اشاعتیں

اکتوبر, 2025 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

اسلام آباد … بدقسمت دارالحکومت!

ہمارے دوست اور معروف کالم نگار جناب جاوید چودھری نے وفاقی دار الحکومت کی حالتِ زار پر ایک اور کالم لکھ ڈالا ہے۔ کالم پڑھنے کے بعد مسلسل یہ شعر گنگنا رہا ہوں: بہروں کی انجمن میں نہ گا درد کی غزل اندھوں کو مت دکھا یہ گریباں پھٹا ہوا اس حوالے سے انہی صفحات پر میں نے بھی بہت گریہ و ماتم کیا ہے! دہائیاں دی ہیں! مگر بیورو کریسی وہ معشوق ہے جس پر کسی آہ و زاری کا اثر نہیں ہوتا! بقول ذوق: یاں لب پہ لاکھ لاکھ سخن اضطراب میں واں ایک خامشی تری سب کے جواب میں سوال یہ ہے کہ وفاقی دارالحکومت کا حال خستہ‘ شکستہ اور قابلِ رحم کیوں ہے؟ یہ شہر شہرِ نا پرساں کیوں ہے؟ آئیے اس کی وجہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سوویت یونین کے زمانے میں ایک اصطلاح رائج تھی: Behind the iron curtain‘ یعنی آہنی پردے کے پیچھے! دوسری عالمی جنگ کے بعد سوویت یونین نے مشرقی یورپ کے ملکوں کو اپنے حصار میں لے لیا۔ ان ملکوں میں مشرقی جرمنی‘ چیکو سلواکیہ‘ یوگو سلاویہ‘ پولینڈ‘ ہنگری اور رومانیہ وغیرہ شامل تھے۔ یہ ممالک آمریت کے مضبوط پنجے میں جکڑے ہوئے تھے۔ کوئی خبر باہر سے آ سکتی ت...

گلاس آدھا بھرا ہوا بھی تو ہے!!

گاڑی دو رویہ شاہراہ پر چلے جا رہی تھی کہ سامنے ایک خوبصورت چوک آ گیا۔ ہریالی سے بھرا ہوا۔ اس پر بڑا سا بورڈ نصب تھا ''چاول اور نہروں کا شہر‘‘!! ستم ظریفی یہ تھی کہ یہ خوش کن بورڈ فرنگی زبان میں تھا! اس کالم نگار کی پھپھو تو کوئی تھی ہی نہیں! خالہ تھیں مگر میری پیدائش سے پہلے ہی چل بسیں! ننھیالی گاؤں کی ایک ہندو خاتون امی جان کی قریبی دوست تھیں اور ان کی شادی پر شہ بالی بنی تھیں۔ اگر وہ یہاں رہتیں تو میں یقینا انہیں خالہ کہتا اور سمجھتا! مگر میری پیدائش سے تقریباً ایک برس پہلے ہندوستان تقسیم ہوا اور وہ بھارت سدھار گئیں! یوں میں خالہ اور پھپھی دونوں کے پیار سے محروم رہا۔ جب دیکھتا ہوں کہ میرے بچوں کی خالائیں انہیں کتنا پیار کرتی ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ یہ رشتہ کتنا شیریں ہے! ان کی خالائیں ان کے لیے سویٹر بُنتی تھیں‘ تحائف لاتی تھیں۔ بڑی بہن جب میرے بچوں پر شفقت نچھاور کرتی ہیں تو سوچتا ہوں کہ کوئی پھپھو ہوتیں تو مجھ سے ایسا ہی پیار کرتیں! میرے اس پس منظر کے ساتھ جب بیگم نے بتایا کہ ان کے خالہ زاد بھائی کا انتقال ہو گیا ہے تو انہیں کہا کہ ہمیں تعزیت کیلئے وہاں ...

