ملالہ پر حملہ ۔ صرف مذمت یا اسباب کا تعیّن بھی ؟؟
ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملہ ہوا میں نہیں ہوا۔ اس ملک کی زمین پر ہوا ہے۔ حملہ کرنے والے اچانک غیب سے نمودار نہیں ہوئے، ان کی موجودگی اور ان کے خیالات سے ہر شخص آگاہ ہے۔ یہ واقعہ افسوسناک تو ہے ہی، اس کے بعد جو کچھ ہورہا ہے عبرت ناک بھی ہے۔ مذمت کا ایک سیلاب ہے جو ہر طرف بہہ نکلا ہے لیکن اس واقعہ کے اسباب کی طرف کوئی ہلکا سا اشارہ بھی نہیں کررہا۔ اکثر مذمتی بیانات‘ سیاسی اور نمائشی ہیں۔
(Residential)
ہے یعنی یہاں وہ رات دن رہے گا۔ یہ مدرسہ ایک خاص مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہے اور اس سے ملحقہ مسجد بھی، قدرتی طور پر، اسی مکتب فکر کی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ بچے اگلے آٹھ نو سال تک اس مکتب فکر کے نمائندوں کے علاوہ اور کسی سے درس لے گا نہ اس کا ملنا جلنا دوسرے لوگوں سے ہوگا۔ آٹھ نو سال کا عرصہ کم عرصہ نہیں۔ یہ تقریباً ایک سو مہینے کا عرصہ ہے اور اس کے تین ہزار دن بنتے ہیں اس کا کھانا پینا سونا جاگنا سب اور تفریح جو کچھ بھی ہے‘ اسی مکتب فکر ہی کے حوالے سے ہے۔
ء
میں جنوبی ہند کی ”اسلامی تعلیمی انجمن“ کی فرمائش پر مدراس میں آٹھ خطبے دیئے۔ یہ خطبے خطبات مدراس کے نام سے چھپے (ایک اینکر پرسن اسے بہ تکرار خطبات مدارس کہہ رہے تھے!) دیباچے میں سید سلمان ندوی لکھتے ہیں.... ”علماءپر آج انگریزی کا جاننا بھی فرض ہوگیا ہے۔ خدا کرے وہ دن آئے جب ہمارے علما خدا کا پیغام خدا کی بنائی ہوئی ہر زبان میں دنیا کو پہنچا سکیں۔“