموش رہا۔ میں نے افغان سے پوچھا کہ افغان ہو؟ کہنے لگا: نہیں! پنجابی ہوں۔ میں نے کہا کہ شناختی کارڈ تو دکھاؤ۔ اس نے فوراً جیب سے شناختی کارڈ نکالا اور میری آنکھوں کے سامنے کر دیا۔ شناختی کارڈ کے اعتبار سے وہ خوشاب ضلع کے ایک گاؤں سے تھا۔ اب میں نے اس سے خوشاب کی ٹھیٹھ پنجابی میں بات کی مگر وہ مسلسل افغان زدہ اردو میں بات کرتا رہا اور بالکل نہ مانا کہ وہ افغان ہے۔ میں نے اسے اس کے حال پر چھوڑا‘ اپنا کام نبیڑا اور گھر واپس آگیا۔ دوسرے دن ایک اور واقعہ پیش آیا جو اس سے بھی زیادہ حیران کن تھا! میں اپنی ایک قریبی عزیزہ کے گھر گیا ہوا تھا۔ اس وقت اس کے ہاں اس کی ملازمہ بھی تھی۔ عزیزہ نے بتایا کہ اس پنجابی عورت کا داماد افغان ہے۔ یہ رو دھو رہی ہے کہ وہ رُوپوش ہے‘ سامنے آیا تو افغانستان بھیج دیا جائے گا۔ رو دھو اس لیے رہی ت...

ہم پاکستانی ایک ناشکرگزار قوم ہیں

اس زمین کے اوپر اور اس آسمان کے نیچے پاکستانی قوم سے زیادہ ناشکر گزار قوم کوئی نہیں! مارشل لاء کے نام پر جمہوریت کا پہلا پودا لگایا تو اسکندر مرزا نے تھا مگر اسے تناور درخت ایوب خان نے بنایا۔ اس قوم کو آج تک یہی بات سمجھ میں نہ آئی کہ اصل جمہوریت ایوب خانی عہد ہی میں تھی۔ سیاستدانوں کی کردار کشی اور تذلیل کر کے اس نے قوم پر احسان کیا اور قوم ہے کہ اسے آمر کے طور پر یاد کرتی ہے۔ جنرل ضیاالحق ہی کو لے لیجیے۔ اتنا عظیم الشان شخص تھا کہ اس نے ہماری تاریخ بدل ڈالی۔ افغانوں کو پاکستان میں لاکر ہماری آبادی بڑھائی۔دنیا میں اسلحہ اور منشیات کے حوالے سے ہمارا نام مشہور ہوا۔ ملک کو نئی شناخت ملی۔ آپ خود انصاف کیجیے کیا دہشت گردی کے ذکر سے دنیا والوں کے ذہن میں کسی اور ملک کا نام آتا ہے؟ ہماری اہمیت بڑھی! یہ جو آج ملک کے اطراف واکناف میں افغان بھائی پھیلے ہوئے ہیں اور حکومت کی کوششوں کے باوجود ہمیں چھوڑ کر جانا نہیں چاہتے اور ہمارے ہجر کا سوچ کر تڑپنے لگتے ہیں‘ یہ سب جنرل ضیاالحق ہی کی وجہ سے ہے۔ مگر ہم اتنے ناسپاس ہیں کہ کبھی اسے 'ضیاع الحق‘ کہتے ہیں اور کبھی ڈکٹیٹر! ہم ایس...