کچھوا‘ بچھو اور طالبان

افغانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لڑائی کرنے کے علاوہ انہیں اور کچھ آتا نہیں۔ غلام محمد قاصر مرحوم کا یہ شعر زبان زدِ خاص و عام ہے: کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا افغان ہمیشہ کسی نہ کسی سے برسرِ پیکار رہتے ہیں۔ کوئی اور میسر نہ ہو تو آپس میں جنگ شروع کر دیتے ہیں۔ یہ ان کی فطرت ہے۔ بچپن میں ایک فارسی حکایت پڑھی تھی۔ بچھو نے دریا پار کرنا تھا۔ تیرنا اسے آتا نہیں تھا۔ سوچنے لگا کیا کروں؟ اتنے میں دیکھا کہ کچھوا آ رہا ہے۔ پوچھا: بھائی کچھوے! دریا کے پار جا رہے ہو تو مجھے پیٹھ پر بٹھا لو۔ کچھوا کہنے لگا: تم نے مجھے ڈنک مارا تو میں مر جاؤں گا۔ بچھو نے بڑی مضبوط دلیل پیش کی۔ کہنے لگا: ڈنک مارنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اس لیے کہ تم مر گئے تو میں بھی تو ڈوب جاؤں گا۔ کچھوا مطمئن ہو گیا۔ اس نے بچھو کو پیٹھ پر بٹھایا اور دوسرے کنارے کی طرف چل پڑا۔ دریا کے عین درمیان میں بچھو نے اپنے محسن‘ کچھوے کی پیٹھ پر ڈنک مارا۔ کچھوا درد سے بلبلا اٹھا اور چلایا: ظالم یہ تُو نے کیا کیا۔ بچھو عاجزی سے کہنے لگا کہ کچھوے بھائی! میں نے اپنے آپ کو اس کام سے بہ...

ہم حدِّ فاصل ہیں!

نانیاں دادیاں گیت گاتی رہیں: وڈے دی موٹر‘ نِکّے دی کار ضرور ہووے اور جب پوتے اور نواسے موٹریں اور کاریں لائے تو وہ منوں مٹی کے نیچے جا چکی تھیں۔ کیسے مشکل وقت تھے جو ہمارے بزرگوں نے بسر کیے۔ دمکتی گاڑیوں میں بیٹھ کر سکول جانے والی‘ گھروں میں برگر ڈلیور کروانے والی نسل کو کیا معلوم کہ زندگی کیا تھی اور کیسی تھی۔ آج اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ سردیوں میں ہیٹر تھے نہ گرمیوں میں پنکھے! پنکھیاں جھلتی بانہیں پتلی تھیں مگر شیر خوار پوتوں اور نواسوں کو گھنٹوں نہیں‘ پہروں دستی پنکھی کی ہوا دیتے یہ پتلی باہیں تھکتی نہ تھیں۔ جاڑوں میں بچی کھچی آگ کے انگارے انگیٹھی میں ڈال کر اندر لے آتیں۔ بچوں کو کبھی کھیس میں لپیٹتیں کبھی لحاف میں۔ اُس وقت کوکنگ رینج کے نخرے ناپید تھے۔ مٹی کے چولہوں میں لکڑیاں جلاتیں یا اُپلے۔ آگ جلانے کیلئے منہ سے پھونکیں دیتیں! آنکھیں دھویں سے اَٹ جاتیں۔ مگر اپنے بچوں کے لیے پراٹھے‘ انڈے‘ حلوے‘ زردے‘ پلاؤ‘ مرغ‘ مرنڈے اور کیا کیا پکوان پکاتی رہتیں! کیا انتھک تھیں ہماری دادیاں نانیاں! دیواروں کے ساتھ چارپائیاں رکھ ک...

نمک حلال

افغانوں کی ایک بات مجھے بہت پسند ہے۔ وہ یہ کہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے ہیں۔ اب پاکستان ہی کو دیکھ لیجیے۔ کون سی برائی ہے جو پاکستان نے افغانوں کے ساتھ نہیں کی۔ سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان نے اپنی سرحدیں افغانوں کیلئے کھول دیں۔ انہیں پناہ دی۔ سوچئے! کتنی بڑی برائی تھی جو پاکستان نے کی۔ ایران نے افغانوں کو خاردار کیمپوں میں رکھا مگر پاکستان میں پورا ملک ان کیلئے کیمپ کی طرح تھا۔ گلگت سے لے کر کراچی تک اور لاہور سے لے کر کوئٹہ تک‘ ہر جگہ افغان ٹڈی دَل کی طرح پھیل گئے۔ پاکستان نے ایک اور برائی یہ کی کہ افغانوں کو ہر طرح کے کاروبار کی اجازت دے دی۔ ٹرانسپورٹ کا کام‘ کپڑے کی خرید و فروخت‘ رئیل اسٹیٹ‘ امپورٹ ایکسپورٹ‘ تعمیرات‘ ٹھیکے۔ کون سا کاروبار ہے جو افغانوں نے پاکستان میں رہ کر پاکستانیوں سے نہیں چھینا۔ احسان شناسی اور وفاداری ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ پنجاب کے ایک بڑے شہر کا واقعہ ہے۔ پوری مارکیٹ افغان دکانداروں کی تھی‘ صرف ایک دکاندار مقامی تھا۔ اسے انہوں نے قتل کر دیا۔ ہے نا احسان شناسی!! موجودہ افغان حکمران سالہا سال بلک...

