کالم

اسلام آباد … بدقسمت دارالحکومت!

ہمارے دوست اور معروف کالم نگار جناب جاوید چودھری نے وفاقی دار الحکومت کی حالتِ زار پر ایک اور کالم لکھ ڈالا ہے۔ کالم پڑھنے کے بعد مسلسل یہ شعر گنگنا رہا ہوں:
بہروں کی انجمن میں نہ گا درد کی غزل
اندھوں کو مت دکھا یہ گریباں پھٹا ہوا
اس حوالے سے انہی صفحات پر میں نے بھی بہت گریہ و ماتم کیا ہے! دہائیاں دی ہیں! مگر بیورو کریسی وہ معشوق ہے جس پر کسی آہ و زاری کا اثر نہیں ہوتا! بقول ذوق:
یاں لب پہ لاکھ لاکھ سخن اضطراب میں
واں ایک خامشی تری سب کے جواب میں
سوال یہ ہے کہ وفاقی دارالحکومت کا حال خستہ‘ شکستہ اور قابلِ رحم کیوں ہے؟ یہ شہر شہرِ نا پرساں کیوں ہے؟ آئیے اس کی وجہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سوویت یونین کے زمانے میں ایک اصطلاح رائج تھی: Behind the iron curtain‘ یعنی آہنی پردے کے پیچھے! دوسری عالمی جنگ کے بعد سوویت یونین نے مشرقی یورپ کے ملکوں کو اپنے حصار میں لے لیا۔ ان ملکوں میں مشرقی جرمنی‘ چیکو سلواکیہ‘ یوگو سلاویہ‘ پولینڈ‘ ہنگری اور رومانیہ وغیرہ شامل تھے۔ یہ ممالک آمریت کے مضبوط پنجے میں جکڑے ہوئے تھے۔ کوئی خبر باہر سے آ سکتی تھی نہ اندر سے باہر جا سکتی تھی۔ چنانچہ چرچل نے ایک تقریر میں ''آہنی پردے کے پیچھے‘‘ کی اصطلاح استعمال کی اور یہ دنیا بھر میں چل پڑی! اب سوویت یونین اور مشرقی یورپ سے ہندوستان میں آئیے! برطانوی استعمار نے ملکہ کی حکومت کیلئے ایک نیا‘ اچھوتا نظام وضع کیا۔ یہ نظام ڈپٹی کمشنر اور کمشنر کے گرد گھومتا تھا۔ یہ دونوں افسر ملکہ کی حکومت کے نمائندے تھے۔ ان کا عوام سے‘ جمہوریت سے‘ کسی قسم کے چناؤ سے دور کا بھی تعلق نہ تھا۔ یہ صرف اور صرف حکامِ بالا کو‘ جو انگریز تھے‘ جوابدہ تھے۔ ان کا ایک ہی کام تھا کہ ملکہ کی حکومت کمزور نہ ہونے پائے۔ اس کے خلاف کوئی سازش‘ کوئی احتجاج‘ کوئی منصوبہ بندی‘ کوئی بغاوت نہ ہونے پائے۔ امن و امان میں کوئی رخنہ نہ پیدا ہو! ڈپٹی کمشنر اور کمشنر کے اختیارات لا محدود تھے۔ پولیس ان کی مٹھی میں تھی۔ اگر کوئی کام عوامی فلاح میں ہو جاتا تھا تو وہ اتفاق سے یعنی By default ہو جاتا تھا۔ ارادے سے‘ یعنی By design نہیں ہوتا تھا۔ اس کی ایک مثال ریلوے کا قیام تھا۔ اس کا مقصد تھا ہندوستان کے گوشے گوشے سے خام مال جمع کر کے برطانیہ بھیجنا‘ اور پھر برطانوی مصنوعات کو پورے ملک میں فروخت کرنا۔ اس سے عوام کو بھی فائدہ ہوا۔ تھرڈ کلاس کے ڈبے ہندوستانیوں کے کام آجاتے تھے۔ شاہراہوں اور پلوں کی تعمیر کا بھی یہی مقصد تھا۔ اس کا دفاعی پہلو بھی تھا۔ عوام اگر ان شاہراہوں اور پلوں سے فائدہ اٹھا رہے تھے تو یہ ایک ضمنی فائدہ تھا۔ اصل مقصد عوامی بہبود نہ تھی۔