پاکستانی سیاست اور مڈل کلاس

سیاست میں داخل ہونے والی مڈل کلاس کا بھانڈا سب سے پہلے ایم کیو ایم نے پھوڑا! ہم جیسے مڈل کلاسیوں نے جب ہوش سنبھالا تو تجربہ بھی محدود تھا اور خیالات بھی ناپختہ۔ ہم جیسے لاکھوں طالب علموں نے نوٹ کیا کہ سیاست پر وہ لوگ حاوی ہیں جو امرا کے طبقے سے ہیں۔ ان امیر سیاستدانوں کی اکثریت عوام کے ساتھ مخلص نہیں! کبھی پارٹیاں بدلتے ہیں اور کبھی پارٹیاں بناتے ہیں۔ ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ مسائل کا حل ایک ہی ہے۔ وہ یہ کہ مڈل کلاس سیاست میں آئے۔ اس رائے یا اس آرزو کی تہہ میں یہ مفروضہ کارفرما تھا کہ مڈل کلاس سیاست میں آئے گی تو سیاست شخصیات کے بجائے نظریات کو اہمیت دے گی۔ شخصی اور ذاتی وفاداری سے سیاست پاک رہے گی اور مڈل کلاس مڈل کلاس رہ کر ہی عوام کی خدمت کرے گی! مگر یہ سب سراب تھا۔ خام خیالی تھی! خوش فہمی تھی! غلط فہمی تھی! مڈل کلاس کا پرچم سیاست میں سب سے پہلے ایم کیو ایم نے لہرایا۔ یاد رہے کہ ایم کیو ایم ردعمل میں بنی تھی۔ جب الطاف حسین اور اس کے ساتھیوں نے کراچی یونیورسٹی میں All Pakistan Muhajir Students Organization (APMSO) کا ڈول ڈالا تو اس وقت یونیورسٹی میں طلبہ کی کم وبیش پندرہ طلبہ تنظی...

ساتویں صدی عیسوی کی ایک خاتون سے ملاقات

میں جس شہر میں رہتا ہوں اس کے قبرستان میں تین قبریں ہیں جن کے لیے میں قبرستان جاتا ہوں۔ پہلی والد گرامی مرحوم کی۔ دوسرے میرے بیٹے محمد مظہر الحق کی‘ جو تین ماہ کی عمر میں چل بسا تھا اور جس کی یاد میں مَیں نے ایک دردناک نظم کہی تھی۔ تیسری میری بڑی بہن کی خوشدامن صاحبہ کی‘ جو رشتے میں ہماری نانی بھی ہوتی تھیں۔ میرے لڑکپن میں ان کی صحت اچھی تھی‘ حقہ پیا کرتی تھیں۔ ہمارے علاقے میں حقے کو چلم کہتے ہیں۔ خیبر پختونخوا کی طرح‘ چلم بالکل الف کی طرح سیدھی ہوتی ہے۔ اس کے نچلے حصے میں پانی ہوتا ہے۔ میں نے ان کی چلم میں مٹی کا تیل ڈال دیا تھا۔ انہوں نے تمباکو پر جلتی ہوئی دیا سلائی رکھی تو چلم میں آگ بھڑک اٹھی۔ گاؤں کے قبرستان کے برعکس یہ ایک منظم قبرستان ہے‘ پلاٹوں کے نمبر ہیں‘ پھر ہر پلاٹ میں قبروں کے نمبر الگ ہیں‘ پلاٹ نمبر اور قبر نمبر کی مدد سے کسی بھی قبر کو تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اس قبرستان میں میرے ساتھ عجیب و غریب واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ ان واقعات کے حوالے سے وقتاً فوقتاً کالم بھی لکھتا رہا۔ یہیں ایک مردے سے ملاقات ہوئی تھی‘ جو شاہجہان کے زما...

وہم اور وسوسے برائے فروخت

خاتون نے شادی کی! کچھ عرصہ بعد میاں بیمار پڑ گئے۔ ہسپتال والوں نے خاتون سے میاں کی میڈیکل ہسٹری پوچھی۔ خاتون کو کچھ علم نہ تھا۔ خاتون کے اپنے الفاظ میں: ''وہ ہسپتال والے مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ ان کے دل میں پیس میکر پڑا ہوا ہے یا سٹنٹ؟ مجھے پتا ہی کچھ نہیں کہ ان کے دل میں پہلے کیا پڑا ہوا ہے یا کتنی سرجریز ہو چکی ہیں؟ کیو نکہ یہ ان کے دل کا تیسرا شدید دورہ تھا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ تو مجھے پتا ہی نہیں تھا کہ پہلے دو شدید دورے پڑ چکے ہیں‘‘۔ لطیفہ کہیے یا مذاق کہ یہ خاتون‘ جنہیں اپنے رفیقِ زندگی کے دل کے متعلق‘ جن کے ساتھ زندگی گزار رہی تھیں‘ کچھ معلوم نہ تھا‘ ساری دنیا کو مستقبل کے حالات بتاتی پھرتی ہیں! اپنے مستقبل کے بارے میں تجسس خلقِ خدا کی بہت بڑی کمزوری ہے! اس کمزوری سے صرف وہی لوگ بچے ہوئے ہیں جنہیں خدا پر پختہ ایمان ہے یا اپنے آپ پر یقین ہے! اس کمزوری سے نجومی‘ پامسٹ اور علم الاعداد کا دعویٰ کرنے والے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ضعیف الاعتقاد لوگ ان کے پاس جاتے ہیں۔ کوئی پوچھتا ہے کارو بار میں کامیابی کب ملے گی! کوئی پوچھتا ہے شادی کب ہ...