بھیڑیے اور میمنے کے مابین معاہدہ

بالآخر بھیڑیے اور میمنے کے مابین معاہدہ طے پا گیا۔ بھیڑیا میمنے کا پورا خاندان ہڑپ کر چکا تھا۔ میمنے کے ماں باپ‘ بہن بھائی‘ اعزّہ واقربا سب ختم ہو چکے تھے۔ اب میمنا ہی باقی تھا۔ بھیڑیے نے دیکھا کہ کھانے کے لیے صرف میمنا بچا ہے تو اس نے میمنے کے سامنے معاہدہ رکھ دیا۔ بھیڑیے نے اپنی غار میں جا کر آئینہ دیکھا۔ اپنے بڑے بڑے دانتوں کا معائنہ کیا۔ ان مہیب دانتوں کے لیے میمنا اسی طرح تھا جس طرح اونٹ کے منہ میں زیرہ! میمنے کو ہڑپ کرنا گناہِ بے لذت کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ اس سے تو داڑھ بھی گیلی نہیں ہونی تھی۔ اس لیے بھیڑیے کو مناسب یہی لگا کہ میمنے سے معاہدہ کر لیا جائے۔ اس طرح کچھ وقت مل جائے گا۔ بھیڑیے اور میمنے کے درمیان یہ معاہدہ شیر نے کرایا ہے۔ شیر اور بھیڑیا ایک ہی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ گوشت خور برادری! گوشت خور برادری ایک متحد اور منظم برادری ہے۔ بظاہر اونچ نیچ ہو جائے تو بھی گوشت خور اندر سے ایک ہی ہوتے ہیں۔ ہرن ہو یا بکری یا بھیڑ‘ نیل گائے ہو یا زرافے کا بچہ‘ سب گوشت خور برادری کی خوراک ہیں۔ گوشت خور مخلوق سیاست اور چالاکی میں اپنی مثال نہیں رکھتی۔ زرافے کے ب...

ہمارا اوچھا پن …(2)

جب تک مغلوں کے ہاتھ میں تلوار رہی اور جب تک وہ گھوڑے کی پیٹھ پر رہے‘ ان کی خوراک سادہ رہی اور سادہ نہیں بھی تھی تو مختصر ضرور تھی۔ جدوجہد کی زندگی میں تکلفات‘ لوازمات اور نزاکتوں کی گنجائش نہیں ہوتی۔ عباس تابش نے کمال کا شعر کہا ہے: حالتِ جنگ میں آدابِ خور و نوش کہاں اب تو لقمہ بھی اٹھاتا ہوں میں تلوار کے ساتھ بابر‘ اکبر اور ہمایوں کی زندگی سلطنت کو استحکام دیتے گزر گئی۔ جہانگیر نور جہاں کے چنگل میں ایسا پھنسا کہ خود ہی کہہ دیا کہ شراب اور تھوڑے سے گوشت کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے۔ شاہ جہان کو بیماریوں نے گھیرے رکھا۔ آخری آٹھ برس نظربندی میں گزار دیے۔ روایت ہے کہ قید کے ایام میں زیادہ تر مسور کی دال کھاتا تھا کہ اس میں‘ بقول کسے‘ زہر نہیں حل ہوتا۔ دلچسپ حقیقت یہ بھی ذہن میں رہے کہ نیکوکار اور پارسا اورنگزیب باپ کے آخری آٹھ برسوں میں اسے ایک بار بھی نہ ملا۔ رہا خود اورنگزیب تو آخری پچیس سال دکن کے میدانوں میں مسلسل برسر پیکار رہا۔ باجرے کا دلیا‘ سپاہیوں کے ساتھ ہی کھاتا تھا۔ (یہی آخری پچیس سال سلطنت کے زوال کا باعث بنے)۔ اورنگزیب کے بعد کا زمانہ مسل...