اب ان دونوں نظاموں کو جمع کیجیے۔ پہلا نظام ہے آہنی پردے کے پیچھے۔ دوسرا نظام ہے کمشنر‘ ڈپٹی کمشنر کے مناصب۔ کیلکولیٹر ہاتھ میں لیجیے۔ جب دونوں کو جمع کریں گے تو جواب آئے گا اسلام آباد! اسلام آباد پر چیف کمشنر کی حکومت ہے جو ترقیاتی ادارے کا بھی چیئرمین ہے۔ اس کا عوام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ منتخب نہیں۔ اس کے سامنے کوئی حزبِ اختلاف نہیں۔ اس نے دارالحکومت کا بجٹ کسی منتخب کونسل کے آگے رکھنا ہے نہ کسی سے پاس کرانا ہے۔ کوئی شخص چیف کمشنر سے‘ یعنی سی ڈی اے کے چیئرمین سے کوئی سوال کر سکتا ہے‘ نہ وہ عوام کو جواب دہ ہے۔ اس سے کوئی نہیں پوچھ سکتا کہ شہر میں بھکاریوں کے غول کیوں دندنا رہے ہیں؟ فٹ پاتھ کیوں ٹوٹے ہوئے ہیں؟ لوگوں نے فٹ پاتھوں پر پکی تعمیرات کیوں کر لی ہیں؟ ہر طرف گندگی کے ڈھیر کیوں پڑے ہیں؟ تمہاری کارکردگی مایوس کن کیوں ہے؟ رہا دوسرا عنصر‘ آہنی پردے کے پیچھے والا‘ تو اس کی تشریح یہ ہے کہ ترقیاتی ادارے سے‘ اس کے سربراہ سے‘ اس کی نوکر شاہی سے رابطہ ناممکن ہے۔ یہ نوکر شاہی‘ بشمول چیف کمشنر اور چیئرمین‘ آہنی پردے کے پیچھے بیٹھی ہوئی ہے۔ آپ زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتے ہیں کہ اس آہنی پردے سے اپنے سر کو ٹکرا کر زخمی کر لیں! آہنی پردے کے پیچھے سے کوئی جواب نہیں آئے گا!
صرف ایک مثال لے لیجیے۔ سی ڈی اے کے اندر ایک اور سلطنت ہے جسے کہتے ہیں ماحولیات کا محکمہ! بورڈ کا فل ٹائم ممبر Environment تعینات ہے۔ اس کے نیچے بے شمار افسر اور اہلکار ہیں۔ کروڑوں کا بجٹ ہے‘ گاڑیاں ہیں‘ سٹاف ہے‘ مراعات ہیں‘ تنخوا ہیں ہیں‘ افسری ہے۔ شان و شوکت ہے! تزک و احتشام ہے! گھومتی کرسیاں ہیں! نائب قاصدوں کی فوج ہے۔ جگہ جگہ پی اے بیٹھے ہیں جو ٹیلیفونوں پر داروغے بن کر براجمان ہیں۔ اس ساری سلطنت کی ڈیوٹی ہے ماحول کو صاف رکھنا۔ مگر آپ اسلام آباد میں گھوم جائیے! گندگی کے اتنے ڈھیر ہیں کہ کسی دور افتادہ قصبے میں بھی نہ ہوں گے! آپ شکایت نہیں کر سکتے۔ اس لیے کہ ممبر سے لے کر نیچے تک سب آہنی پردے کے پیچھے فروکش ہیں! ناقابلِ رسائی! ملاقات ممکن ہے نہ فون پر بات کرنا!