نوے سالہ لیجنڈ … (2)

مسافروں سے بھری بس کسی سٹاپ پر یا ریلوے پھاٹک پر یا پُل پر رکتی تھی تو اس میں کوئی نہ کوئی پھیری والا آ جاتا تھا۔ کوئی دانتوں کی دوا بیچنے والا یا سرمہ فروخت کرنے والا! یہ ہمارے قصباتی کلچر کا حصہ تھا۔ وہ اپنی شے بیچنے کیلئے فصیح و بلیغ تقریر کرتا تھا۔ مسافر سنتے تھے۔ کچھ سادہ لوح اس کی شے خرید لیتے تھے۔ باقی اس کی تقریر سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ انور مسعود صاحب نے اپنی مشہور نظم ''جہلم دا پُل‘‘ میں اس مٹتے ہوئے کلچر کو محفوظ کر لیا ہے۔ ان کا مشاہدہ غضب کا ہے۔ اس میں ایک جنتری بیچنے والا بھی ہے۔ آج کی نسل کو نہیں معلوم جنتری کس چڑیا کا نام تھا۔ نئے سال کی جنتری تقریباً ہر گھر میں ہوتی تھی۔ میرے دادا جان بھی باقاعدگی سے منگواتے تھے اور میں اسے دلچسپی سے پڑھا اور دیکھا کرتا تھا۔ جنتری میں کیا کیا معلومات ہوتی تھیں؟ انور صاحب کی زبانی سنیے: ایہدے وچ لکھیا اے جس ویلے لگنا اے چن نو گرہن کدوں کس ویلے لگنا اے روزیاں دے وچ گھگھو کہیڑے ویلے بولنا اے کنے وَجے رکھنا اے تے کہیڑے ویلے کھولنا اے ڈیوڑھا کنا لگدا‘ سوایا کنا لگدا اے لاہور تو کراچی دا کرایہ کنا لگدا اے تے مومنو ق...

نوے سالہ لیجنڈ

برج نرائن چکبست کا مشہور شعر ہے: اس کو ناقدریٔ عالم کا صلہ کہتے ہیں؍ مر گئے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا مگر انور مسعود کے بچوں نے ایسا نہیں ہونے دیا! انور مسعود صاحب نوّے برس کے ہوئے تو ان کے بچوں اور بچوں کے بچوں نے ایک یادگار تقریب منعقد کی۔ اس میں اسلام آباد کی ادبی اور سماجی شخصیات تو مدعو تھیں ہی‘ لاہور سے سہیل احمد (عزیزی) بطورِ خاص تشریف لائے۔ انور صاحب کے فرزند‘ کالم نگار اور میڈیا پرسن‘ عمار مسعود نے شگفتہ انداز میں نظامت کی۔ شنیلہ عمار مسعود نے اپنے بابا کے فن پر ڈاکیومنٹری پیش کی۔ دوسری بہو‘ روشین عاقب‘ جو امجد اسلام امجد کی صاحبزادی ہیں‘ اس تقریب کے انتظام وانصرام میں پیش پیش تھیں! انور صاحب کی زبان ذکرِ الٰہی سے تر رہتی ہے۔ ان پر خدا کا خصوصی کرم ہے۔ دنیا بھر میں مقبولیت تو ہے ہی‘ ان کے بچے‘ بہوئیں اور داماد ان پر جان چھڑکتے ہیں! میرا اعزاز کہ اس تاریخی فنکشن میں مَیں بھی شریک تھا اور جن چند افراد نے انور مسعود کے حوالے سے گفتگو کی ان میں بھی شامل تھا!! والد گرامی مرحوم‘ حافظ محمد ظہور الحق ظہور فارسی کے شاعر استاد اور س...