ہمارا اوچھا پن

تراجم تو بہت پڑھے مگر تین ایسے ہیں کہ طبع زاد سے بھی زیادہ پُرلطف! ایک حکیم حبیب اشعر دہلوی کا ترجمہ جو انہوں نے حسین ہیکل کی کتاب ''عمر فاروق‘‘ کا کیا۔ دوسرا بریگیڈیئر گلزار احمد کا جو انہوں نے ہیرلڈ لیمب کی شہرہ آفاق تصنیف Tamerlane ''امیر تیمور‘‘ کا کیا۔ اور تیسرا محمد عمر میمن کا‘ جو انہوں نے بپسی سدھوا کے مشہور ناول The Crow Eaters کا کیا اور اس کا نام ''جنگل والا صاحب‘‘ رکھا۔ یہ ذکر تو برسبیل تذکرہ ہو گیا۔ اصل بات جو کہنی ہے‘ اور ہے۔ شاید میرے مستقل قارئین نے پہلے بھی مجھ سے سنی ہو۔ ہیرلڈ لیمب لکھتا ہے کہ فلاں موقع پر تیمور اور اس کے ساتھیوں نے موٹی موٹی روٹیاں گوسفند کے شوربے کے ساتھ کھائیں! گوشت کا شوربہ اور گندم یا جو کی موٹی روٹیاں! کیا یہ بہترین کھانا نہیں؟ اور کیا یہ کافی نہیں؟ گُلبدن بیگم ''ہمایوں نامہ‘‘ میں لکھتی ہیں کہ ہمایوں نے کسی موقع پر پھپھیوں کی دعوت کی تو پچپن بھیڑیں ذبح کیں! اس کے علاوہ کچھ پکا ہوتا تو ہمایوں کی بہن اس کا ذکر بھی ضرور کرتی۔ قیاس یہی کہتا ہے کہ ساتھ صرف روٹ...

تضادات‘ تضادات اور تضادات

یہ ایک وڈیو تھی جو میں نے دیکھی اور روح رقص کرنے لگی! یہ پاکستان ایئر فورس کے نوجوان تھے۔ افسر تھے یا سپاہی! فتح کی خوشی میں لُڈّی ڈال رہے تھے۔ وہ ایک دائرے میں گھوم رہے تھے۔ وہ سب بیک وقت‘ پہلے ایک پاؤں پیچھے رکھ کر ہٹتے‘ پھر دونوں بازو ہوا میں لہراتے‘ پھر دونوں ایڑیوں کو گھما کر ایک قدم آگے بڑھتے۔ ان کی یہ جنبش اُس لَے کے ساتھ ہم آہنگ ہوتی جو موسیقی کی دُھن بکھیر رہی تھی! دائرہ آہستہ آہستہ آگے بڑھتا۔ ان کے ساتھی ان کی تصویریں لے رہے تھے اور وڈیوز بنا رہے تھے۔ جو کارنامہ انہوں نے اور ان کی پوری فورس نے انجام دیا تھا‘ اس کے بعد یہ رقص‘ یہ لُڈی‘ یہ خوشی‘ یہ جشن ان کا حق تھا۔ یہ وہ جوان تھے جنہوں نے پوری قوم کا جگر ٹھنڈا کیا تھا۔ پاکستانیوں کے دلوں کی دھڑکنیں انہی کے نام منسوب تھیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ موت کے سفر پر روانہ ہونے والے یہ شاہین‘ جانے سے پہلے‘ خدا کے حضور جھکتے نہ ہوں! اور کامیاب وکامران واپس آکر سجدہ ہائے شکر نہ بجا لاتے ہوں۔ انہوں نے سالہا سال اپنے اپنے مشن کی مشق کی تھی۔ ہم سب جب اپنے اپنے نرم اور گرم بستروں میں سو...