جمہوریت کی روح کیا ہے؟ حزبِ اختلاف! برطانوی عہدِ غلامی میں کسی حزبِ اختلاف کا وجود نہ تھا۔ کوئی ضلعی حکومت تھی نہ لوکل گورنمنٹ تھی۔ بس ڈپٹی کمشنر تھا اور اس کے اوپر کمشنر۔ ڈپٹی کمشنر اور کمشنر کی آنکھوں کی ساخت میں ایک نقص تھا! بہت بڑا نقص! ان کی آنکھیں صرف اوپر دیکھ سکتی تھیں! نیچے کی طرف دیکھنے سے قاصر تھیں! اوپر وائسرائے تھا۔ نیچے عوام! آج بھی وہی نظام ہے! کمشنر‘ چیف کمشنر‘ ڈپٹی کمشنر! یہ اوپر دیکھتے ہیں! وزیروں کی طرف! نیچے نہیں دیکھتے! انہیں کوئی فکر نہیں کہ انتخابات ہوں گے اور انتخابات میں انہیں عوام کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان کی کوئی اپوزیشن نہیں۔ ہمارے ایک دوست مذاق میں کہتے ہیں کہ انگریز خود تو چلا گیا مگر ڈبل روٹی اور آملیٹ چھوڑ گیا۔ آملیٹ کا تو پتا نہیں مگر ڈبل روٹی یقینا انگریز کی یاد گار ہے۔ اسی لیے اکبر الہ آبادی نے کہا تھا: کھا ڈبل روٹی‘ کلرکی کر‘ خوشی سے پھول جا۔ میں ایک بار ڈبل روٹی گاؤں لے گیا تو دادی جان نے کہا: یہ جھاگ کہاں سے اٹھا لائے ہو! لیکن اصل یادگار انگریز کی ڈبل روٹی نہیں ڈپٹی کمشنر اور کمشنر ہیں! ہم آج بھی وائسرے سسٹم میں سانس لے رہے ہیں! ہم آج بھی صاحب بہادر کی غلامی میں ہیں!
اگر آپ اسلام آباد سے دہلی گاڑی پر جائیں تو یہ فاصلہ 543میل پڑے گا! 543میل پرے‘ سرحد پار‘ بھارتی دارالحکومت میں کوئی چیف کمشنر نہیں! نہ کوئی چیئرمین ہے! وہاں چیف منسٹر ہے جسے دہلی کی اسمبلی منتخب کرتی ہے! تازہ ترین انتخابات کے نتیجے میں ریکھا گپتا دہلی کی و زیراعلیٰ منتخب ہوئی ہیں! انہوں نے تقریباً ساٹھ فیصد ووٹ لیے تھے۔ وہ پکی پکی سیاستدان ہیں۔ دہلی یونیورسٹی میں سٹوڈنس یونین کی صدر رہ چکی ہیں۔ اتیشا مارلینا دہلی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف ہیں۔ ان کا تعلق عام آدمی پارٹی سے ہے۔ یہ پہلے چیف منسٹر بھی رہ چکی ہیں!! چلیں! اسلام آباد میں چیف منسٹر نہ سہی‘ میئر ہی ہو! وہ عوام کے ووٹوں سے آئے۔ اسے معلوم ہو گا کہ عوام کیا چاہتے ہیں۔ اس کی حزبِ اختلاف اسے تیر کی طرح سیدھا کر کے رکھے گی۔ اس کا معمول چیف کمشنر یا چیئرمین کا معمول نہیں ہو گا کہ گھر سے دفتر او ر دفتر سے گھر! اسے شہر میں چلنا پھرنا پڑے گا۔ اس سے ملاقات جان جوکھوں کا کام نہیں ہو گا۔ آخر اس کا تعلق اسلام آباد کے کسی محلے سے ہو گا یا کسی گاؤں سے! اس کا نصب العین یہ نہیں ہو گا کہ اس کی ترقی ہو جائے اور وہ سیکرٹری لگ جائے! وہ کچھ کر کے دکھائے گا کیونکہ ووٹ لینے کیلئے اسے عوام کا دروازہ کھٹکھٹانا ہو گا!!

مقبول کالم

کراچی کے گڈریے

خضاب کے رنگ دھنک پر

فرانس سے ایک خط