اشاعتیں

دسمبر, 2025 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

ثمرین حسین اور تابندہ بتول

زمین ظلم سے بھر گئی ہے۔ آسمان سے پتھر کیوں نہیں برس رہے؟ قانون کے یہ کیسے رکھوالے ہیں جو خود قانون کی دھجیاں اڑا رہے ہیں! جن کے اپنے گھروں میں قانون کی حیثیت اُس چیتھڑے سے زیادہ نہیں جس سے جوتے صاف کیے جاتے ہیں‘ وہ خلق خدا کو کیا انصاف دیں گے۔ ایسے واقعات کی تعداد ہولناک رفتار سے بڑھ رہی ہے جن میں طاقتور افراد عام شہریوں کو ہلاک کر رہے ہیں اور قانون ان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ یہ ملک ایسی چراگاہ بن چکا ہے جہاں بھیڑوں کے رکھوالے بھیڑوں کو چیر پھاڑ رہے ہیں۔ ریاست ان کے سامنے بے بس ہے۔ قانون ان کے بوٹوں کا تسمہ ہے۔ پولیس چاہے بھی تو اس کے ہاتھ بندھے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہ انصاف کی مسندوں پر براجمان ہیں۔ کچھ بھی نہیں ہو گا! کچھ بھی نہیں! پیر کی رات‘ وفاقی دارالحکومت کی شاہراہ دستور پر‘ اندھا دھند رفتار سے کروڑوں کی شاہانہ گاڑی چلانے والے سولہ سالہ چھوکرے نے جن دو بہنوں کو گاڑی کے نیچے دے کر ہلاک کیا ہے‘ ان دو بہنوں کو انصاف نہیں ملے گا۔ لکھ لیجیے کہ نہیں ملے گا۔ اس لیے کہ آج تک یہاں کسی طاقتور کو سزا نہیں دی گئی۔ کیا مجرم کے والد محترم‘ جو خود بڑے عہدے ...

سی ڈی اے کا مزید شکریہ

اگر عزیزِ گرامی رؤف کلاسرا جیسے مشہور‘ کہنہ مشق صحافی اور نبیل گبول صاحب جیسے معروف سیاستدان کا فون بھی چیئرمین سی ڈی اے نہیں سنتے تو ہما و شما کس زعم میں ہیں! صرف چیئرمین ہی نہیں‘ پورا سی ڈی اے وہ معشوق ہے جو فریاد سنتا ہے نہ جواب دیتا ہے۔ بس اپنے حسن پر فریفتہ ہے اور خود ہی فریفتہ ہے۔ چند ہفتے پہلے سی ڈی اے کے ممبر Environments (ماحولیات) سے رابطہ کرنے کی اذیت سے گزرنا پڑا۔ ان کے سٹاف سے کہا کہ بات کرائیں۔ بتایا گیا کہ میٹنگ میں ہیں۔ اب یہ میٹنگ والا سدا بہار نسخہ ہر موقع پر استعمال ہوتا ہے۔ گھر میں بیٹھے ہیں تو جواب ہوتا ہے کہ میٹنگ کے لیے گئے ہیں‘ دفتر میں بیٹھے چائے پی رہے ہیں تو جواب ہوتا ہے کہ اندر میٹنگ چل رہی ہے۔ خیر! سٹاف سے کہا کہ میٹنگ سے واپس آجائیں تو بات کرا دیں۔ سٹاف نے پوچھا کہ ''آپ کیا ہیں؟‘‘۔ اس کا درست جواب تو یہ تھا کہ میں ایک شہری ہوں جس کے ادا کردہ ٹیکس سے ممبر صاحب کو تنخواہ اور مراعات مل رہی ہیں۔ مگر پاکستان میں ایسا کہنا نہ صرف یہ کہ کوئی وزن نہیں رکھتا بلکہ وزن کو گھٹا دیتا ہے‘ اور اتنا گھٹاتا ہے کہ وزن صفر سے بھ...